ایک سے سات سَو کمانے کا قرآنی نسخہ
اس دنیا میں انسان کی خواہش رہتی ہے کہ اُس کےپاس مال و متاع ہو تاکہ زندگی آسانی سے گذرسکے۔ لیکن ہر انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کیا کرے کہ اُس کے پاس وافر روپیہ ہو تاکہ زندگی کی دوڑ میں وہ آگے نکل سکے اور کسی سے پیچھے نہ رہے؟اِسی طرح آخرت پر یقین رکھنے والے بھی سوچتے ہیں کہ وہ کیا کریں کہ اُن کو اس دُنیا میں بھی مال نصیب ہو اور آخرت میں بھی اِس سے فائدہ اُٹھایا جاسکے؟
خداتعالیٰ اپنے کلام پاک میں اِس کا ایک نسخہ بیان کرتے ہوئےفرماتاہے:
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ۔
(البقرہ : 262)
یعنی ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اگاتا ہو۔ ہر بالی میں سَو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے اس سے بھی بہت بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا اوردائمی علم رکھنے والا ہے۔
نبی اکرمﷺ نےاِس سوال کا جواب یوں بیان فرمایا:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتاہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا ثواب ملتاہے۔ ‘‘
(ترمذی کتاب فضائل الجہاد باب فضل النفقۃ فی سبیل اللّٰہ )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اِس موضوع کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :
’’خداکی راہ میں جولوگ مال خرچ کرتے ہیں ان کے مالوں میں خدا اس طرح برکت دیتاہے کہ جیسے ایک دانہ جب بویا جاتاہے توگو وہ ایک ہی ہوتاہے مگر خدااُس میں سے سات خوشے نکال سکتاہے اور ہر ایک خوشہ میں سو100دانے پیدا کرسکتاہے۔ یعنی اصل چیزسے زیاد ہ کردینایہ خدا کی قدرت میں داخل ہے اور درحقیقت ہم تمام لوگ خدا کی اسی قدرت سے ہی زندہ ہیں اور اگر خدا اپنی طرف سے کسی چیز کو زیادہ کرنے پرقادر نہ ہوتا تو تمام دنیا ہلاک ہوجاتی اور ایک جاندار بھی روئے زمین پر باقی نہ رہتا۔ ‘‘ (چشمہ ٔمعرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 162)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو اِس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’اگر تم دینی کاموں کے لئے اپنے اموال خرچ کرو گے تو جس طرح ایک دانہ سے اللہ تعالیٰ سات سو دانے پیدا کردیتاہے اسی طرح وہ تمہارے اموال کو بھی بڑھائے گا۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ترقی عطا فرمائے گا۔ جس کی طرف
وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ
میں اشارہ ہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے بے شک بڑی قربانیاں کی تھیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے رسول کا پہلا خلیفہ بنا کر انہیں جس عظیم الشان انعام سے نوازا اُس کے مقابلہ میں اُن کی قربانیاں بھلا کیا حیثیت رکھتی تھیں۔ اسی طرح حضرت عمرؓ نے بہت کچھ دیا مگر انہوں نے کتنا بڑا انعام پایا۔ حضرت عثمان ؓنے بھی جو کچھ خرچ کیا اُس سے لاکھوں گُنازیادہ انہوں نے اسی دنیا میں پالیا۔ اسی طرح ہم فرداً فرداً صحابہ ؓ کا حال دیکھتے ہیں۔ تو وہاں بھی خداتعالیٰ کا یہی سلوک نظر آتاہے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓکو ہی دیکھ لو۔ لکھتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوئے تو ان کے پاس تین کروڑ روپیہ جمع تھا۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں وہ لاکھوں روپیہ خرچ کرتے رہے۔ اسی طرح صحابہ ؓنے اپنے وطن کوچھوڑا تو ان کو بہتر وطن ملے۔ بہن بھائی چھوڑے تواُن کو بہتر بہن بھائی ملے۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑا۔ تو ماں باپ سے بہتر محبت کرنے والے رسول کریمﷺ مل گئے۔ غرض اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والا کبھی بھی جزائے نیک سے محروم نہیں رہا۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 604)
پھرآپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتےہیں:
’’دنیا میں ہم روزانہ یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ زمیندار زمین میں ایک دانہ ڈالتاہے تو اللہ تعالیٰ اُسے سات سو گنا بنا کرواپس دیتاہے۔ پھرجو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرے گا کیسے ممکن ہے کہ اس کا خرچ کیا ہوا مال ضائع ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے مال کاکم از کم سات سو گنابدلہ ضرور ملتاہے۔ اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔ اگر انتہائی حدمقرر کردی جاتی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کومحدود ماننا پڑتا۔ جو خداتعالیٰ میں ایک نقص ہوتا۔ اسی لئے فرمایا کہ تم خدا کی راہ میں ایک دانہ خرچ کرو گے تو کم ازکم سات سو گنا بدلہ ملے گا۔ اور زیادہ کی کوئی انتہا نہیں اور نہ اُس کے انواع کی کوئی انتہا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو انجیل میں صرف اتنا فرمایا تھاکہ ’’اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتاہے نہ زنگ اور نہ وہاں چورنقب لگاتے اور چراتے ہیں۔ ‘‘ (متی باب 6آیت 20) لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے خزانے میں اپنامال جمع کروگے تو یہی نہیں کہ اسے کوئی چُرا ئے گا نہیں بلکہ تمہیں کم از کم ایک کے بدلہ میں سات سو انعام ملیں گے۔ اور اس سے زیادہ کی کوئی حد بندی نہیں۔ پھر مسیحؑ کہتے ہیں وہاں غلّہ کوکوئی کیڑا نہیں کھا سکتا۔ مگر قرآن کریم کہتاہے کہ وہ صرف کیڑے سے ہی محفوظ نہیں رہتابلکہ ایک سے سات سو گنا ہو کر واپس ملتاہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ604تا605)
رسول اللہﷺ نے ایک حدیث میں بیان فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ
’’اے آدم کے بیٹے تُواپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چورکی چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا خزانہ مَیں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا۔ ‘‘
(طبرانی)
ایک اور حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
’’جس نے ایک کھجور بھی پاک کمائی میں سے اللہ کی راہ میں دی۔ اور اللہ تعالیٰ پاک چیز کو ہی قبول فرماتاہے، تواللہ تعالیٰ اس کھجور کو دائیں ہاتھ سے قبول فرمائے گا اور اسے بڑھاتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ پہاڑ جتنی ہوجائے گی۔ جس طرح تم میں سے کوئی اپنے چھوٹے سے بچھڑے کی پرورش کرتاہے یہاں تک کہ وہ ایک بڑا جانور بن جاتاہے۔ ‘‘
(بخاری کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ من کسب طیب)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مالی قربانی میں برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں پھر جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے…اوراسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے…چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیں جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں ؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا کی تعمیل ہے… یہ وعدے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے دے گا مَیں اس کو چند گُنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 393-394۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کرام اِس نسخہ کو سمجھتے ہوئے اِس پر کاربند تھےاور ہر وقت مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی قربانی کا ایک واقعہ یوں بیان کیا جاتاہے:
’’ ایک دفعہ اوائل زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری تبلیغی اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی۔ منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا۔ حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یہ اہم ضرورت درپیش ہے۔ کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی۔ میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی۔ اور میں جا کر روپے لاتا ہوں۔ چنانچہ میں فوراً کپور تھلہ گیا۔ اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کر نے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خدمت میں لا کر پیش کر دیئے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت کپور تھلہ کو (کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا ہے) دعا دی۔ چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ ’’منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی۔ ‘‘ منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ’’حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ نہیں ‘‘ حضرت صاحب نے فرمایا:’’یہی جومنشی ظفر احمد صاحب جماعت کپور تھلہ کی طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے۔ ‘‘منشی صاحب نے کہا ’’حضرت! منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا۔ اور میں ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘اس کے بعد منشی اروڑا صاحب میرے پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم نے مجھ سے ذکر نہیں کیا۔ میں نے کہا منشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی بیوی کے زیور سے پوری کر دی۔ اس میں آپ کی ناراضگی کی کیا بات ہے۔ مگر منشی صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا۔ پھر منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھ سے ناراض رہے۔ اللہ! اللہ! یہ وہ فدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود مہدی معہود کو عطا ہوئے۔ ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک اکیلا شخص اور غریب شخص اٹھتا ہے اور جماعت سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے۔ اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے ہوئے یہ ذکر نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت۔ تاکہ حضرت صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے۔ اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے کہ حضرت صاحب ؑکو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا۔ ایسا پیچ و تاب کھاتا ہے کہ اپنے ووست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا۔
(الفضل 4 ستمبر1914ء بحوالہ اصحاب احمد روایات حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپور تھلویؓ صفحہ61-62)
اب کو ئی دنیا دار ہو تو اس بات پر ناراض ہو جائے کہ تم روز روز مجھ سے پیسے مانگنے آ جاتے ہو۔ لیکن یہاں جنہوں نے اگلے جہان کے لئے اور اپنی نسلوں کی بہتری کے سود ے کرنے ہیں ان کی سوچ ہی کچھ اور ہے۔ اس بات پر نہیں ناراض ہو رہے کہ کیوں پیسے مانگ رہے ہو بلکہ اس بات پرناراض ہو رہے ہیں کہ مجھے قربانی کا موقع کیوں نہیں دیا۔ ‘‘
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل5تا11مارچ2004ءصفحہ10تا11)
پھر ایک واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ چوہدری رستم علی صاحب آف مدار ضلع جالندھر کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ وہ کورٹ انسپکٹر تھے ان کی 80روپے تنخواہ تھی۔ حضرت صاحب کو خاص ضرورت دینی تھی۔ آپ نے ان کو خط لکھا کہ یہ خاص وقت ہے اور چندے کی ضرورت ہے۔ انہی دنوں گورنمنٹ نے حکم جاری کیاکہ جو کورٹ انسپکٹر ہیں وہ انسپکٹر کردئے جائیں۔ جس پر ان کو نیا گریڈ مل گیا اور جھٹ ان کے 80روپے سے 180روپے ہوگئے۔ اس پر انہوں نے حضرت صاحب کولکھاکہ ادھر آپ کا خط آیا اور اُدھر 180روپے ہوگئے۔ اس لئے یہ اوپر کے سو روپے میرے نہیں ہیں، یہ حضرت صاحب کے طفیل ملے ہیں اس واسطے وہ ہمیشہ سوروپیہ علیحدہ بھیجا کرتے تھے۔ ‘‘
(روزنامہ ’الفضل‘۔ 15؍مئی1922ء صفحہ2)
(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍جنوری2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍مارچ 2004ء صفحہ11)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے پیمانے کوئی نہیں وہ تو بےحساب رزق دینے والا ہے لیکن کیونکہ انسان کی سوچ محدود ہے اس لئے وہ بے حساب سے کہیں یہ نہ سمجھے کہ دس، بیس یا تیس گنا یا سو گنا اضافہ ہو جائے گا۔ نہیں، بلکہ بڑھانے کی ابتدا سات سو گنا سے ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ تو معیار تقویٰ اور ہر ایک کے معیارِ قربانی کے لحاظ سے اس سے بھی زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ وہ جس کو چاہے اس سے بھی زیادہ بڑھا کر دے دے۔ جتنا زیادہ اس پر ایمان میں بڑھتے جاؤ گے اتنا زیادہ اس کے فضلوں کے وارث ٹھہرتے جاؤ گے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍جون 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 17؍جون 2005ءصفحہ 5تا6)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےایک خطبہ جمعہ میںحضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکا ایک ارشاد پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’خرچ کرنے والے کی ایک مثال تویہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتاہے مثل باجرے کے پھر اُس میں کئی بالیاں لگتی ہیں۔
پھر آپ فرماتے ہیں :
وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ
بعض مقام پر ایک کے بدلہ میں دس اور بعض میں ایک کے بدلہ میں سات سو کا ذکرہے۔ یہ ضرورت، اندازہ، وقت و موقع کے لحاظ سے فرق ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے دریا کے کنارے پر۔ سردی کا موسم ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ ایسی حالت میں کسی کو گلاس بھر کر دے دے تو کونسی بڑی بات ہے لیکن اگر ایک شخص کسی کو جبکہ وہ جنگل میں د وپہرکے وقت تڑپ رہاہے پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو، مُحرقہ میں گرفتار، پانی دے دے تووہ عظیم الشان نیکی ہے۔ پس اس قسم کے فرق کے لحاظ سے اجروں میں فرق ہے۔
پھر آپ ایک مثال بیان کرتے ہیں حضرت رابعہ بصریؒ کی کہ ایک دفعہ گھر میں بیٹھی ہوئی تھیں تو بیس مہمان آ گئے اور گھرمیں صرف دو روٹیاں تھیں۔ انہوں نے ملازمہ سے کہاکہ یہ دوروٹیاں بھی جا کر کسی کو دے آؤ۔ ملازمہ بڑی پریشان اور اس نے خیال کیا کہ یہ نیک لوگ بھی عجیب بیوقوف ہوتے ہیں۔ گھرمیں مہمان آئے ہوئے ہیں اور جو تھوڑی بہت روٹی ہے یہ کہتی ہیں کہ غریبوں میں بانٹ آؤ۔ تو تھوڑی دیرکے بعد باہر سے آواز آئی، ایک عورت آئی، کسی امیر عورت نے بھیجا تھا، اٹھارہ روٹیاں لے کر آئی۔ حضرت رابعہ بصری ؒ نے واپس کردیں کہ یہ میری نہیں ہیں۔ اس ملازمہ نے پھرکہا کہ آپ رکھ لیں، روٹی اللہ تعالیٰ نے بھیج دی ہے۔ فرمایا نہیں یہ میری نہیں ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہمسائی امیرعورت تھی اس کی آواز آئی کہ یہ تم کہاں چلی گئی ہو۔ رابعہ بصری کے ہاں تو بیس روٹیاں لے کر جانی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے جو دوروٹیاں بھیجی تھیں اللہ تعالیٰ سے سوداکیاتھاکہ وہ دس گنا کرکے مجھے واپس بھیجے گا۔ تو دو کے بدلہ میں بیس آنی چاہئیں تھیں یہ اٹھارہ میری تھیں نہیں۔ توحضرت خلیفۃ اوّل فرماتے ہیں کہ یہ سچ ہے اور مجھے بھی اس کا تجربہ ہے اور مَیں نے کئی دفعہ آزمایاہے۔ لیکن ساتھ آپ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ خدا کا امتحان نہ لو۔ کیونکہ خداکو تمہارے امتحانوں کی پرواہ نہیں ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍نومبر2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل2؍جنوری2004ءصفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں دی ہوئی قربانی کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’پس یہ مالی قربانی قرضۂ حسنہ ہے۔ اللہ کو بظاہر مال کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کس طرح قدر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو قربانی ہے کیونکہ یہ تم نے میری خاطر کی ہے۔ اس لئے مَیں اسے تمہیں واپس لوٹاؤں گا۔ اور اللہ تعالیٰ سب قدر کرنے والوں سے زیادہ قدر کرنے والا ہے۔ اس لئے اس کو کئی گنا بڑھا کر لوٹاتا ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ کرکے لوٹاتا ہے۔ تو یہ قرضہ حسنہ کیا ہے ؟ یہ تو ایک تجارت ہے اور تجارت بھی ایسی جس میں سوائے فائدے کے کچھ ہے ہی نہیں۔ اس لئے کسی بھی قربانی کرنے والے کو کبھی یہ خیال نہ آئے کہ مَیں نے خدا پر کوئی احسان کیا ہے۔ اور صرف مالی لحاظ سے یا دنیاوی لحاظ سے ایسے قربانی کرنے والوں کے حالات اللہ تعالیٰ ٹھیک نہیں کرتا بلکہ فرمایا کہ تمہارے جودنیاوی فائدے ہونے ہیں وہ تو ہونے ہیں، مَیں گناہ بھی بخش دوں گا۔ انسان گناہوں کا پتلا ہے ایک دن میں کئی کئی گناہ سرزد ہو جاتے ہیں، کئی کئی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ایک تو ان قربانیوں کی وجہ سے ان گناہوں سے بچے رہو گے، نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔ دوسرے جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہو گئی ہیں، اللہ کی راہ میں قربانی کرکے ان کی بخشش کے سامان بھی پیدا کر رہے ہو گے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ستمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اکتوبر2005ءصفحہ6)
اِسی خطبہ جمعہ میں حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لیے فرشتوں کی دُعاؤں کا ذکرکرتے ہو ئے فرمایا:
’’تو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کے لئے فرشتے بھی دعا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ فرشتوں کی دعا کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا ہے کہ وہ قربانی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے۔ پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اپنے فضل نازل کرنے کے طریقے ہیں۔ اس حدیث نے تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھادیا کہ ایک طرف تو خداتعالیٰ مالی قربا نی کرنے والوں کی قدر کرتا ہے، ان کی بخشش کے سامان پیدا فرماتا ہے، ان کے مال میں اضافہ کرتا ہے، ان کے نفوس میں برکت ڈالتا ہے۔ دوسری طرف بخیل اور کنجوس اور دنیاداروں کو نہ صرف ان برکات سے محروم کر رہا ہوتا ہے بلکہ ایسے مواقع بھی آجاتے ہیں کہ جو ان کے پاس ہے اس دنیا میں بھی اس سے محروم کر دیتا ہے۔ اور آخرت میں بھی اس کی ہلاکت کے سامان ہو رہے ہوتے ہیں۔
ایک سخی اور مالی قربانی کرنے والے کے جنت میں جانے اور بخیل کے دوزخ کے قریب ہونے کے بارے میں ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے، لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور دوزخ سے دور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بخیل اللہ سے دور ہوتا ہے، لوگوں سے دور ہوتا ہے، جنت سے دور ہوتا ہے لیکن دوزخ کے قریب ہوتا ہے۔
(قشیریۃ، الجود والسخاءصفحہ122)
… پھر اللہ تعالیٰ دنیاوی لحاظ سے بھی کس طرح نوازتا ہے اور مال میں برکت دیتا ہے، کس طرح قرضہ حسنہ کو لوٹاتا ہے۔ اس بارے میں ایک روایت ہے۔ کئی بار سنی ہو گی۔ لیکن جب مالی قربانیوں کا وقت آتا ہے اس وقت اکثر لوگ یہ بھول جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعے کا یوں ذکر فرمایا ہے کہ ایک آدمی جنگل میں جا رہا تھا۔ آسمان پربادل تھے۔ اتنے میں اس نے بادلوں میں سے آواز سنی کہ اے بادل! فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر دے۔ وہ بادل اس طرف چلا گیا۔ وہ آدمی جس نے یہ آواز سنی تھی وہ بادل کے اس ٹکڑے کے پیچھے پیچھے گیا تو دیکھا کہ وہ ایک پتھریلی زمین پہ برس رہا ہے۔ ایک چٹان ہے، پہاڑی سی ہے وہاں بادل برس رہا ہے اور پھر ایک نالے کی صورت میں وہ پانی اکٹھا ہو کے بہنے لگا۔ وہ شخص بھی نالے کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تو دیکھا کہ وہ نالہ ایک باغ میں داخل ہوا اور باغ کا مالک اس پانی کو بڑا سنبھال کے، طریقے سے، جہاں جہاں باغ میں پانی کی ضرورت تھی وہاں لگا رہا تھا۔ تو اس آدمی نے جس نے یہ آواز سنی تھی باغ کے مالک سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے وہی نام بتایا جو اس نے بادلوں سے سنا تھا۔ باغ کے مالک نے نام پوچھنے کی وجہ پوچھی۔ تو اس نے بتایا کہ اس طرح میں نے بادل سے آواز سنی تھی۔ وہ کون سا نیک عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تم پر اتنا مہربان ہے۔ باغ کے مالک نے کہا کہ میرا یہ طریق کار ہے کہ باغ سے جو بھی آمدہوتی ہے اس کا ایک تہائی(3/1حصہ) خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہوں۔ اور 3/1حصہ اپنے اہل و عیال کے گزارے کے لئے، گھر کے خرچ کے لئے رکھ لیتا ہوں اور 3/1حصہ دوبارہ اس باغ کی نگہداشت اور ضرورت کے خرچ وغیرہ کے لئے رکھ لیتا ہوں۔
(مسلم کتاب الزھد۔ باب الصدقہ فی المسکین)
تو اس 3/1کی قربانی کی وجہ سے دیکھیں اللہ تعالیٰ اس شخص پر کس قدرفضل فرما رہاتھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میری خاطر قربانی کرتے ہیں ان کو بغیر اجر کے نہیں جانے دیتا۔ دیکھیں کس کس طرح نوازتا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ستمبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍اکتوبر2005ءصفحہ6)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مال کو خداتعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو، پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے۔ اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کرکے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خداکے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جوشخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبت کرکے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔ یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خداتعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو۔ بلکہ یہ اُس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجا لائے گی۔ تم یقینا ًسمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے۔ اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں۔ میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں۔ ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 497-498)
٭…٭…٭