الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
شہید کون ہوتا ہے
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اقتباس درج ہے کہ
’’یہ لفظ شہد سے بھی نکلا ہے۔ عبادت شاقہ جو لوگ برداشت کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ہر ایک تلخی اور کدورت کو جھیلتے ہیںا ور جھیلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں وہ شہد کی طرح ایک شیرینی اور حلاوت پاتے ہیں اور جیسے شہد
فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ (النحل :70)
کا مصداق ہے، یہ لوگ بھی ایک تریاق ہوتے ہیں۔ ان کی صحبت میں آنے والے بہت سے امراض سے نجات پاجاتے ہیں۔ اور پھر شہید اس درجہ اور مقام کا نام بھی ہے جہاں انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے یا کم از کم خدا کو دیکھتا ہوا یقین کرتا ہے۔ اس کا نام احسان بھی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 416)
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب شہید
اور مکرم میجر جنرل ناصر احمد صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم حمیداللہ ظفر صاحب بیان کرتے ہیں کہ مکرم چودھری اعجاز نصراللہ خان صاحب شہید کا تعلق ‘داتہ زیدکا ’سے تھا جو میرا بھی گاؤں ہے۔ یہیں مکرم چودھری صاحب گرمیوں کی چھٹیاں بھی گزارنے آیا کرتے تھے اس لیے بہت قربت تھی۔آپ نماز باجماعت کا خاص خیال رکھتے۔ قرآن مجید سے بہت لگاؤ تھا اور اکثر تلاوت کیا کرتے تھے۔ نیز مطالعہ کا بھی بہت شوق تھا۔ ایک دفعہ مَیںنے ایک تقریر تیار کرنے کے لیے مدد مانگی تو گھر بلایا اور قرآن کریم لے آئے۔ کہنے لگے ہر علم کا منبع تو یہی ہے اس سے رہ نمائی لیتے ہیں۔ پھر مختلف آیات بتابتاکر تقریر تیار کرنے میں مدد دی۔ بہت مہمان نواز تھے۔ گھر میں ملازم نہ بھی ہوتا تو خود مہمان کی خدمت میں عار نہ سمجھتے۔ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کی تھی۔ بیرسٹر تھے، وکالت بھی کی اور ملازمت بھی کی لیکن سادگی اور انکساری نمایاں تھی۔ سلسلہ کی بہت خدمت کی توفیق پائی۔ نائب ناظر امورعامہ بھی رہے۔ اسلام آباد کے امیر بھی رہے۔ لاہور کے نائب امیر اور قضاءبورڈ کے ممبر بھی رہے۔ آپ کے والد حضرت چودھری اسداللہ خان صاحب بھی امیر جماعت لاہور اور قضاءبورڈ کے ممبر رہے تھے۔
لاہور میں مجھے بارہ سال تک مکرم میجر محمد عبداللہ مہار صاحب کے گھر میں رہائش رکھنے کا موقع ملا۔ اُن کی بہو مکرم میجر جنرل ناصر احمد صاحب شہید کی بیٹی تھیں۔اس وجہ سے جنرل صاحب سے بھی وہاں ملاقات رہتی تھی۔ آپ اتنے بڑے عہدے پر رہنے کے باوجود نہایت منکسرالمزاج تھے۔ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ اس وقت کوئی ملازم نہیں ہے اور مَیں نے زمین میں بیج ڈالنے کے لیے گندم کی بوری لے کر جانی ہے، میرے ساتھ آئیں تاکہ ہم دونوں اسے اٹھاکر گاڑی میں رکھیں۔ چنانچہ مَیں گیا لیکن انہوں نے خود بوری اٹھائی اور ہم دونوں نے اُسے گاڑی میں رکھا۔
………٭………٭………٭………
مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم عامر لطیف پراچہ صاحب شہید ابن مکرم عبداللطیف پراچہ صاحب کا ذکرخیر ان کی خالہ زاد مکرمہ لبنیٰ وسیم صاحبہ کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
شہید مرحوم کی ایک بہن اور دو بڑے بھائی ہیں۔ پھر ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام عامر تھا لیکن وہ جلد ہی وفات پاگیا چنانچہ آپ کی پیدائش پر آپ کا نام عامر رکھا گیا۔ بوقت شہادت آپ کی عمر قریباً 35سال تھی۔
شہید مرحوم نے سرگودھا سے بی اے کیااور پھر لاہور سے ایم بی اے کرکے ڈریس ڈیزائننگ کاکاروبار شروع کیا۔
شہید مرحوم نماز کے پابند، تہجدگزار اور قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے تھے۔ غرباءکی مدد کرتے اور ضرورت پڑنے پر اُن کے علاج کا انتظام بھی کرتے۔ آپ کے دفتر کے راستے میں ایک فقیر بیٹھتا تھا اور آپ باقاعدگی سے اُس کے لیے ناشتہ لے کر جاتے تھے۔بہت مہمان نواز تھے اور بچپن میں بھی جب ہم لوگ چھٹیاں گزارنے ان کے ہاں جاتے تو واپسی کا پروگرام بننے پر یہ ہمارا سامان چھپادیتے کہ پہلے اَور رہنے کا وعدہ کرو پھر دوں گا۔
جب دہشتگردوں نے لاہور میں مسجد پر حملہ کیا تو آپ نے اپنے بھائی کو فون کرکے اس بارے میں بتایا۔ پھر دوبارہ فون کرکے بتایا کہ میرے آگے بھی شہید ہیں اور پیچھے بھی شہید ہیں۔ اسی اثنا میں آپ کا فون بند ہوگیا۔ پھر دہشتگردوں کے فرار ہوجانے کے بعد آپ کی تلاش شروع ہوئی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہورہی تھی۔تمام ہسپتالوں میں بھی دیکھ لیا لیکن آپ نہیں ملے۔ آخر سروسز ہسپتال میں آپ اس حالت میں ملے کہ پہچاننا بھی مشکل تھا۔ ان کا بچپن میں دل کا آپریشن ہوا تھا جس کے نشان سے شناخت ہوئی۔ اُس وقت صرف ہلکی سانس چل رہی تھی۔ ڈاکٹروں کو کوئی امید نہیں تھی تاہم آپریشن کا فیصلہ کیا لیکن آپریشن تھیٹر پہنچنے سے پہلے ہی آپ کی شہادت ہوگئی۔
مکرم عامر صاحب شہید کی والدہ کینسر کی مریض تھیں اور تین چار سالوں سے شہید مرحوم ہی اُن کا خیال رکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر بڑے تحمل سے سنی اور بہت صبر کا مظاہرہ کیا۔اسی طرح شہید مرحوم کے ایک بھائی جو انگلینڈ میں مقیم تھے انہیں مستقل طور پر پاکستان آنا پڑا تاکہ وہ اپنے شہید بھائی کے کاروبار کو سنبھال سکیں۔
………٭………٭………٭………
مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ صدف شیخ صاحبہ کے قلم سے اُن کے سسر مکرم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب شہید کا ذکرخیر بھی شامل اشاعت ہے۔
محترم شیخ صاحب 8؍ جنوری1944ءکو حضرت شیخ میاں شمس الدین صاحبؓ کے ہاں مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ صاحبؓ نے 1900ء میں قادیان جاکر قبولِ احمدیت کا شرف پایا۔ وہ ایک باثمر داعی الی اللہ تھے۔ اُن کی ہی کاوش کے نتیجے میں مکرم چودھری حمیداللہ صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید ربوہ کے والد محترم بابو محمد بخش صاحب کو بھی قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔حضرت شیخ صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں سے نوازا۔ شہید مرحوم اُن کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
شہید مرحوم ابھی چودہ برس کے تھے اور میٹرک کے طالب علم تھے جب آپ کے والد محترم کی وفات ہوگئی چنانچہ میٹرک کے بعد آپ مزید تعلیم حاصل کرنے کی بجائے ڈھاکہ جاکر ملازم ہوگئے۔ تین سال کے بعد 1963ء میں آپ واپس لاہور آگئے۔ آپ کا نکاح جلسہ سالانہ ربوہ 1965 کے موقع پر حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مکرمہ عابدہ خانم صاحبہ بنت حضرت خواجہ محمد شریف صاحبؓ سے پڑھایا۔محترمہ عابدہ خانم صاحبہ بھی بہت نیک اور متّقی خاتون تھیں۔ بیسیوں بچوں نے اُن سے قرآن کریم ناظرہ سیکھا۔اُن کی تحریک پر ہی محترم شیخ صاحب نے مزید تعلیم حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی اور تین بیٹے عطا کیے۔ اپنی اہلیہ کی وفات کے بعدجو 9؍ستمبر 1993ء کو ہوئی، محترم شیخ صاحب اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس جرمنی تشریف لے آئے۔لیکن تین سال بعد واپس پاکستان چلے گئے اور ملازمت اختیار کرلی جو 2004ء تک جاری رہی۔
محترم شیخ محمد اکرام اطہر صاحب اوائل جوانی سے ہی اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کے لیے ہرممکن کوشش کرتے تھے۔تہجد کے لیے شب بیداری اور کثرت سے درودشریف کرتے۔ اپنی تنخواہ وصول کرکے سب سے پہلے چندہ ادا کرتے اور پھر رقم گھر میں لاتے۔ صدقہ و خیرات کھلے دل کے ساتھ خوشی سے کرتے۔ جہاں بھی رہے اپنے محلّہ میں کسی ضرورت مند گھرانے میں ہر ماہ ضروری راشن ڈلواتے۔ بہت دعاگو اور کثرت سے نوافل ادا کرنے والے تھے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا۔جرمنی میں قیام کے دوران زبان سے زیادہ واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ڈکشنری کی مدد لیتے۔ اپنے قریبی علاقے کے ہر گھر میں آپ نے پیغامِ حق پہنچایا۔ اکثر لوگ احترام سے بات سنتے لیکن بعض شرپسند بدتمیزی بھی کرتے۔ ایک مرتبہ چند معاندین نے گھر میں داخل ہوکر آپ پر حملہ کیا اور چہرے پر تھپڑ مارا۔ آپ کے بیٹے نے اُن کا مقابلہ کیا اور اُنہیں بھاگ جانے پر مجبور کیا۔ اسی طرح دورانِ سفر ایک بار تبلیغ کرنے پر آپ کو ایک شخص نے ویگن میں سے زبردستی باہر پھینک دیا۔
شہید مرحوم نے سانحہ لاہور سے دو سال قبل بیرونی سرگرمیاں ترک کرکے مکمل طور پر رجوع الی اللہ کرلیا تھا۔ باقاعدگی سے رمضان کے روزے رکھتے اور اعتکاف بھی کرتے۔ وقف عارضی تو آپ اکثر کیا کرتے تھے۔ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کرتے۔ احمدیوں کے علاوہ کئی غیرازجماعت بھی آپ کو دعا کے لیے کہتے۔ آپ نے اُن کے نام اپنی ڈائری میں لکھے ہوتے تھے اور باقاعدگی سے اُن کے لیے دعا کرتے۔ جمعہ کے دن خوش رہتے۔ خاص طور پر درودشریف پڑھتے اور نوافل ادا کرتے رہتے۔ 28؍مئی 2010ء کو بھی حسب معمول نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیےوقت سے بہت پہلے تشریف لے گئے۔ ٹانگوں کی تکلیف کی وجہ سے آپ کرسیوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ جب دہشتگردوں کا حملہ شروع ہوا تو آپ بھی اپنی چھڑی کے سہارے تہ خانے کی طرف چلے لیکن اسی دوران گرنیڈ کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوگئے اور جامِ شہادت نوش کیا۔ بوقت شہادت آپ کی عمر 66 سال تھی۔
………٭………٭………٭………
سانحہ لاہور کے معصوم عینی شاہد
لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ کی ایک اشاعت کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک چار سالہ بچی عزیزہ نور فاطمہ اپنے ابّا مکرم محمد اعجاز صاحب آف مغلپورہ کے ہمراہ دارالذکر میں جمعہ پڑھنے آئی تھی۔ اس کے دو بھائی جو اطفال تھے، وہ بھی ساتھ تھے۔ ان تینوں بچوں کو گرنیڈ کے پھٹنے سے زخم آئے لیکن سب سے گہرا زخم عزیزہ نور فاطمہ کو آیا۔ لیکن آفرین ہے اس معصوم بچی پر کہ تقریباً تین گھنٹے مربی ہاؤس میں محبوس رہی۔ رونا تو درکنار ایک بار بھی اُف تک نہیں کی۔ اور جب دوسرے لوگ بولتے تو یہ انگلی کے اشارے سے منع کرتی کہ باہر گندے لوگ ہیں، خاموش رہیں۔
………٭………٭………٭………