نئی نئی بدعات و رسوم ردّ کرنے کے لائق ہیں
چھٹی شرط بیعت (حصہ دوم)
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اللہ اور رسول ہم سے کیاچاہتے ہیں، یہی کہ رسم و رواج اور ہوا وہوس چھوڑ کر میرے احکامات پر عمل کرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
فَاِنۡ لَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکَ فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یَتَّبِعُوۡنَ اَہۡوَآءَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰٮہُ بِغَیۡرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ (القصص:آیت51)
پس اگروہ تیری اس دعوت کو قبول نہ کریں تو جان لے کہ وہ محض اپنی خواہشات ہی کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ اللہ ہرگز ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
تو دیکھیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے جو ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ جو لوگ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں تو پھر وہ کبھی ہدایت نہیں پائیں گے۔ اب ہم ایک طرف تو یہ دعوی ٰکر رہے ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام کو پہچان لیا، مان لیا۔ دوسری طرف جو معاشرے کی برائیاں ہیں باوجود امام کے ساتھ عہد کرنے کے کہ ان برائیوں کو چھوڑنا ہے، ہم نہیں چھوڑ رہے تو کہیں ہم پھر پیچھے کی طرف تو نہیں جارہے۔ ہر ایک کو یہ محاسبہ کرنا چاہئے۔ ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر ہم اس عہد بیعت پر قائم ہیں، اپنے خدا سے ڈرتے ہوئے ہواو ہوس سے رکے ہوئے ہیں اور ہم اس پیارے خدا کی تعریف کرتے ہوئے حمد کرتے ہوئے پھر اس کی طرف جھکتے ہیں تو وہ ہمیں اس کے عوض اپنی جنت کی بشارت دے رہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا
وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی۔ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی۔ (النازعات:آیات41-42)
اوروہ جو اپنے رب کے مرتبہ سے خائف ہوا اور اس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقینا ًجنت ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔
رسم و رواج کے بارہ میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: جو شخص دین کے معاملہ میں کوئی ایسی نئی رسم پیدا کرتا ہے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو وہ رسم مردود اور غیر مقبول ہے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الصلح۔ باب اذا اصطلحواعلی صلح جَورٍ)
حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا۔ آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ آواز بلند ہوگئی۔ جوش بڑھ گیا گویا یوں لگتا تھا کہ آپؐ کسی حملہ آور لشکر سے ہمیں ڈرا رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ لشکر تم پر صبح کو حملہ کرنے والا ہے یاشام کو۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: میں اور وہ گھڑی یوں اکٹھے بھیجے گئے ہیں۔ آپؐ نے یہ کہتے ہوئے انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کو ملاکر دکھایا کہ ایسے جیسے یہ دو انگلیاں اکٹھی ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: اب میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریق محمدﷺ کا طریق ہے۔ بدترین فعل دین میں نئی نئی بدعات کو پیدا کرنا ہے ہر بدعت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
(صحیح مسلم۔ کتاب الجمعۃ۔ باب تخفیف الصلوٰۃ و الخطبۃ)
حضرت عمروؓ بن عوف بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐنے فرمایا: جو شخص میری سنتوں میں سے کسی سنت کو اس طورپر زندہ کرے گا کہ لوگ اس پر عمل کرنے لگیںتو سنت کے زندہ کرنے والے شخص کو بھی عمل کرنے والوں کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے کوئی بدعت ایجاد کی اور لوگوں نے اسے اپنا لیا تو اس شخص کو بھی ان پر عمل کرنے والوں کے گناہوں سے حصہ ملے گا اور ان بدعتی لوگوں کے گناہوں میں بھی کچھ کمی نہ ہوگی۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب المقدّمۃ۔ باب من احیا سنۃ قد امیتت)
نئی نئی بدعات و رسوم ردّ کرنے کے لائق ہیں
تو اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جن رسموں کا دین سے کوئی واسطہ نہیں ہے، جو دین سے دور لے جانے والی، اللہ اور اس کے رسول کے احکامات اور ارشادات کی تخفیف کرنے والی ہیں، وہ سب مردود رسمیں ہیں۔ سب فضول ہیں۔ رد کرنے کے لائق ہیں۔ پس ان سے بچو کیونکہ پھر یہ دین میں نئی نئی بدعات کو جگہ دیں گی اور دین بگڑ جائے گا۔ جس طرح اب دیکھو دوسرے مذاہب میں رسموں نے جگہ پاکر دین کو بگاڑ دیا ہے۔ خیر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ اس زمانے میں زندہ مذہب صرف اور صرف اسلام نے ہی رہنا تھا۔ لیکن آپ جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دوسرے مذاہب نے مثلاً عیسائیت نے باوجود اس کے کہ ایک مذہب ہے۔ مختلف ممالک میں، مختلف علاقوں میں اور ملکوں میں اپنے رسم و رواج کے مطابق اپنی رسموں کو بھی مذہب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ افریقہ میں بھی یہ باتیں نظر آتی ہیں۔ پھر جب بدعتوں کاراستہ کھل جاتا ہے تو نئی نئی بدعتیں دین میں راہ پاتی ہیں۔ تو آنحضرتؐ نے ان بدعتیں پیدا کرنے والوں کے لئے سخت انذار کیا ہے، سخت ڈرایا ہے۔ آپ کو اس کی بڑی فکر تھی حدیث میں آتا ہے فرمایا: میں تمہیں ان بدعتوں کی وجہ سے، تمہارے ہوا و ہوس کا شکار ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہوں مجھے ڈر ہے کہ اس کی وجہ سے دین میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے۔ تم گمراہ نہ ہو جاؤ۔
آج کل آپ یہاں اس مغربی معاشرہ میں رہ رہے ہیں، یہاں کے بے تحاشا رسم و رواج ہیں، جو آپ کو مذہب سے دور لے جانے والے، اسلام کی خوبصورت تعلیم پر پردہ ڈالنے والے رسم و رواج ہیں، طور طریق ہیں۔ کیونکہ دنیاداری کی جو چکاچوند ہے زیادہ اثر کرتی ہے۔ اس لئے اس معاشرے میں بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تو بجائے ان کی غلط قسم کی رسوم اپنانے کے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرنی چاہئے۔ ہر احمدی کا اتنا مضبوط کیریکٹر ہونا چاہئے، اتنا مضبوط کردار ہونا چاہئے کہ مغربی معاشرہ اس پر اثر انداز نہ ہو مثلاً عورتوں میں پردہ کا اسلامی حکم ہے۔ عورتوں کی عزت اسی میں ہے کہ پردہ کی وجہ سے ان کا ایک نمایاں مقام نظر آتا ہو۔ جب عورت خود پردہ کرے گی اور اس معاشرے میں پردے کی خوبیاں بیان کرے گی تو اس کا بہرحال زیادہ اثر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ مرد پردے کے فوائد اور خوبیاں اس معاشرے میں بیان کرتے پھریں۔ تو جو خواتین پردہ کرتی ہیں ان کو صرف ایک انفرادیت کی وجہ سے تبلیغ کے بھی زیادہ مواقع میسر آجاتے ہیں۔ اس طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ پھر اور بھی بہت سی اس مغربی معاشرے کی برائیاں ہیں۔ انہیں صرف اس لئے اپنانا کہ ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں، مجبوری ہے، یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ مثلاً آپ کی ایسے شخص سے دوستی ہے جو شراب پیتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ایسے ریسٹورنٹ میں یا بار وغیرہ میں چلے جائیں کہ ٹھیک ہے وہاں بے شک وہ شراب پیتا رہے میں تو کافی یا کوئی اور مشروب پی لوں گا تو یہ بھی غلط ہے۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے کسی دن آپ اس سے متاثر ہوکر ہوسکتا ہے کہ خود بھی پہلے ایک گھونٹ لیں اور اس کے بعد اس کی عادت پڑ جائے، اللہ نہ کرے۔ اس لئے درج ذیل حدیث کو جس میں آنحضرتﷺ نے بہت فکر کا اظہار فرمایا ہے پیش نظر رکھیں۔
حضرت ابو برزہ ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ وہ بات جس کے سبب سے میں تمہارے بارہ میں خائف ہوں وہ ایسی خواہشات ہیں جو تمہارے شکموں میں اور تمہاری شرمگاہوں میں پیدا ہوجائیں گی۔ نیز ہواو ہوس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گمراہیوں کے بارے میں بھی خائف ہوں۔
(مسند احمد بن حنبل۔ جلد4۔ صفحہ423۔ مطبوعہ بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جب تک انسان سچا مجاہدہ اور محنت نہیں کرتا وہ معرفت کا خزانہ جو اسلام میں رکھا ہوا ہے اور جس کے حاصل ہونے پر گناہ آلود زندگی پر موت وارد ہوتی ہے انسان خدا تعالیٰ کو دیکھتا ہے اور اس کی آواز یں سنتا ہے اسے نہیں مل سکتا۔ چنانچہ صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی۔ فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی۔ (النازعات:آیات41-42)
یہ تو سہل بات ہے کہ ایک شخص متکبرانہ طور پر کہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں اور باوجود اس دعویٰ کے اس ایمان کے آثار اور ثمرات کچھ بھی پیدا نہ ہو ں یہ نری لاف زَنی ہوگی ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی پرواہ نہیں کرتا‘‘۔
(الحکم۔ جلد9۔ نمبر29۔ مورخہ17؍اگست1905ء۔ صفحہ6)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’جوکوئی اپنے ربّ کے آگے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اپنے نفس کی خواہشوں کو روکتا ہے توجنت اسکا مقام ہے۔ ہوائے نفس کو روکنایہی فنافی اللہ ہونا ہے اور اس سے انسان خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرکے اسی جہان میں مقام جنت کو پہنچ سکتا ہے ‘‘۔ (بدر۔ جلد نمبر1۔ مورخہ3؍اگست 1905ء۔ صفحہ2)
(باقی آئندہ)