یادِ رفتگاں

محترمہ سکینہ صالحہ محمود صاحبہ

(محمود احمد منیب۔ یوکے)

آنحضرتﷺ کے ارشاد

اُذکُرُوْااَمْوَاتَکُمْ بِالْخَیْرِ

کے مطابق خاکسار اپنی اہلیہ محترمہ سکینہ صالحہ محمود کے متعلق چند باتیں تحریر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

محترمہ صالحہ محمود صاحبہ طویل علالت کے بعد 6؍جون 2019ءکی رات کو اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون

اس وقت مرحومہ کی عمرستّربرس تھی اور موصیہ تھیں ۔ان کا وصیت نمبر 25441تھا۔

ابتدائی حالات

محترمہ سکینہ صالحہ محمود صاحبہ یکم اپریل1949ءکو پشاور میں پیدا ہوئیں ۔آپ کے والد محترم چوہدری مولابخش صاحب محترم چوہدری اللہ بخش صاحب صادق وکیل التعلیم ربوہ کے ماموں تھے اورKaz radio company میں کام کرتے تھے۔ آپ ایک پرجوش داعی الی اللہ ،اور جماعت کے مختلف عہدوںپرجیسے جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری تبلیغ پشاورکے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ مرحومہ کی تعلیم کی ابتدا پشاور سے ہوئی۔ ابھی دس سال کی تھیں کہ ان کی والدہ محترمہ امۃالقدیر صاحبہ وفات پا گئیں اور ان کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد محترم اور ان کی بڑی بہن محترمہ ڈاکٹر صادقہ منصور صاحبہ نے بھرپور حصہ لیااور بڑی محبت اور شفقت سے ان کی تربیت کی۔ربوہ میں میٹرک اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔انسانیت کی خدمت کا شوق انہیں نرسنگ کے شعبہ میں لے گیاچنانچہ انہوں نے پانچ سالہ نرسنگ کورس جنرل ہسپتال لاہور سے مکمل کیا۔

خاندان میں احمدیت

مرحومہ کے دادا میاں محمد دین صاحب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھے جن کا تعلق ادرحماں ضلع سرگودھا سے تھا۔انہوں نے1895ء کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔مرحومہ کے ناناحضرت ڈاکٹرمنشی عبدالسمیع صاحبؓ اور نانی محترمہ عزیز فاطمہ صاحبہؓ آف کپورتھلہ نیز ان کے پڑناناحضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ بزرگ اور ابتدائی صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے تھے اس طرح مرحومہ کی تعلیم و تربیت میں ان کے نانا و نانی کا بھی بہت بڑا حصہ تھا۔

عائلی زندگی

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مرحومہ کا نکاح خاکسار کے ساتھ1975ء میں پڑھا اور رخصتی 1977ء میں ہوئی۔اور 1979ءمیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے بیٹے عطاءالمنان کاشف سے نوازا۔مربی سلسلہ کے ساتھ شادی ہونے کی وجہ سے مرحومہ نے ہسپتال کی سروس کو خیر باد کہہ دیااورخاکسار کے ساتھ جماعتی کاموں میں شامل ہو گئیں اوربھکر اور کنری میں جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیا ۔

مرکزسلسلہ نے خاکسار کی تقرری1980ء میںکینیا کے لیے کر دی خاکسارکی فیملی کےلیے رہائش کا انتظام نہ ہو سکا تو خاکسار اپنی اہلیہ اور بیٹا جو سوا سال کا تھاکو سسرال کے گھر پر چھوڑکرکینیا کےلیے روانہ ہو گیا۔

صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال ربوہ کی خواہش پر کہ[آپ ایک کوالیفائیڈ سٹاف نرس ہیں]مرحومہ نے فضل عمر ہسپتال میں ملازمت اختیار کر لی اس طرح ہسپتال کی طرف سے رہائش کےلیے کوارٹر کاانتظام ہوگیا۔کہا کرتی تھیں کہ مجھے مریضوں کی خدمت کر کے دلی خوشی محسوس ہوتی ہے اور ملازمت تنخواہ کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کےلیے کرتی ہوں ۔مرکز نے 1984ءمیں خاکسار کی فیملی کو کینیا بھجوا دیااس طرح انہوں نے پانچ سال تک خاکسار کے ساتھ جماعتی خدمات میں بھرپور حصہ لیااور 1984ءمیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوسرے بیٹے تنویر الظفر سے نوازا ۔

اس موقع پر خاکسار اس بات کا اظہار کرنا برکت کا موجب سمجھتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کو خدا تعالیٰ بڑی شان کے ساتھ پورا کرتا ہے ۔اس کا واقعہ یوں ہے کہ جب ہمارے ہاں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع تھی تو تقریباً دوماہ قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست کے ساتھ ایک بچے اور بچی کا نام تجویز کرنے کی درخواست کی گئی کیونکہ کینیا میں بچے کا نام ایک ہفتے کے اندر رجسٹرڈ کروانا ضروری ہوتا ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خط موصول ہوا،تحریر فرمایا’’ آپ کا خط ملا۔ دعا کی۔ اللہ تعالیٰ تنویر الظفر مبارک کرے ‘‘حضورؒنے ایک ہی نام تجویز فرمایا اس طرح بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے حضور کے خط کے ذریعے یہ خوش خبری دے دی کہ بیٹا ہی پیدا ہوگا۔

مرحومہ مربی ہائوس میں آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کر کے خوشی محسوس کرتیں بلکہ جلسہ سالانہ جو کہ خاکسار کے علاقے میں ہوا کرتا تھا اس پر آنے والے مہمانوں کےلیے ان کی ضرورت کے مطابق کھانے تیار کرتیں ۔

جب1988ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے کینیا کا دورہ کیا اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے ایک مسجد جو خاکسار نے شیانڈا کے مقام پر تعمیر کروائی تھی اس کا افتتاح فرمایا اور حضور نے اس مسجد کی تعمیر کی خوشی میں چونتیس ہزار شلنگ خاکسار کو بچوں میں تقسیم کرنے کےلیے عطا فرمائے۔اس مسجد کے افتتاحی موقع کی ریفریشمنٹ کےلیے سارا سامان مرحومہ نے اپنے گھر سے خود تیار کیا جس میں بسکٹ کیک وغیرہ شامل تھے۔

1990ءمیں خاکسار کو زیمبیا بھجوایا گیا تو خاکسار کے زیمبیا جانے کے بعد مرحومہ نے دوبارہ فضل عمر ہسپتال میں سروس اختیار کر لی اور مکرم ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب کے ساتھ بھرپور رنگ میں مریضوں کی خدمت کی توفیق پائی۔اس طرح دو سال مزید آپ کو فضل عمر ہسپتال میں خدمت کی توفیق ملی اور 1992ءمیں خاکسار کی فیملی کو زیمبیا بھجوایا گیا جہاں پر آپ میرے ساتھ جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیتی رہیں۔زیمبیا میں مربی ہائوس کی تعمیر میں آپ کا بھرپور تعاون مجھے حاصل رہا۔ آپ صدر لجنہ زیمبیا کے طور پر لجنہ کو منظم کرنے اور ان کی تعلیم و تربیت میں بھی مصروف رہیں۔

اسی طرح 1995ء میں زیمبیا میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی توفیق ملی۔جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے کھانے کے جملہ انتظامات مرحومہ کے سپرد تھے اور انہوں نے بڑی عمدگی اور خوش اسلوبی سے ان انتظامات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

1995ءمیںہم زیمبیا سے واپس پاکستان آ گئے اور خاکسارکو بطور مربی سلسلہ بورے والا ضلع وہاڑی میں بھجوایا گیا۔خاکسارکی فیملی کو دارالنصر غربی کوارٹرز تحریک جدید میں رہائش ملی۔

جماعتی خدمات

ربوہ میں قیام کے دوران مرحومہ کو سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ حلقہ دارالنصر غربی (منعم )بنایا گیااور آپ نے اس شعبہ میں بھرپور کام کر کے بہت ساری بچیوں کو مجاہدۂ خاص میں شامل کروایا۔اور ناصرات کےلیے بھرپور کام کرنے کی توفیق پائی اسی طرح جب ہمارے کوارٹروں کا حلقہ علیحدہ ہو گیا تو آپ کو حلقہ حبیب کی سیکرٹری دعوت الی اللہ لجنہ بنایا گیا۔اس خدمت کےلیے وہ اکثر و بیشتر مکرم سہیل شوق صاحب مرحوم کے ساتھ ارد گرد کے دیہاتوں میں دعوت الی اللہ کےلیے جایا کرتی تھیںاور بڑی خوشی سے اپنے تبلیغی واقعات بیان کرتیں۔ لندن میں قیام کے دوران حلقہ سائوتھ چیم کی صدر لجنہ نے انہیں نگران حلقہ بنا دیااور اس خدمت کےلیے باقاعدگی کے ساتھ وہ اپنے حلقے کا اجلاس ہر ہفتے کرواتیں اور مکمل تیاری کر کے جاتیں اور اس طرح انہیں اپنے حلقہ کی لجنہ کی تعلیم و تربیت کی خدمت کی توفیق ملی۔الحمدللہ

جذبہ خدمت خلق

ربوہ میں قیام کے دوران مرحومہ نے اپنے آپ کو شعبہ تعلیم کے ساتھ وابستہ کر لیا اور سکول میں بطور ٹیچر کام کرنا شروع کر دیا۔ایسے بچے جو شرارتی اور نالائق ہوتے ان کو محبت پیار سے راہ راست پر لانااور ان کے دل میں تعلیم کا شوق پیدا کرنا ان کی خاص خوبی تھی۔اس لیے اکثربچے اور ان کی مائیں کہتیں کہ ہم نے ٹیچر صالحہ سے ہی پڑھنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مرحومہ دوسروں کی خدمت کر کے دلی خوشی محسوس کرتیں غریبوں کی مدد کرنا آپ کا شوق تھا۔گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کو تنخواہ سے بڑھ کر بعض اوقات دے دیتیں۔ خوشی کے موقع پر ان کو نیا سوٹ لے کر دیتیں۔جب کوئی بیمار ہوتا اس کی تیمارداری کےلیے فوراً پہنچتیں۔اس کی چند مثالیں میں پیش کر تا ہوں۔

٭…جب ان کی بڑی بہن مکرمہ ڈاکٹر صادقہ منصور صاحبہ بیمار ہوئیں تو ان کی تیمار داری اور خدمت کےلیے اپنی سکول کی ملازمت چھوڑ کرلاہور چلی گئیں اور اس وقت تک وہاںرہیں جب تک کہ اللہ نے ان کو شفا عطا فرما دی۔

٭…ہمارے حلقہ کی مکرمہ عقیلہ مغفور صاحبہ بیمار ہوئیں تو ان کے ساتھ لاہور گئیں اور ان کے علاج تک وہاں رہیں۔ اسی طرح ان کی مامو ںزاد بہن مکرمہ نعیمہ زوجہ مکرم ملک سعید احمد صاحب مربی سلسلہ بیمار ہوئیں تو ان کے ساتھ لاہور گئیں ۔

٭…خاکسار کے مامو ںزاد بھائی نصیر احمد ببی کا بازو ٹوٹ گیا تو اس کو لے کر ہسپتال پہنچیں اور اس کے علاج میں بھرپور مدد کی۔

٭…ایک مرتبہ میرا بھتیجا سلیمان شدید یرقان سے بیمار ہو گیا اسے لے کر فوراً ہسپتال پہنچیں اور اس کا علاج کروایا۔

٭…اسی طرح ان کے بھائی مکرم خدا بخش ناصر صاحب سخت بیمار ہو گئے ان کو اپنے گھر میں لے آئیں اور مکرم ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب سے ان کا علاج کرواتی رہیں۔اسی طرح ان کی ایک سہیلی بیوہ ہو گئیں تو ان کے ساتھ ہمدردی کا سلوک کرتے ہوئے باقاعدہ لندن سے رقم بھجواتی رہیں۔آپ نے اپنی ایک بھتیجی جس کی والدہ وفات پا چکی تھیں اس کو اپنے گھر پر رکھ کر تعلیم دلوائی اور جب اس کی منگنی ہوئی تو اس کی شادی کےلیے پچاس ہزار روپے بھجوائے۔

٭…اسی طرح محلے کے میٹرک تک کے بچے اور بچیوں کو اپنے گھر پر بلا کر بغیر ٹیوشن کے ریاضی پڑھایا کرتیں جو ان کا پسندیدہ مضمون تھا۔

٭…آپ نے اپنا زیور بیچ کر اپنے ایک دیور کی شادی کے جملہ انتظامات کیے۔

رشتہ داروں سے حسن سلوک

مرحومہ اپنے میکے اور سسرال دونوں طرف کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنے میں سب سے آگے تھیں اور ان کی خوشی اورغمی کے مواقع پر ضرور شامل ہوتیں خواہ کتنی تکلیف اٹھا کرربوہ سے گائوں ادرحماں جانا پڑے۔ رحمی رشتوں کو قائم رکھنا اور ان کو نبھانا انہیں خوب آتا تھا۔اگر کوئی ان سے کوئی تعلق نہ رکھتا یا اچھا سلوک نہ کرتا تو بھی کہتیں کہ آنحضرت ﷺ کا حکم ہے کہ رحمی رشتوں کو قائم رکھو۔اس طرح خودان کو فون کر کے یا ان کے گھر پر جا کر ان سے تعلق قائم کرتیں۔اور اسی طرح ان کے سسرال میں اگر کوئی بچی ناراض ہو کر میکے آجاتی یا کوئی اور ناراضگی ہوجاتی تو وہاں جا کر بچی اور اس کے والدین کوبڑی خوش اسلوبی اور پیارسے سمجھا کراپنے گھر بھجواتیں اور جہاں ناراضگی ہوتی اس کو صلح میں بدل دیتیں۔ مرحومہ نے خاکسار کے ساتھ زندگی کے 42سال گزارے اور اس عرصہ میں اطاعت اور وفاداری کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔کبھی مجھ سے جھگڑا یا لڑائی نہیں کی اور مجھے جماعتی کاموں یا دینی کاموں میں جانے سے روکا نہیں۔بلکہ یہاں تک کہ آخری بیماری کے ایام میں خاکسار ظہر کی نماز کےلیے یا نماز تراویح کےلیے مسجد بیت الفتوح جاتا تو کئی گھنٹے وہاں گزر جاتے۔انہوں نے کبھی اس کا برا نہیں منایا بلکہ کہتیں تم نماز یا جماعتی کام کےلیے جائو اللہ میری حفاظت فرمائے گا۔ان شاء اللہ۔

مرحومہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والی اورخدا کی نعمتوں کو یاد کر کے اس کا شکر ادا کرنے والی تھیںہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ میرے خدا نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں بنایااورمیرے پاس سے کبھی پیسے ختم نہیں ہوئے۔آپ کادل بداخلاق جیسے بغض،کینہ،حسد ،تکبر اورغیبت سے پاک تھا۔کبھی ان کے سامنے کوئی دوسرے کی بری بات یا غیبت کرتا تو فوراًاس کو روک دیتیں بلکہ ہر ایک کی خوبیوں کو بیان کرتیں اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے خوشی سے دوسروں سے ملتیں۔جب کبھی آپ باہر سے گھر آتیں تو European مستورات ان کے احترام کےلیے کھڑی ہوجاتیں ان کو گلے لگاتیں اور ان سے پیار کرتیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔

مالی قربانی

مرحومہ کو خلافت سے والہانہ محبت تھی جب بھی خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی تحریک ہوتی تو اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں مثلاً تحریک جدید اور وقف جدید کے چندہ جات میں نمایاں حصہ لیتیں بلکہ میرے والدین اپنے والدین ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر بھی باقاعدگی کے ساتھ چندہ جات ادا کرتیں۔سال کے شروع میں ہی اپنے چندہ جات ادا کر دیتیں مرحومہ نے چارمرتبہ اپنا زیور مساجد کی تعمیر کےلیے پیش کیا۔ایک مرتبہ کینیا میں قیام کے دوران تقریباً تین تولے، دوسری مرتبہ زیمبیا میں قریباًاسی قدر اور تیسری مرتبہ لندن میں قیام کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے ملاقات کے دوران اپنا زیور حضور کی خدمت میں پیش کیا۔حضور نے دریافت فرمایا کہاں خرچ کرنا ہےتو عرض کی جہاں حضور پسند فرمائیں۔چوتھی مرتبہ مسجد بیت الفتوح کے ایک حصہ کی تعمیر نو کےلیے تحریک ہوئی تو جو زیوران کی والدہ کی نشانی کے طور پر تھاوہ بھی لجنہ کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری طرف سے مسجد کے فنڈ میں دے دیں۔

عبادات

نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرتیںاور اپنی نمازیں لمبی پرسوز اور رقت کے ساتھ پڑھتیں۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا رَبِّ کُلّۡ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَ بِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانصُرْنیِ وَارْحَمْنِیْ اکثر پڑھتی رہتیں۔ گھر میں باجماعت نماز پڑھا کرتیں اور یہاں تک کہ آخری شدید بیماری کے دنوں میں بھی جب ہم نماز پڑھنے کےلیے کھڑے ہوتے تو کہتیں کہ مجھے بھی اٹھا کر بٹھا دو تاکہ میں بھی باجماعت نماز پڑھ لوں۔اور اپنے بچوں کو اکثر باجماعت نماز پڑھنے کی نصیحت کرتیں۔تلاوت کلام پاک تو ان کی روح کی غذاتھی۔جب Dialysis کےلیے جاتیں جو کم از کم چار گھنٹے کا دورانیہ ہوتا تھا اس میں اکثر اپنے آئی پیڈ پر قرآن کریم کی تلاوت کرتیں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرتیں۔

علالت کے آخری ایام،وفات و تدفین

مرحومہ کے گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے 2013ءسےDialysisہو رہے تھے۔اس وجہ سے ہی بعض دیگر بیماریوں مثلاً اعصابی کمزوری اور low blood pressure میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ مارچ کے آخر میں پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے اور سینہ کے انفیکشن اور بلڈ پریشر لو ہونے کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوئیں۔اور تقریباً ایک ماہ تک آئی سی یو میں رہیں۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل ،حضور پر نور کی دعائوں اور صدقہ و خیرات سے ان کی شفایابی کے سامان پیدا فرمائے اور گھر پر آگئیں۔اس کے بعد دوبارہ وہی تینوں بیماریاں حملہ آور ہوئیں۔اور 2؍جون کو ہسپتال داخل ہوئیں۔آخری تین ایام گہری غنودگی اور بیہوشی میں گزرے اور 6؍جون 2019ءکی رات کو اللہ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ مرحومہ کی وفات کے وقت مرحومہ کا بیٹا عطاالمنان کاشف اور ان کا بھتیجا عطاء اللہ ان کے پاس موجود تھے ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

بیماری کے دوران مرحومہ کے دونوں بیٹوں عطاء المنان کاشف اور تنویر الظفر نے تیمار داری اور خدمت کا حق ادا کر دیااور اپنی والدہ کے ہر حکم کی من و عن تعمیل کی ۔جو بھی وہ کہتیںفوراً پیش کر دیا اور کبھی ان کے سامنے اف تک نہیں کی۔اللہ تعالیٰ ان کے دونوں بیٹوں کو اس کی بہترین جزا عطا فرمائے۔اسی طرح ان کے حلقہ کی مستورات نے ان کی خدمت کی توفیق پائی۔اللہ تعالیٰ سب کو احسن جزا عطا فرمائے۔

مرحومہ موصیہ تھیں اور ان کی وصیت تھی کہ ان کی تدفین ربوہ پاکستان میں ہو۔ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اسلام آباد میں مرحومہ کی نماز جنازہ پڑھائی اورجنازے سے قبل خاکسار کی ساری فیملی کے افراد کو شرف ملاقات بخشااور تعزیت فرمائی۔نیز حضور پُر نور نے ازراہ شفقت مرحومہ کی بہشتی مقبرہ دارالفضل میںتدفین کی اجازت عطا فرمائی۔خاکسار کے دونوں بیٹے جنازہ کو لے کر 11؍ جون کو ربوہ پاکستان پہنچے اور مکرم ناظر صاحب اعلیٰ نے بعد نماز عصر مسجد مبارک ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد مکرم قمر احمد کوثرصاحب نے دعا کروائی۔

ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے12؍جون 2019ءکے خط میں خاکسار سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے فرمایا

’’آپ کا خط ملا آپ کی اہلیہ کی وفات کا بہت افسوس ہوا ہے۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون ۔اللہ تعالیٰ مرحومہ کو مغفرت اور رحمت کی چادر میں لپیٹ لے اور آپ کو ان کی جدائی کا صدمہ صبر سے برداشت کرنے کی توفیق دے۔اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور سب لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔میری طرف سے تمام اہل خانہ سے دلی تعزیت کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو۔آمین‘‘

درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو اپنی رضا اور خوشنودی کی اعلیٰ جنتوں کا وارث بنائے اور ہمیں ان کےلیے دعائیں کرنے اور ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button