اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
مارچ اور اپریل2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
تین احمدیوں کے خلاف پولیس مقدمہ
شوکت آباد کالونی، ضلع ننکانہ صاحب مئی 2020ء
تین احمدیوںشرافت احمد (صدر جماعت)اکبر علی اور طاہر نقاش (معلم سلسلہ) کے خلاف مورخہ 3؍مئی 2020ء کو PPCs298-B ,298-Cکی دفعات کے تحت مانگٹانوالہ پولیس اسٹیشن میں مقدمہ دائرکیا گیا ہے۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ احمدیہ مسجد کے ساتھ ملحقہ ایک کمرہ کی تعمیر جاری تھی کہ چند مخالفین جماعت نے زیر تعمیر جگہ پر آکر کمرہ وغیرہ کا معائنہ شروع کر دیا اور مسجد میں موجود کتابوں اور قرآن کریم کی تصاویر اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں اور کچھ دیر کے بعد یہ مخالفین جماعت وہاں سے چلے گئے۔ اس کے بعد پولیس نے موقع پر آکر قرآن کریم اور احادیث کی کتب کو اپنے قبضہ میں لے لیا جبکہ یہ کتب احادیث جماعت کی طرف سے شائع شدہ نہ تھیں۔ چنانچہ اس کے اگلے روز مذکورہ تین احمدیوں کے خلاف پولیس کیس قائم کر دیا گیا۔ اس کیس کی ایف آئی آر میں مذکورہ احمدیوں کو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے اورمسلمان مسجد کی طرح تعمیر کرنے اور کلمہ طیبہ لکھنے نیز اپنے پاس قرآن رکھنے کا ‘ملزم’ ٹھہرایا گیا۔
یہ امر ظا ہر ہے کہ پولیس کی یہ کارروائی شر پسند عناصر کے ایما پر اس وقت کی گئی ہے جبکہ علاقہ میں کووِڈ19کی وجہ سے لاک ڈاؤن تھا۔ اب اس کیس میں عدالت کی طرف سے بے قصور احمدیوں کو 3سال قید کے ساتھ جرمانہ ادا کرنے کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
کووڈ19کی عالمی وبا کے دوران جماعت احمدیہ کی طرف سے کی جانے والی خدمت خلق پر ملّاں کا طرز عمل
ربوہ، اپریل2020ء: جماعت احمدیہ نے اپنے قیام سے لے کر آج تک ہمیشہ رنگ و نسل اور ذات و مذہب سے بالا تر ہو کر انسانیت کی خدمت کی ہے اور یہی جماعت کا طرۂ امتیاز ہے۔ چنانچہ ایک عالمگیر جماعت ہونے کی وجہ سے خدمت خلق کے لیے جماعت کی مساعی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی جاری رہی ہیں۔
پاکستان میں ملاں نے جماعت کی خدمت خلق کے تحت کی جانے والی مساعی کو سبوتاژ کرنے کے لیے جماعت پر یہ الزام لگا نا شروع کر دیا ہے کہ جماعت احمدیہ ریلیف کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنا لٹریچر بھی تقسیم کر رہی ہے۔ پاکستان میں خدمت انسانیت کے ان کاموں کو روکنے کے لیے ملاؤں نے دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں کہ جماعت اپنے ریلیف کاموں سے باز آجائے کہ اس کا رد عمل سخت ہو سکتا ہے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ملا طاہر اشرفی چیئر مین پاکستان علماء کونسل نے اپنے ایک بیان کی ویڈیو بھی انٹر نیٹ پر جاری کی ہے جس میں جماعت کے خلاف درج ذیل نفرت آمیز بیانات دیے اور جماعت کے خلاف عوام الناس کو بھڑکایا ہے۔
ملا طاہر اشرفی نے اس ویڈیو میں کہا ہے کہ
٭…میں نے قادیانیوں کو یورپی یونین، خطہ ٔعرب اور پوری دنیا میں چیلنج دیا ہے اور انہیں مکمل شکست دے دی ہے۔
٭…ہمارے نوجوانوں کو قادیانیوں کا تعاقب کرنا چاہیے۔
٭… نیز اس ویڈیو میں اس ملا نےجماعت احمدیہ کے خلاف نوجوانوں کو اکسانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
روزنامہ جنگ نے بھی تحریک ختم نبوت کے ملاؤں کےجماعت مخالف بیانات کو شائع کیاہے۔ ان ملاؤں کی جانب سے جماعت مخالف ایک پمفلٹ بھی انٹرنیٹ پر وائرل کیا گیا جس میں ذکر تھا کہ
٭…قادیانیوں کو کورونا وائرس کی ٹائیگر فورس میں رجسٹر کرنا مسلمانوں کے ایمان پر حملہ کرنا ہے۔
٭…قادیانی اپنے عقائد کے پرچار، اور مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے اس فورس میں شامل ہو رہے ہیں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی جانب سے zoom پر جماعت کے خلاف نفرت انگیز ویڈیو دکھائی گئی جس میں ہیومینٹی فرسٹ کے ریلیف کےکاموں کوبھی اپنے بغض کا نشانہ بنا یا گیا۔
یقیناًجماعت احمدیہ کی مخالفت میں سرکاری اور غیر سرکاری ملاؤں کا گٹھ جوڑ ہے اور جماعت احمدیہ سے یہ ملاں خائف ہیں۔
ملاؤں کی جانب سے ریلیف کا کام کرنے والے ورکرز کو ایک ویڈیو کے ذریعہ پیغام دیا گیا کہ وہ پوری احتیاط کریں کہ کہیں کوئی احمدی پروڈکٹ(product) ان کے راشن بیگز میں نہ چلی جائے۔
روزنامہ امت جو کہ جماعت مخالف نفرت انگیزی میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہےاس موقع پر اس کی جانب سے جماعت کے خلاف شر انگیز رویہ دیکھنے کو ملا چنانچہ اس نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ قادیانی سوشل ویلفیئر کے نام پر عوام الناس کو پھسلا رہے ہیں اور ملک کے پسماندہ علاقے ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ان تما م مخالفتوں کے باوجود جماعت احمدیہ خدمت خلق کا فریضہ ادا کر رہی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں جماعت ا حمدیہ ریلیف کے کاموں میں مصروف عمل ہے۔ اس حوالے سے جماعت احمدیہ پاکستان کی ایک پریس ریلیز الفضل انٹر نیشنل کی 5؍مئی 2020ء کی اشاعت میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جماعت احمدیہ اور اقلیتی کمیشن
جماعت احمدیہ کے ساتھ سیاسی اور بنیادی شہری حقوق کے حوالے سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اس کی ایک جھلک اپریل کے مہینہ میں دیکھنے میں آئی۔
مارچ کے آخر میں میڈیا پر ایک خبر وائرل ہوئی کہ حکومت نے جماعت احمدیہ کو نیشنل کمیشن برائے اقلیتی امور میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ اس حوالےسے 29؍ مارچ2020ءکو 92نیوز چینل نے ایک بریکنگ نیوز بھی دی۔
اس خبر پر پہلا رد عمل ملا عبد العزیز خطیب لال مسجد کی طرف سے آیا جس نے حکومت کے اس فیصلہ کی تعریف کی اور اس کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ ملا طاہر اشرفی چیئر مین علماء کونسل نے بھی اس معاملہ میں اپنا حصہ ڈالا اور اپنی ایک ویڈیو اپلوڈ کی جس میں کہا کہ قادیانی آئین کو نہیں مانتے(یقیناً یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔ آئین کی کسی ایک شق سے اختلاف کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ احمدی مسلمان آئین پاکستان کو ہی نہیں مانتے)۔
ملااشرفی نے مزید کہا کہ حکومت کو بھی اعلان کرنا چاہیے کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم کے طور پر اقلیتی کمیشن میں شامل کر رہی ہے اسی طرح قادیانیوں کو اس کمیشن میں شامل ہونے کے لیے یہ اعلان کرنا ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہیں۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جس کا شیوہ ہی جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت اور شر انگیز ی پھیلانا ہے، نے اس معاملے پر اپنی ایک پریس ریلیز شائع کی کہ حکومت کا یہ اقدام قادیانیت نوازی کا ایک ثبوت ہے اور اس کے ذریعہ قادیانیوں کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس معاملہ میں حکومتی اتحادی چودہری برادران نے پوری طرح ملاؤں کا ساتھ دیا نیز حکومتی وزیر علی محمد خان نے اس معاملہ پر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قادیانیت اسلام کے خلاف ایک عظیم فتنہ ہے۔
وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ ہم ختم نبوت کو اپنے ایمان کا لازمی جزو سمجھتے ہیں اور اس کے لیے ہم ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔ اس ایشو کی مذہبی اور تاریخی طور پر حساسیت کی وجہ سے تجویز کیا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کو نیشنل کمیشن برائے مذہبی امور میں شامل نہ کیا جائے۔
اس مخصوص معاملہ سے ہٹ کربھی دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ اگر ملاں کسی ایشو کو حساس قرار دیں تو حکومت پاکستان قومی مفاد کو بالائے طاق رکھنے کو تیار ہوتی ہے۔
چنانچہ اس معاملہ پر 5؍مئی2020ءکو KashifMDکی جانب سے ایک دلچسپ ٹویٹ کی گئی کہ
’’پاکستان میں خوش آمدید کہ جہاں مذہبی اقلیتوں کو اقلیتی فورم پر بھی اپنی آواز اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ ‘‘
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ اس بنیادی اصول پر قائم ہے کہ ریاست کے پاس کسی کے بھی ایمان کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور نہ ہی کبھی ہم نے اقلیتی حیثیت کو مانا ہے نیز یہ کہ نہ ہی ہم ایسے فورمز پر بیٹھنا گوارا کرتے ہیں۔ یقیناً دوسری ترمیم یا اس جیسی دیگر جماعت کے خلاف کی جانے والی امتیازی قانون سازیاں بنیادی انسانی حقو ق کے خلاف ہیں۔
عالمی وبا کے وقت میں بھی شر پسند کارروائیاں
اسلام آباد، اپریل 2020ء:سینئر فزیشن ڈاکٹر نقی الدین صاحب کا کووڈ 19کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔ چنانچہ ان کی تدفین مقامی احمدی قبرستان میں ہوئی۔ مرحوم ڈاکٹر صاحب اپنے کمال تجربہ اور مریضوں کے ساتھ نیک سلوک کی وجہ سے علاقہ بھر میں مشہور تھے۔ چنانچہ باوجود اپنے بڑھاپے کے آپ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت میں اپنےفرائض سر انجام دیتے رہے اور بالآخر وائرس کا نشانہ بن گئے۔
مورخہ 20؍اپریل 2020ء کو تحریک ختم نبوت کے دو شریر افراد مقامی قبرستان میں آئے اور آکر کہنے لگے کہ حکومتی حکام نے انہیں بھیجا ہے تا کہ ڈاکٹر نقی الدین صاحب کی قبر کا معائنہ کریں۔ اس پر پولیس کو اطلاع دی گئی تو مقامی ایس ایچ او نے کہا ان لوگوں کے پاس قبر کو دیکھنے کی کوئی بھی حکومتی اجازت نہ ہے، انہوں نے جھوٹ بولا ہے اور متعلقہ افسر کا خیال تھا کہ ان شریروں کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں لہٰذا ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر نقی الدین صاحب جو کہ پرائیویٹ طور پر اپنا کلینک چلاتے تھے اور وبا کے دنوں میں ان پر کسی طور پر بھی لازم نہ تھا کہ وہ کلینک کھولتے لیکن چونکہ ان کا کلینک اسلام آباد کے اس علاقہ میں تھا جس کے قرب و جوار میں بسنے والے کم آمدنی رکھنے والے لوگ میڈیکل کا خرچ برداشت نہ کر سکتے تھے اس لیے ڈاکٹر صاحب اس وقت تک دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے جب تک کہ ان کا اپنا ٹیسٹ مثبت آگیا اور اس کی علامات ظاہر ہو گئیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ باوجود اس کے کہ وبا کی وجہ سے سخت حالات پیدا ہو گئے ہیں، احمدی مخالف شر پسند عناصر سے پھر بھی محفوظ نہیں بلکہ خاص طور پر ایسے احمدی ہیروز بھی جنہوں نے انسانیت کی خدمت کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا اپنی قبروں میں بھی ان شرارتوں سے محفوظ نہیں۔
ایک احمدی کی عام قبرستان میں تدفین روک دی گئی
کھریپڑ ضلع قصور، 13؍اپریل2020ء:یہاں ایک جماعت مخالف گروہ ملاؤں کے زیر سایہ جماعت کے خلاف سرگرم ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ قبل اس گروہ نے حکومتی کارندوں کےتعاون سے احمدیہ مسجد پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔ 13؍اپریل 2020ء کو ایک احمدی سید بلال احمد کی وفات ہوگئی تھی جو کہ ایک لمبے عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ ان کی تدفین جب ایک مقامی قبرستان میں ہو رہی تھی تو جماعت مخالف گروہ نے آکر جماعت کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا اور تدفین کرنے سے روک دیا۔ اس پر احباب جماعت کی شدید دلآزاری ہوئی اور کسی اَور جگہ تدفین کر نی پڑی۔
ایک احمدی عقیدہ کی بنیاد پر ہراساں
رحیم نگر ضلع ننکانہ، 17؍مارچ 2020ء:عطاء العزیزاپنی مقامی جماعت کےصدر ہیں۔ انہیں اپنے عقیدے کی بنیاد پر علاقے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کے مخالفین نے انہیں ڈکیتی کے جھوٹے مقدمہ میں پھنسانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ چنانچہ انہوں نے ایک اور کیس عطاء العزیز کے خلاف کر دیا جس میں ان پرالزام لگا یا کہ انہوں نے اپنے ایک مخالف پر تیزاب پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ اس کیس میں علاقہ کی پولیس نے عطاء العزیز کے مخالفین کا پورا ساتھ دیا اور اس جھوٹے کیس کی بناپر ان کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن ان کو گرفتار نہ کر سکی۔ اگلے روز موصوف اس جھوٹے کیس میں اپنی ضمانت کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب پولیس معاملہ کی چھان بین کر رہی ہے۔ موصوف کو آئے دن مخالفین کی جانب سے من گھڑت رپورٹس کا سامنا ہے۔ یہ تمام صورت حال ننکانہ پولیس کی اہلیت اور اس کی کار گذاری پر ایک سوالیہ نشان ہے !
رمضان المبارک اور وبا کے دنوں میں شر انگیزی
گرین ٹاؤن لاہور، 28؍اپریل 2020ء:چند اوباش نوجوان جن کی عمریں 15سے 18سال تھیں مسجد کے قریب آئے اور مسجد کے دروازے پر پتھر پھینکنے شروع کر دیے۔ اسی طرح اس روز نماز عشاء کے وقت یہ اوباش نوجوان پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں آئے اور دوبارہ پتھر پھینکنے شروع کر دیے اور پھر واپس چلے گئے۔ اس کی اطلاع بااثر افراد کو کی گئی جس پر ان نوجوانوں کے والدین کو متنبہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ حکومتی حکام ان ملاؤں یا تنظیم کا پتاچلائیں جنہوں نے ان نوجوانوں کو رمضان المبارک اور وبا کے دنوں میں ایسی شرارتیں کرنے پر انگیخت کیا ہے۔
٭…٭…٭