ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط 38)
روحانی رزق کے لئے محنت درکار ہے
’’یادرکھو۔ اصلاح کے لئے صبر شرط ہے۔ پھر دُوسری بات یہ ہے کہ تزکیۂ اخلاق اور نفس کا نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ کسی مزکی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے۔ اول دروازہ جو کھلتا ہے.وہ گندگی دُور ہونے سے کھلتا ہے۔ جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں۔ لیکن جب کوئی تریاقی صحبت مل جاتی ہےتو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دُور ہونی شروع ہوتی ہے۔کیونکہ پاکیزہ رُوح جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں رُوح القدس کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ تعلق نہیں ہوسکتا جب تک کہ مناسبت نہ ہو۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تعلق کب پیدا ہو جاتا ہے۔ ہاں! خاک شوپیش ازانکہ خاک شوی پر عمل ہونا چاہیے۔ اپنے آپ کو اس راہ میں خاک کردے ۔اور پورے صبر اور استقلال کے ساتھ اس راہ میں چلے۔آخر اللہ تعالیٰ اس کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور اس کو وہ نور اور روشنی عطاکرے گا جس کا وہ جو یا ہوتا ہے۔ مَیں تو حیران ہوجاتا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کیوں دلیری کرتا ہے جبکہ وہ جانتا ہے کہ خداہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 229-230)
*۔اس حصہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شیخ سعدی کے شعر کا یہ مصرع
خَاکْ شَوْ پِیْش اَزْاَنْکِہْ خَاکْ شَوِیْ
استعمال کیاہے۔
گلستان سعدی میں باب دوم ’’اخلاق درویشان ‘‘میں ایک حکایت کے آخر پر ایک شعر ہے جس کا یہ دوسرا مصرع ہے۔پو را شعر مع حکایت ذیل میں درج ہے۔
حکایت
رِندوں کا ایک گروہ ایک درویش کی مخالفت پر آمادہ ہوگیا اور اس کو برا کہا ،پیٹا اور ستایاوہ اپنی لاچاری کی شکایت پیر طریقت(روحانی پیشوا)کے پاس لے گیا کہ میری یہ حالت ہوئی ۔اُس نے کہا اے بیٹا فقیروں کی گدڑی رضا کا لباس ہے۔ جو اس لبا س کو پہن کر نامرادی کی برداشت نہ کرے۔وہ خواہ مخواہ کا دعویدار ہےفقیر نہیں ہے ۔اور گدڑی پہننا اس پر حرام ہے۔اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو برداشت کر کیونکہ معاف کرکےتو گناہ سے پاک ہوجائے گا۔
اَےْ بَرَادَرْ چُوْ عَاقِبَتْ خَاکَ سْت
خَاکْ شَوْ پِیْش اَزْ آنْ کِہْ خَاکْ شَوِیْ
ترجمہ:۔اے بھائی جب انجام کار خاک ہونا ہے۔تو خاک بننے سے پہلے خاک بن جا۔
٭…٭…٭