متفرق مضامین

علم حدیث اور فقہ کے مشہور عالم دین حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کا تعارف

(باسل احمد بشارت)

نام ونسب

آپ کا نام مالک، کنیت ابو عبداللہ، لقب امام دارالہجرت تھا۔ آپ کے والد محترم کا نام انس تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث بن غیمان بن خثیل بن عمرو بن الحارث۔

آپ کا نسب یمن کے مشہور قبیلہ حمیر بن سبا سے ملتا ہے جس کا تعلق یعرب بن قحطان سے تھا۔ بعض کے نزدیک امام مالک کا خاندان موالی میں سے تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام عالیہ بنت شریک بن عبدالرحمان ہے جن کا تعلق قبیلہ ازد سے تھا۔

پیشگوئی رسولﷺ کے مطابق ولادت

ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :

يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُوْنَ الْعِلْمَ فَلاَ يَجِدُوْنَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ الْمَدِيْنَةِ۔

(ترمذی ابواب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِي عَالِمِ الْمَدِينَةِ)

یعنی عنقریب لوگ علم حاصل کرنے کے لیے (دور دراز سے) اونٹوں پر سفر کریں گے۔ وہ لوگ مدینہ کے عالم سے کسی کو علم میں زیادہ نہیں پائیں گے۔

امام ترمذی اس کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابن عیینہ ہی سے منقول ہے کہ اس عالم مدینہ سے مراد امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ ہیں…یحیٰ بن موسیٰ فرماتے ہیں، عبدالرزاق کا قول ہے کہ وہ عالم مالک بن انس ہیں۔

(ترمذی ابواب العلم بَابُ مَا جَاءَ فِي عَالِمِ الْمَدِينَةِ)

رسول اللہﷺ کی اس پیشگوئی کے مطابق امام مالک کی پیدائش 93ھ میں مدینہ منورہ میں مقام جرف پر قصر المقعد میں ہوئی۔ (وفاء الوفاء جزء4صفحہ1175)ان کےسن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے اورسن 93ھ سے97ھ تک مختلف روایات ملتی ہیں لیکن زیادہ معروف روایت یحیٰ بن بکیر کی ہے جس میں آپ کا سن پیدائش 93ھ بیان ہواہے جو اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کا زمانہ ہے۔

(الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب لابن فرحون(متوفی799ھ)جزء1صفحہ88)

شکل و شباہت

امام مالک خوش شکل، باریش، طویل قامت اورعظیم جسامت کے حامل تھے۔ ابو عاصم کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے بڑھ کر کوئی حسین محدث نہیں دیکھا۔

(ترتيب المدارك وتقريب المسالك لقاضی عیاض (متوفی544ھ) جزء1 صفحہ120)

عیسیٰ بن عمر مدنی کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کے چہرہ سے بڑھ کر کوئی سرخی و سپیدی نہیں دیکھی اور ان کے لباس سے زیادہ سفید کوئی لباس نہیں دیکھا۔ (ترتیب المدارک جزء1 صفحہ120)آپ لباس میں صفائی اور پاکیزگی کا بہت خیال رکھتے تھے۔

دینی معاشرہ میں پرورش

مدینہ منورہ رسول اللہﷺ کا مقام اور دارا لہجرت ہے۔ پہلی اسلامی ریاست کا مرکز اورتین خلفائے راشدین کا دارالخلافہ رہا، جہاں سے قرآن و سنت کے احکام جاری ہوتے تھے۔ اموی دَور میں بھی اس کی علمی حیثیت بدستورقائم رہی اور یہ علماء کا مرجع رہااورصحابہ کرامؓ کے شاگرد تابعین و تبع تابعین کی کافی تعداد یہاں موجودتھی۔ اسی عظیم الشان شہرمیں امام مالکؒ نے پرورش پائی جہاں قال اللہ اور قال الرسولؐ کا دور دورہ تھا۔

امام مالکؒ کی نشوونما ایسے عالم خاندان میں ہوئی جو سنت و حدیث اور فتاویٰ جمع کرنے میں مشغول رہتاتھا۔ آپ کے دادا بڑے تابعین اورکبار علماء میں سے تھے جنہوں نے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ،حضرت طلحہؓ اورحضرت عائشہؓ سے روایتیں بیان کی ہیں۔ البتہ آپ کے والد اس قدر معروف نہ تھے۔ امام مالکؒ بھی اپنے آباواجدادکی طرح مدینہ میں علم حدیث میں مشغول ہوئے اور فتاویٰ یاد کیے۔ آپؒ کوعلم حدیث اور فتاویٰ کاکچھ موروثی ترکہ بھی ملا لیکن مدینہ منورہ کے علماء و فضلاء سے کافی مستفیض ہوئے۔

تجارت

آپ کے والد تیر سازی سے کسب معاش کرتے تھے۔ (ترتیب ا لمدارک جزء1 صفحہ108)اور بھائی نضر کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھےجس میں آپ بھی اپنے بھائی کی مدد کیا کرتے تھے۔ انس بن عیاض بیان کرتے ہیں کہ ربیعہ اور امام مالک ہمارے ساتھ ایک دن مجلس میں بیٹھے توامام مالک کاتعارف نضر کے بھائی کی نسبت سے ہوا۔ لیکن جب علم کے میدان میں قدم رکھا اور بلند مقام حاصل کیا تو ہم نضر کوامام مالک کی نسبت سے مالک کا بھائی نضر کہنے لگے۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ131)

ابتدائی تعلیم اوراساتذہ

امام مالکؒ نے دستورزمانہ کے مطابق دینی تربیت حاصل کی۔ بچپن میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا۔ قراءت و تجوید مشہور قاری ابو ردیم نافع بن عبد الرحمٰن(متوفی:169ھ)سے سیکھی۔ پھر حفظ حدیث کا شوق پیدا ہواجس کاذکر آپ نےاپنی والدہ محترمہ سے کیا توآپ کی والدہ محترمہ نے بھی آپ کو تحصیل علم کی تحریص دلاتے ہوئے فرمایا کہ

’’ربیعہ کے پاس جاؤ اور ادب و شعر سے پہلےان سے علم حاصل کرو۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء 1صفحہ 130، الدیباج المذھب جزء1صفحہ 98)

چنانچہ اس وقت کے معروف محدث ربیعہ رائی (متوفی: 136ھ)سے آپ نے حدیث اورفقہ کی تعلیم حاصل کی اورجو سیکھتے اسے حفظ کر لیتے تھے۔

ابن ہرمز کی شاگردی

امام مالک مشہور عالم و محدث ابوداؤدعبد الرحمٰن بن ہرمز(متوفی:117ھ) کی مجالس سے بھی فیضیاب ہوئے۔ امام مالک بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز میرے والد محترم نے مجھ سے اور میرے بھائی سے ایک مسئلہ پوچھا۔ میرے بھائی نے تو درست جواب دیا لیکن میں درست نہ بتاسکا تو میرے والد محترم نے مجھے کہا کہ اِدھراُدھرشیوخ کے پاس آنے جانےنے تمہیں تحصیل علم سے غافل کردیا ہے۔ مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نےابن ہرمز کے پاس سات سال تک اکتساب علم کیا۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ131)

امام مالک اپنےاساتذہ میں سے ابن ہرمز سے ہی زیادہ متاثر تھے اسی لیے جس مسئلہ کا علم نہ ہوتا تو صاف اقرار کرتے کہ ’’لَا اَدْرِی‘‘ کہ مجھے نہیں معلوم۔ انہیں اس میں کبھی تامل نہ ہوا اور یہ بات آپ نے ابن ہرمز سے ہی سیکھی۔ چنانچہ امام مالک کہتے ہیں کہ’’میں نے ابن ہرمز کو سنا وہ کہتے تھے کہ ایک عالم کے لیے ضروری ہے کہ جو بات نہیں جانتا اپنے حاضرین کے سامنے صاف اقرار کرے جو لوگ اس کے پاس امڈ کر آتے ہیں ان کے سامنے یہ حقیقت کھول کر رکھ دے چنانچہ ان میں سے کسی سے اگر پوچھا جاتا جسے وہ نہیں جانتا تھا تو ہمیشہ کہہ دیتا مجھے نہیں معلوم۔ ابن وہب نے کہا کہ مالک اکثر مسائل میں جواب دے دیا کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ182)

ہیثم بن جمیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے مالک سے اڑتالیس مسائل دریافت کیے ان میں سے بتیس کے متعلق امام مالک نے فرمایا کہ لَا اَدْرِیکہ مجھے نہیں معلوم۔

(الدیباج المذھب فی معرفة اعیان علماء المذھب جزء 1صفحہ112)

خالد بن خداش کہتے ہیں کہ میں عراق سے آیا اور چالیس مسائل امام مالک سے پوچھے جن میں سے صرف پانچ کے جواب مجھے ملے۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ181)

نافع مولیٰ عبد اللہ بن عمرؓ سے اکتساب علم

امام مالک کے دَور میں مدینہ میں تابعین کافی تعداد میں موجود تھےاور آپ ان سے ملاقات کیا کرتے تھے۔ امام مالک نافع مولیٰ ابن عمرؓ کی مجالس میں بھی شامل ہوتےاور ان سے حدیث اور فقہ کے سوالات کیا کرتے اور حضرت ابن عمرؓ کے فتاویٰ و اقوال و آراء دریافت فرمایا کرتے اورانہیں لکھ لیا کرتے۔ اور حضرت ابن عمرؓ کے یہی اقوال و آراء اور اجتہادات پر امام مالک نے اپنی فقہ کی بنیاد رکھی۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ132)

مویلک سے مالک تک کا سفر

اسی طرح مشہور بزرگ حضرت صفوان بن سلیمؒ سے بھی آپ نے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ ایک دفعہ حضرت صفوان نے خواب میں دیکھا کہ وہ آئینہ دیکھ رہے ہیں اور اپنے شاگرد امام مالک سے اس کی تعبیر پوچھی تو امام مالک نے فرمایا کہ آپ جیسے عظیم بزرگ کا مجھ سے تعبیر کا پوچھنا قابل تعجب ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے۔ امام مالک نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ اپنی آخرت سنوار رہے ہیں اور قرب الٰہی کے سامان کررہے ہیں۔ صفوانؒ نے تعبیر سن کر خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ’’آج تم مویلک ہو اور اگر تم زندہ رہے تو تم مالک بن جاؤ گے اور جب تم مالک بن جاؤ تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ ‘‘امام مالک بیان کرتے ہیں کہ لوگ مجھےپہلےمویلک کہہ کر پکارتے تھے۔ جب صفوان بن سلیم نےمجھ سےسوال کیا تو کہا اے ابوعبداللہ!تو پہلی بار اس موقع پر مجھے ابوعبد اللہ کی کنیت سے پکارا۔

(ترتیب المدارک جزء1 صفحہ145)

زہری سے تحصیل علم

امام مالکؒ نے ابن شہاب زہری سے بھی علم حاصل کیا۔ امام زہری سےاستفادہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے حتیٰ کہ عید کے روز بھی آپ امام زہری کے گھر جاپہنچے اورکھانے کی دعوت پر فرمایا کہ مجھے کھانے کی حاجت نہیں صرف حدیث بیان فرمادیں۔ اس پر امام زہری نے سترہ احادیث بیان کیں اور کہا کہ ان احادیث کو بیان کرنے کا کیا فائدہ اگر تم انہیں یاد ہی نہ رکھ سکو۔ تو امام مالک نے اسی وقت ساری حدیثیں زبانی سنادیں۔ پھرایک دفعہ امام زہری نے چالیس احادیث لکھوائیں اور کہا کہ اگر تم انہیں یاد کرلو تو تم حفاظ میں شمار ہوگے۔ امام مالک نے کہا کہ میں یہ آپ کو ابھی سنا سکتا ہوں چنانچہ آپ نے وہ چالیس احادیث زبانی سنا دیں۔ اس پر ابن شہاب زہری نے فرمایا کہ

’’اٹھو تم علم کا خزانہ ہویا یہ کہا کہ تم علم کا بہترین ٹھکانہ ہو۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ134)

امام مالک کے مذکورہ بالامشہور اساتذہ کے علاوہ بھی بہت سے شیوخ تھے۔ انتخاب شیوخ میں امام مالک احتیاط کا پہلو مدنظر رکھتے تھے اور ثقہ اور ثبت محدثین سے اخذ حدیث کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ

’’یقینا ًیہ علم (حدیث) دین ہے پس دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے اخذ کررہے ہو۔ میں نےستّر ایسے علماء کو پایا جو کہتے تھے کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ان ستونوں کے پاس فرمایا اور مسجد نبویﷺ کی طرف اشارہ کرتے پھر بھی میں نے ان سے حدیث اخذ نہیں کی اگرچہ ان میں سے ہر ایک اس قابل تھا کہ اسے بیت المال سپرد کیا جاتا تو وہ اس کا امین ہوتا لیکن وہ اس لائق نہ تھے کہ ان سے حدیث لے لی جاتی۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ 136)

اس احتیاط کے باوجود امام مالک کے اساتذہ کی تعدادنو سو سے زائد ہے۔ علامہ ابن حجرؒ نے تھذیب التھذیب میں آپ کے53سے زائدمعروف اساتذہ کے نام تحریر کیے ہیں۔ جن میں سےچند یہ ہیں:عامر بن عبداللہ بن زبیر بن العوام، زید بن اسلم، صالح بن کیسان، ابو زناد، ابن مکندر، عبداللہ بن دینار، ایوب سختیانی، موسیٰ بن عقبة، ہشام بن عروة، عبداللہ بن فضل ہاشمی، مخرمہ بن بکیر، یحیٰ بن سعید انصاری وغیرہ۔

(تھذیب التھذیب لابن حجرجزء 10صفحہ5)

فتویٰ دینے میں احتیاط

روایات کے مطابق امام مالک نے سترہ سال کی عمر میں اپنی مجالس کا آغاز کیا اوراپنے شیوخ کی زندگی میں ہی فتویٰ دینا شروع کیا۔ ابن منذر بیان کرتے ہیں کہ نافع اور زید بن اسلم کی زندگی میں ہی امام مالک نے فتویٰ دینا شروع کردیا تھا۔ (الدیباج المذھب جزء 1صفحہ101-102) ابو نعیم ابو مصعب سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اس وقت تک فتویٰ نہیں دیا جب تک ستر علماء نے اس بات کی شہادت نہیں دی کہ میں اس کا اہل ہوں۔

(حلیة الاولیاء لابی نعیم جزء6صفحہ316، تزیین الممالک بمناقب الامام مالک لجلال الدین سیوطی صفحہ 26)

خلف بن عمر بیان کرتے ہیں کہ امام مالک خود فرماتے ہیں کہ میں تب فتویٰ دیتا تھا جب میں یہ پوچھ لیتا تھا کہ کوئی مجھ سے زیادہ جاننے والا بھی ہے کہ نہیں۔ میں نےربیعہ اور یحیٰ بن سعید سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے اس کی اجازت دی۔ میں نے کہا کہ اگر وہ منع کردیتے تو امام مالک نے کہا کہ میں رک جاتا۔کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ خود کو کسی چیز کا اہل سمجھے یہاں تک کہ وہ جان لے کہ کوئی اس سے بھی زیادہ عالم ہے کہ نہیں؟(حلیة الاولیاء جزء6صفحہ316)

معن بن عیسیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ

’’میں بھی ایک بشر ہوں، مجھ سے سہو ونسیان بھی ہوسکتا ہے پس میری رائے پر غور کیا کرو اور میری ہر بات جو کتاب اللہ اور سنت کے موافق ہو وہ لے لیا کرو اور میری ہر بات جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو اسے ترک کردیا کرو۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ183)

ابن وہب بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے تین لاکھ مسائل دریافت کیے تو انہوں نے اس کے تیسرے حصے یا نصف کے جواب دیے اور بقیہ کے بارہ میں فرمایا کہ لا احسن ولا ادری۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ183)

سعید بن سلیمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام مالک جب بھی فتویٰ دیتے تو پہلے اس آیت کی تلاوت کرتے:

اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ (الجاثية:33)

یعنی ہم اىک ظن سے بڑھ کر گمان نہىں کرتے اور ہم ہرگز ىقىن لانے والے نہىں۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 323)

مسجد نبویؐ میں درس و تدریس

امام مالک نے تحصیل علم کے بعد مسجد نبوی میں درس و تدریس کاآغازکیا۔ بیماری کی وجہ سے گھر میں بھی درس جاری رکھا۔ درس کے وقت امام مالک وقار اور سکون سے بیٹھتے کوئی لغو بات نہ ہوتی نہ کوئی اور غیرضروری بات۔ آپ کی مجالس بہت پروقار ہوتی تھیں۔ واقدی نے لکھا ہے کہ امام مالک کی مجلس پُروقار اور حلم کی مجلس تھی آپ ایک بارعب اور شریف الطبع شخص تھے۔ آپ کی مجلس میں کوئی پستی اور کسر شان کی بات نہیں ہوتی تھی کوئی آواز بلند نہیں ہوتی تھی جب کوئی سوال کرتا اور آپ جواب دیتے تو یہ نہیں کہا جاسکتا تھا یہ آپ نےکہاں سے بیان فرمایا ہے۔

(الدیباج المذھب جزء1صفحہ108)

آپ کی مجالس کا بھی ایک طریق تھا۔ حسن بن ربیع بیان کرتے ہیں کہ میں امام مالک کے دروازے پر گیا تو پکارنے والے نے کہا کہ اہل حجاز پہلےداخل ہوں تو صرف اہل حجاز سب سے پہلے داخل ہوئے پھر آواز آئی کہ اہل شام آئیں تو اہل شام داخل ہوگئے پھر اہل عراق کی باری آئی اور سب سے آخر میں میں داخل ہوا اور ہم میں حماد بن ابی حنیفہ بھی تھے۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ30)

آپ کے حلقۂ درس میں دوردراز سے طالب علم شامل ہوتے۔ آپ کی مجلس میں خاص و عام کی تمیز نہ تھی۔ ایک دفعہ ہارون الرشید مدینہ آئے اورامام مالک کو پیغام بھیجا کہ وہ مؤطا سننے کے خواہشمند ہیں تو امام مالک نے انہیں اگلے دن کا وقت دیا۔ اگلے روز ہارون الرشید منتظر رہا کہ امام مالک آئیں گے لیکن امام مالک اپنی مجلس درس میں ہی تشریف فرما رہے۔ ہارون الرشید نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ ’’العلم یزار ولا یزور ان العلم یؤتی ولا یأتی‘‘ کہ علم کی زیارت کی جاتی ہے نہ کہ وہ لوگوں کی زیارت کرتا ہے یعنی علم کے پاس لوگ آتے ہیں نہ کہ علم لوگوں کے پاس جاتا ہے۔ چنانچہ ہارون الرشید کو وہیں آکر موطا سننا پڑی اور ایک دن اس نے کہا کہ جس دن میں آؤں عام لوگ اس دن نہ آیا کریں تو امام مالک نے فرمایا کہ اگرعلم عوام کے لیے خواص کی خاطر روک دیا جائے تو یہ خواص کو بھی کوئی نفع نہیں دے سکتا۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ21تا23)

طریق درس

امام مالک کے ایک کاتب ابن حبیب مشہور محدث تھے جو امام مالک کے بہت قریبی تھے۔ ان کے علاوہ کسی کو امام مالک کی تصنیفات اورعلمی کاموں کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ وہ مؤطا لے کر اس کی حدیثیں لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے اور جہاں وہ غلطی کرتے امام مالک اس کی تصحیح فرما دیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار امام مالک خود بھی مؤطا طلبہ کے سامنے پڑھ کر سنا دیا کرتے تھے۔

(طبقات ابن سعدجزء5صفحہ469، الدیباج المذھب جزء1صفحہ108)

بادشاہوں سے تعلقات

امام مالک نے بنوامیہ اور بنوعباس کا ایک طویل دور پایا۔ بنو امیہ میں سے ولید بن عبد الملک، سلیمان، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ، یزید بن عبد الملک، ہشام، ولید بن یزید، یزید بن ولید، ابراہیم بن ولید، مروان بن محمد بن مروان کا دور دیکھا۔ 125ھ میں ہشام کی موت کے بعد آٹھ سال کے اندر اندر بنو امیہ کی جگہ بنو عباس نے لے لی اور یوں 132ھ میں خلافت عباسیہ کا قیام ہوا اور اس کے بانی ابو العباس سفاح کے ساڑھے چار سالہ دو رکے بعد ابوجعفر منصور136ھ میں خلیفہ ہوئے اور ابومسلم خراسانی کو شکست دے کر بنو عباس کی حکومت کو استحکام بخشا اور بغداد کو دارالخلافہ بنایا۔ ابو جعفر کے بعد مہدی، پھر موسیٰ ہادی اور اس کے بعد ہارون الرشید برسراقتدار آئے۔

امام مالک ان تمام بادشاہوں سے اچھےتعلقات استوار رکھنے کے قائل تھے۔ جس کا مقصد محض یہ تھا کہ کسی قسم کا انتشار نہ پھیلے اوران بادشاہوں کی غلطیوں پرانہیں توجہ دلاکراصلاح کی جاسکے اور انہیں عدل و انصاف پر قائم رہتے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کی تلقین کی جاسکے۔ چنانچہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ ظالم و جابر حکمرانوں کے پاس بہت آتے جاتے ہیں؟ تو فرمایا کہ ’’یرحمک اللّٰہ فاین التکلم بالحق؟‘‘ کہ اللہ تم پر رحم کرے اگر ان کے ہاں کلمہ حق نہیں کہوں گا تو پھر کہاں کہوں؟

امام مالک فرماتے تھے کہ ’’ہر مسلمان یا ایسا شخص جسے اللہ نے علم اور فقہ میں سے کچھ عطا کیا ہے، پر واجب ہے کہ وہ جب کسی بادشاہ کے پاس جائے تو اسے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اسے نصیحت کرے یہاں تک کہ کسی عالم کا موجود ہونا ظاہر ہوجائے کیونکہ عالم بادشاہ کے پاس اسی طرح داخل ہوتے ہیں اور اگر ایسا ہوتو اس سے بڑھ کر کوئی فضل والی بات نہیں ہوسکتی۔ ‘‘

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ95)

ابوجعفر منصور تو آپ کے ہم مکتب بھی رہے۔ امام مالک خود کہتے ہیں کہ میں ابو جعفر منصور کے پاس کئی دفعہ گیا ہوں لیکن کبھی اس کے ہاتھ پر بوسہ نہیں دیا حالانکہ کوئی ہاشمی و غیرہاشمی ایسا نہ تھا جو اس کے ہاتھ پر بوسہ نہ دیتاہو۔

( الجرح والتعدیل جزء1صفحہ 25)

ایک دفعہ آپ ہارون الرشید کے پاس گئے اور اسے مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کی ترغیب دلائی اور اسے کہا کہ

’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ باوجود اپنے فضل اور بزرگی کے عوام الناس کے لیے چولہے کے نیچے آگ جلانے کے لیے پھونکیں مارا کرتے تھے یہاں تک کہ دھواں ان کی داڑھی میں سے نکلتا تھااور لوگ آپ سے اس (مشقت) کے بغیر ہی خوش ہیں۔ ‘‘

(الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب جزء1صفحہ127)

امام مالکؒ کے خلاف سازش اور سزا

ابوجعفر منصور کے دَور حکومت میں علویوں نے محمد بن عبداللہ نفس زکیہ کی قیادت میں شدیدبغاوت کی۔ اس دور میں امام مالکؒ نے جبری طلاق واقع نہ ہونے کا فتویٰ دیاتھا اور امام مالک کے حاسدین نے اس فتویٰ کو بنیاد بناکر ابوجعفر منصور کی جبری بیعت کا عدم اعتبار قرار دینے کی نسبت امام مالک کی طرف کردی جبکہ آپ ان بغاوتوں اور سیاسی تحریکات میں شرکت سے اجتناب کرتے تھے۔ جب ابوجعفر منصور نے اس بغاوت پر قابوپالیا تو اپنے چچازاد جعفربن سلیمان کو والیٔ مدینہ مقرر کیا حاسدین کے اصرار پروالی مدینہ نے امام مالک کو جبری طلاق کا فتویٰ دینے سے منع کیا لیکن امام مالک اس پر قائم رہے۔ چنانچہ اس نے آپ کو ستر کوڑے لگوائے اور اونٹ پر بٹھا کر شہر میں تشہیر کی۔ جہاں سے آپ گزرتے آپ بلند آواز میں کہتے کہ میں مالک بن انس فتویٰ دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں۔

(طبقات ابن سعدجزء5صفحہ468، حلیة الاولیاء جزء6صفحہ316)

اس کے بعد آپ نے مسجد نبوی میں آکر دو رکعت نماز ادا کی۔ جب ابوجعفر منصور کو اس واقعہ کا علم ہوا تو جعفر کو معزول کرکے گدھے پر سوار کرکے بغداد لایا گیا اور امام مالک کی خدمت میں اس واقعہ سے لاعلمی کا خط لکھتے ہوئے معذرت کی۔ پھر جب منصور حج کے لیے آیا تو دوبارہ اس پر معذرت کی۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ131)

تنگدستی کے بعد خوشحالی

اوائل عمری میں امام مالک کی ساری توجہ تحصیل علم کی طرف تھی اور صبح سے شام تک حدیث رسولﷺ کو حفظ کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ کچھ دیر بھائی کے ساتھ تجارت میں حصہ تولیا لیکن کسب معاش کی طرف زیادہ دھیان نہ رہااورزمانہ طالب علمی میں آپ کو تنگدستی کا سامنا کرنا پڑاحتیٰ کہ ایک دفعہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیےچھت کی لکڑیاں توڑ کر انہیں بیچنا پڑا۔

(الدیباج المذھب جزء1 صفحہ98)

لیکن طلب علم کے بعد آپ خوشحال ہوگئے۔ آپ امام ابوحنیفہؒ کے برعکس ان بادشاہوں کے تحفے بھی قبول کر لیاکرتے تھےلیکن عوام الناس سے تحفے نہیں لیتے تھے اور بادشاہوںسے تحفے لینے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ کئی غریب اور نادار طلباء کی امداد ہو اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی ہو۔

مرض الموت اور وفات

امام مالک کی وفات179ھ میں ہوئی۔ اتوار کے روز بیمار ہوئے اور 28دن بیماری میں مبتلا رہنے کے بعد10؍ربیع الاول کو87سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم ہاشمی امیر مدینہ نےان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

(تزیین الممالک بمناقب امام مالک للسیوطی صفحہ85)

عتیق بن یعقوب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے جنازہ میں اہل مدینہ کی کثیر تعداد شامل ہوئی۔ جب امام مالک کی وفات ہوئی تو آپ کے جنازہ میں بھی اہل مدینہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی جو اس سے قبل نہ دیکھی گئی۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ169)

امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا نے مکہ میں مجھے کہا کہ میں نے آج رات ایک عجیب خواب دیکھا ہے تو میں نے کہا کہ کیا دیکھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ کہنے والا کہہ رہا ہے کہ آج رات اہل زمین میں سے سب سے بڑا عالم وفات پاگیا ہے توشافعی نے کہا کہ یہ وہی دن تھا جب امام مالک نے وفات پائی۔

(حلیۃالاولیاءجزء 6صفحہ 330)

عمر بن یحیٰ بن سعید انصاری نے امام مالکی کی وفات کی رات دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ

لقد اصبح الاسلام زعزع رکنہ

غداة ثوی الھادی لدی ملحد القبر

امام الھدی ما زال للعلم صائنا

علیہ سلام اللّٰہ فی آخرالدھر

کہتے ہیں میں چونک گیا اور میں نے یہ دونوں اشعار چراغ کی روشنی میں لکھ لیے اور پھر امام مالک کی وفات کی خبر ملی۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ147)

نقش انگوٹھی

اسماعیل بن عبد اللہ بن ابی اویس بیان کرتے ہیں کہ بوقت وفات امام مالک کے ہاتھ میں جو انگوٹھی تھی اس کا نگینہ سیاہ پتھرکا تھا جس پرلکھا تھا:

حَسْبِيَ اللّٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ۔

(طبقات ابن سعد جزء5صفحہ465)

ازواج و اولاد

آپ کی اولاد میں دو بیٹے یحیٰ اور محمد اور ایک بیٹی فاطمہ تھیں۔ ہارون الرشید نے امام مالک کی موت کے سال حج کیا اور آپ کے بیٹے یحیٰ سے ملاقات کی اورپانچ سو دینار دیے۔

آپ کے تلامذہ

امام مالک باسٹھ62سال تک حدیث و فقہ کی تعلیم سے لوگوں کو فیضیاب کرتے رہے۔ عالم اسلام کے تمام گوشوں سے طلباء آپ کی شاگردی میں آنے کو سعادت سمجھتے چنانچہ بلاد عرب میں مدینہ، مکہ، صنعاء، عدن، طائف، یمامہ، ہجر، حضرموت، فدک، بلقاء سے، بلاد شام میں سے دمشق، حمص، حلب، نصیبین، بیت المقدس، اردن، انطاکیہ، بیروت وغیرہ سے، بلادعراق میں سےبغداد، بصرہ، کوفہ، حران، موصل، جزیرہ، انبار، رقہ، رےوغیرہ سے، بلاد عجم میں سے جرجان، کرمان، ہمدان، طالقان، نیشاپور، طبرستان، مرو، قزوین، صنعان، کرستان، سیستان وغیرہ سے، بلاد ترکستان میں سے ترکستان، ہرات، بخارا، سمرقند، خوارزم، ترمذ، بلخ، نسا سے، بلاد مصر میں سے مصر، اسکندریہ، اسوان سے، بلاد افریقہ میں سےتیونس، قیروان، برقہ، طرابلس، مغربی مراکش سے اور بلاد اندلس میں سے طلیطلہ، بسطہ، قرطبہ، سسلی، سمرنا، سرقطہ وغیرہ سے لاتعدادطلباء نے آکر آپ سے فیض علم حاصل کیا۔ علامہ ذہبی بیان کرتے ہیں کہ’’امام مالک سےاتنے لوگوں نے روایت کی ہے جن کا کوئی شمار نہیں۔ ‘‘

(تذکرة الحفاظ للذھبی (متوفی:748ھ)جزء1 صفحہ154)

سفیان ثوری آپ کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔ سعید بن منصور بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ امام مالک جہاں جہاں جاتے سفیان ثوری ان کے پیچھے پیچھے ہوتے۔ اور جو امام مالک کرتے ان کی پیروی میں وہی سفیان ثوری بھی کرتے۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ169)

خلفائےبنو عباس میں سے ابو جعفر منصور، مہدی، موسیٰ ہادی، ہارون الرشید، امین نے بھی آپ سے اکتساب فیض کیا۔ اسی طرح حسن بن مہلب والیٔ خراسان، ہاشم بن عبد اللہ امیر برقہ(افریقہ) آپ کی شاگردی میں رہے۔ آپ کے شاگردوں میں امام شافعی، ابواسحاق فزاری، يحيى بن سعيد قطان، ابن مبارك، ابن وهب، ابن قاسم، معن بن عيسى، خالد بن مخلد، سعيد بن منصور، عبد الله بن رجاء مکی، يحيى بن يحيى نيشاپوری، عبد الله بن يوسف تنيسي، يحيى بن عبد الله بن بكير، يحيى بن قزعة، قتيبة بن سعيد، ابو مصعب زہري، خلف بن هشام بزار، مصعب بن عبد الله زبيری وغیرہ بھی شامل ہیں۔ (تھذیب التھذیب جزء 10 صفحہ5)آپ کے شاگردوں میں سے بہت سے اعلیٰ پایہ کے امام، محدث، فقیہ، قاضی، مورخ، مفسر، ادیب، شاعر، فلسفی تیار ہوئے۔

تصانیف

امام مالک نے موطا جیسی معرکہ آراء کتاب کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف تحریر کیں۔ لیکن موطا سب سے زیادہ معروف ہے۔ ابو الحسن بن فہر بیان کرتے ہیں کہ عتیق بن یعقوب سے روایت ہے کہ امام مالک نے موطا میں دس ہزار احادیث جمع کیں اور ہر سال وہ اس پر نظر ثانی کرتے اور سقم والی احادیث نکال دیتے یہاں تک کہ موجودہ موطا رہ گئی۔ (تزیین الممالک للسیوطی صفحہ88)موجودہ موطا میں ایک ہزار اور کچھ احادیث موجود ہیں۔

صفوان بن عمر کہتے ہیں کہ ہم نے امام مالک کے سامنے موطا چالیس دن میں پڑھ کر سنائی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کتاب جسے میں نے چالیس سال میں لکھا ہے تم اسے چالیس دن میں ختم کررہے ہو تو بتاؤ تم نے اس میں سے کیا سمجھا اور اخذ کیا۔

(الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب جزء1صفحہ 120)

آپ کی تصانیف میں کتاب المناسک، کتاب فی النجوم و حساب دوران الزمان و منازل القمر، رسالتہ فی الاقضیة، رسالتہ الی ابی غسان، رسالتہ الی ابن وھب فی القدر و الرد علی القدریة، رسالتہ الی ھارون الرشید فی الآداب والمواع، تفسیر غریب القرآن، کتاب السروغیرہ شامل ہیں۔ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ امام مالک سے70 ہزار مسائل کا ذکر ملتا ہے۔

(تاریخ بغداد جزء 1صفحہ 251، تزیین الممالک للسیوطی صفحہ84)

زیارت رسولﷺ

مثنی بن سعیدبیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں رسول اللہﷺ کی زیارت نہ ہوئی ہو۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ317)

زہدو تقویٰ

امام مالک بہت تقویٰ شعار اور عبادت گزار تھے۔ آپ ہر مہینہ کا آغاز نوافل سے کیا کرتے تھے۔ ابو مصعب بیان کرتے ہیں کہ امام مالک طویل رکوع و سجود کیا کرتے تھے اور قیام کرتے وقت آپ کی حالت ایسی ہوتی تھی جیسے ایک ساکن خشک لکڑی ہو۔ ابن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک سے بڑھ کر کسی شخص کو دل میں اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ51)

آپ ایک عالم باعمل تھے آپ لوگوں کو صرف اسی بات کا حکم دیتے تھے جس پر آپ خود عمل کیا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے کہ کوئی عالم اس وقت تک عالم نہیں کہلا سکتا جب تک اس بات پر عمل نہ کرے۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ51)

مطرف بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام مالک جب اپنے گھر داخل ہونے لگتے اور اپنا دایاں پاؤں اندر رکھتے تو فرماتے کہ

مَا شَاءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کہتے ہیں تو فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ (الكهف:40)۔

پس آپ کا گھر آپ کی جنت(باغ) ہی تھا۔

(طبقات ابن سعدجزء5صفحہ466)

صاحب فراست و عقلمند

امام شافعی ایک صاحب فراست ہستی تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ فراست میں نے امام مالک سے حاصل کی۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ137)

ابن مہدی کہتے ہیں کہ میں چار اشخاص مالک، سفیان، شعبہ اور ابن مبارک سے ملا اور مالک ان سب میں سے زیادہ عقلمند تھے۔ کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے مالک سے زیادہ بارعب، عقلمند، متقی، وافر دماغ والی شخصیت نہیں دیکھی۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ127)

خطیب بیان کرتے ہیں اسد بن فرات نے کہا کہ جب میں اور میرےایک دوست نےعراق جانے کا قصد کیا تو جانے سے قبل امام مالک سے الوداعی ملاقات کے لیے حاضرہوئے اور درخواست کی کہ ہمیں کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ میرے دوست کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہیں قرآن سے بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں اور مجھے فرمایا کہ میں تمہیں اس امت سے بھلائی کی نصیحت کرتا ہوں۔ اسد کہتے ہیں کہ میرا دوست مرتے دم تک قرآن کریم اور نماز کا پابند رہا اور اسد قاضی مقرر ہوئے۔

(ترتیب المدارک صفحہ1صفحہ271)

امام مالک نے اہل افریقہ کے تین اشخاص ابن فروخ، ابن غانم، بہلول ابن رشد کو دیکھا تو فرمایا کہ ابن غانم اپنے علاقہ کا قاضی ہوگا، بہلول اپنے علاقہ کا عبد اور ابن فروخ اپنے علاقہ کا فقیہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

(ترتیب المدارک جزء2صفحہ138)

عاجزی و انکساری

امام مالک سے ہارون الرشید نے تین امور میں مشورہ کیا۔ اول یہ کہ مؤطا کو خانہ کعبہ میں لٹکادیا جائے اورلوگوں کو اس کے فقہی احکام پر عمل کی تاکید کی جائے۔ منبررسولﷺ کے زینے کم کرکے اسے چھوٹاکردیاجائے اور ان کو سونا چاندی اور قیمتی پتھروں سے مزین کردیا جائے اورنافع بن ابی نعیم کو مسجد نبویؐ کا امام مقرر کردیا جائے۔ تو امام مالک نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین!جہاں تک موطا کو خانہ کعبہ میں لٹکانے کا معاملہ ہے تو صحابۂ رسولﷺ میں بھی فروع میں اختلاف ہوااور وہ مسائل چہارسو پھیل چکے ہیں اور ہر کوئی اپنے طریق سے اس پر عمل کرنے والا ہے۔ اس لیے اسے رہنے دیں۔ جہاں تک منبر رسولؐ کو چھوٹا کرنے اور قیمتی پتھروں، سونے اور چاندی سے مزین کرنے کا تعلق ہے توایسا نہ ہو کہ رسول اللہﷺ کی اس نشانی تک عوام الناس کی رسائی ہی نہ ہو نیز کہیں یہ ضائع ہی نہ ہوجائے۔ اور جہاں تک نافع کے مسجد نبویؐ کاامام بنانے کا تعلق ہے کہ وہ وہاں نماز پڑھائےتو وہ قراءت کا امام تو ہے لیکن کسی نایاب کو محراب میں لانا محفوظ نہیں ہے۔ پس اس کےلیےیہی محفوظ رہے گا۔ ہارون الرشید نے کہا کہ اے ابوعبد اللہ! اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ332)

علمی مقام ومرتبہ

امام مالک ایک نابغۂ روزگار ہستی تھے۔ آپ سریع الفہم اور بلا کا حافظہ رکھنے والے تھے۔ امام صاحب نے قرآن و حدیث اور فقہ میں اپنا آپ منوایا۔ استخراج مسائل اوراستنباط اور اجتہادات میں آپ کو دسترس حاصل تھی۔ آپ اپنے زمانہ کے ممتاز محدث اور فقیہ تھے۔

ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ اسماعیل بن مزاحم المروزی جو ابن مبارک کے اصحاب میں سے تھے، سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپؐ کے بعد ہم کس سے مسائل کے بارہ میں دریافت کریں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مالک بن انس سے۔

(حلیة الاولیاء جزء6صفحہ317)

مطرف بیان کرتےہیں کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ نبی کریمﷺ مسجد میں قیام فرما ہیں اور ان کے اردگرد لوگ جمع ہیں اور امام مالک ان کے درمیان کھڑے ہیں۔ اور رسول اللہﷺ کے سامنے کستوری پڑی ہے اور وہ مٹھی بھر بھر کے امام مالک کو عطا فرما رہے ہیں اور امام مالک آگے لوگوں میں وہ تقسیم کر رہے ہیں۔ مطرف کہتے ہیں کہ میں نے اس کی تعبیر علم اور اتباع سنت سے کی۔

(حلیة الاولیاء جزء6صفحہ317)

محمد بن رمح التجیبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مالک اور لیث کے بارہ میں ہم میں اختلاف پیدا ہوا تو ان دونوں میں سے کون زیادہ عالم ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا مالک کیونکہ وہ میرے علم کا وارث ہے۔

(حلیة الاولیاء جزء6صفحہ317)

امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی حدیث امام مالک کے واسطہ سے آئے تو اس پر یقین کرلو کیونکہ اگر کسی حدیث کے تھوڑے سے حصہ میں بھی مالک کو شک ہوتو وہ اس پوری روایت کو چھوڑ دیتے ہیں۔

(مسند موطا للجوہری صفحہ100 تا102)

یحیٰ بن سعید قطان بیان کرتے ہیں کہ مالک حدیث کے امیر المومنین ہیں۔ ابو قلابہ فرماتے ہیں احفظ اہل زمانہ تھے اور ابن مہدی کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے بڑھ کر کوئی عقلمند نہیں دیکھا۔ نیز فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری حدیث کے امام تھے لیکن سنت میں نہیں، اوزاعی سنت کے امام تھے لیکن حدیث کے نہیں لیکن امام مالک سنت و حدیث دونوں کے امام تھے۔

(تزیین الممالک للسیوطی صفحہ27-28)

امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ اصحاب الزہری میں سے زیادہ ثقہ کون ہے تو انہوں نے کہا کہ مالک ہر چیز میں زیادہ ثقہ ہیں۔

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم جزء1صفحہ15)

امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ جب علماء کا ذکر کیا جائے تو امام مالک ایک ستارے ہیں اور امام مالک سے بڑھ کر کسی نے مجھ پر الٰہی علم میں احسان نہیں کیا۔ نیز فرمایا کہ امام مالک نجم ثاقب ہیں۔ ایک دفعہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی نے امام شافعی سے کہا کہ میرے استاد امام ابو حنیفہ آپ کے استاد امام مالک سے زیادہ عالم ہیں؟اور وہ ایسا کلام کرتے ہیں کہ مدمقابل کو خاموش کرادیتے ہیں۔ امام شافعی نے کہا کہ کیا تم منصفانہ رائے چاہتے ہو یا بڑائی بیان کرنا چاہتے ہو؟محمد بن حسن نے کہا کہ انصاف۔ تو امام شافعی نے کہا کہ میں اللہ کے نام سےجس کے سوا کوئی معبود نہیں، آپ سے پوچھتا ہوں کہ کون ناسخ و منسوخ کے علم کے اعتبار سے کتاب اللہ کا زیادہ عالم ہے؟محمد بن حسن نے کہا کہ آپ کے استاذ۔ پھر امام شافعیؒ نے پوچھا کہ سنت رسول کے لحاظ سے کون زیادہ عالم ہے؟تو محمد بن حسن نے کہا اللہ کی قسم! آپ کے استاد۔ پھر امام شافعیؒ نے فرمایا کہ اقوال صحابہ رسولﷺ کے لحاظ سے کون زیادہ عالم ہے؟ اس پر بھی محمد بن حسن نے امام شافعی کوفرمایا کہ آپ کے استاد۔ تو امام شافعی نے کہا کہ جو ان امور میں زیادہ عالم ہے وہ کلام کرنے میں بھی افضل ہے۔

(التمهيد لما في المؤطا من المعاني والأسانيد لابن عبد البر (متوفی :463ھ جزء1صفحہ74-75)

ابونعیم اصفھانی کہتے ہیں کہ امام مالک بن انس امام الحرمین اور حجاز اور عراق کے معروف امام ہیں ان کے مذہب سے مشرق و مغرب نے فیض اٹھایا۔ آپ شریف الطبع اور کامل العقل تھے۔ حدیث رسولؐ کے وارث تھے۔ آپ نے امت میں علم الاحکام اور علم الاصول کی اشاعت کی اور تقویٰ اختیار کرتے ہوئے تحقیق کی اس کے نتیجہ میں ایک آزمائش میں بھی مبتلا ہوئے۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ316)

تعظیم حدیث

امام مالک کو بچپن سے حدیث کا بہت احترام تھا۔ آپ نے اس سلسلہ میں کافی سعی کی اور حدیث بیٹھ کر سنتے۔ آپ کے شاگرد مطرف بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی آپ کے گھر آتا تو آپ کی خادمہ پوچھتی کہ آپ حدیث کے لیے آئے ہیں یا مسائل کے لیے؟اگر وہ کہتے کہ مسائل کے لیے تو امام صاحب باہر آتےاور انہیں فتوے دے کر تشریف لے جاتے اور اگر کہتے حدیث کے لیے تو وہ کہتی تشریف رکھیے۔ امام صاحب غسل فرماتے، خوشبو لگاتے، نیا لباس پہنتے عمامہ باندھتے۔ اور مسند پر بیٹھ کر خشوع و خضوع سے حدیث رسول بیان کرتے۔

امام مالک حدیث کی بہت تعظیم کرتے تھے۔ آپ اس بات کو ناپسند کرتے کہ حدیث رسولؐ کو عجلت میں یا کھڑے کھڑے سنایالکھا جائے۔ آپ کہتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ حدیث رسولؐ کی تعظیم کروں اور پاک ہوکر اس کو بیان کروں اورجو حدیث مجھ سے بیان کی جائے میں اسے سمجھوں۔

چنانچہ امام مالک ابن حزم کے پاس سے گزرےاور وہ حدیث بیان کررہے تھے اور آپ وہاں سے گزر آئے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ وہاں ٹھہرے کیوں نہیں تو کہا کہ وہاں بیٹھنے کو کوئی جگہ نہ تھی اور میں حدیث رسولﷺ کو کھڑے ہونے کی حالت میں اخذکرنا ناپسند کرتا ہوں۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 318تا319)

ابن ابی زنبر بیان کرتے ہیں کہ میں نے مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک لاکھ احادیث اپنے ہاتھ سے لکھی ہیں۔

(ترتیب المدارک جزء1صفحہ133)

اقوال امام مالکؒ

امام مالک کہتے ہیں کہ علم نور ہے جسے اللہ جہاں چاہتا ہے عطا کرتا ہے کثرت روایت سے علم نہیں ملاکرتا۔ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ319)

خالد بن نزار بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو ایک قریشی نوجوان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تحصیل علم سے قبل ادب سیکھو۔ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 330)

امام مالکؒ کہا کرتے تھے کہ اگر انسان کےپاس اپنے نفس کےلیے بھلائی نہیں تو لوگوں کے لیے بھی اس میں کوئی خیر نہیں ہوگی۔ (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 321)

ابن وہب کہتے ہیں کہ میں نے امام مالک کو کہتے ہوئے سنا کہ طالب علم پر فرض ہے کہ وہ وقار، سکینت اور خشیت کو اختیار کرے اور اپنے ما قبل کی پیروی کرے۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 324)

امام مالک کہتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ قیامت کے روز علماء سے ایسے سوال پوچھے جائیں گے جیسے انبیاء سے پوچھے جائیں گے۔(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جزء6صفحہ 319)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button