عالمی یوم امداد باہمی اور اسلام
عالمی امداد باہمی کا دن ہر سال جولائی کے پہلے ہفتہ کے روز منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصدلوگوں میں معاشی و معاشرتی،اقتصادی و ماحولیاتی ،تہذیبی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے تعاون اور مدد کرنے کا شعور اجاگر کرنا ہے۔مزیدبرآں باہمی تعاون و امدادکے ذریعہ بین الاقوامی تحریک تعاون اور اس میں کام کرنے والوں میں تعلقات کو مضبوط کرنا اور اسے پھیلانا بھی اس کے مقاصد میں شامل ہے،جس سے ترقیاتی کاموں میں سرعت پیداہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق باہمی تعاون کی پہلی مثال 14 ؍مارچ 1761ء میں سکاٹ لینڈ کے ایک گاؤں Fenwickمیں ملتی ہے جہاں چند مقامی کپڑا بننے والوں کو مالی مشکلات کا سامنا تھا اور وہ اشیائے خوردونوش اور گھریلو سامان کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے خریدنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سب مل کر کام کریں تاکہ بنیادی ضروریات کی چیزوں کو کم قیمت پرپاسکیں۔چنانچہ انہوں نے ایک خستہ حال مکان میں اپنی اپنی چیزوں کوجمع کرکے رعایت کے ساتھ بیچنا شروع کردیا۔ابتداءً ان کے پاس صرف چار اجناس آٹا،جو،چینی اور مکھن ہی بیچنےکے لیے موجود تھیں۔ آہستہ آہستہ اس میں ترقی ہوئی اور یوں فینوک وِیوَر سوسائٹی کا قیام ہوا۔
1844ء میں شمالی انگلینڈ کےقصبہ راچ ڈیل میں سوت کے کارخانہ میں کام کرنے والے28 کارکنوں کے ایک گروپ نے باہمی تعاون سے جدید کوآپریٹو کاروبار تشکیل دیا۔جس کا نام The Rochdale Equitable Pioneers Societyرکھا۔راچ ڈیل پائینیر جدید کوآپریٹو سوسائٹی میں ایک نمونہ کے طور پرہے اور تحریک باہمی تعاون کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔
1992ء میں بین الاقوامی باہمی تعاون اتحادیعنی آئی سی اے (International Co-operative Alliance)اورکوپیک (Committee for the Promotion and Advancement of Cooperatives)کے ممبران کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے ریزولیوشن نمبر47/90کے تحت 16 دسمبر 1992ء کو عالمی امداد باہمی کا دن منانے کا اعلان کیا۔اس تاریخ کا انتخاب آئی سی اے اور کوپیک کی طرف سے ہی ہوا جو 1923ءسے اسے منارہے تھے۔
پھر23دسمبر1994ء کو اقوام متحدہ نے ایک اورقرارداد نمبر49/155 پاس کی جس میں اس عالمی دن میں حکومتوں کو بھی اس بارہ میں اپنی مساعی بڑھانے کے ساتھ یہ دن1995ء سےجولائی کے پہلے ہفتہ کے دن منانے کا اعلان کیا۔چنانچہ تب سے یوم عالمی باہمی امدادجولائی کے پہلے ہفتہ کےروز منایا جاتاہے۔اس سال یہ دن 4جولائی2020ء کو منایا جارہا ہے۔
امداد باہمی کی اہمیت:
جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چیز کا دوسرےسے ایک ربط اور تعلق ہےاور ایک دوسرے کے تعاون سے ہی ان کو بقا ہے۔عالم کبیریعنی نظام کائنات کو دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں باہمی تعاون نظر آتا ہے۔سورج کے تعاون سے زمین پربقائے حیات ہے۔سورج اپنی کرنیں زمین پر ڈالتا ہے تو اس میں روئیدگی پیداہوتی ہے اور فصلیں پکتی ہیں۔اگر اس کا تعاون نہ ہوتوفصلیں نہ پکنے سے قحط کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔اسی طرح جب بادل اورہواتعاون کرتے ہیں تو خشک سالی دور ہوتی ہے ۔اسی طرح دیگر چیزوں کے تعاون سے ہی زمین اور اس پر بسنے والوں کی بقاء ممکن ہے۔
عالم صغیر یعنی انسان کو دیکھیں تو ادھر بھی باہمی تعاون سے ہی ہر کام درست طور پر پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔اگر انسانی جسم کے تمام اعضاء ایک دوسرے سے باہمی تعاون کریں گےتوہی انسان تندرست رہے گا اور ہرکام کو احسن رنگ میں سرانجام دےسکے گا۔دل و دماغ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں تو دوسرے اعضاء افعال بجالاتے ہیں۔اسی طرح اگر کوئی کام ایک ہاتھ سے کیا جائے تو ایسا نفیس نہیں ہوگا جیسا دوسرے ہاتھ کے تعاون سے ہوسکتا ہے۔ انسان ایک پاؤں سے بروقت کوئی مسافت طے نہیں کرسکتاجتنا وہ دونوں پاؤں سے جلد طے کرسکتا ہے۔
پھر عالم کبیر و عالم صغیر کے باہمی تعاون سے زندگی کا پہیہ گردش میں ہے جیسےروشنی کے تعاون سے انسانی آنکھ دیکھ پاتی ہے۔ہوا کے تعاون سے سانس لے پاتے ہیں اور انسانی تعاون سے ماحولیاتی آلودگی اور معاشرتی برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہےوغیرہ۔
والدین کے باہمی تعاون سے ایک نسل پروان چڑھتی ہے اور ان کی تربیت ہوتی ہے۔پھرلوگوں کے باہمی تعاون سے پُرامن معاشرہ قائم ہوتاہے۔ممالک کے باہمی تعاون سے دنیاوی ترقی کی رفتار بڑھتی ہے۔غرضیکہ عالم کبیر ہویا عالم صغیر باہمی تعاون کے بغیر کامل بقاء ممکن نہیں۔باہمی امداد و تعاون سے ہی دنیا کے تمام کام ممکن ہیں۔
امداد باہمی اور اسلام:
امدادباہمی کی اس اہمیت کے پیش نظر اسلام نے آج سے 1441 سال قبل ہی باہمی امداد و تعاون کاحکم فرمادیاتھا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة :3)
اور نیکى اور تقوى مىں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔
اسلام عوام الناس کو نیکی اور تقویٰ میں امداد باہمی کا درس دیتا ہے۔اسی طرح دین کے معاملہ میں بھی ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فرمایا۔(الأَنْفال :73)
رسول اللہﷺ بچپن سے ہی امداد باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا تھے۔چنانچہ جب رسول اللہﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ گھراپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد کے پاس آئے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، پھرآپؐ نے حضرت خدیجہ ؓسے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کااندیشہ ہے، حضرت خدیجہ ؓنے کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپ ؐ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، عاجزوناتوانوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،وہ نیکیاں کرتے ہیں جو معدوم ہوچکی ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مشکلات میں مدد دیتے ہیں۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ)
آپﷺ نے اپنےصحابہ اور امت کو امداد باہمی کا اسوہ دیتے ہوئے اس پر عمل کی تحریک فرمائی۔چنانچہ ايک دفعہ رسول اللہﷺنے دوران سفرصحابہ سے بکری کاسالن تیار کرنے کا حکم فرمایا توایک صحابی نے کہا کہ یارسول اللہﷺ! اس کو ذبح کرنا میرے ذمہ۔دوسرےنے کہا یارسول اللہﷺ! اس کی کھال اتارنا میرے ذمہ۔تیسرے صحابی نے کہا کہ یارسول اللہﷺ!اس کو پکانا میرے ذمہ۔تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے ذمہ لکڑیاں جمع کرنا ہے جس سے آگ جلا کر تم اسے پکاسکو۔
(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية جزء6صفحہ 48)
رسول اللہﷺ ہمیشہ اپنے اصحاب کو امداد باہمی کی ترغیب و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ
‘‘أَحَبَّ النَّاسِ إِلیٰ اللّٰہِ أَنْفَعُھُمْ‘‘
(صحیح الجامع الصغیرللالبانی جزء1 صفحہ97)
یعنی لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو ان سب سے زیادہ نفع مند ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:
جس کے پاس دو افراد کا کھانا ہو، وہ تیسرے کو (اپنے ساتھ)لے جائے۔ اگر چار کا ہو تو پانچویں یا چھٹے بندے کو لے جائے۔
(بخاری کتاب مواقیت الصلوة باب السمر مع الضیف والاھل)
حضرت ابوسعید خدری ؓبیان فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریمﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ایک شخص اپنی سواری پر آیا اور دائیں بائیں نظریں گھمانےلگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس کے پاس زائدسواری ہو تو وہ اسے دے دے اور جس کے پاس بچا ہوا زادراہ ہو تو وہ اس آدمی کو دے دے کہ جس کے پاس زادراہ نہ ہو پھر آپ ﷺ نے مال کی قسموں کو ذکر فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ ہم میں سے کسی کو اپنے زائد مال میں کوئی حق ہی نہیں ہے۔
(مسلم کتاب اللقطة بَابُ اسْتِحْبَابِ الْمُؤَاسَاةِ بِفُضُولِ الْمَالِ)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’آپﷺ ہميشہ اپنے صحابہ کو اِس بات کی نصيحت فرماتے تھے کہ آپس ميں تعاون کے ساتھ کام کيا کرو۔چنانچہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے آپ نے يہ اُصول مقرر کر ديا تھا کہ اگر کسی شخص سے کوئی ايسا جرم سرزد ہو جائے جس کے بدلہ ميں اُسے کوئی رقم ادا کرنی پڑے اور وہ اُس کی طاقت سے باہر ہو تو اُس کے محلہ والے يا شہر والے يا قوم والے مل کر اُس کا بدلہ ادا کريں۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد20 صفحہ417)
رسول اللہﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتےہوئے خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓ نے بھی امداد باہمی کے بے مثال نمونہ دکھائے۔چنانچہ جنگ ذات السلاسل میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کا حضرت عمرو بن العاصؓ سے باہمی تعاون تاریخ کا حصہ ہے:
’’7ہجری میں غزوۂ خیبر کے بعد رسولؐ خدا نے ملک شام کے مشرق میں ذات السلاسل کی مہم پر حضرت عمر و بن العاصؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر روانہ فرمایا ،جس میں کبار صحابہ کی نسبت اعراب اور بدّو وغیرہ زیادہ تھے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے۔ اس لئے حضرت عمرؓ و بن العاص نے کمک طلب کی جس پر نبی کریم ؐنے حضرت ابوعبیدہؓ کی سرکردگی میں مہاجرین کا ایک دستہ ان کی مدد کے لئے بھجوایا، جس میں حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ بطور سپاہی شریک تھے۔رسول خداؐ نے خداداد بصیرت و فراست سے بوقت رخصت حضرت ابوعبیدہؓ کو نصیحت فرمائی کہ عمر وؓ بن العاص کے پاس پہنچ کر دونوں امراء باہم تعاون سے کام کرنا۔ مگر جب وہاں پہنچے تو حضرت عمر ؓوبن العاص نے اس خیال سے کہ ان کی امداد کے لئے بھجوائی گئی کمک ان کے تابع ہے حضرت ابوعبیدہؓ کے سپاہیوں کو ہدایت دے کر کام لینے لگے اور بزرگ مہاجرین صحابہ کی اس وضاحت کے باوجود کہ دونوں امراء اپنے دائرہ عمل میں بااختیار ہیں اور انہیں باہم مشورے اور تعاون سے کام کرنے کا حکم ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کو اپنے حق امارت پر اصرار رہا۔ اس نازک موقع پر امانتوں کے سفیر حضرت ابوعبیدہؓ کا مؤقف کیساپاکیزہ اور متقیانہ تھا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ سے آپ نے فرمایا کہ’’ہر چند کہ مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آزاد امیر کے طور پر بھجوایا ہے مگر ساتھ ہی باہم تعاون کا بھی ارشاد فرمایا۔ اس لئے آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں میری طرف سے ہمیشہ آپ کو تعاون ہی ملے گا اور میں آپ کی ہر بات مانوں گا۔دیکھئے ابوعبیدہؓ نے امارت کا حق امانت کس شان سے ادا کر دکھایا اور تعاون علی البر اور ایثار کا کیسا شاندارنمونہ دکھایا۔’’
(الاصابة جزء4صفحہ12بحوالہ سیرت صحابہ رسولؐ از حافظ مظفر احمد صفحہ 133-134)
امداد باہمی کے لیےاسلامی تعلیمات:
امداد باہمی کے لیے اسلام نے سب سے پہلےجس بات کو لازم قرار دیاوہ باہمی الفت و محبت ہے کیونکہ محبت و الفت ہی انسان کو ایک دوسرے کی مدد پر ابھارتی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے دلوں میں الفت ڈال کر انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا۔(سورة آل عمران :104)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہی ہوتے ہیں۔
اس رشتہ اخوت کے پیش نظررسول اللہﷺ نے مومنین کی مثال ایک جسم سے بیان فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آنے اور بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔‘‘
(مسلم کتاب البر والصلة والآداب بَابُ تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِينَ وَتَعَاطُفِهِمْ وَتَعَاضُدِهِمْ)
اسی طرح آپؐ نے مومنین کوایک عمارت سے تشبیہ دیتے ہوئےفرمایا کہ
’’المُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا‘‘
(بخاری کتاب الادب بَابُ تَعَاوُنِ المُؤْمِنِينَ بَعْضِهِمْ بَعْضًا)
ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہےجس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے۔
الفت و محبت سےرشتہ اخوت کے قیام کے بعدصلح و امن کی فضا میں ہی امداد باہمی کو فروغ ملتا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھائیوں کے درمیان صلح کو باہمی امداد کا پیش خیمہ قرار دیا۔( الحجرات :11)کیونکہ اگرپیارومحبت اورصلح وامن کی فضا قائم ہوگی تو ہی ایک دوسرے کے لیے مدد کا خیال پیدا ہوگا۔
پھر سورة الحجرات کی آیت 12 میں قوموں کو ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے ،عیب لگانےا ور نام بگاڑنےسے منع کیا گیا کیونکہ اس سے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں جو باہمی امداد میں رکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس سے اگلی آیت نمبر13 میں بدظنی اور غیبت سے اجتناب برتنے کا حکم دیا کیونکہ یہ باتیں قطع تعلق کا باعث بنتی ہیں ۔نتیجةً باہمی امداد و تعاون میں روک بنتی ہیں۔
پس ان مذعومہ برائیوں سے محفوظ رہ کر ہی امداد باہمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اور یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم ان باتوں سے بچتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کریں اور تعاون کریں۔اگر کوئی بیمار ہے تو سنت نبویؐ کے مطابق اس کی عیادت کے لیے جاکر اس کو شفا کی دعا دیں۔اگر کوئی مالی مشکل میں مبتلا ہے تو حتی الوسع اس کی بے لوث مالی مدد کریں اور اگر اس کی استطاعت نہیں تو قرض حسنہ سے اس کی مدد کی جائے۔اور کسی کو علمی و دینی اور روحانی و اخلاقی مدد کی ضرورت ہے تو اس سے اس بارہ میں تعاون کیا جائے۔کسی کو مشورہ کی ضرورت ہے تو اسے نیک صلاح دی جائے۔غرضیکہ ہر میدان میں ایک دوسرے سے باہمی تعاون سے ہی ترقی ممکن ہےاور اسی سے پُرامن معاشرہ کا قیام ہوسکتا ہے۔
اسی طرح بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون سے دنیا کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔بعض ممالک میں کام تو بہت ہے لیکن افرادی قوت کم ہے۔تو جہاں افرادی قوت زیادہ ہووہاں سے باہمی تعاون سےافرادی قوت لے کر کام کو نبٹایا جاسکتا ہے جس سے دونوں ممالک کو فائدہ ہوسکتا ہے اور ایسا دنیا میں ہوتا بھی ہے۔پھر کاروباری لحاظ سے ایک دوسرے سے تعاون سے جہاں تعلقات مضبوط ہوتے ہیں وہاں زر مبادلہ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔اسی طرح دیگر کئی فوائد ہیں۔
چنانچہ دنیا میں باہمی امداد و تعاون کے حوالے سے متعددتنظیمیں اور ادارہ جات سرگرم عمل ہیں جن میں شنگھائی کارپوریشن کانفرنس،سارک،عالمی اقتصادی کونسل،گلف کارپوریشن کونسل،گروپ آف ایٹ وغیرہ سرفہرست ہیں۔
امداد باہمی اور جماعت احمدیہ
جماعت احمدیہ قرآن کریم ،سنت نبویؐ،سنت خلفائے راشدین اور اسلامی تعلیمات کے مطابق امداد باہمی کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ نے اپنی جماعت کو امداد باہمی کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
’’پس یہ دستور ہونا چاہيے کہ کمزور بھائيوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔يہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہيں ۔ايک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہيں۔تو کيا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہيے کہ وہ دوسرے کوڈ وبنے سے بچاوے يا اس کو ڈوبنے دے۔اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔اسی ليے قرآن شريف میں آيا ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة 3)
کمزور بھائيوں کا بار اُٹھاؤ۔عملی ايمانی اور مالی کمزوريوں ميں بھی شريک ہو جاؤ۔بدنی کمزوريوں کا بھی علاج کرو۔کوئی جماعت جماعت نہيں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہيں ديتے اور اس کی يہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔صحابہ کو يہی تعليم ہوئے کہ نئے مسلموں کی کمزورياں ديکھ کر نہ چڑو،کيونکہ تم بھی ايسے ہی کمزور تھے۔اسی طرح يہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاؤ کرے۔ديکھو وہ جماعت جماعت نہيں ہو سکتی جو ايک دوسرے کو کھائے…‘‘
نیز فرمایا:
’’جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔پردہ پوشی کی جاوے۔جب يہ حالت پيدا ہو تب ايک وجود ہو کر ايک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہيں اور اپنے تئيں حقيقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہيں…اب تم ميں ايک نئی برادري اور نئی اخوت قائم ہوئی ہے۔پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہيں۔خدا تعالیٰ نے يہ نئی قوم بنائی ہے جس ميں امير غريب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہيں۔پس غريبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائيوں کی قدر کريں اور عزت کريں اور اميروں کا فرض ہے کہ وہ غريبوں کي مدد کريں ان کو فقير اور ذليل نہ سمجھیں،کيونکہ وہ بھی بھائي ہيں گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ايک ہی ہے اور وہ ايک ہی درخت کی شاخيں ہيں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ263 تا265)
ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعودؑ کا مذکورہ بالا اقتباس پیش کرنے کے بعدفرمایا :
’’پس یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوة والسلام نے ہمیں ایک تسلسل سے دی اور یہی وجہ ہے کہ یہ تعلیم آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتی چلی جارہی ہے اور ہماری اصلاح بھی ہوتی ہے۔پس جو ایسی تعلیم کے ماننے والے ہوں وہی ہیں جو ایک دوسرے سے محبت اور پیار سے پیش آتے ہیں اور خاص طور پر ایسے موقع پر جب خدا تعالیٰ کی خاطر جمع ہوئے ہوں۔پس ان باتوں کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے تاکہ اخلاق کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں اور ہم غیروں کی توجہ جذب کرنے والے بنیں اور یہی چیز ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنے گی۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 29 ؍اگست 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍ستمبر2008ءصفحہ7)
پس جماعت احمدیہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ اور خلفائے احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں امداد باہمی میں روز اول سے مصروف عمل ہے۔ہر شعبہ میں ایک دوسرے کے تعاون سے دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔طبی لحاظ سے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ،فضل عمر ہسپتال،نور العین دائرة الخدمة الانسانیة،طاہر ہومیوپیتھک ہسپتال اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ وغیرہ،فنی لحاظ سے دارالصناعة، احمدیہ ایسوسی ایشن آف کمپیوٹر پروفیشنل، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز،خدمت خلق کے لحاظ سے بین الاقوامی سطح پر ہیومینٹی فرسٹ وغیرہ امداد باہمی کے جذبہ کے تحت خدمات بجالارہے ہیں۔اسی طرح جماعت احمدیہ کےدیگر تعلیمی وتربیتی اور انتظامی ادارہ جات بھی امدادباہمی کی حسین اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔
کورونا وائرس کے وبائی ایام میں جماعت احمدیہ امداد باہمی کے تحت دنیا کے کئی ممالک میں خدمت خلق کا حقیقی معنوں میں حق ادا کررہی ہے۔اس ضمن میں ہیومینٹی فرسٹ کی بے لوث مساعی بے مثال ہیں جو نہ صرف تحریری طور پر اور ویڈیوز بناکراس وبا سے حفاظتی تدابیر کے بارہ میں رہنمائی کررہی ہے بلکہ دنیا کے متعدد ممالک میں میڈیکل کی سہولیات مہیا کررہی ہے،نیزبلا تخصیص مذہب و ملت عوام میں فیس ماسک، صابن، سینیٹائزر، اشیائے خوردنوش وغیرہ تقسیم کی جارہی ہیں۔اسی طرح برطانیہ،امریکہ،کینیڈا ،اٹلی،فرانس اور دیگر ممالک میں فوڈ بنکس قائم کیے گئے ہیں تاکہ ان حالات میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔لندن میں امدادی اقدامات کے لیے قومی سپورٹ رابطہ نمبر بھی جاری کیا گیاہے۔اسی طرح مستحقین کی مالی معاونت بھی کی جارہی ہے۔پاکستان،انڈیا،سری لنکا،ملائیشیا،انڈونیشیااور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی خدمت خلق کے یہ نظارے موجود ہیں۔ان بعض ممالک میں آن لائن خریداری کےلیے مختلف فورم بنائے گئے ہیں جو گھر بیٹھے احباب کو مطلوبہ اشیاء بغیر کسی چارجز کے مہیا کررہے ہیں۔غرضیکہ ان نامساعد حالات میں جماعت احمدیہ کیا یورپ،کیا امریکہ،کیا افریقہ اور کیا ایشیا و آسٹریلیا یعنی تمام دنیا میں امداد باہمی کے تحت خدمت خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔جس کی تفصیلی رپورٹس جماعتی اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
نہ صرف ان وبائی ایام میں بلکہ عام دنوں میں بھی دنیا کے ہر ملک میں جہاں جماعت احمدیہ قائم ہے وہاں ایک نظام کے تحت نہ صرف احمدیوں بلکہ دیگر تمام لوگوں کو بھی ہر قسم کا جائزتعاون فراہم کیا جاتا ہے جو اسلامی تعلیم کے مطابق امداد باہمی کی ایک نہایت عمدہ مثال ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کہ وہ ہم سب کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور امداد باہمی کو فروغ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین