برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات جن کو مسیح الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے برکت بخشی
مارچ 1884ء لدھیانہ کا پہلا سفر بذریعہ ریل
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ تحریرفرماتے ہیں:
VISITS LUDHIANA & SANAUR
’’Early in November, 1883 Ahmad went to Amritsar in connection with the printing of the Braheen-i-Ahmadiyya. As Mir Abbas Ali and other friends were requesting him to visit Ludhiana he intended to go there from Amritsar; but he became indisposed and his visit to Ludhiana was postponed. So he returned to Qadian on November 9th, 1883.
On December 19th, 1883, Ahmad was ready to go to Ludhiana on a short visit to comply with the repeated requests of his friends but he received a letter from the Riayaz Hind Press, Amritsar, informing him that the printing of his book was being delayed. The Chashma-i-Noor Press, Amritsar, had promised to print a portion of the book, but the manuscript given to them had been destroyed. So it was necessary that Ahmad should go to Amritsar and supervise the work personally. Probably he had to stay at Qadian during the Christmas holidays, because he was expecting some friends to come there in those days to see him. Accordingly he left for Amritsar on February 13th, 1884. Though the exact dates of his journeys are not known, it appears that he had to go to Amritsar more than once.
In view of the earnest appeals of his Ludhiana friends it is probable that he visited that town somewhere during the first quarter of the year 1884. Mir Inayat Ali, who is the son-in-law and nephew of Mir Abbas Ali, says that Ahmad was accompanied by Jan Mohammad, Hafiz Hamid Ali and Malawa Mal. There was a crowd of people, including Nawab Mohammad Ali of Jhajjar, at the Ludhiana Railway station to receive Ahmad, though he was not personally known to the people there. Arrangements for his short stay were made in the Mohalla Soofian. He used to go out for walks and crowds followed him wherever he went. Though he stayed in Ludhiana only for two or three days, yet he left an indelible impression of righteousness and saintliness in the hearts of the people. Some thing seemed to draw people towards him and everyone who came to see him felt that he was in the company of a holy man.‘‘
(LIFE OF AHMAD FOUNDER OF THE AHMADIYYA MOVEMENT PART 1 pg 99 -100 BY A.R.DARD M.A. Wx Imam London Mosque A TABSHIR PUBLICATION )
ترجمہ:
لدھیانہ اور سنور کے سفر
نومبر1883ء کے آغاز میں احمد علیہ السلام ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی طباعت کے سلسلہ میں امرتسر گئے کیونکہ میر عباس علی صاحب اور دوسر ے احباب آپؑ سے لدھیانہ آنے کی بار بار درخواست کررہے تھے۔ اس لیے آپؑ نے امرتسر سے لدھیانہ جانے کاارادہ کیا۔مگر آپؑ کی طبیعت ناساز ہو گئی اور لدھیانہ کا دورہ منسوخ ہوگیا۔ چنانچہ آپ9؍ نومبر1883ء کو قادیان واپس تشریف لے گئے۔
19؍دسمبر1883ء کو احمد علیہ السلام لدھیانہ کے مختصر دورہ پر جانے کے لیے تیار تھے تاکہ اپنے دوستوں کی درخواست پوری کرسکیں لیکن آپؑ کو’’ریاضِ ہند پریس‘‘کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں آپؑ کومطلع کیا گیا تھا کہ کتاب کی اشاعت ملتوی ہو گئی ہے ۔چشمہ نور پریس امرتسر نے کتاب کے ایک حصہ کی اشاعت کا وعدہ کیا ہوا تھا لیکن انہیں جو مسودہ دیا گیا تھا وہ ضائع ہوگیا۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ احمد علیہ السلام خود امرتسر جاتے اور ذاتی طورپر کام کی دیکھ بھال کرتے۔ شاید آپؑ کو قادیان میں کرسمس کی چھٹیوں کے دوران رہنا پڑا کیونکہ وہ ان دنوں چند دوستوں کی آمد کی امید کر رہے تھے۔
لدھیانہ کے دوستوں کی بار بار پر اشتیاق درخواستوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے اس شہر کادورہ 1884ء کے آغاز کے تین مہینوں کے کسی عرصہ میں کیا۔
میر عنایت علی صاحب جو کہ میر عباس علی صاحب کے بھتیجے اوردامادہیں وہ کہتے ہیں کہ احمد علیہ السلام کے ساتھ جان محمد، حافظ حامد علی اور ملاوامل سفر میں شامل تھے۔ لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر احمد علیہ السلام کے استقبال کے لیے نواب محمد علی صاحب آف جھجھر کے علاوہ لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ اگرچہ احمد علیہ السلام کو وہاں کے لوگ ذاتی طورپرنہیں جانتے تھے۔
آپؑ کے مختصر قیام کے انتظامات محلہ صوفیاں میں کئے گئے۔ آپؑ سیر پر جایا کرتے تو ہجوم آپؑ کے پیچھے پیچھے ہوتا۔ اگرچہ آپؑ نے لدھیانہ 2، 3دن ہی قیام کیالیکن آپؑ نے لوگوں کے دلوں میں سچائی اور نیکی کا ایک نہ مٹنے والا اثر چھوڑا۔
کوئی چیز لوگوں کو آپؑ کی طرف کھینچ کر لے جاتی اور جو بھی آپؑ سے ملاقات کرنے آتا وہ یہ محسوس کرتا کہ وہ ایک مقدس آدمی کی صحبت میں ہے۔