تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ تربیتی تقریر مؤرخہ 27؍دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں مستورات کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی جس میں احمدی خواتین کو تربیتِ اولاد کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے اپنی اِس تقریر میں تربیتِ اولاد کی اصل ذمہ دار عورتوں کو ٹھہرایا۔
حضورؓ نے اپنی اِس تقریر میں مردوں کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خاص طور پر عورتوں کے جذبات کا خیال رکھنے اور اُن کے رشتے داروں سے حُسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ۔ اِس سلسلے میں آپؓ نے بڑی ہی پُر حکمت بات فرمائی کہ عورتوں کے جذبات کا خیال نہ رکھنے سے وہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں اِس لیے مرد کو اپنی بیوی کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔ اِس تقریر کے آخرپر حضور نے تحریک جدید اور عورتوں کی ذمہ داریوں پر بھی مختصراً روشنی ڈالی اور تحریک جدید کے سادہ زندگی کے مطالبے کا عورتوں کے ساتھ گہرا تعلق بیان کرتے ہوئے عورتوں کو نصیحت فرمائی۔ (مدیر)
تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے بلکہ اس کے متعلق ایک ضرب المثل بنی ہوئی ہے کہ ’’کوا ہنس کی چال چَلا اور اپنی بھی بھول گیا‘‘۔ کہانی یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی کوے نے ہنسوں کی چال جو دیکھی تو وہ اسے پسند آئی۔ اس نے سمجھا کہ میری چال اچھی نہیں۔ آخر اس نے کچھ ہنسوں کے پَر اُٹھائے اور اپنے پَروں میں اُڑس لئے اور لگا اُن کی سی چال چلنے مگر وہ اُن کی چال کب چل سکتاتھا۔ ہنسوں نے اُسے اجنبی پرندہ سمجھ کر مارنا شروع کیا یہ وہاں سے نکل کر اپنےکوّوں میں آ شامل ہوا مگر چونکہ یہ کچھ مدت ہنسوں کی چال چل کر اپنی بھی بھول گیا تھا اس لئے کوّوں نے بھی اسے چونچیں مار مار کر اپنے میں سے باہر کیا۔ اَب یہ اکیلا رہ گیا نہ اِدھر کا رہا نہ اُدھر کا رہا۔ نہ ہنسوں نے اسے ساتھ ملایا نہ کوّوں نے اسے شامل کیا۔
اس مثال یا اس کہانی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس کام کیلئے پیدا کیا وہی اس کام کو بخوبی سمجھ سکتی اور اَحسن طور پر سرانجام دے سکتی ہے۔ اردو میں ایک اَور ضرب المثل ہے کہ’’جس کا کام اسی کو ساجھے۔‘‘ جب ایک کا کام دوسرا کرنے لگے گا تو لازماً خرابی پیدا ہو گی اور وہ ایک عجوبہ بن جائے گی اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک مرد دوسری عورت۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے بعض اشتراک رکھے ہیں اور بعض اختلاف بھی رکھے ہیں۔ مثلاً کھانے پینے میں مرد اور عورت ایک ہی قسم کے ہیں یہ کبھی نہیں ہوا کہ مرد کھاتے ہیں اور عورتیں نہ کھاتی ہوں گو غذاؤں میں تھوڑا سا فرق ہوتا ہے مثلاً بعض حصے عورتوں کے اَور قسم کی غذا چاہتے ہیں اَور مردوں کے اَور قسم کی۔ مثلاً عورتوں کے جسم پر چربی زیادہ آ جاتی ہے اس لئے عورتیں سردی زیادہ برداشت کر سکتی ہیں اور یہ اس لئے ہے کہ عورت اپنے بچوں کو دودھ پلا سکے تو اس طرح خداتعالیٰ نے بچے کی حفاظت فرما دی۔ تو یہ صرف خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت فرق ہے۔ اسی طرح مرد اور عورت میں اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر ترقی کرنے یعنی عقل کا مادہ رکھا ہے۔ نہ مرد کہہ سکتا ہے کہ عقل اور دماغ مجھے ہی دیا اور نہ عورت ایسا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اسی طرح زبان مردوعورت کو ایک سی دی ہے۔ اگر مرد بڑے بڑے مقرر ہوتے ہیں تو عورتیں بھی۔ ہاتھ پاؤں وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو برابر دیے ہیں مگر قوتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرق رکھا ہے۔ بعض قوتیں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زیادہ دی ہیں اور عورتیں میں کم ہیں۔ مثلاً اعصاب کی طاقت مرد میں عورت کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ مرد عورت کی نسبت بہت زیادہ بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ مگر اس کے مقابل میں عورت میں اللہ تعالیٰ نے صبر کی طاقت بہت زیادہ رکھی ہے۔ صبر سے مراد ایک مشکل کو لمبے عرصے تک برداشت کرنا ہے۔ یہ طاقت مرد میں یا تو ہے ہی نہیں یا بالکل کم ہے۔ اس کی موٹی مثال بچے کی ہے۔ بچہ روتا ہے چلّاتا ہے مگر عورت کے ماتھے پر بَل تک نہیں پڑتا، سَو میں سے ایک مرد ہو گا جو عورت کا یہ کام کرے گا۔ اس معاملہ میں عورت کا دل خدا تعالیٰ نے پہاڑ بنایا ہے۔ دنیا کے بڑے سے بڑے فلاسفر کو ایک دن کیلئے ایک بچہ دے دو شام تک وہ نیم پاگل ہو جائے گا۔ اس کے مقابلہ میں سفر میں، جنگ میں مرد ہی کام آتے ہیں۔ یہاں پر عورت کتنی ہی ہوشیار کیوں نہ ہو گھبرا جائے گی حالانکہ بچوں کی پرورش کے معاملہ میں جاہل سے جاہل عورت عقلمند سے عقلمند مرد سے زیادہ معاملہ فہم اور عقلمند ثابت ہو گی۔ یہ طاقت عورتوں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ مردوں میں مقابلۃً اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں۔ مردوں میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو بچے پالنا جانتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربہ میں کئی ایسے آدمی دیکھے ہیں جنہوں نے بچوں کی پرورش اچھی طرح کی۔ مثلاً ایک مرد کی بیوی مر گئی تھی اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اس نے دوسر ی شادی نہیں کی اور خود اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اسی طرح ہمارے ایک دوست قادیان کے ہیں پیر افتخار احمد صاحب، یہ حضرت خلیفہ اوّل کے سالے اور منشی احمد جان صاحب کے بیٹے ہیں، منشی احمد جان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایسی بصیرت عطا کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ مسیحیت بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے حضور کو لکھا
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
تو وہ بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ تھے۔ ان کے بیٹے پیر افتخار احمد صاحب بچوں کے پالنے میں بڑے ماہر ہیں۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سلسلہ کے بہت بڑے رکن تھے۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضور ایک قرب حاصل تھا اور سلسلہ کے معاملات میں بہت غیرت رکھتے تھے۔ اس زمانہ میں تکلّف اور آسائش وغیرہ کا خیال تو ہوتا ہی نہیں تھا۔ پیر صاحب کے رہنے کیلئے ایک کوٹھڑی حضرت صاحب کے گھر میں تھی اور اس کے اوپر کی کوٹھڑی میں مولوی عبدالکریم صاحبؓ رہا کرتے تھے۔ پیر صاحب کے بچوں کے رونے چلّانے کی آواز آنے پر ان کو غصہ آیا کرتا تھا اور اکثر پیر صاحب سے فرمایا کرتے تھے ’’پیر صاحب آپ بھی کیسے ہیں بچوں کو چپ کیوں نہیں کراتے مجھے تو ان کے رونے کی آواز سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے۔‘‘
جب 1905ء میں زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع اپنے دوستوں کے باغ میں رہنے لگے تو ان دونوں کے جھونپڑے بھی پاس پاس تھے۔ وہاں ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب سے کہا ۔’’پیر صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے بچے روتے ہیں اور آپ نے ان میں سے ایک کو نہایت اطمینان سے کندھے سے لگایا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے کو نرمی سے پچکارتے رہتے ہیں۔ اگر میرے پاس ہوں تو ایسا نہ ہو سکے بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کر ہی گھبراہٹ ہوتی ہے‘‘۔ پیر صاحب مسکرا دیئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بچوں کو تو میں نے اٹھایا ہوتا ہے اور آپ کو یونہی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے۔ تو بعض مرد ایسے ہوتے ہیں۔ مگر بالعموم مردوں کو اگر بچے سنبھالنے پڑیں تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا جائیں۔ مجھے تو پانچ منٹ بھی اگر بچہ رکھنا پڑے تو گھبرا جاتا ہوں لیکن عورتیں کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا سب کام کرتی ہیں اور بچوں کی نگہداشت سے اور ان کے رونے چلانے سے ذرا نہیں گھبراتیں۔ اگر گھبرا بھی جائیں تو ذرا سی چپت رسید کی اور ایک منٹ کے بعد پھر گلے لگا لیا۔ غرض فطرتیں اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھی ہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ دونوں کے فرائض بدل دیئے جائیں تو دونوں اپنے کاموں میں ناقص رہ جائیں گے۔ ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ کا کام پَیر سے لینا چاہے یا پَیر کا کام ہاتھ سے لینا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ بیسیوں کام ہاتھ کے ایسے ہیں جو پَیر یا تو بالکل کر ہی نہیں سکے گا یا اگر کرنے کی کوشش کرے گا تو خراب کر دے گا۔ دونوں کے کام مختلف ہیں اور علیحدہ علیحدہ کاموں کیلئے خدا تعالیٰ نے ہاتھ اور پاؤں بنائے ہیں۔
(باقی آئندہ)
ماشاء اللہ