وقف زندگی کی اہمیت
حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ نے جلسہ سالانہ 1960ءمیں وقف زندگی سے متعلق عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتاتے ہوئے فرمایا:
’’وقف زندگی کا تعلق مردوں سے تو ہے ہی لیکن عورتوں پر بھی بہت بھاری ذ مہ داری عا ئد ہو تی ہے کیونکہ وہ تعلیم جو ایک مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنا تی ہے ماں کی گود سے شروع ہو تی ہے ماں کی گود وہ پہلی درس گاہ ہے جہاں سے بچہ راہ عمل کرتا ہے ہمیں کوشش کر نی چا ہئے کہ احمدی بچے وہ درس حیات لے کر پروان چڑ ھیں جو ایک سچے مسلمان کا طرہ امتیاز ہے ۔بہت ممکن ہے کہ ان ہی میں سے کو ئی محمد بن قاسم ،خالد بن ولید یا طارق بن زیاد پیدا ہو جو محمد رسول اللہﷺ اور اسلام کی شان کو چار چاند لگا دے۔جو محمد رسول اللہ ﷺ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے والے ہو ں ۔جو خدا تعا لیٰ کا نام دنیا کے کونے کو نے میں بلند کر یں ۔اور اسلام کا پر چم اس شان سے لہرا ئیں کہ تمام دنیا حلقہ بگوش اسلام ہو لیکن یہ سب ہا تھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے نہیں ہو سکتا اس کے لئے ضرورت ہے ابراہیم ؑ کی سی بے مثال قربا نی کی۔اس کے لئے ضرورت ہے ہا جرہ کے سے صبرو استقلال کی۔اوراس کے لئے ضرورت ہے اسمٰعیل ؑ کی سی عدیم المثال اطا عت و فرما نبرداری کی ۔حضرت ابراہیم ؑکی عظیم الشان قربانی کو خدا تعا لیٰ نے اتنا نوازا اتنا نوازا کہ آپ کی ذ ریت میں سے وہ نبی پیدا ہوا جو شہ لولاک ہے ۔
پس ان تین بزرگ ہستیوں کی قربانی ہر ماں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان کی طرح اپنی زندگی وقف کر یں اور اس وقفِ زندگی کی اس زمانہ کے لحا ظ سے سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نیک تر بیت کے لئے اپنے آپ کووقف کر دے۔ ہر ماں اپنے جگر گو شہ کو خدا تعا لیٰ کی رضا کے لئے اسلام کی بقاء کے لئے اور حضرت محمد ﷺ کی شان کو دوبالا کر نے کے لئے اچھی تر بیت دے پھر اسے وقف کر دے ۔ان کو بچپن ہی سے ایسی تعلیم دے جن سے ان کے دلوں میں اسلام کی محبت اور خدا تعا لیٰ کی عظمت قائم ہو۔وہ دین کو دنیا پر مقدم کر نے والے ہوں وہ میدا ن ِعمل میں کو ئی پناہ گاہ تلا ش کرنے کی بجائے صف اول میں سرگرم ِعمل نظرآ ئیں ۔ربوہ میں جا معہ احمدیہ کی درس گاہ اور مختلف تنظیموں کا قیام محض اور محض اسی غرض کے لئے ہے کہ ہماری جماعت کے بچے اس میں تعلیم حا صل کریں اور اسلام کے جا نباز سپا ہی بنیں ……۔
آپ نے مزید فرما یا کہ میرے دل میں اس بات کی شدید طلب اور تڑپ ہے کہ ہمارے بچے اسلامی تہذیب، اسلامی تعلیم اور شعار کا ایسا مکمل نمونہ ہوں کہ دوسرے دیکھنے وا لے اس کو دیکھ کر رشک کریں۔ اس کے لئے ضرورت ہے ایسی با عمل ماؤں کی جو اپنے بچوں کی نگرا نی کر تی رہیں کہ آیا انہوں نے نماز پڑھی۔قرآن کریم کی تلاوت کی۔ سلسلہ کی کتا بوں کا مطالعہ کیا۔ اچھے کاموں کی رغبت اور بُرے کا موں سے اجتناب کا جذبہ ان میں پیدا ہوا۔اگر احمدی ما ئیں ان چند امور کو ذ ہن نشین کر لیں تو وہ دن دور نہیں کہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے کو نے کو نے میں لہرائے گا اور کسی جگہ بھی شیطان کی حکو مت با قی نہ رہے گی کیو نکہ ہمارے پا س وہ نسخہ کیمیا ہے جس میں ہدا یت اور رہنمائی کی ہر چیز مو جود ہے وہ نسخہ قرآن کریم ہے اس شمع کو ہاتھ میں لے کر اٹھئے ۔تا ریکی خود بخود دور ہو تی جا ئے گی اور روشنی کی فتح آپ کے قدم چو مے گی۔
( خطاباتِ مریم ،جلد اوّل ،مر تبہ لجنہ اماء للہ پا کستان ،صفحہ 220تا221)