درود شریف کی برکات
جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:
ایک بار میں نے خود حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا۔ آپؑ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کیے ہیں۔ اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرتﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرتﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر اُن کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہونچتی ہیں۔ یقیناً کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرتﷺ دوسروں تک پہونچ ہی نہیں سکتا۔
اور فرمایا کہ درود شریف کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔
(الحکم 28؍ فروری 1903ء صفحہ 7 کالم 2،1)
خدا کا پیارا بننے کا طریق
میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جُھک جاتا ہے اور اُس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبتِ الٰہی کی ایک خاص تجلّی اُس پر پڑتی ہے اور اُس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اُس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 67، 68)
سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا
دُنیا میں کروڑہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کانام ہے محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلِہٖ وسلم۔
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا۔
ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کاذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ حضرت داؤد حضرت عیسیٰ علیہم السلام اوردوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا کیونکہ صرف قصوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ و ہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقیناًسمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلا م ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دعائیں قبول ہو جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے
محمدؐ عربی بادشاہ ہر دو سرا
کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی
اُسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں
کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدادانی
ہم کس زبان سے خدا کا شکرکریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوں کی ارواح کے لئے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لئے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت ظاہر ہوا اور دُنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا وہ نہ تھکانہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اُس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدقِ دل سے ہمارے پاس آیا جس نے اُس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹا یا جو اُس کے لئے کھولا نہ گیا لیکن افسوس ! کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کر لیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور اُن کے اندر داخل ہو۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 301 تا 303)