احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت مسیح موعودؑ کے آبا و اجداد
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا خاندان(پنجم)
اولوالعزم زمیندار
سرلیپل گریفن کی کتاب ’’تذکرہ رؤسائے پنجاب‘‘ میں اس خاندان کے زمیندارہونے کی بابت یوں لکھاہے:
Mirza Sultan Ahmed… was a Lambardar of Qadian… Mirza Sultan Ahmed received the title of Khan Bahadur and five squares of land in the Montgomery district… Mirza Sultan Ahmed`s younger son, Mirza Rashid Ahmad, is an enterprising Zamindar who has acquired a large area of land in Sindh. (Chiefs and families of Note in the Punjab Vol. 2 Pg86)
’’مرزا سلطان احمد…قادیان کا نمبردار بھی تھا۔…مرزاسلطان احمدکو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں 5 مربعہ جات اراضی عطاہوئے…خان بہادر مرزا سلطان احمدکا چھوٹا بیٹا رشید احمدایک اولوالعزم زمیندارہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیاہے…‘‘
(تذکرہ رؤسائے پنجاب جلد دوم صفحہ 69)
حاجی برلاس
یہ وہ تفصیل تھی جس سے واضح ہوتاہے کہ آپ ایک عالی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو کہ فارسی الاصل تھااور ان تمام علامات کا حامل تھاجن کا تذکرہ احادیث مبارکہ نبویہﷺ میں کیا گیا تھا۔اور بزرگان امت نے بیان کیاتھا۔
اس کے بعد اب حضرت اقدسؑ کے آباواجداد کا مختصر تعارف پیش کیاجاتاہے۔
’’اس خاکسارکے باپ دادے رئیس ابن رئیس اور والیان ملک تھے اوروہ اس ملک میں بھی اس قدردیہات کے مالک اور خودسر والی رہ چکے ہیں جوطول میں پچاس کوس سے زیادہ تھے۔‘‘
(اربعین نمبر 2:روحانی خزائن جلد17صفحہ 363-364حاشیہ)
اس قبیلہ برلاس کا مورث اعلیٰ ایروم جی برلاس تھا۔جبکہ قراچار جو کہ تیسری پشت سے تھے یعنی اس کے پوتے،یہ اپنی قوم کے پہلے فرد تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔اوران کے پڑپوتے حاجی برلاس تھے۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلداول ص30-31)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اپنی تصنیف ’’حیاتِ احمدؐ‘‘میں لکھتے ہیں :
’’اس قوم کا مورث اعلیٰ قراچار نامی تھا۔جو چھٹی صدی ہجری کے قریب گزرا ہے۔یہ شخص نہایت نیک طینت اور پاک منش اور خدا پرست تھا اور یہ پہلا شخص تھا۔جو اپنی قوم میں سے حلقہ اسلام میں داخل ہو کر اس قوم میں اشاعت اسلام کا باعث ہوا۔جان ملکماور مارخم جیسے متعصب مورخین نے بھی قراچار کی بڑی تعریف کی ہے۔یہ شخص پہلے چغتائی کا وزیر تھا۔مگر اس کی جوانمردی اور شجاعت نے بادشاہ کو ایسا گرویدہ کیا۔کہ اسے سول وزارت سے علیحدہ کر کے جنگی وزارت اور سپہ سالاری کے عہدہ پر مقرر فرمایا۔قراچار نے اپنی قوم برلاس کو سمر قند کے جنوب کی طرف تخمیناً 30میل کے فاصلے پر شہر کش کے گردو نواح میں آباد کیا۔اس کے پوتے برقال کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔جو بجائے خود تقویٰ و طہارت میں اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے۔ایک کا نام طراغے اور دوسرے کا نام حاجی برلاس تھا۔اور دونوں حضرت قدوة السا لکین شیخ شمس الدین رحمةاللہ علیہ کے مرید تھے۔ شیخ ایک مشہور بزرگ اور خدا رسیدہ تھے۔ان کی بہت سی کرامتیں مشہور ہیں۔حضرت صاحبقران تیمور کے متعلق لکھا ہے۔کہ جب طراغے کے ہاں فرزند پیدا ہوا۔تو حسن عقیدت سے دونوں بھائی مل کربچے کو اپنے مرشد کے پاس لے گئے۔جب ان کے حضور پہنچے تو حضرت شمس الدین رحمةاللہ علیہ تلاوت میں مصروف تھے۔اور اس وقت سورة الملک کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔
ءَاَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ(سورۃ الملک :17)
بچے کو دیکھتے ہی فوراً فرما دیا کہ اس کا نام تیمور یعنی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والا رکھو۔ حضرت صاحبقران تیمور کا نام اس وقت حضرت شمس الدین نے گویا ان حالات اور واقعات کو کشفی رنگ میں دیکھتے ہوئے رکھ دیا جو آئندہ اس عظیم الشان انسان سے ظاہر ہونے والے تھے۔ اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ فی الحقیقت وہ بچہ دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب کا موجب ہوا۔اگرچہ طراغے بجائے خود ایک نیک اور دیندار مرد خدا تھا لیکن حاجی برلاس کو کیا بلحاظ تقویٰ و طہارت اورکیا بلحاظ جودو کرم بڑی شہرت حاصل تھی۔ اور اس کی شہرت کا زیادہ تر باعث حلیمہ خاتون تھی جو پرلے درجہ کی پارسا اور کریم النفس اور رحم دل اور بڑی لائق خاتون تھی۔ اور اپنے شوہر کی وفادار رفیق اور جان نثار مشیر تھی۔کش کی حکومت حاجی برلاس کے حصہ میں تھی۔اور دوسرا حاجی برلاس کی اطاعت کرتا تھا۔لیکن جب تیمورنے زور پکڑا۔تو حضرت شمس الدین رحمة اللہ علیہ کی پیشگوئی کے موافق ایک انقلابی سلسلہ شروع ہو گیا۔اور تیمور نے کش کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔اور حاجی برلاس وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہوا… جب کش کی حکومت سے تیمورنے اپنے چچا حاجی برلاس کو نکال دیا۔تو انہوں نے خراسان میں پناہ لی تھی۔اور وہیں فوت ہو گئے تھے۔ تیمورنے پیچھے خراسان کا علاقہ فتح کر کے اپنے چچا کی اولاد کو جاگیر میں دے دیا۔اس لئے انہوں نے وہاں ہی بودوباش اختیار کی۔‘‘
( حیات احمدؐ،جلداول ص32 تا34)
ان کانام امیر حاجی تھا۔انہیں عرف عام میں حاجی برلاس کہتے تھے۔یہ برلاس قوم کے سردار تھے۔ ان کا مرکز سمرقند کے قریب شہر کش تھا۔ جسے شہر سبز بھی کہتے تھے۔ حاجی برلاس کا شجرۂ نسب درج ذیل ہے :
امیر قراچارنویان
میسو منکا نویان
بورالغی نویان
امیر حاجی برلاس
امیر حاجی برلاس کی آئندہ دوپشتیں بھی مل گئی ہیں:۔
امیر حاجی برلاس
محمد درویش
علی درویش
علی درویش کی نسل میں مرزا ہادی بیگ پیدا ہوئے جوکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مورث اعلیٰ ہیں۔
حضرت مرزا ہادی بیگ
مرزا ہادی بیگ شاہی خاندان کے چشم وچراغ تھے اوران کا شہنشاہ ہندوستان ظہیرالدین بابر سے خاندانی قرابت کا تعلق بھی تھا۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ اپنی تصنیف ‘حیاتِ احمدؐ’میں لکھتے ہیں :
’’میرزاہادی بیگ حضرت مرزا غلام احمدصاحب مسیح موعود علیہ السلام کے مورث اعلیٰ ہیں۔ خراسان میں ہی پیدا ہوئے تھے۔اور اس طرح پر مسند امام احمد بن حنبل میں جو حدیث لکھی ہے۔جس میں مہدی کا خروج خراسان سے لکھا ہے۔اگر ہم ٹھنڈے دل سے غورکریں تو اس کا مطلب یہی تھا جو مرزا ہادی بیگ کے وجود سے سچا ہوا۔کیونکہ اس بزرگ کی نسل سے وہ شہسوارِ ہدایت پیدا ہوا جو مہدی کہلایا۔…
حضرت مرزا ہادی بیگ جو علیہ الرحمۃ علم وفضل اور تفقہ فی الدین اور پرلے درجہ کی فیاضیٔ طبع اور شجاعت اور عدل وداد اور علم دوستی کے لئے اپنی قوم و رعایا میں ممتاز اور مشارٌ الیہ تھے۔ان کے تقویٰ و طہارت اور جوش واخلاص دین کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے ان کو عظیم الشان انسان کا باپ بننے کے لئے چن لیا تھا جو اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں کا موعود تھا۔اور پہلے نوشتوں میں جس کو بڑے بڑے خطابوں سے یاد کیا گیا تھا۔ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب اپنے ملک میں ایک معزز و ممتاز صاحب حکومت تھے… حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب کو اسلام سے بہت محبت تھی۔اور وہ اپنی دینی اور عملی حالت کے لحاظ سے ایک ممتاز بزرگ تھے۔یہ بات یہاں آ کر اپنے آباد کردہ قصبہ میں بھی انہوں نے ملحوظ رکھی۔ممکن تھاکہ آج کل کے دنیا پرستوں کی طرح اس گاوٴں کا نام ہادی پورہ یا برلاس پورہ رکھ لیتے مگر ان کی دینداری اورزاہدانہ طبیعت نے پسند کیا۔کہ اس کا نام اسلام پور رکھیں۔‘‘ (حیات احمد،جلداول ص34تا 37)
یہ وہ بزرگ ہیں جوقادیان کے بانی تھے۔کیونکہ یہ اپنے خاندان کے دیگرافرادکوساتھ لے کرسمرقندسے ہجرت کرتے ہوئے ہندوستان میں تشریف لائے اور پنجاب کی سرزمین میں ایک نئی بستی آبادکی اور اسلام پوراس کانام رکھا۔ جوبعدمیں اسلام پورقاضی اورپھر مرورِ زمانہ کے ساتھ قادیان کے طورپرمشہورہوا۔ اندازاً1530ء میں انہوں نے قادیان کی بنیادرکھی۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے انہیں کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیوں اور کس وجہ سے ہمارے بزرگ سمرقند سے اس ملک میں آئے۔مگر کاغذات سے یہ پتہ ملتا ہے کہ اس ملک میں بھی وہ معزز امراء اور خاندان والیان ملک میں سے تھے اور انہیں کسی قومی خصومت اور تفرقہ کی وجہ سے اس ملک کو چھوڑنا پڑا تھا۔ پھر اس ملک میں آکر بادشاہ وقت کی طرف سے بہت سے دیہات بطور جاگیر ان کو ملے۔ چنانچہ اس نواح میں ایک مستقل ریاست ان کی ہوگئی۔‘‘
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13ص165،164حاشیہ)
(باقی آئندہ)