14؍جولائی 1903ء: بیان واقعہ ہائلہ شہادت
شیخ عجم ۔ حضرت مولوی صاحبزادہ سید محمد عبداللطیف شہید افغانستان رئیس اعظم خوست غفراللہ لہ
بیسویں صدی کے آغاز پر افغانستان میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دو صحابہ کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ ان میں سے ایک ،خوست سے تعلق رکھنے والے حضرت مولوی صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف صاحب شہید کا شمار افغانستان کے چوٹی کے علماء میں ہوتا تھا۔ ’’ریاستِ کابل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی اور طاقتِ علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سردار قرار دیا تھا۔ وہ سب سے زیادہ عالم، علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے۔ اور نئے امیر کی دستار بندی کی رسم بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوتی تھی۔‘‘
امیر عبدالرحمٰن خان نے آپ کے متعلق ایک فرمان میں اپنے قلم سے لکھا کہ کاش افغانستان میں آپ جیسے ایک دو عالم اَور بھی ہوتے۔
آپ نے نومبر 1902ء میں قادیان حاضر ہو کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف پایا اور کئی مہینے قادیان میں قیام کیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابرکت معیت میں جہلم کا سفر بھی اختیار کیا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت شہزادہ صاحب نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’خدا نے مجھے تین بار سر دینے کو فرمایا ہے۔ پس میں دونگا۔‘‘ چنانچہ جب آپؓ نے اپنے وطن واپس جا کر تبلیغِ احمدیت کا مقدس فریضہ سرانجام دینا شروع کیا تو امیر حبیب اللہ خان نے آپؓ کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ آپ کو خوست سے زیرِ حراست لے کے کابل منتقل کردیا گیا جہاں آپ نے شہادت کے عالی مقام پر فائز ہونے سے قبل اللہ تعالیٰ کی راہ میں قید و بند کی صعوبتوں کو بخوشی برداشت کیا۔
13؍ جولائی 1903ء کو حضرت شہزادہ صاحبؓ کے ساتھ علماء کا مباحثہ ہوا اور فتویٰ کفر کا اطلاق پایا۔ اگلے روز 14 جولائی کے دن اس عظیم الشان شخصیت کو امام آخر الزمانؑ پر ایمان لانے کی پاداش میں سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا۔ اس دردناک لیکن ایمان افروز واقعہ شہادت کا مختصر احوال بحوالہ کتاب ’’شیخ عجم اور آپ کے شاگرد‘‘ پیشِ خدمت ہے۔ محترم سید میر مسعود احمد صاحب محولہ بالا کتاب میں رقمطراز ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بعد اس کے کہ فتویٰ کفر لگاکر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا۔صبح روز دو شنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانہ یعنی خاص مکان دربارامیر صاحب میں بلایا گیا۔ اس وقت بھی بڑا مجمع تھا۔ امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے۔ ان کے پاس سے ہوکر گزرے اور پوچھا کہ اخوند زادہ صاحب کا کیا فیصلہ ہوا۔ شہید مرحوم کچھ نہ بولے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہو گیا یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 56۔ مطبوعہ لندن)
اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں:
’’وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا اور یہ چالاکی کی گئی کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمداً نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون ظاہر کیا گیا۔ یہ صاف اس بات پردلیل تھی کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے۔ مگر افسوس امیر پر کہ اس نے کفر کے فتویٰ پرہی حکم لگا دیا اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے۔ حالانکہ اس کو چاہئے تو یہ تھاکہ اس عادلِ حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کوچھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا۔ بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتاتھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی جان ضائع کرنا ہے۔ تو اس صورت میں مقتضا خدا ترسی کایہی تھا کہ افتاں و خیزاں اُس مجلس میں جاتا۔ اور نیز چاہئے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہیدمظلوم پر یہ سختی روا نہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اس کو دبا یا جاتا اور آٹھ سپاہی برہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پر کھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اسکوثبوت دینے سے روکا جاتا۔ پھر اگر اس نے ایسا نہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اس کا فرض تھا کہ کاغذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا۔ بلکہ پہلے سے یہ تاکید کردیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہئیں۔اور نہ صرف اس بات پر کفایت کرتا کہ آپ ان کاغذات کو دیکھتابلکہ چاہئے تھا کہ سرکاری طور پران کاغذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھو کیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہو گیا اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیحؑ کے فوت ہونے کے بارہ میں نہ دے سکا ‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 55مطبوعہ لندن)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
’’حضرت صاحبزادہ سیدمحمدعبداللطیف صاحب کو مباحثہ کے اختتام کے بعد جامع مسجد بازار کتب فروشی سے ایک جلوس کی صورت میں روانہ کیا گیا۔ پا پیادہ چوک پل خشتی میں سے ہوکر بازار ارک شاہی میں سے گزر کر دروازہ نقار خانہ تک پہنچے اور شاہی قلعہ میں داخل ہوئے۔ جب انہیں امیر حبیب اللہ خان کے دربار میں لایاگیا تو مولویوں اور عوام کاجم غفیر موجود تھا۔ سردار نصراللہ خان نے دریافت کیا کہ کیافیصلہ ہوا۔ اس پر لوگوں نے شور مچایا کہ صاحبزادہ ملامت شُد۔
امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ مولویوں کا فتویٰ تو کافر قرار دئے جانے کا ہے اور سنگسار کرنے کی سزا تجویز کی گئی ہے اگر آپ کوئی صورت تو بہ کی پیدا کر لیں تو نجا ت مل سکتی ہے۔
اس موقعہ پر سردار نصراللہ خان نے اپنے قلبی بغض و عناد کا مظاہرہ کیا اور خود علماء کا فتویٰ تکفیر ورجم پڑھ کر سنایا اور حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ اطمینان رکھیں امیر صاحب آپ کی مرضی اور علماء کے فتویٰ کی ہی تصدیق و تائید کریں گے مگر وہ چاہتے ہیں کہ بطور اتمام حجت صاحبزادہ عبداللطیف کو کسی قدرمہلت دے کر توبہ کا موقعہ دیں۔
اس وقت دربار میں ڈاکٹر عبدالغنی اور اس کے دوبھائی بھی موجود تھے۔ انہوں نے دل کھول کر احمدیت کی مخالفت کی اور جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔امیر حبیب اللہ خان نے اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کو توقیف خانہ بھجوا دیا ‘‘۔
(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ 46تا 50)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’امیر صاحب جب اپنے اجلاس میں آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ صاحب مرحوم کو بلایا اور کہاکہ آپ پر کفرکا فتویٰ لگ گیا ہے۔اب کہو کہ کیاتوبہ کروگے یا سزا پاؤگے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیااور کہا کہ میں حق سے توبہ نہیں کرسکتا۔ کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں۔ یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔تب امیر نے دوبارہ توبہ کے لئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا۔ مگرشہید موصوف نے بڑے زور سے انکار کیا اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے توبہ کروں۔
ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا۔شہید مرحوم ہر ایک فہمائش کا زور سے انکار کرتا تھااور وہ اپنے لئے فیصلہ کر چکا تھا کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں۔تب اس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا۔ یہ راقم کہتاہے کہ یہ قول وحی کی بناء پر ہوگاجو اس وقت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے۔ تب فرشتوں سے یہ خبر پا کر ایسااس نے کہا۔ اور اس قول کے یہ معنی تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے چھ روز تک مجھے مل جائے گی اور قبل اس کے جوخدا کا دن آوے یعنی ساتواں دن میں زندہ ہو جاؤں گا۔ اور یاد رہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَاء۔
یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں۔ پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا۔
…… جب شہیدمرحوم نے ہر ایک توبہ کرنے کی فہمائش پر توبہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کاغذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافرکی سنگسار کرنا سزا ہے تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین ۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ 56تا58مطبوعہ لندن)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کرکے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اسی رسی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس ظالم امیرکے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اورناک کوچھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسّی ڈالی گئی تب اس رسّی کے ذریعہ شہید مرحوم کونہایت ٹھٹھے ہنسی اور گالیوں او ر لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے۔اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں، مفتیوں اور دیگراہل کاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا اور شہر کی ہزارہا مخلوق جن کا شمار کرنا مشکل ہے اس تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی۔ جب مقتل پر پہنچے تو شاہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دئے گئے تھے امیر اُن کے پاس گیا اور کہاکہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتاہے انکار کر ے تو اب بھی میں تجھے بچا لیتاہوں۔ اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتاہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر۔
تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذباللہ سچائی سے کیونکر انکارہو سکتاہے اور جان کی کیاحقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیزہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں مجھ سے ایسا ہرگز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا۔
تب قاضیو ں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے،کافر ہے،اس کو جلد سنگسار کرو۔ اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصراللہ خان اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے۔
جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بارہا کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتاہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤکہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔ قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں۔ تب امیرنے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں۔ تب قاضی نے گھوڑے سے اترکر ایک پتھر چلایا جس پتھرسے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی۔ پھر بعد اس کے بدقسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا۔ پھرکیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید مرحوم پرپڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکاہو۔ یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہیدمرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا۔
پھرامیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتاتھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا ا س پرچھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے۔بیان کیاگیاہے کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا 14؍ جولائی کو وقوع میں آیا۔ اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیاکہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ شاگرد تھے۔
معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے جیسا کہ بیان کیاگیا ہے کیونکہ امیرکے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اورجو کچھ ہم نے لکھاہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصۃً لکھا ہے۔ ہر ایک قصہ میں اکثر مبالغہ ہوتاہے لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈرکر اس کا ظلم پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 58تا 60مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک گھنٹہ تک برابر ان پرپتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگرانہوں نے اف تک نہ کی، ایک چیخ تک نہ ماری‘‘۔
(الحکم 6؍مارچ1908ء۔ ملفوظات جلد 10صفحہ 140مطبوعہ لندن)
سیداحمد نور صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے لے جایا جا رہاتھا تو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ آ پ راستہ میں تیزی سے اور خوش خوش جا رہے تھے۔ ایک مولوی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیوں ہیں ابھی آپ کو سنگسار کیا جانے والاہے؟ آپ نے فرمایا یہ ہتھکڑیاں نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیﷺ کے دین کا زیور ہے اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولیٰ سے ملنے والا ہوں۔
(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ 24)
حضرت صاحبزادہ صاحب کو کابل کے باہر شرقی جانب ہندوسوزان کے ایک میدان موسومہ بہ سیاہ سنگ میں سنگسار کیا گیا تھا۔
(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ 24و قلمی مسودہ صفحہ 48)
جناب قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ جب امیر حبیب اللہ خان نے حضرت صاحبزادہ پر لگائے گئے فتویٰ کفر اور سنگساری کی سزا کے کاغذ پر دستخط کر دئے تو سردار نصراللہ خان نے کابل میں موجود ملاؤں کو اطلاع کروا دی اور وہ ارک شاہی کے سامنے جمع ہونے شروع ہو گئے۔تب حضرت صاحبزادہ صاحب کو مقتل کی طرف لے جایاگیا۔ یہ ہجوم وزارت حربیہ کے سامنے سے گزر کر اس سڑک پر روانہ ہوا جو بالا حصار کو جاتی ہے۔ کابل کے شیر دروازہ سے گزر کر شہر سے باہر آئے۔ بالاحصار کا قلعہ کو ہ آسامائی پر واقعہ ہے۔ یہ قلعہ اس وقت بطور میگزین استعمال ہوتا تھا۔ اس کی جانب جنوب ایک پرانا قبرستان ہے جس میں افغانستان کے امراء و رؤوسا کی قبریں ہیں۔ اس کے قریب حضرت صاحبزادہ صاحب کو سنگسار کرنے کے لئے ایک گڑھا قریباً اڑھائی فٹ گہرا کھودا گیا جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کو گاڑ دیا گیا۔ گاڑے جانے کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب نے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
حضرت صاحبزادہ صاحب پر پہلا پتھر سردار نصراللہ نے چلایا۔ مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ پہلا پتھر قاضی عبدالرزاق ملائے حضور نے پھینکا تھا اور اس کے ساتھ اس نے جوش میں آکرکہاتھا کہ آج جو آدمی اس پر پتھر پھینکے گا وہ جنت میں مقام پائے گا۔
جب حضرت صاحبزادہ صاحب کی پیشانی پرپہلا پتھر لگا توآپ کا سر قبلہ رخ جھک گیا اور آپ نے یہ آیت پڑھی:
’’اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ۔ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَ اَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِیْن…
آپ کی شہادت 17؍ربیع الاول 1321ھ مطابق 14؍جولائی 1903ء واقعہ ہوئی۔
(عاقبۃ المکذبین حصہ اول صفحہ50تا 53)
مکرم رحمت اللہ صاحب باغانوالے۔بنگہ ضلع جالندھر کی روایت ہے کہ :
’’خاکسار دارالامان میں گیا ہوا تھا کہ نماز ظہر کے بعد مکرم شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اخبار وطن لاہور میں حضرت مولوی عبداللطیف صاحب افغانی کوشہیدکئے جانے کی خبر شائع ہوئی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ یہ اخبار اکثراحتیاط کرتاہے یعنی بالعموم غلط خبر شائع نہیں کرتا۔ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے اخبار میں کچھ شائع نہ کریں۔ انشاء اللہ ہم خود لکھیں گے‘‘۔
(ملخص از رجسٹر روایات صحابہ جلد 2صفحہ42)‘‘
(شیخ عجم اور آپ کے شاگرد۔ صفحہ 108 تا 114)
(alislam.org/urdu/pdf/Sheikh-e-Ajam-aur-Ap-k-Shagird.pdf)
اس کے بعد حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ کے عنوان سے کتاب تصنیف فرمائی جس میں حضرت مولوی صاحب کے اخلاص و ایمان ،تعلق ارادت نیز واقعہ شہادت کا مفصلا ًبیان فرمایا۔
٭…٭…٭