تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ واریوں کو سمجھو (قسط سوم)
از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
(گذشتہ سے پیوستہ )یہ ضروری نہیں کہ عملی طور پر ہی بدیاں اور بری باتیں مائیں اپنے بچوں کو سکھائیں بلکہ بے پروائی اور بے توجہی سے جو بدیاں بچے میں پیدا ہو جائیں یا جو بُری عادتیں وہ سیکھ لیتا ہے اس کی ذمہ داری بھی عورتوں پر ہی آتی ہے۔ تم میں سے بہت ہیں جو یہ کہیں گی کہ میرا بچہ بے شک کلمہ نہ پڑھے لیکن زندہ رہے لیکن تم میں سے کتنی ہیں جو یہ کہیں کہ میرا بچہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مر جائے۔ ایک عورت اپنے بیمار بچہ کو لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور کہنے لگی میرا بچہ عیسائی ہو گیا ہے آپ اس کا علاج کریںلیکن جو بات وہ اصرار کے ساتھ کہتی تھی وہ یہ تھی کہ آپ ا س سے ایک دفعہ کلمہ پڑھوا دیں پھر بے شک یہ مر جائے مجھے کوئی پروا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لڑکے کو چونکہ وہ بیمار تھا حضرت خلیفہ اوّل کے پاس بھیجا تا آپ اس کی بیماری کا علاج بھی کریں اور کچھ تبلیغ بھی کریں لیکن وہ لڑکا بھی بڑا پختہ تھا، وہ کلمہ پڑھنے سے بچنے کی خاطر ایک رات بھاگ کر چلا گیا۔ رات کو ہی اس کی ماں کو بھی پتہ چل گیا وہ بھی اس کے پیچھے دَوڑ پڑی اور بٹالہ کے نزدیک سے اسے پکڑ کر پھر واپس لائی۔ آخر خدا نے اس کی سنی اس کا بیٹا ایمان لے آیا۔ بعد میں گو وہ فوت بھی جلد ہو گیا مگر اس عورت نے کہا اَب میرے دل کو ٹھنڈک پڑ گئی ہے موت سے پہلے اس نے کلمہ تو پڑھ لیا ہے۔ یہ ہوتی ہے صحیح تربیت اور یہ ہوتی ہے وہ روح جو اسلام عورت میں پھونکنا چاہتا ہے۔ اس قسم کی تربیت کرنے والی عورتیں جو اپنے بچوں کو نیک اور تربیت یافتہ دیکھنا پسند کرتی ہیں، وہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ ساری قوم کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ وہ ساری قوم کو زندہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ امام بخاریؒ بہت بڑے آدمی تھے، ان کے بڑے آدمی ہونے میں ان کی ماں کا بہت بڑا حصہ تھا۔ تو کیا تم سمجھتی ہو کہ ایسی ماں سے فائدہ اُٹھانے والے کا ثواب اُن کی ماں کو نہ ملتا تھا؟ نہیں امام بخاریؒ کی نیکیوں کے ثواب میں ان کی ماں بہت حد تک حصہ دار تھیں۔
اسی طرح حضرت امام ابو حنیفہؒ کی والدہ تم نہیں کہہ سکتیں کہ معمولی عورت تھیں۔ وہ ہرگز معمولی عورت نہ تھیں۔ کیا ابوحنیفہؒ کو بنانے والی معمولی عورت ہو سکتی ہے؟ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی بڑے درجے کو پہنچے گا تو اس کے ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کو اس کے ساتھ رکھا جائے گا اور وہ بھی اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ مو من کے بنانے میں اس کے ماں باپ کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک ہندو ماں کا یا ایک عیسائی ماں کا بچہ اگر مسلمان ہو جائے گا تو یہ مت خیال کرو کہ اس کی ماں کو ثواب نہ ملا ہو گا۔ اگرچہ اس کی ماں پوری طرح نہ بخشی جائے لیکن پھر بھی اس کے گناہوں میں کمی ہو گی۔ تم میں سے اکثر جہاد کی خواہش مند ہیں لیکن آؤ میں تمہیں بتلا دوں کہ یہ جہاد ہی ہے اگر تم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرو گی اور ان کو نیک بناؤ گی۔
تم اَور حکومتوں میں تو کہہ سکتی ہو کہ اگر ہم بچوں کی خدمت میں لگی رہیں گی تو ہم تاجر کیسے بنیں گی، اگر ان کی تربیت میں ہی لگی رہیں تووزیر، وکیل اور جرنیل وغیرہ کیسے بنیں گی اور دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتیں لیکن تم اسلام میں رہ کر یہ نہیں کہہ سکتیں۔ بے شک تم کو عیسائی قوم اس کا جواب نہیں دے سکتی لیکن اسلام نے تو تمہارا یہ اعتراض دور کر دیا۔ اسلام کہتا ہے کہ اگر تمہارا بیٹا جرنیل بنے گا اور وزارت کے کام کر کے دنیا میں امن قائم کرے گا تو اس کا ثواب بھی تم کو ملے گا کیونکہ یہ تم ہی تھیںجس نے ایسا بیٹا بنایا جس نے دنیا میں کارہائے نمایاں کئے۔ غرض جس جنت کا تمہارا بیٹا وارث ہو گا اسی جنت کی اسلام نے تم کو حقدار ٹھہرایا ہے۔ پس تمہاری تمام تر کامیابی کا انحصار تمہاری اولاد کی تربیت پر ہی ہے۔ تم نماز و روزہ اور صدقہ و خیرات کی پابند رہو اگر تم اِن باتوں پر کار بند نہ ہو گی تو تمہاری اولادیں کس طرح احکامِ شریعت کی پابند ہوں گی۔ تم اپنے نیک نمونہ سے ہی ایک حد تک اپنی اولاد کی تربیت کر سکتی ہو کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ انسان جو نمونہ دکھاتا ہے اردگرد کے لوگ اس کا نمونہ قبول کرتے ہیں اور بچہ میں تو نقل کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مائیں اپنی اولادوں کے لیے نیک نمونہ نہیں بنتیں تو یقیناً ان کی اولادوں کی تربیت اچھی طرح ہونا ناممکن ہے۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے علم کی شرط مرد اور عورت کے لیے برابر رکھی ہے۔ وہ تعلیم جو دنیا کی اغراض کے لیے حاصل کی جاتی ہے اس کا ثواب نہیں ملتا۔ خداتعالیٰ ان نیکیوں کا بدلہ دیتا ہے جن کا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا۔ مرد بے شک اکثر دنیا کے اغراض کے لیے تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ایسی تعلیم کا ان کو کوئی ثواب نہیں ملتا۔ ہاں عورتوں کے لیے تعلیم مکمل کر کے ثواب حاصل کرنے کا زرّیں موقع ہے کیونکہ عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے میں دنیاوی غرض کوئی نہیں بلکہ تعلیم کی غرض محض تعلیم ہی ہے اس لیے عورتیں تعلیم حاصل کر کے ثواب حاصل کر سکتی ہیں جیسا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے تم روزے رکھتے ہو، تم نمازیں پڑھتے ہو لیکن اس دنیا میں تمہیں اس کا بدلہ نہیں ملتا اس لیے میں آخرت میں تم کو اس کا بدلہ دوں گا۔تم اپنے لڑکوں کو تعلیم دلواتے ہو، وہ پڑھ کر نوکر ہوتے ہیں تمہیں کھلاتے ہیں، پہناتے ہیں تو تم نے ان کو تعلیم دلوانے کا بدلہ پا لیا لیکن جو لڑکی کی تعلیم پر تم خرچ کرتی ہو اس کا ثواب تمہیں اس دنیا میں نہیں ملتا اس کے لیے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اعلیٰ تعلیم دلواتا ہے اور ان کی اچھی تربیت کرتا ہے تو وہ جنت میں جائے گا(بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولد و تقبیلہ و معانقتہ) تو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر لڑکوں کے لیے نہیں۔ یہ تربیت کا کام معمولی نہیں۔ تمہیں خود علم ہو گا تو دوسروں کو علم سکھاؤ گی اس لیے تم پہلے خود تعلیم حاصل کرو تا اپنی اولادوں کی صحیح معنوں میں تربیت کر سکو تم لوگوں کا فرض ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے اپنی تعلیم و تربیت کا خیال کرو۔ اگر اپنی تعلیم کی طرف توجہ نہ کرو گی تو قوم درست نہیں ہو گی۔ اور یقینا ًسلسلہ کی جو خدمت تمہارے ذریعہ ہو سکتی ہے اور جو معمولی خدمت نہیں وہ تم سے بالکل نہیں ہوسکے گی۔
یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام اور سلسلہ کی جو خدمت تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کر کے کر سکتی ہو وہ اَور کوئی نہیں کر سکتا۔ تم کوشش کر کے ان کی بچپن سے ہی اس رنگ میں تربیت کرو تا ان کی جانیں سلسلہ کی خدمت کے لیے تیار ہوں۔ تم ان کو بچپن ہی سے یہ تعلیم دو کہ وہ سچائی پر عامل ہوں، وہ جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر تمہارا بچہ جھوٹ بولتا ہے تو وہ تم کو بھی بدنام کرتا ہے اور خدا کو بھی ناراض کرتا ہے۔ تم ان کو یہ تعلیم دو کہ تمہاری جانیں سلسلہ کے لیے ہیں کیونکہ جانی قربانی کرتے وقت سب سے پہلے جو ان کے دل میں جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہمارے پیچھے ہماری ماؤں کا اور ہماری بیویوں کا کیا حال ہو گا۔ اگر تم ہی ان کو یہ کہہ دو کہ ہم تب ہی خوش ہوں گی جب تم یا تو فتح پا کر آؤ یا وہاں ہی مارے جاؤ تو پھر ان کے بوجھ ہلکے ہو جائیں گے اور قربانیاں کرنے کے میدان میں وہ دلیر اور چُست گام ہو جائیں گے۔ وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے میں ذرہ بھی لرزہ نہ کھائیں گے۔ صحابہؓ نے فتوحات پر فتوحات حاصل کیں لیکن کیوں؟ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری ماؤں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی، وہ جانتے تھے کہ ہماری موت ہماری بیویوں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچائے گی بلکہ ان کے لیے فرحت و خوشی کا موجب ہو گی۔ اس لیے وہ نڈر ہو کر نکلتے تھے اور فتح حاصل کر کے آتے تھے۔
جنگِ اُحد کے موقع پر ایک عورت نے اپنی قوتِ ایمان کا وہ مظاہرہ کیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اِس جنگ کے موقع پر مشہور ہو گیا کہ رسولِ کریم ﷺ شہید ہو گئے ہیں۔ عورتیں بیتاب ہو کر میدانِ جنگ کی طرف بھاگ نکلیں۔ ایک عورت نے آگے بڑھ کر پوچھا تو ایک سپاہی نے جواب دیا اے عورت! تیرا خاوند شہید ہو گیا لیکن اس عورت نے کہا مَیں تو رسول اللہﷺ کے متعلق پوچھتی ہوں تم مجھے ان کا حال بتاؤ لیکن پھر اس آدمی نے کہا کہ تمہارا باپ مارا گیا۔ اس عورت نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور پوچھا کہ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر دو لیکن اس سپاہی نے اس کے کرب و بیقراری کا صحیح علم نہ رکھتے ہوئے اس کے بھائی کے متعلق کہا کہ وہ بھی مارا گیا ہے لیکن پھر ا س عورت نے غصہ کے ساتھ بڑے زور سے پوچھا کہ مَیں تو رسول کریم ﷺ کا حال تم سے پوچھ رہی ہوں اپنے باپ یا بھائی یا خاوند کا نہیں پوچھ رہی۔ تو پھر سپاہی نے جواب دیا کہ رسول اللہؐ تو خیریت سے ہیں۔ یہ خبر پاکر اس عورت کے دل میں خوشی اور اطمینان کی لہر دَوڑ گئی اور بے اختیار کہنے لگی اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اللہ تعالیٰ کا رسول خیریت سے ہے۔ دوسرے مارے گئے تو کوئی پرواہ نہیں۔
(سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۹۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ)
(جاری ہے )