برصغیر پاک و ہند میں موجود مقدس مقامات جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے خلفائے کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے برکت بخشی
14؍اکتوبر1884ء لدھیانہ کا دوسرا سفر
دودن کا قیام بسلسلہ عیادت میر عباس علی صاحب
لودہانہ کے سفر کے سلسلہ میں اسی سال 1884ء میں آپ نے ایک دوسرا سفر اختیار کیا۔ یہ سفر کسی کی طلبی پر نہیں تھا بلکہ میر عباس علی صاحب کی علالت کی خبر آپ کو پہنچی اور اس وقت آپ خود بھی بیمار تھے اور مصروف تھے مگر حق دوستی اور اخوتِ اسلامی کی اس قدر رعایت کی کہ ان کی عیادت کے لیے لودہانہ تشریف لے گئے۔ چنانچہ اس سفر کے متعلق آپ نے میر صاحب کو 8؍اکتوبر1884ء کو ایک خط لکھا۔
حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مخدوم و مکرم اخوایم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
یہ عاجزچند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا۔ آج بروز شنبہ بعد روانہ ہوجانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا۔ جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اورتردّد لاحق ہوا۔ اگرچہ میں بھی بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت سی تشویش پیدا ہوگئی۔ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطافرماوے۔ اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت 14؍اکتوبر تک وہیں آکر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرماوے۔ آپ کے لئے بہت دعا کروں گااور اب تَوَکُّلًا عَلَی اللّٰہِ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا۔ آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرماویں۔
8؍اکتوبر1884ء مطابق 17؍ذوالحجہ
چنانچہ حضرت اقدس ؑاس وعدے کے موافق14؍اکتوبر 1884ء کو لودہانہ تشریف لے گئے اور میر صاحب کی عیادت کر کے واپس چلے آئے اورخدا تعالیٰ نے ان کو شفا بھی دے دی۔
اس موقعہ پر آپؑ کے جانے کی کوئی خبر نہ ہوئی تھی اور نہ آپؑ نے خصوصیت سے اطلاع دی تھی تاہم چونکہ آپؑ نے سرسری طورپر لکھ دیا تھا آپؑ لودہانہ پہنچے تو حسبِ معمول قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم ،حضرت مولوی عبدالقادرمرحوم اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب جھجہری مرحوم دوست آپؑ کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے۔ ان ایام میں آپؑ کے متعلق لودہانہ کے مولوی صاحبان کو نعل در آتش کر رکھا تھا۔ آپؑ کو یہ کبھی خیال بھی نہیں ہوتا تھا کہ سٹیشن پر لوگ استقبال کے لئے آئیں بلکہ آپؑ کی طبیعت پر تو خلوت گزینی اور تنہائی کا اتنا اثر غالب تھا کہ آپؑ خلوت ہی چاہتے تھے۔ بہرحال اسٹیشن پر ان دوستوں نے استقبال کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ ؑ نے لودہانہ میں زیادہ عرصہ تک قیام نہیں کیا۔ ایک دو 2 دن ٹھہر کر واپس چلے آئے۔ غرض میر عباس علی صاحب کی عیادت تھی اور چونکہ مریضوں کی عیادت سنت ہے اور اس کے ذریعہ انسان بہت سی اخلاقی خوبیاں اور کمالات حاصل کرتا ہے آج کل یہ طریق مفقود ہو گیا ہے اور یہ ایک ایسی رسم ہو گئی ہے جس میں انگریزی تہذیب کا رنگ ہے ۔ حضرت اقدسؑ کے عزم کو دیکھئے کہ قادیان سے ایک مریض دوست کی عیادت کے لئے لودہانہ تشریف لے گئے۔ اس طرح آپ ایک مرتبہ نہایت خاموشی کے ساتھ حضرت حکیم الامۃ مولانا مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تھے۔ غرض لودہانہ کا یہ دوسرا سفر تھا جو اسی سال 1884ء میں ہوا۔ ‘‘
(حیات احمد مرتبہ یعقوب علی تراب ایڈیٹر الحکم جلد دوم صفحہ 19-20۔ اللہ بخش سٹیم پریس قادیان مطبوعہ مارچ 1934ء)
٭…٭…٭