متفرق مضامین

چندہ کے مطالب اور اِس کی فرضیت و اہمیت

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

’’دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا‘‘

’’مَیں چونکہ غریب ہوں، چندہ تو دے نہیں سکتا اس لئے (قادیان )جا رہا ہوں کہ مہمان خانے کی چارپائیاں بُن آؤں تا کہ میرے سر سے چندہ اتر جائے‘‘

چندہ یا چندا کا لفظ ہماری جماعت میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے یہ فارسی زبان سے لیا گیا ہے۔اس کے کئی معنی بیا ن کیے جاتے ہیں جن میں سے چند ایک یوں ہیں : وہ روپیہ جو مختلف لوگوں سے لے کر کسی کام کے واسطے جمع کیا جائے، امداد ، عطیہ ، خیرات ،بخشش، نذر،کسی اخبار یا رسالے کی سالانہ یا ماہانہ فیس، وہ رقم جو کسی انجمن کو اس کے ممبران کی طرف سے مقررہ اوقات پر دی جائے، وہ روپیہ جو مختلف آدمیوں سے لے کر کسی کام کے واسطے جمع کیاجائے۔ انگلش میں Donation،charityیا contribution اس کا مطلب ہے۔ اس کی جمع چندوں یا چندے ہے ۔محصول وغیرہ کے لیے بھی یہی لفظ بولا جاتاہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپؑ کے خلفائے کرام نے چندہ کی برکات و افضال کو اپنے خطبات اور تحریرات میں اکثر بیان کیا تاکہ ہم اپنے فرائض کو نہ بھولیں۔اس کی فرضیت و اہمیت سمجھ کر چندےکی ادائیگی بجا لاکر خداتعالیٰ کو راضی کرتے ہوئےاُس کی جنّت کے وارث بن سکیں۔ یہ نصائح ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان بے شمار خزائن میں سے معدودے چند درج ذیل سطور میں پیش خدمت ہیں:

’’کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا…سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’قوم کو چاہئے کہ ہر طرح سے اس سلسلہ کی خدمت بجا لاوے۔ مالی طرح پر بھی خدمت کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں چاہئے۔ دیکھو دنیا میں کوئی سلسلہ بغیر چندہ کے نہیں چلتا۔ رسول کریمﷺ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سب رسولوں کے وقت چندے جمع کئے گئے۔ پس ہماری جماعت کے لوگوں کوبھی اس امر کا خیال ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ التزام سے ایک ایک پیسہ بھی سال بھر میں دیویں تو بہت کچھ ہو سکتاہے۔ ہاں اگر کوئی ایک پیسہ بھی نہیں دیتاتو اُسے جماعت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ358،الحکم 10؍جولائی 1903ء)

چندہ کی ادائیگی ہر ماہ ہواور اس کی ادائیگی میں تخلّف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھا جائے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرما تے ہیں:

’’سو اے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتاہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانے کی جو خداتعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل او ر ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے۔ اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حقِّ خدمت ادا کرنا چاہئے۔جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری چندہ دینا چاہتا ہے وہ اس کو حقِّ واجب اور دینِ لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے اور اس فریضے کو خالصتاً للہ نذر مقرر کرکے اس کے ادا میں تخلّف یا سہل انگاری کو روا نہ رکھے۔ اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے۔ لیکن یاد رہے کہ اصل مدّعا جس پر اس سلسلے کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے۔ وہ یہی انتظام ہے ۔کہ سچے خیر خو اہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سےایسی سہل رقم ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کرسکیں ۔ہاں جس کو اللہ جلّشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندے کے اپنی وسعت، ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 33تا34)

چندہ دینے سے ایمانی طاقت حاصل ہوگی۔ اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا

حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں لکھتے ہیں :

’’میں نے اپنی جماعت کے لوگوں کو بار ہا کہا ہےکہ جو شخص دینی لحاظ سے کمزور ہو وہ اگر اَور نیکیوں میں حصہ نہ لے سکے اس سے چندہ ضرور لیا جائے کیونکہ جب وہ مال خرچ کرے گا تو اس سے اس کو ایمانی طاقت حاصل ہو گی اور اس کی جرأت اور دلیری بڑھے گی اور وہ دوسری نیکیوں میں بھی حصہ لینے لگ جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 612)

’’اخراجات کم کریں اور اپنے معیار قربانی کو بڑھائیں…لیکن بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اخراجات کم کرنے اور اپنے معیار قربانی کو بڑھانے کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جو خرچ کرنے والے سخی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے اخراجات کم کریں اور اپنے معیار قربانی کو بڑھائیں اور عموماً کم آمدنی والے لوگ قربانی کے یہ معیار حاصل کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ اندازے سے بجٹ لکھوا دیتے ہیں خاص طور پر ہماری جماعت میں زمیندار طبقہ ہے … ان کی فصلیں بھی اچھی نہیں ہوتیں لیکن ایسے مخلصین بھی ہیں کیونکہ بجٹ لکھوا دیا ہوتا ہے اس لئے قرض لے کر بھی اس کی ادائیگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب ان کو کہا جائے کہ رعایت شرح لے لو کیونکہ اگر آمد نہیں ہوتی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو کہتے ہیں کہ اگر قرض لے کر ہم اپنی ذات پہ خرچ کر سکتے ہیں تو قرض لے کر اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے وعدے کو پورا کیوں نہیں کر سکتے۔ اور ان کا یہی نقطہ نظر ہوتا ہے کہ شاید اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ فصلوں میں برکت ڈال دے۔ لیکن بعض لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍جون2004ءصفحہ5)

موصیان کو اپنا حساب صاف رکھنے کی نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ موصیان کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’موصی صاحبان کے لئے مَیں یہاں کہتا ہوں، ان کو تو خاص طور پر اس بارے میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے۔ اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ دفتر ہمارا حساب بھیجے گا یا شعبہ مال یاد کروائے گا تو پھر ہم نے چندہ ادا کرنا ہے۔ کیونکہ پھر یہ بڑھتے بڑھتے اس قدر ہو جاتا ہے کہ پھر دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔ چندے کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے۔ پھر اتنی طاقت ہی نہیں رہتی کہ یکمشت چندہ ادا کر سکیں۔ اور پھر یہ لکھتے ہیں کہ کچھ رعایت کی جائے اور رعایت کی قسطیں بھی اگر مقرر کی جائیں تو وہ چھ ماہ سے زیادہ کی تو نہیں ہو سکتیں۔ اس طرح خاص طور پر موصیان کی وصیت پر زد پڑتی ہے تو پھر ظاہر ہے ان کو تکلیف بھی ہوتی ہے اور پھر اس تکلیف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ تو اس لئے پہلے ہی چاہئے کہ سوچ سمجھ کر اپنے حسابات صاف رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍جون2004ءصفحہ6)

عہدیداران ، صدر جماعت اورسیکرٹریانِ مال کو ایک قیمتی نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ عہدیداران کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتےہیں:

’’جو جماعتی عہدیداران ہیں، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فرد جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لئے اس کو باہر نکال کر امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے، یا مجلسوں میں بلاوجہ ذکر کرکے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے۔ رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہدیداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں۔ یہ نہیں ہے کہ پھر اس غریب کو جتاتے پھریں کہ تم نے رعایت لی ہوئی ہے اس لئے اس کو حقیر سمجھا جائے۔ بہرحال ہر ایک کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اول تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جو لوگ رعایت لیتے ہیں ان میں سے اکثریت کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ جتنی جلد ہو سکے اپنی رعایت کی اجازت کو ختم کروا دیں اور چندہ پوری شرح سے ادا کریں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جلد ہی دوبارہ اس نظام میں شامل ہو جائیں جہاں پوری شرح پہ چندہ دیا جا سکے۔ ایسے لوگ بہت سارے ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ہر ایک شخص کا خود بھی فرض بنتا ہے کہ اپنا جائزہ لیتا رہے تاکہ جب بھی توفیق ہو اور کچھ حالات بہتر ہوں جتنی جلدی ہو سکے شرح کے مطابق چندہ دینے کی کوشش کی جائے ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍جون2004ءصفحہ6)

اگر نیت نیک ہو اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’کسی کام کو بھی عار نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر اس نیت سے یہ کام شروع کریں گے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ چندے دینے ہیں پھر چندے پورے کرنے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان چھوٹے کاروباروں میں بھی بے انتہا برکت ڈالتا ہے۔میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے، بالکل معمولی کاروبار شروع کیا، وسیع ہوتا گیا اور دکانوں کے مالک ہو گئے چھابڑی لگاتے لگاتے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں جو ہوتے ہیں اگر نیت نیک ہو اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کے ارادے سے ہوں۔ تو پھر وہ برکت بھی بے انتہا ڈالتا ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے(بعض دفعہ کوئی تحریک ہوتی) تو ہم میں سے کوئی بازار کو جاتا اور وہاں محنت مزدوری کرتا اور اُسے اجرت کے طور پر ایک مُد، تھوڑا سا، اناج ملتامزدوری کا، تو کہتے ہیں وہی صدقہ کر دیا کرتے تھے۔ اور کہتے ہیں اب ہم میں سے وہ لوگ جو اس طرح محنت مزدوری کرتے تھے اور چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے ان میں سے تقریباً تمام کا یہ حال ہے کہ بعضوں کے پاس ایک ایک لاکھ درہم یا دینار تک ہیں۔ (بخاری کتاب الاجارۃ۔ باب من اجر نفسہ لیحل علی ظہرہ ثم صدق بہ…)

تو یہ صرف پرانے قصے نہیں ہیں کہ اس زمانے میں ان صحابہ ؓ پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اب نہیں ہو رہا بلکہ اب بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنی نیک نیتی کی وجہ سے اور محنت کی وجہ سے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍جون2004ءصفحہ6)

چندے کی موجودہ شرح خلافت ثانیہ کے دور میں مقررہوئی

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ چندے کی شرح کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’ماہوار چندے کی شرح خلافت ثانیہ میں مقرر ہوئی جب باقاعدہ ایک نظام قائم ہوا اور چندہ عام کی شرح 16/1 اس وقت سے قائم ہے۔ لیکن حضرت مصلح موعود ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ارشاد سے استنباط کرکے یہ شرح مقرر کی تھی۔ تو بہرحال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ماہوار چندے کے علاوہ اپنی وسعت کے لحاظ سے اکٹھی رقم بھی تم دے سکتے ہو اور اس کے لئے جماعت میں مختلف تحریکات ہوتی رہتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ اس میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا، پہلے بھی کہا ہے کہ اس نیت سے اور اس ارادے سے ہر ادائیگی، ہر چندہ اور ہر وعدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا ہے نہ کہ کسی بناوٹ کی وجہ سے۔ اور ہمیشہ جب بھی خرچ کریں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11؍جون2004ءصفحہ8)

’’ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے‘‘

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بخل اور ایمان کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’مَیں یقیناً سمجھتاہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔جو شخص سچے دل سے خداتعالیٰ پر ایمان لاتاہے وہ اپنا مال صرف اس مال کو نہیں سمجھتا جو اس کے صندوق میں بند ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کے تمام خزائن کو اپنے خزائن سمجھتاہے اور امساک اس سے دُورہوجاتاہے۔ جیساکہ روشنی سے تاریکی دُور ہوجاتی ہے ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 3صفحہ 498)

چندہ تو دے نہیں سکتا … چارپائیاں بُن آؤں تا کہ میرے سر سے چندہ اتر جائے

حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:

’’حضرت قاضی قمر الدین صاحب رضی اللہ عنہ سائیں دیوان شاہ صاحب کے بارے میں واقعات بیان کررہے ہیں اُس کے بعد لکھتے ہیں کہ ’’مَیں بھی سائیں صاحب سے کبھی دریافت کیا کرتا کہ آپ کو قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے؟‘‘ کیونکہ جہاں ان کا گاؤں تھا، سائیں صاحب وہاں سے گزر کر جایا کرتے تھے اور رات بسرکیا کرتے تھے۔ سائیں دیوان شاہ نارووال کے رہنے والے تھے اور وہاں سے گزرتے ہوئے جاتے تھے۔پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ یہ، نارووال سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے جو کئی میل کا فاصلہ ہے۔ اگر بیچ میں سے بھی جائیں تو شاید کم از کم سو میل ہو۔ تو کہتے ہیں کہ ’’قادیان شریف جانا کوئی خاص کام کی وجہ سے ہے یا شوقِ ملاقات سے جا رہے ہیں؟‘‘ تو کہتے ہیں سائیں دیوان شاہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’مَیں چونکہ غریب ہوں، چندہ تو دے نہیں سکتا اس لئے جا رہا ہوں کہ مہمان خانے کی چارپائیاں بُن آؤں تا کہ میرے سر سے چندہ اتر جائے‘‘۔ تو اس کی جگہ مَیں لنگر خانے کی جو چارپائیاں ہیں اُن کی بنائی کر کے مزدوری کا یہ کام کر آؤں۔

(ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابؓہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر2صفحہ نمبر96روایت حضرت قاضی قمرالدین صاحبؓ) ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جنوری2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جنوری 2012ءصفحہ6)

خواب میں حضرت مسیح موعود ؑنے ایک نابینا عورت کو جگا کر چندہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی

ایک اور خطبہ جمعہ میں ایک نابینا عورت کا واقعہ آپ اِس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’مالی سے سیگو ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک نابینا عورت نے کچھ چندہ بھجوایا اور ساتھ ہی پیغام بھجوایا کہ وہ آئندہ سے ہر ماہ اپنا چندہ مشن ہاؤس بھجوایا کرے گی۔ اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی، بعض لوگوں سے اللہ تعالیٰ خود بھی ان کو توجہ دلا کے قربانی کرواتا ہے تا کہ مزید نوازے۔ کہتی ہیں کہ میں نے دو دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں سو رہی ہوں ، اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے جگا کر چندہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ میں خواب میں اٹھ کر مشن ہاؤس گئی اور وہاں پانچ ہزار سیفا ادا کیا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍نومبر2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍نومبر2018ءصفحہ7)

پھل فروخت کر کے چندہ ادا کیا جس کی برکت سے درخت کئی گنا زیادہ پھل دینے لگا

حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ نےایک خطبہ جمعہ میں درج ذیل واقعہ بیان فرمایا:

’’غریبوں کی قربانیاں کیسی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حیرت انگیز سلوک کیا ہے اس بارے میں برونڈی کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال ہم نے ایک نئی جماعت گہانگا کا دورہ کیا اور وہاں ایک نئے نومبائع دوست مسعودی صاحب کو چندے کی اہمیت کے متعلق بتایااور انہیں چندے کی تحریک کی۔ مسعودی صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس اس وقت تو کچھ نہیں ہے لیکن ہمارے گھر میں ایک پھل دار درخت ہے۔ مَیں اس درخت کا پھل فروخت کر کے چندہ ادا کر دوں گا۔ وہ قربانیاں جو پرانے زمانے میں نظر آتی تھیں اب بھی ان کے نمونے ملتے ہیں ۔ کہتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک دو روز کے اندر ہی اس کا پھل ایک ہزار برونڈی فرانک میں فروخت کیا اور ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے جو پھل فروخت کر کے چندہ ادا کیا تھا اس کی وجہ سے بہت زیادہ برکت پڑی ہے اور اب اس درخت کو پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ پھل لگا ہے جو چالیس سے پینتالیس ہزار برونڈی فرانک میں فروخت ہوا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍نومبر2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍نومبر2018ءصفحہ8)

’’بچے یہ چیز دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چندہ علیحدہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود اناج اتنے کا اتنا ہی ہے‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ایک کسان کےایک ایمان افروزواقعہ کی تفصیل کچھ اِس طرح بیان فرماتےہیں:

’’اللہ تعالیٰ کس طرح نوجوانوں اور بچوں کے ایمانوں میں بھی چندے کی برکت سے مضبوطی عطا فرماتا ہے … برکینا فاسو کے ملک میں بَنْفَورہ ریجن کی ایک جماعت ہے۔ وہاں کے ایک ممبر اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایک سفر پر جانا تھا … تو میں نے جانے سے پہلے اپنے بچوں سے کہا کہ فصل جب مکمل ہو جائے تو اس میں سے دسواں حصہ نکال کر چندے میں دے دینا۔ یہ کہہ کر میں سفر پر چلا گیا۔ بعد میں بچے جو فصل تھی، اناج تھا تمام گھر لے آئے اور چندہ ادا نہیں کیا۔ کہتے ہیں جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا، پتا کیا تو پتا لگا کہ بچوں نے تو سارا اناج گھر میں رکھ لیا ہے۔ اس پر میں نے بچوں سے کہا کہ ابھی سارا اناج گھر سے باہر نکالو اور چندے کا حصہ علیحدہ کرو۔ چنانچہ جب بچوں نے وہ سارا اناج گھر سے نکالا اور چندے کا حصہ نکال کر اسی جگہ پہ وہ واپس رکھا تو کہتے ہیں اس میں کوئی بھی کمی نہیں تھی اور بچے یہ چیز دیکھ کر حیران رہ گئے کہ چندہ علیحدہ کیا ہے لیکن اس کے باوجود اناج اتنے کا اتنا ہی ہے۔ اس پر کہتے ہیں مَیں نے انہیں بتایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دکھایا ہے کہ اس کی راہ میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍جنوری2018ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍جنوری2018ءصفحہ6)

تحریکات کی ادائیگیوں کا اثرلازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہیے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لازمی چندہ جات کی اہمیت بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کا معیار بہت اعلیٰ ہے، بہت سے ایسے ہیں جو بعض اوقات اپنے اوپر بوجھ بھی ڈال کے چندے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ کیونکہ میں آج لازمی چندہ جات کی بات کر رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ یہ جو چندہ جات ہیں ان تحریکات کی ادائیگیوں کا اثر آپ کے لازمی چندہ جات پر نہیں ہونا چاہئے۔ وہ اپنی جگہ ادا کریں اور یہ زائد تحریکات کے وعدوں کو اپنی جگہ ادا کریں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ بھی آپ پر انشاء اللہ تعالیٰ بے انتہا فضل فرمائے گا۔ کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں، اس کے دین کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے کس قدر خوشخبری فرمائی ہے۔ ہر خوف خدا رکھنے والے کو اپنی عاقبت کی عموماً فکر ہوتی ہے کہ پتہ نہیں نہ جانے کیا سلوک ہو گا۔ تو آپؐ نے چندہ ادا کرنے والوں کو اس فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ’’ قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والے اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سائے میں رہیں گے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل)۔ یعنی کہ جو بھی آپ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے قیامت کے دن تک اس کے سائے میں آپ رہیں گے۔ لیکن یہ بھی دوسری جگہ فرما دیا کہ انفاق فی سبیل اللہ دکھاوے کے لئے نہ ہو بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے ہو۔ اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کا پیار حاصل کرنے کی خاطر ہی قربانیوں کی توفیق دے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍مئی 2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشل11؍جون 2004ءصفحہ7)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button