الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

شہیدکون ہوتا ہے

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا یہ اقتباس شامل اشاعت ہے کہ ’’دیکھو تم نے خوب سوچ سمجھ کر اور کامل معرفت اور یقین کے ساتھ اپنے لیے راستی کی وہ راہ اختیار کی ہے جس پر صالحیت کی منزل کے بعد ایک شہادت کی منزل بھی آتی ہے اسے خوف و ہراس کی منزل نہ بناؤ، یہ تو ایک اعلیٰ و ارفع انعام کی منزل ہے جس پر پہنچنے کے لیے لاکھوں ترستے ہوئے مرگئے اور لاکھوں ترستے رہیں گے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍اگست 1983ء)

………٭………٭………٭………

مکرم محمد حسین صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرم محمد حسین صاحب شہید کا ذکرخیر ان کی بھانجی مکرمہ بشریٰ ریاض صاحبہ نے کیا ہے۔

مکرم محمد حسین صاحب شہیدگورداسپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ والد بہت بڑے تاجر تھے اور بہت نیک اور غریب پرور بھی تھے۔ آپ کے بچپن میں ہی والد کی وفات ہوگئی اور والدہ سخت علیل ہوگئیں۔ شہید مرحوم کی پرورش بڑی بہن (مضمون نگار کی والدہ)نے کی۔ دنیاوی تعلیم سے محروم رہے تھے لیکن قرآن کریم پڑھنا اور نماز وغیرہ سیکھ لی تھی۔ شادی کے بعدبڑی بہن کوئٹہ منتقل ہو گئیں تو کچھ عرصے کے بعد آپ بھی ان کے پاس کوئٹہ آگئے۔ دو سال بعد آپ کے بہنوئی یعنی میرے والد مکرم شیخ فضل حق صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ وہ بعدازاں امیر ضلع سِبّیبھی رہے جبکہ میری والدہ اور ماموں نے اس کے دو سال بعد اکٹھے بیعت کی۔

جب حضرت مصلح موعودؓ کوئٹہ تشریف لے گئے تو مکرم محمد حسین صاحب شہید کو بھی حضورؓ کی خدمت کرنے اور خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ایک موقع پر جب احمدیہ پارک ہاؤس میں پانی کے اخراج کا مسئلہ پیدا ہوا تو حضورؓ نے فرمایا ’’محمدحسین کو بلائیں وہی اس مسئلے کو حل کرے گا‘‘۔ چنانچہ آپ گئے اور تھوڑی ہی دیر میں وہ مسئلہ حل کردیا۔ حضورؓ نے فرمایا: مَیں نہ کہتا تھا کہ محمد حسین ہی اس مسئلے کو حل کرے گا۔ اسی طرح جب حضورؓ کو بتایا گیا کہ احمدیہ مسجد کو محمد حسین نے پینٹ کیا ہے تو حضورؓ نے فرمایا کہ اس رنگ و روغن میں محمد حسین کا خلوص بھی ٹپک رہا ہے۔ آپ یہ باتیں یاد کرتے تو آنکھیں اشکبار ہوجاتیں۔

میرے والدین چاہتے تھے کہ آپ کی شادی کسی احمدی گھرانے میں کی جائے لیکن میرے بڑے ماموں نے زور دے کر اپنی سالی سے اُن کی شادی کروادی۔ خداتعالیٰ نے آپ کو آٹھ بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔لیکن عقیدے کے فرق کی وجہ سے بہت سےمسائل پیدا ہوئے۔ اولاد بھی تقسیم ہوگئی اور اُن کے رشتوں کے مسائل بھی ہوئے۔ آپ کو اگر کوسا جاتا کہ باپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے بیٹی کا رشتہ ردّ کردیا جاتا ہے تو آپ بے اختیار رودیتے اور کہتے کہ تم لوگ مجھے سچ کی سزا دے رہے ہو لیکن مَیں اپنے آپ کو احمدی کہنے سے ہرگز باز نہیں آؤں گا۔

شہید مرحوم باقاعدہ نمازی اور تہجدگزار تھے۔ کیسے ہی حالات ہوں کبھی غیراحمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھتے۔ سچے، معاملہ فہم اور پُرخلوص انسان تھے۔ کبھی غصے میں نہ آتے۔ایک بیٹی کینسر میں مبتلا ہوکر فوت ہوگئی تو بہت صبر کا نمونہ دکھایا۔

بوقت شہادت آپ کی عمر 80 سال تھی۔ گرنیڈ لگنے اور پیٹ میں گولیاں لگنے سے شہادت ہوئی۔ آپ کی شہادت کے بعد تدفین کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا۔ چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابو ہمارے ہی قبرستان میں دفن ہوں گے اور کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔ اگرچہ بڑے بیٹے ، جنہوں نے بعد میں احمدیت بھی قبول کرلی، اُن کی خواہش تھی کہ تدفین ربوہ میں ہو۔ لیکن پھر فساد کے ڈر سے لاہور کے ایک قبرستان میں امانتاً تدفین کی گئی۔

………٭………٭………٭………

سانحہ دارالذکر لاہور کے عینی شاہد مکرم زاہد محمود قریشی صاحب کا بیان

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘(شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء)میں مکرم زاہد محمود قریشی صاحب کے قلم سے 28؍مئی 2010ءکو مسجد دارالذکر لاہور میں ہونے والی دہشتگردی کا آنکھوں دیکھا حال شائع ہوا ہے۔

آپ لکھتے ہیں کہ 28؍مئی 2010ء کو مَیں اور میرا بیٹا عزیزم طاہر محمود بذریعہ بس مسجد دارالذکر پہنچے۔ وضو کرنے کے بعد ہال میں آگئے۔ محراب کے قریب ہی سنتیں ادا کرکے بیٹھ گئے۔ خطبہ شروع ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ دہشتگردوں کی طرف سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ مربی صاحب کے کہنے پر ہم وہیں لیٹ گئے۔ چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ دہشت گردوں نے محراب سے ملحقہ کمرے کا دروازہ توڑ کر محراب اور ہال میں ہینڈگرنیڈ پھینکنے شروع کردیے۔ مَیں نے بیٹے کو دوسرے ستون کی آڑ میں جانے کو کہا۔ گرنیڈ پھٹنے شروع ہوئے تو شدید دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں۔ اچانک مَیں نے اپنی بائیں ٹانگ میں شدید درد محسوس کیا۔ دیکھا تو ٹانگ میں سے خون بہہ رہا تھا۔ دائیں پاؤں میں درد محسوس ہوا، دیکھا تو انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی غائب تھی اور وہاں سے بھی خون جاری تھا۔ اس کے علاوہ کولہے پر اور پیٹ پر دو دو زخم بھی آئے جن سے خون جاری تھا۔ مَیں نے اردگرد نظر دوڑائی تو ہر طرف زخمی ہی زخمی نظر آئے، کچھ کم زخمی اور کچھ زیادہ۔ اسی دوران دہشتگرد جدید اسلحے سے لیس ہوکر ہال میں داخل ہوئے اور خون کی ہولی کھیلنی شروع کی۔فائرنگ کی آواز اتنی ہیبت ناک تھی کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ایک بدبخت دہشتگرد کی میگزین خالی ہوئی تو کسی بہادر نوجوان نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اُس دہشتگرد نے خودکُش جیکٹ کا دھماکہ کردیا جس سے پوری مسجد لرز گئی۔ اب ہال میں زخمیوں کے علاوہ بہت سارے شہداء کے جسم پڑے تھے۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔کچھ دیر خاموشی رہی تو مَیں سمجھا کہ قیامت ٹل گی ہے لیکن دہشتگرد تھے کہ وقفے وقفے سے ہال میں آتے اور اندھادھند فائرنگ کرتے۔ بہت سے زخمی اپنے پیاروں سے فون پر بات کرکے اُن کو تسلّی دے رہے تھے اور نصیحت کررہے تھے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنا ہے۔

جیسے ایک روزہ دار کو دوسرے روزہ دار کی کیفیت کا علم ہوتا ہے اسی طرح ایک زخمی کو دوسرے زخمی کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خون بہہ جانے سے حلق خشک ہورہے تھے لیکن گلے میں چند بوندیں ٹپکانے والا کوئی نہیں تھا۔ کئی زخمی کربلا کے شہداء کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔میرے دائیں طرف ایک پچیس سالہ نوجون اور بائیں طرف ساٹھ سالہ ایک بزرگ زخمی حالت میں لیٹے ہوئے تھے۔ دہشتگرد جو وقفے وقفے سے ہال میں آتے وہ کسی میں زندگی محسوس کرتے تو اُسے گولیاں مارتے۔ میرے ساتھ والے نوجوان نے تھوڑی سی حرکت کی تو دہشتگرد نے اُس کو برسٹ مارا۔ اُس کے جسم سے خون چھینٹے بن کر میرے سر اور گردن پر گرا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب میری باری ہے۔ مَیں نے درودشریف پڑھنا شروع کردیا۔ لیکن دہشتگرد مجھے خون میں تربتر دیکھ کر فوت شدہ سمجھ کر آگے بڑھ گیا۔ جب دہشتگرد نے اپنی خودکُش جیکٹ کا دھماکہ کیا تھا تو بجلی کا نظام معطّل ہوگیا تھا اور پنکھے بند ہوگئے تھے۔ ہال کی دری آگ لگنے سے سلگنے لگی تھی اور دھواں پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد ایلیٹ فورس کے ایک جوان نے دری کا ٹکڑا لے کر اُس سلگتی ہوئی آگ کو بجھایا۔ دروازے بند تھے اور شدید گرمی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے موسم ٹھنڈا کردیا تھا۔

مَیں نے اشارے سے پولیس نوجوان کو متوجہ کرنا چاہا لیکن وہ میرے پاس آنے سے گھبرا رہا تھا کیونکہ میرے قریب ہی دو گرنیڈ پڑے تھے جو چل نہیں سکے تھے۔ مَیں نے اپنی ساری طاقت جمع کرکے آواز نکالی کہ یہ ناکارہ ہیں۔ اُس نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ مَیں کہنیوں کے سہارے رینگتا ہوا اُس کے قریب پہنچا تو اُس نے بڑی مشکل سے مجھے کھڑا کیا۔ بائیں ٹانگ وزن اٹھانے سے قاصر تھی۔ بہت مشکل سے اُس جوان کا سہارا لے کر مَیں نے چلنا شروع کیا۔ ہال میں نظر ڈالی۔ ہر جانب شہداء کے جسم پڑے تھے جو خون میں نہائے ہوئے تھے۔جگہ جگہ انسانی گوشت کے لوتھڑے پڑے تھے۔ بدبخت دہشتگرد کا سر، ٹانگ اور کٹاہوا بازو بھی پڑا تھا۔ ٹیوب لائٹ کے شیشوں سے اپنے پاؤں بچاتا مَیں دروازے تک پہنچا۔ ایک خادم نے مجھے سہارا دیا اور سٹریچر پر لٹادیا۔ ایمبولینس میں ڈالا جو گنگارام ہسپتال لے گئی۔ راستے میں نقاہت اور حلق خشک ہونے کی وجہ سے ریسکیو والے نوجوان سے مَیں نے پانی مانگا تو اُس نے ایک ٹیوب سے محلول نکال کر میرے منہ میں انڈیل دیا جس سے دل کو کچھ تقویت ملی۔

ہسپتال میں آپریشن تھیٹر میں میرے زخم صاف کرکے خون آلود کپڑے تبدیل کرکے وارڈ میں منتقل کردیا گیا تو دوست عزیز میری عیادت کے لیے آئے۔ مجھ سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو مَیں نے بتایا کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ کیونکہ میرے قریب ہی اُسی کے قدکاٹھ اور کپڑوں والے ایک نوجوان کی نعش پڑی تھی جس کا چہرہ دوسری طرف تھا اور مَیں دیکھ نہیں سکا تھا۔ جبکہ زخمیوں اور شہداء کی فہرست میں میرے بیٹے کا نام نہیں مل رہا تھا۔ اسی اثنا میں گھر سے فون آیا کہ بیٹا خیریت سے گھر پہنچ گیا ہے۔ وہ حملے کے دوران مربی ہاؤس میں پناہ لینے والوں میں شامل تھا۔

………٭………٭………٭………

ایک ضروری تصحیح

اخبار ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 3؍جولائی 2020ء کے شمارہ کے کالم ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید کا ذکرخیر کیا گیا تھا۔ اُس مضمون میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ شہید مرحوم کے دادا حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ تھے جنہیں اپنے خاندان کا پہلا احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے۔

بعدازاں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے ایک قاری مکرم ناصر احمد صاحب کے توجہ دلانے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ معلومات غلط ہیں۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍جولائی 2010ء سے اخذ کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر مذکورہ مضمون کے متعلقہ حصے میں جو درستی کی گئی وہ درج ذیل ہے:

’’مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید کے دادا مکرم دوست محمد صاحب کو خاندان کے بہت سے افراد سمیت خلافت ثانیہ میں قبول احمدیت کی سعادت عطا ہوئی۔ تاہم اُن کے ایک کزن حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ آف گوجرہ جو پیشے کے لحاظ سے آڑھتی تھے، انہیں اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہونے اور صحابی حضرت اقدسؑ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button