محترم چودھری عبدالعظیم صاحب مہار مرحوم آف محمودآباد فارم سندھ کا ذکرِ خیر
خاکسار کے سسر محترم چودھری عبد العظیم صاحب 11؍جنوری 2018ء بروز جمعرات مختصر علالت کے بعد طاہر ہارٹ ربوہ میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے
اِنَّا لِلّٰہ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر
آپ 1943ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔آپ پیدائشی احمدی تھے۔آپ کے والد محترم نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔اپنے علاقہ میں اپنے اثر ورسوخ کے لحاظ سے جماعت کے لیے آپ بہت مفید وجود تھے۔جس کسی کو دیکھا آپ کی تعریف کرتے ہی دیکھا۔آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔آپ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔لیکن حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی کتب کو خوب جانتے تھے۔آپ کا حافظہ بہت اچھاتھا۔ اس لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے کئی اشعار ازبر تھے جنہیں برموقع استعمال کرنے کا ملکہ بھی حاصل تھا۔تعلقات اور رشتوں کے احترام کا جذبہ آپ میں مثالی تھا۔ صاف اور سیدھی بات کرتے۔نہایت سنجیدہ اور باوقار شخصیت تھے۔ مہمان نوازی کا وصف قابل قدر تھا۔سب سےبلا امتیاز یکساں سلوک کرتے تھے۔نیکی تقویٰ کے ساتھ ساتھ صوم وصلوٰۃ کے بھی بفضل خدا پابند تھے۔نماز تہجد باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔جماعتی چندے بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ درودشریف وتسبیحات کو وردِ زبان بنائے رکھتے۔ نظام جماعت کے ساتھ بے پناہ محبت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے۔ اور یہی محبت وعقیدت اپنی اولاد میں بھی پیدا کی۔امام وقت کے خطبات و خطابات باقاعدگی سے سنتے تھے۔اور اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبہ کے دوران کسی کو بولنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔جماعت اور خلافت احمدیہ سے محبت وعقیدت کا ذکرکرتے ہوئےخاکسار کے شوہر بتاتے ہیںکہ ایک مرتبہ سندھ میں آپ مال مویشی لے کر کنری مویشی منڈی میں گئے۔ تو وہاں ان کے ایک بیٹے بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ کچھ شرپسند لوگوں نے احمدیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ جب ان کے بیٹے نےجواب دیناچاہاتو آپ نے منع کر دیا کہ انہیں بولنے دو۔ لیکن جب ان شرپسندوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی تو والد صاحب نے کہا یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے۔معاملہ زیادہ بگڑنے پر پولیس آگئی۔اور خاکسار کے سسر اور ان کے ایک اورساتھی جو کہ احمدی تھےگرفتار کر کے لے گئی۔تھانے کے باہر کافی مولوی جمع ہو گئےجس پر سیشن جج نے فوراً چالان کر کے انہیں ڈسٹرکٹ جیل عمر کوٹ بھیج دیا۔جہاں تقریبا ًایک ماہ اسیری میں رہنے کی سعادت ملی اوربعد ازاںضمانت پررہا ئی ہوگئی۔
اسی طرح ایک مرتبہ سندھ کے ایک بڑے نامور سیاست دان محمود آباد دورے پر آئے اور ان کا پروگرام خاکسار کے سسرکی اوطاق پر تھا۔جہاں مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاۓ احمدیت کی تصاویر آویزاں تھیں۔ کچھ افراد نے کہا ان تصاویر کو یہاں سے ہٹا دیں۔ہوسکتا ہے مہمان برامنائیں تو انہوں نے جواب دیا کہ سب برکتیں ان پیارے وجودوں کی وجہ سے ہیں۔اگر ان صاحب نے آنا ہے تو آئیں اگر نہیں تو نہ آئیں یہ تصاویر یہاں ہی آویزاں رہیں گی۔ جب وہ سیاست دان آئے تو انہوں نے دیکھتےہی پوچھا یہ کن کی تصاویر ہیں انہیں بتایا گیا کہ یہ ہمارے روحانی پیشوا ہیں۔تو ان صاحب نے کہا کہ واقعی ہی یہ روحانی وجود لگتے ہیں۔
آپ ہمیشہ واقفین زندگی اور جماعت احمدیہ کے خدمت گزاروں کی بے حد عزت کرتے۔اسی طرح آپ نے سب سے چھوٹے بیٹے(خاکسارکے شوہر جمیل احمدتبسم صاحب) کو وقف نو کی بابرکت تحریک میں پیش کیا۔اور شروع سے ہی وقف کی روح کو سمجھنے کی تلقین کی اور بطور واقفِ زندگی پرورش کی۔ چنانچہ وہ آج خدا تعالیٰ کے فضل اور آپ کی دعاؤں سے بطورمبلغ سلسلہ روس میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔الحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔
آپ کو جماعت کی خدمت کا بہت شوق تھا۔2004ءمیں جب سندھ سے ربوہ منتقل ہوئے تو یہاں آکر جماعت کی خدمت میں لگ گئے۔اور مختلف ادارہ جات میں بطور سیکورٹی گارڈ خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ڈیوٹی سے آکرمحلہ کی مسجدمیں بھی نمازکے دوران رضاکارانہ طورپرخدمت کی توفیق پاتے۔جب انہیں کہا جاتا کہ اب رہنے دیں اور آرام کریں تو کہتے ساری زندگی اپنے ہی کام کیے ہیں۔اب کچھ جماعت کی خدمت کر لوں۔ہمیشہ کہتے کہ میں یہی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے جماعت کی خدمت کرتے ہوئے ہی اپنے پاس بلا لے۔چنانچہ جس دن بیمار ہوئے اس دن بھی جامعہ احمدیہ ربوہ میں ڈیوٹی دے کر آئے تھے اور ہسپتال داخل ہونے کے چوتھے روز اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔اس طرح خدا تعالیٰ نے ان کی اس دعا کوبھی قبول فرمایا۔
ہم بہوؤں کوہمیشہ بیٹیوں کی طرح رکھا۔ربوہ میں موجود اپنے تمام بچوں کے گھروں میں جاتے اوران کی خیریت دریافت کرتے۔ اسی طرح ہمارے میکے والوں کی عزت واحترام اپنے بہن بھائیوں کی طرح کرتے۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ابا جان کوکروٹ کروٹ جنت میں جگہ دے اوراپنے پیاروں کے قرب میں رکھے اورہمیں ان کی نیکیوں کوجاری رکھنے کی توفیق دے اوران کی دعاؤں کا وارث بنائے رکھے۔آمین۔
٭…٭…٭