الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

ہندوستان کے چند مولوی صاحبان

اور گورنمنٹ انگلشیہ کی وفاداری

مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ اگست 2012ء میں مکرم غلام نبی نیاز صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل ہے جس میں مخالفین احمدیت کے لٹریچر پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس طویل مضمون میں متعدد مولوی صاحبان کی طرف سے انگریزی حکومت کی تعریف و توصیف کے نمونے اور اس کے نتیجے میں مراعات کا حصول بیان ہوا ہے۔ ان میں سے دو جیّد مولوی صاحبان کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے خاص طور پر کیا گیا ہے۔

مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی فرقہ اہل حدیث کے سرکردہ علماء میں سے تھے۔ آپ 1840ء میںبمطابق 17؍محرم 1256ء کو پیدا ہوئے اور 1919ء میں فوت ہوئے۔ 1876ء میںانہوں نے ایک رسالہ ’’الاقتصاد فی مسائل الجھاد‘‘ تصنیف کیا جس میں قرآن و حدیث اور فقہی دلائل سے ثابت کیا کہ ہندوستان تو ہندوستان ،دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک کے مسلمانوں کو گورنمنٹ سے جہاد جائز نہیں ہے۔ اس رسالہ میں انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستان دارالسلام ہے کیونکہ جہاں مسلمانوں کو مذہبی فرائض ادا کرنے کی آزادی حاصل ہو وہ دارالحرب نہیں کہلاتا۔

21؍مارچ 1887ء کو سر چارلس ایچسن صاحب بہادر سابق نواب لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے مولوی صاحب کے بارے میں لکھا: ’’ابوسعید محمد حسین فرقہ اہل حدیث کے ایک سرگرم رکن مولوی اور فرقہ اسلام کے وفادار اور ثابت قدم وکیل ہیں، اُن کی علمی کوششیں لیاقت سے ممتاز ہیں۔ نیز وہ ملکہ معظمہ کے وفادار رعایا میں سے ہیں۔‘‘

بعد میں مولوی صاحب نے اپنے رسالہ میں گورنمنٹ سے چار مربع اراضی حاصل کرنے کا اقرار کیا ہے۔

1881ء میں جس فرقے کا نام ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ’’وہابی‘‘ رکھا تھا، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ہی باضابطہ درخواست دے کر گورنمنٹ انگلشیہ سے اپنا نام ’’اہل حدیث‘‘ الاٹ کرایا۔ مولوی صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا کہ لفظ وہابی دو ایسے برے معنوں میں مستعمل ہے جن سے گروہ اہل حدیث کی برأت و نفرت ثابت ہے لہٰذا اہل حدیث اپنے حق میں اس لفظ کا استعمال جائز نہیں جانتے ۔ پھر لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ گورنمنٹ کا دلی خیرخواہ ہے اور یہ درخواست کرنے کی جرأت کرتا ہے کہ گورنمنٹ اپنی خیرخواہ رعایا کی نسبت ایسے لفظ (یعنی وہابی) کا استعمال قطعاً ترک کرے۔

یہ درخواست 19؍جنوری 1887ء کو منظور ہوئی جس کے بعد مولوی صاحب نے اپنے رسالہ میں لکھا کہ نام کی تبدیلی سے منجملہ ان نتائج کے جو 1886ء میں ظاہر ہوئے ہیں، ایک عمدہ نتیجہ یہ ہے کہ گروہ اہل حدیث کی وفاداری گورنمنٹ پر ثابت کردی ہے۔

اگست 1902ء میں مولوی صاحب نے پنجاب حکومت کے کاغذات میں بھی مذکورہ تبدیلی کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس بُرے لقب کو اپنے حق میں کوئی اہل حدیث استعمال نہیں کرتا۔‘‘ بٹالوی صاحب اس سلسلے میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سرچارلس ریواز صاحب بہادر سے بھی ملے اور یہ حکم جاری کروایا کہ جن کاغذات مردم شماری میں لفظ ‘وہابی’ لکھا گیا ہے اُن کو ردّی کرکے ازسرِنَو کاغذات چھپوائے جائیں۔

مولوی صاحب نام میں تبدیلی کے فوائد کا ذکرکرتے ہوئے اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ ’’گورنمنٹ پنجاب اور اس کے اعلیٰ حکام نے اپنی چٹھیوں میں اعتراف کیا ہے کہ اہل حدیث برٹش گورنمنٹ کے بدخواہ نہیں ہیں بلکہ خیرخواہ ہیں۔‘‘

غرض مولوی صاحب ہرممکن ذرائع استعمال کرکے گورنمنٹ کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہے اور گورنمنٹ کے ہاں سے اس کو پذیرائی بھی ملتی رہی اور انعام و اکرام سے نوازا گیا۔لیکن دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف حکومت کو بدظن کرنے کے لیے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات حکّام وقت کے پاس پہنچائے۔ چنانچہ اپنے رسالہ میں حضور علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’اس کے دھوکے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیرمذاہب کی جان مارنے اور اُس کا مال لُوٹنے کو حلال و مباح جانتا ہے۔ … لہٰذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پُرحذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے نہیں پہنچا۔‘‘

ایسی کئی تحریریں مولویوں اور پادریوں کی طرف سے آئے دن حکومت کو حضور علیہ السلام سے بدظن کرنے کے لیے شائع کی جاتی رہیں۔ ان بے بنیاد اعتراضات کو ردّ کرنا آپؑ کا فرض منصبی تھا۔ چنانچہ آپؑ نے جواباً جو تحریر لکھی اُسے آج مخالفین پیش کرکے آپؑ پر انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔

مولوی محمد حسین بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہم عصر اور ہم مکتب بھی رہے اور کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ پر قریباً دو سو صفحات پر مشتمل قابل داد ریویو بھی کیا، حضورعلیہ السلام کی دلرُبا شخصیت اور تقدّس کا اُن پر اس قدر اثر تھا کہ جب دلّی سے فارغ التحصیل ہوکر واپس بٹالہ آئے اور ایک عالم کی حیثیت سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوگئے اُس وقت بھی وہ حضور علیہ السلام کے سامنے آپؑ کا جوتا سیدھا کرکے رکھتے اور اپنے ہاتھ سے آپؑ کا وضو کرانا موجبِ سعادت سمجھتے۔ دعویٰ سے پہلے ایک دفعہ حضور علیہ السلام مولوی صاحب کے ہاں تشریف رکھتے تھے۔ کھانے کا وقت ہوا تو مولوی صاحب نے خود حضور علیہ السلام کے ہاتھ دھلائے۔ ہرچند حضورؑ منع کرتے رہے لیکن وہ تو ایسا کرنا باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔

وائے افسوس! جب حضورعلیہ السلام نے ماموریت کا اعلان کیا تو مولوی صاحب نے بڑی تعلّی کے ساتھ یہ کہا کہ ’’مرزا صاحب کو مَیں نے ہی اونچا کیا تھا اور مَیں ہی اس کو نیچا گراؤں گا۔‘‘ بہرحال مولوی صاحب نے ہر ناپاک کوشش اور سازش کے ذریعے اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کرنے کی ناکام سعی کی۔ لیکن ان کی اور ایک دوسرے مولوی سید نذیرحسین صاحب کی زبان درازیوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے فارسی اشعار میں اُس تکفیر و تکذیب کا شکوہ بارگاہ نبوی ﷺ میں یوں کیا:

’’ہمیں ان دو موذی مولویوں سے جو آزار پہنچے ہیں۔ اے رسول اللہ! آپ اس کا حال بڑے اقتدار والے علیم و خبیر سے پوچھ لیجئے۔ ہمارا حال اور ان دونوں شیخوں کی شوخی سب کو واقف الحال و بردبار خدا خوب جانتا ہے۔ انہوں نے میرا نام دجّال و گمراہ اور کافر رکھ چھوڑا ہے اور اُن کے خیال میں میری طرح اَور کوئی ناپاک ، بد اور ذلیل نہیں۔ مجھ مظلوم اور غمگین کے لیے کسی کا دل نہ جلا سوائے تیرے جس نے خوابوں میں مجھ پر بار بار مہربانی فرمائی۔‘‘

میاں نذیر حسین دہلوی صاحب 1805ء میں بہار کے ایک گاؤں سورج گڑھا میں پیدا ہوئے۔ اور 1902ء میں طویل عمر پاکر دہلی میں فوت ہوئے۔ اہل حدیث میں ‘شیخ الکُل’ کے لقب سے مشہور ہوئے اور انگریزوں نے خوش ہوکر شمسُ العلماء کا خطاب دیا۔ انگریزی حکومت کے وفادار تھے اور جہاد کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ جناب فضل حسین صاحب بہاری لکھتے ہیں کہ

’’زمانہ غدر 1857ء میں جبکہ دہلی کے بعض مقتدر اور بیشتر معمولی مولویوں نے انگریزوں پر جہاد کا فتویٰ دیا تو میاں صاحب نے نہ اس پر دستخط کیا، نہ مُہر۔ وہ خود فرماتے تھے کہ میاں وہ ہلڑ تھا، بہادرشاہی نہ تھی، وہ بے چارہ بہادرشاہ کیا کرتا؟ حشرات الارض خانہ بہ اندازوں نے تمام دہلی کو خراب کیا، ویران، تباہ اور برباد کردیا۔ شرائط امارت و جہاد بالکل مفقود تھے۔ ہم نے تو اس فتویٰ پر دستخط نہیں کیا، مُہر کیا کرتے اور کیا لکھتے؟

…عین حالتِ غدر میں ایک زخمی میم کو میاں صاحب رات کے وقت اٹھواکر اپنے گھر لے آئے۔ پناہ دی، علاج کیا، کھانا دیتے رہے۔ اُس وقت اگر ظالم باغیوں کو خبر بھی ہوجاتی تو آپ کو قتل اور خانماں بربادی میں مطلق دیر نہ لگتی۔ … تین مہینوں کے بعد جب پوری طرح امن قائم ہوچکا تب اس نیم جان میم کو، جو اَب بالکل تندرست و توانا تھی، انگریزی کیمپ میں پہنچادیا جس کے صلے میں مبلغ ایک ہزار تین سو روپیہ اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔‘‘ (الحیاۃبعدالمماۃ)

1883ء میں مولوی نذیرحسین صاحب نے حج پر جانے کا ارادہ کیا تو کمشنر دہلی نے انہیں یہ چٹھی دی کہ ’’مولوی نذیر حسین دہلی کے ایک بڑے مقتدر عالم ہیں جنہوں نے نازک وقتوں میں اپنی وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ثابت کی… (اس سفر میں) جس کسی برٹش گورنمنٹ افسر کی وہ مدد چاہیں گے وہ اُن کو مدد دے گا کیونکہ وہ کامل طور سے اس مدد کے مستحق ہیں۔‘‘

مولوی صاحب کے تلمیذ خاص مولوی تلطف حسین صاحب کہتے ہیں: ’’ہم یہ کہنے سے معذور سمجھے جائیں کہ انگریزی گورنمنٹ ہندوستان میں ہم مسلمانوں کے لیے خدا کی رحمت ہے۔‘‘ (الحیاۃ بعدالمماۃ)

………٭………٭………٭………

زہریلے پھل اور پھول

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اکتوبر 2011ء میں عزیزم وقار احمد کے قلم سے چند زہریلے پھلوں اور پھولوں کے بارے میں معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔

ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ بعض ایسے پودے جنہیں ہم بطور غذا یا سجاوٹ استعمال کرتے ہیں زہریلے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً سیب کے بیجوں میں سائنائڈ زہر شامل ہوتا ہے۔ اس لیے سیب کے بیج نہیں کھانے چاہئیں۔ اسی طرح چیری کے بیج بھی زہریلے ہوتے ہیں۔ کنیر کی ایک قسم Oleander ہے ۔ یہ سدابہار پودا ہے لیکن اس پودے کے پھول اور تمام حصے اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ اگر کسی طرح پیٹ میں پہنچ جائیں تو سنگین بدہضمی اور اختلاجِ قلب کا باعث بن سکتے ہیں۔

ایک خوبصورت پودے Foxglove کے تنے کے ساتھ بہت سے قرمزی رنگ کے پھول لٹکے ہوتے ہیں۔ ان سے اگرچہ امراض قلب کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں تاہم خام صورت میں اس پودے کے پتے، بیج اور پھول زہریلے ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے دھڑکن بے قاعدہ اور ہاضمہ خراب ہوسکتا ہے ۔ نیز ذہن ماؤف ہونے کے علاوہ ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button