اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے
عزت کا حصول ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے پوری دنیا میں مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ کہیں دولت سے، کہیں علم سے،کہیں حسن اور جمال سے، کہیں قوت اور طاقت سے، کہیں نسب سے۔ انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں معزز اور محترم بنے لیکن حقیقی عزت کا سرچشمہ تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کی شان یہ ہےکہ
وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ
اور تُو جسے چاہے عزت بخشتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ یقیناً تُو ہر چیز پر جسے تُو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ (آل عمران:27)
پس جب حقیقی عزت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ اس نے کیا اعلان کیا ہے کہ وہ کس کو عزت دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ
بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔ (الحجرات:14)
عزت دینے والی ذات نے اس وضاحت کے بعد سارے ابہام خود دور کر دیے اورخود بتا دیا کہ اللہ کے نزدیک حقیقی معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متّقی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت فرماتے ہوئے اپنا تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا،جسے ’’خطبہ حجة الوداع‘‘کہا جاتا ہے، اس وقت دنیا آج کل کی طرح وسیع نہ تھی۔ امریکہ کے دونوں براعظم اور آسٹریلیا دریافت نہ ہوئےتھے۔ دنیا کے کچھ علاقوں میں اگرچہ تہذیب وتمدن کی روشنی موجود تھی،مگریہ روشنی کہیں تیز تھی کہیں مدھم۔ یعنی دنیا میں اکثر جگہ نہ تو تہذیبی ترقی یکساں ہوئی تھی نہ سیاست،مذہب،اور اخلاق ومعاشرت کا حال ایک جیسا تھا۔ ان حالات میں آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں نہ صرف حقوق انسانی کا احترام ملحوظ ہے بلکہ سیاست ومعاملات اور عبادات کے معیار کوبھی متعین وواضح فرمایا گیا ہے۔ اور ہماری کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کی خاطر ہماری رہ نمائی فرمائی ہے۔
اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو…کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پرکوئی فضیلت نہیں۔ نہ ہی کسی سرخ کو کسی سیاہ پر کوئی فضیلت ہے اورنہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پر سوائے تقویٰ کے۔ تم سب ابنائے آدم ہو اور آدم مٹی سے تھا۔
اس مکمل منشور کے نافذ ہوتے ہی قوموں اورملکوں کی حالت بدل گئی۔ تہذیب وتمدن نے نیا رخ بدلا اور ذہن وفکر کو جلا بخشی۔ اس میں جو کچھ بھی بیان ہواہے وہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہےاور ان کی فطرت اور ضرورت کے عین مطابق ہے۔
اسی طرح حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ حضورﷺ نے فرمایالوگوں میں سے جو زیادہ متقی ہے۔
(بخاری کتاب الانبیاء)
توحید و وحدانیت اور اخوت و مساوات مذہب کی اساس ہے۔ اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ پھر رنگ و نسل، قوم اور وطن کے اختلافات کیوں ہیں؟ ہر ایک کے دل میں اپنی رنگ و نسل، قوم اور وطن کےلیے اتنا پیار کیوں؟ اس کا جواب بھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خود بیان فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا (الحجرات :14)
اے لوگو! یقیناً ہم نے تمہیں نر اور مادہ سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بھی بیان فرما دی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14)
یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے۔ پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات، خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطورِ حفظ ما تقدم کی جائے‘‘۔
(نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9صفحہ 446)
یہ وہ نظریہ حیات ہے جو وحدانیت کی طرف لے کر جاتا ہے، جو رنگ و نسل سے بالاہے، جو قومیت اور وطنیت کے امتیاز سے پاک ہے، اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو تمام انسانوں کو بلاتفریق مذہب و ملت ایک لڑی میں پروتا ہے، جہاں سب کے لیے محبت ہی محبت ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’تم میں معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ ترمتقی ہے۔ جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ تر ہیں وہی زیادہ معزز ومکرم ہے۔ کیا بے جا شیخی اور انانیت پیدا نہیں ہو رہی؟ پھر بتلاؤ۔ اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کی دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا۔ پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب و ملت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پرہیز کرتے تھے۔ مگر اب شدھ کرتے اورملاتے ہیں۔ گو کامل اخوت اور سچے طور پر نہیں۔ مگر رسول اللہﷺ کی طرف غور کرو کہ حضورؐ نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں۔ اسلام، مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اُٹھا دیا جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے۔ اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقویٰ پر ہی امتیاز رکھا۔ قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کرکے شفقت علیٰ خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی اُسے دور کر دیا۔ ہمیشہ کا منکر، خدا رسول کا منکر جب اسلام لاوے تو شیخ کہلاوے۔ یہ سعادت کا تمغہ یہ سیادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا صرف تقویٰ تھا۔ ‘‘
(الحکم 5؍ مئی 1899ء صفحہ 4)
رنگ و نسل، قومیت اور وطنیت پر بے جا فخر رشتہ ناطہ کے معاملے میں بعض اوقات خود ساختہ معیاروں کی وجہ سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو مسائل کے پیدا ہونے سے پہلے ان کا حل بیان فرماتا ہے۔ اسلام فرماتا ہے کہ جب نکاح کرنا ہو تو بنیادی چیز تقویٰ ہونی چاہیے۔ اس لیے خطبہ نکاح میں جو آیات پڑھی جاتی ہیں ان میں پانچ مرتبہ تقویٰ کا ذکر ہے آخر اس تکرار کی کیا وجہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے بار بار تاکید فرمائی ہے کہ تقویٰ سے کام لینا اور جو رشتہ تقویٰ کے بغیر ہو گا وہاں بے چینیاں جنم لیں گی چاہے وہ مشرق میں ہو یا مغرب میں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں، یا تو اس کے مال کی وجہ سے، یا اس کے خاندان کی وجہ سے، یا اس کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اس کی دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تو دیندار عورت کو ترجیح دے۔ اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار عورت حاصل ہو۔ ‘‘
(بخاری کتاب النکاح)
اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ مئی 2003ءمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’مکرم و معظم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔
(اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ)
یہ جو مختلف ذاتیں ہیں یہ کوئی وجہ شرافت نہیں۔ خدا تعالیٰ نے محض عرف کے لئے یہ ذاتیں بنائیں اور آج کل تو صرف بعد چارپشتوں کے حقیقی پتہ لگانا ہی مشکل ہے۔ متقی کی شان نہیں کہ ذاتوں کے جھگڑے میں پڑے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا کہ میرے نزدیک ذات کوئی سند نہیں۔ حقیقی مکرمت اور عظمت کا باعث فقط تقویٰ ہے۔ ‘‘
(رپورٹ جلسہ سالانہ1897ء صفحہ50)
… اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو کہ جماعت میں بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو اس بات پر قائم ہے لیکن پھر بھی وقتاً فوقتاً ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ہمیں اب اس تعلیم کو بڑی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے۔ اب بھی ایسے خطوط آتے رہتے ہیں جن میں یہ ذکر ہوتاہے کہ ہمیں یاہمارے عزیز وں کی لڑکیوں کی طرف سے شادیوں کے بعد غربت کے طعنے دیے جاتے ہیں یا حسب نسب کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ یہ باتیں تو ایسی ہیں جوشادی کرنے والے کوپہلے سوچ لینی چاہئیں۔ پہلے حسب نسب یا غربت و امارت کا پتہ یاعلم نہیں تھا۔ انتہائی ظلم کی بات ہے یہ۔ پہلے بھی کسی نے آپ کو مجبور نہیں کیا ہوتا کہ ضرور فلاں جگہ شادی کرنی ہے۔ اپنی مرضی سے،اپنے شوق سے کرتے ہیں تو پھر اس کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ اس قسم کے طعنے یا اس قسم کی باتیں کی جائیں۔ کچھ خدا کا خوف ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سب کوتقویٰ پر قائم کرے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍مئی2003ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل11جولائی2003ءصفحہ7)
جیسا کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ذکر فرمایا ہے کہ گوکہ خدا کے فضل سے جماعت میں بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو تقوی پر قائم ہے لیکن پھر بھی وقتاً فوقتاً ایسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں جو معاشرے میں مشکل پیدا کر سکتی ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی والے اورلڑکے والے دنیاوی امور پر مشتمل بے شمار مطالبے کرتے ہیں اور دونوں کےنظریات میں کسی جگہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور تقویٰ کا ذکر نہیںہوتا۔ ایسی شادیاں جو تقویٰ کو پیشِ نظر رکھ کر نہیںکی جاتیں اکثر بے سکونی کا باعث بنتی ہیں یا پھر ٹوٹ جاتی ہیں۔
حضرت اماں جانؓ کی شادی کا واقعہ اس حوالے سے نہایت اہم اورمشعلِ راہ ہے۔حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓنے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو خط لکھا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطاء کرے۔ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا رشتہ آیا تو حضرت نانی جان کو یہ اعتراض ہوا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں، آپ کا رہنا سہنا اور زبان مختلف ہے، عمر بھی بڑی ہے اور پہلے شادی بھی ہو چکی ہے۔ اس عرصے میں اور رشتے بھی آئے لیکن حضرت نانی جان کو وہ پسند نہ آئے۔ آخر ایک دن فرمایا:
’’ان لوگوں سے تو غلام احمد ہزار درجہ بہتر ہے۔ ‘‘
(سیرت حضرت اماں جانؓ،تصنیف صاحبزادی امتہ ا لشکور صاحبہ صفحہ4)
اس طرح حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓکی اپنی بیٹی کے بارے میں یہ دعا قبول ہوئی جسے جتنی دفعہ بھی بیان کیا جائے اس کا مزہ پہلے سے زیادہ ہی آتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے حضرت میر ناصر نواب ؓسے فرما یا کہ احمدیت سے پہلے آپ بھی اہلِ حدیث تھے اور ہم بھی۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کی لڑکی کو مسیح موعودؑ جیسا شوہر مل گیا توحضرت میر صاحبؓ نے فرمایا کہ
’’اصل بات تو اللہ تعالیٰ کے فضل ہی کی ہے۔ لیکن جب سے میری یہ لڑکی پیدا ہوئی ہے میں نے کوئی نماز ایسی ادا نہیں کی جس میں اس کے لئے یہ دعا نہ کی ہو کہ اے اللہ تیرے نزدیک جو شخص سب سے زیادہ موزوں اور مناسب ہو اس کے ساتھ اس کا عقد ہو جائے۔ ‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ایک واقعہ سے بھی اس حوالے سے رہنمائی ملتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓلاہور میں کسی رئیس کے گھر میں مہمان تھے جس کی ایک بیٹی تھی۔ شام کو لڑکیاں سیر کو گئیں تو شدید طوفان کی وجہ سے وہ بچی بچھڑ گئی اور کسی طرح بادشاہی مسجد میں پہنچ گئی اور اسے ایک حجرے میں ٹھہرنا پڑا جہاں ایک انتہائی غریب لڑکا دیا جلا کر پڑھ رہا تھا،گندا بستر، اکیلی لڑکی والدین سے دور بہت پریشان تھی اور نہ سو سکی۔ دوسری طرف لڑکے نے جو لڑکی کو دیکھا تو شیطان نے اس پر حملہ کر دیا مگر تھا وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والا۔اس نے سوچا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو خدا کو کیا جواب دوں گا۔ کیا جہنم کی آگ برداشت کرسکوں گا؟ یہ سوچ کر اس نے اپنی ایک انگلی دیئے کی لاٹ پر رکھی لیکن کچھ ہی دیر بعد آگ برداشت نہ کر سکا اور واپس کھینچ لی۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا کہ شیطان نے پھر حملہ کر دیا لیکن پھر اس نے وہی سوچ لے کر دوسری انگلی آگ پر رکھی اس طرح یہ جنگ ساری رات جاری رہی اور اس نے اپنی دس کی دس انگلیاں جلالیں۔ لڑکی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی گھر جاکر اس نے جب ذکر کیا تو حضور ؓنے فرمایا کہ اس لڑکے کو بلا کر پوچھنا چاہیے جب اس سے پوچھا تو اس نے سارا واقعہ سنا دیا۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا:
’’یہ لڑکا اس امر کا مستحق ہے تم اس بچی کی شادی اس سے کر دو۔ ‘‘
اس پر رئیس نے کہا کہ یہ تو بہت ہی نعمتوں میں پلی ہے اس کے ساتھ کیسے رہے گی؟مجھے برادری کیا کہے گی؟ اس پر حضور ؓنے فرمایا کہ آپ اپنی جائیداد سے اسے امیر بنا سکتے ہیں لیکن ایسا امیر آپ کو کہیں نہیں ملے گا جو اس جیسا نیک ہو۔
(حیات نور۔ صفحہ67-69)
یہ ہے خدا کی ذات پر توکل اور لباس تقویٰ۔
رشتہ ناطہ کے معاملات میں ایک مسئلہ ’’ہم کفو‘‘کا بھی آتا ہے اور جب ہم کفو کی تعریف پوچھی جائے تو مختلف تعریفیں سامنے آتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر ’’ہم کفو‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ
’’اولیاء اللہ اور رسول اور نبی …دو قسم کے ہوتے ہیں۔ (۱) ایک وہ جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور نہیں ہوتے بلکہ ان کا کاروبار اپنے نفس تک ہی محدود ہوتا ہے…اور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے عالی خاندان میں سے اور عالی قوم میں سے ہوں …بلکہ حسب آیت کریمہ
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ
صرف ان کا تقویٰ دیکھا جاتا ہے…گو وہ نیچی قومیں سمجھی جاتی ہیں…یہ تمام لوگ توبہ نصوح سے او لیاءاللہ میں داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ…وہ اس خدائے قدوس سے مل گئے۔ اور اس کی محبت میں محو ہو گئے اور اس کی رضا میں کھوئے گئے۔ سخت بدذاتی ہوتی ہے کہ ان کی کسی نیچ ذات کا ذکر بھی کیا جائےکیونکہ اب وہ وہ نہیں رہے اور انہوں نے اپنی شخصیت کو چھوڑ دیا اور خدا میں جا ملے اور اس لائق ہو گئے کہ تعظیم سے ان کا نام لیا جائے۔ اور جو شخص بعد اس تبدیلی کے ان کی تحقیر کرتا ہے یا ایسا خیال دل میں لاتا ہے وہ اندھا ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے…ہاں قرآن شریف سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بیاہ اور نکاح میں تمام قومیں اپنے قبائل اور ہم رتبہ قوموں یا ہم رتبہ اشخاص اور کفو کا خیال کر لیا کریں تو بہتر ہے تا اولادکے لیےکسی داغ اور تحویر اور ہنسی کی جگہ نہ ہو لیکن اس خیال کو حد سے زیادہ نہیں کھینچنا چاہیئے کیوں کہ قوموں کی تفریق پر خدا کےکلام نے زور نہیں دیا صرف ایک آیت سے کفو اور حسب نسب کے لحاظ کا استنباط ہوتا ہے اور قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مدت دراز کے بعد شریف سے رذیل اور رذیل سے شریف بن جاتی ہیں…سو عام طور پر پنجہ مارنے کے لائق یہی آیت ہے کہ
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰـکُمْ …
غرض شریعت اسلامی کا یہ تو عام قانون ہے کہ تمام مدار تقوی پر رکھا گیا ہے… ‘‘
(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد15صفحہ276تا 279)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ 22؍ جون 2007ء میں فرماتے ہیں کہ
اسلامی بھائی چارے کے قیام اور سلامتی کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ کا حکم
’’ایک مومن کو جس میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہے، اس بھائی چارے کی تعلیم کو اپنے اوپر مکمل طور پر لاگو کرنے اور دنیا میں پھیلانے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے۔ یہی وہ حکم ہے جس سے دنیا میں ایک دوسرے سے پیار محبت اور ایک دوسرے سے برادری کا تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ ورنہ جتنی چاہیں یہ سلامتی کونسلیں بنا لیں وہ قوموں کی بے چینی اس لئے دور نہیں کر سکتیں کہ طاقتوروں نے اپنے اختیارات دوسروں سے زیادہ رکھے ہوئے ہیں۔ پس دنیا کی سلامتی کی ضمانت اسی و قت دی جا سکتی ہے، دنیا کی بے چینی اسی و قت دور کی جا سکتی ہے جب قومی برتری کے جھوٹے اور ظالمانہ تصور کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ بے چینی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک نسلی اور قومی برتری کے تکبر دل و دماغ سے نہیں نکلتے۔ دنیا میں سلامتی اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک یہ نسل، قوم اور ملک کی برتری کا احساس رکھنے والوں اور حکومتوں کے دماغوں میں یہ بات راسخ نہیں ہو جاتی کہ ہم آدم کی اولاد ہیں اور ہمارا وجود بھی قانون قدرت کے تحت مرد اور عورت کے ملاپ کا نتیجہ ہے اور ہم بحیثیت انسان خدا کی نظر میں برابر ہیں۔ اللہ کی نظر میں اگر کوئی اعلیٰ ہے تو تقویٰ کی بنا پر اور تقویٰ کا معیار کس کا اعلیٰ ہے یہ صرف خدا کو پتہ ہے۔ کوئی اپنے تقویٰ کے معیار کو خود Judgeکرنے والا نہیں ہے۔ خود اس معیار کو دیکھنے والا نہیں ہے، پرکھنے والا نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری حیثیت، تمہار ادوسرے انسان سے اعلیٰ اور برتر ہونا اس کا کوئی تعلق نہ تمہاری نسل سے ہے نہ تمہاری قوم سے، نہ تمہارے رنگ سے ہے، نہ تمہاری دولت سے ہے، نہ تمہارے اپنے معاشرے میں اعلیٰ مقام سے ہے۔ نہ کسی قوم کا اعلیٰ ہونا، کمزور لوگوں پراس کے حکومت کرنے سے ہے۔ دنیا کی نظر میں تو ان دنیاوی طاقتوں اور حکومتوں کا مقام ہو گا لیکن خداتعالیٰ کی نظر میں نہیں۔ اور جو چیز خداتعالیٰ کی نظر میں قابل قبول نہ ہو وہ بظاہر ان نیک مقاصد کے حصول میں ہی کامیاب نہیں ہوسکتی جس کے لئے وہ استعمال کی جا رہی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام انسان جو ہیں ایک خاندان ہیں اور جب ایک خاندان بن کر رہیں گے تو پھر اس طرح ایک دوسرے کی سلامتی کا بھی خیال رکھیں گے جس طرح ایک خاندان کے افراد، ایسے خاندان کے افراد جن میں آپس میں پیار و محبت وہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قبیلوں اور قوموں کا صرف یہ تصور دیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ پاکستانی ہے، یہ انگریز ہے، یہ جرمن ہے، یہ افریقن ہے۔ ورنہ بحیثیت انسان تم انسان ہو۔ اور جو امیر کے جذبات ہیں، وہی غریب کے جذبات ہیں۔ جو یورپین کے جذبات ہیں، وہی افریقن کے جذبات ہیں۔ جو مشرق کے رہنے والوں کے جذبات ہیں وہی مغرب کے رہنے والوں کے جذبات ہیں۔ پس ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھو۔ اگر جذبات کا خیال رکھو گے تو سلامتی میں رہو گے۔ پس ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیت رکھی ہیں، ہر قوم کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں، ان سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ دائمی پیار و محبت کو قائم رکھ سکو۔
پس اسلام کے نزدیک پائیدار سلامتی کے لئے یہی معیار ہے ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا جتنی بھی سلامتی کونسلیں بن جائیں، جتنی بھی تنظیمیں بن جائیں وہ کبھی بھی پائیدار امن و سلامتی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ اور یہ قرآنی تعلیم پہلے صرف تعلیم کی حد تک ہی نہیں رہی بلکہ آنحضرتﷺ نے اپنی زندگی میں اس پر عمل کیا۔ غریبوں سے لاڈ کیا، غلاموں سے پیار کیا، محروموں کو ان کے حق دلوائے، ان کو معاشرے میں مقام دلوایا۔ حضرت بلالؓ جو ایک افریقن غلام تھے وہ آزاد کروادئیے گئے تھے۔ لیکن اس وقت کوئی قومی حیثیت ان کی معاشرے میں نہیں تھی۔ لیکن آنحضرتﷺ کے سلوک نے ان کو وہ مقام عطا فرمایا کہ حضرت عمر ؓنے بھی ان کو سیدنا بلال کے نام سے پکارا۔ پس یہ ہیں سلامتی کے معیار قائم کرنے کے طریق۔
…اللہ کرے وہ دن جلد آئیں جب دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والی حکومتیں بھی قائم ہوں۔ ایسے مسلمان حکمران آئیں جو آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق اور امام الزمان کی ڈھال کے پیچھے آکر اسلام کی سلامتی کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے میں مددگار ہوں۔ تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اس بات کے حصول کے لئے آج احمدی کا کام ہے کہ دعاؤں میں لگ جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اس دنیا کو پیار، محبت اور سلامتی کا گہوار ہ بنا دے اور اللہ کرے ہر ایک کا ایک ہی معبود ہو۔ جو خدائے واحد ویگانہ ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍جون 2007ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 13؍جولائی 2007ء صفحہ 6تا 8)
ایک دفعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونیؓ کو ایک نیک اور مخلص لڑکے کا رشتہ تجویز فرمایا۔ اس پر ان کی رائے تھی کہ یہ غریب آدمی ہے۔ اس کا نہ کوئی آگا ہے نہ پیچھا، نہ گھر نہ گھاٹ۔ اس کے کمرہ میں صرف ایک چٹائی، ایک لوٹا، اور ایک چارپائی ہے بس۔ ہماری لڑکی رہے گی کہاں؟…حضرت مولوی صاحب نے بڑے زور سے پنجابی زبان میں فرمایا:
’’میاں نورالدین صاحب!جے تے تہاڈی لڑکی دے بھاگاں وچ کجھ ہے تے اوہ خالی گھر وچ جا کے وی اونوں بھر دئے گی۔ تے جے اوہدے بھاگاں وچ کجھ نہیں تے اوہ بھرے گھر وچ جا کے بھی اوہنوں خالی کر دئے گی۔ ‘‘
حضرت مولوی صاحب کے یہ الفاظ سن کر حضرت خلیفہ صاحب نے فورا ًیہ رشتہ منظور کر لیا۔ (حیات نورصفحہ280)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ جولائی 2012ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت، مال و عزّت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ اطمینان اور وہ تسلّی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’لذّات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی۔ جس کو پانی پینے کا مرض ہوتا ہے اُس مریض کی طرح، اُس کی پیاس نہیں بجھتی۔ یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بے جا آرزؤوں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اس جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے۔ اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ یعنی ان باتوں کا خیال رکھیں جو آپ فرماتے ہیں۔ ’’… پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے، یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 371۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس ایک حقیقی مومن کو، تقویٰ پر چلنے والے اور تقویٰ کی تلاش کرنے والے کو اپنے ہر عمل کو خالصتاً للہ کرنا ہوگا۔ دل میں سے خواہشات اور نام نہاد تسکین کے دنیاوی بتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا تبھی ایک مومن حقیقی مومن بن سکتا ہے۔ …ہر ایک کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ضروری نہیں ہے کہ انتہائی برائیوں میں ہی انسان مبتلا ہو، چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چھوٹی برائیاں ہی بعض دفعہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں۔ ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں، استغفار اور درود سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اپنے دلوں کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کریں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں کہ یہ شکر گزاری پھر خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیاوی لحاظ سے جو دروازے کھلے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنائیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تمہارا تقویٰ تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا پیسہ، تمہاری دولت تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14)
کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں، اکثر ہماری تقریروں میں ذکر کیا جاتا ہے، مقررین اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن جس طرح اُس پر عمل ہونا چاہیےوہ عمل نہیں ہوتا۔ اگر صحیح طرح عمل ہو تو بہت سارے مسائل، بہت ساری جھگڑے جوجماعت کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں وہ خود بخود حل ہو جائیں۔
…پھر آپ نے فرمایا کہ ’’نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے‘‘اور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا ہے ’’اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 445۔ ا یڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جولائی2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جولائی2012ءصفحہ7)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ جمعہ فرمودہ 4؍ جولائی 2014ء میں فرمایا:
’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری عزتیں، ہماری بڑائی کسی کو نیچا دکھانے یا اسی طرح ترکی بہ ترکی جواب دینے میں نہیں اور اپنے پر کی گئی زیادتیوں کا بدلہ لینے میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے۔ اسی میں ہماری بڑائی ہے۔ اسی بات میں ہماری عزت ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کو عزت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز ہونے کا یہ معیار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اس بارے میں ایک ارشاد ہے جو ایک اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اَب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متّقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے۔ اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اس کے نزدیک متقی ہے‘‘فرمایا: ’’پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متّقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد3صفحہ238-239ایڈیشن1984ء مطبوعہ یوکے)
(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍جولائی2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25؍جولائی2014ءصفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ26؍ اگست 2005ء میں فرماتے ہیں کہ
’’…اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ اعلیٰ اخلاق دکھانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ لوگ ہیں جو لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لئے آپس میں محبت و پیارکی فضا پیداکرنے کے لئے، ایک ہو کر رہنے کے لئے، اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے، جماعت کی مضبوطی اور وقار کے لئے، ایک دوسرے کے قصور معاف کرتے ہیں۔ اپنی جھوٹی اناؤں کو دباتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھانا شروع ہوجائیں، جھوٹی انائیں رکھنے والے ہوں۔ اس زُعم میں بیٹھے ہوں کہ ہمارا خاندان بڑا ہے۔ جب اس فساد کے زما نے میں اس دنیاداری کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سلسلۂ بیعت میں شامل ہوگئے تو پھر بڑائی کسی قبیلے، برادری یا خاندان کی نہیں ہے۔ پھر بڑائی تقویٰ میں ہے۔ جیسا کہ فرمایا
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ(الحجرات:14)
کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ اور متقی کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ ہر وقت اس فکر میں ہے کہ مَیں حبل اللہ کو پکڑے رکھوں۔ پس اگر اللہ کی محبت حاصل کرنی ہے تو ان جھوٹی اناؤں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اور نہ صرف یہ کہ کسی سے برائی نہیں کرنی یا برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا، بلکہ احسان کا سلوک کرنا ہے۔ یہی باتیں ہیں جو ایک حسین معاشرہ قائم کرتی ہیں اور اس کے لئے ایک احمدی کو جہادکرنا چاہئے۔ کیونکہ اگردل تقویٰ میں ہے تو اللہ تعالیٰ کے دین کی مضبوطی کی خاطر، اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی خاطر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی رہے گی۔ اور اپنی اناؤں اور غصے کو دبانے کی توفیق ملتی رہے گی۔
…ایک طرف تو ہم اللہ کی رسّی کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے دعویدار ہوں، ایک طرف تو ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف بداخلاقی کے نمونے دکھا رہے ہوں۔ ایک طرف توہم دنیا کو اسلام کے جھنڈے تلے لانے کے دعویدار ہوں اور دوسری طرف ہمارے اپنے فعل ایسے ہوں کہ ہمارے ایسے فعلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں معارف اور حکمت سے محروم کررہا ہو۔ جب ہمارے اپنے اندر حکمت و معرفت نہیں ہوگی یا معارف پیدا نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا سکھائیں گے۔ پس ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا۔ اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ کیونکہ جس میں عقل اور حکمت نہ ہو، جس کی عقل موٹی ہوگئی ہو اس کو اللہ تعالیٰ کی رسّی کو پکڑنے کا کیا ادراک ہوسکتا ہے۔
یہاں اس ملک میں آکر آپ میں سے بہتوں کے جومعاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اس بات سے آپ کے دلوں میں ایک دوسرے کی خاطر مزید نرمی آنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے آگے سر مزید جھکنا چاہئے کہ اس نے احسان فرمایا اور اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رسّی کو مزید مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کیا جائے۔ اپنے بھائیوں کے حقوق اداکئے جائیں اور یوں اللہ کا پیار بھی حاصل کیاجائے۔ اور جہاں ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کررہے ہوں گے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے آپس میں مضبوط بندھن میں بندھ رہے ہوں گے۔ اور جب ہم اس طرح بندھے ہوں گے اور اللہ کی رسّی کو تھامے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کررہے ہوں گے تو ہمارا ایک رعب قائم ہوگا جو مخالفین کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے گا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا جماعتی وقار بھی جاتا رہے گا اور تمہارے اندر بزدلی بھی پیدا ہوجائے گی۔ جیساکہ فرمایا
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال:47)
اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ اور صبر سے کام لو۔ یقینا ًاللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر ایسے مواقع آبھی جائیں جس میں کسی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو صبر اور حوصلے سے اس کو برداشت کرنا چاہئے۔ آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر اپنی اناؤں کے سوال پیداکرکے اپنی طاقتوں کو کم نہ کریں۔ ہر بھائی دوسرے بھائی کی عزت کا خیال رکھے۔ ہر بہن دوسری بہن کی عزت کا خیال رکھے۔ اپنے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیداکریں۔ عہدیدار افراد جماعت کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور افراد جماعت عہدیداروں کی عزت کریں، ان کے وقار کا خیال رکھیں۔ پھرآپس میں عہدیدار ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں۔ ذیلی تنظیموں کے عہدیدار دوسری ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا احترام اپنے اندر اور اپنی تنظیم کے اندر پیداکریں۔ پھر تمام ذیلی تنظیموں کے عہدیدار جماعتی عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں۔ آپس میں تمام عہدیدار ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں۔ عہدیداروں سے مَیں کہتا ہوں کہ جب یہ چیز عہدیداروں کی سطح پر اعلیٰ معیار کے مطابق پیدا ہوجائے گی۔ تو جماعت کے اندر ایک روحانی تبدیلی خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ جس طرح آپ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کررہے ہوں گے۔ اسی طرح افراد جماعت ایک دوسرے کا احترام کررہے ہوں گے اور خیال رکھ رہے ہوں گے۔ ضرورتیں پوری کررہے ہوں گے۔ قربانی دینے کا شوق پیدا ہورہا ہوگا۔ پس اس بات کو چھوٹی نہ سمجھیں۔ یہی باتیں آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے والی ہیں اور انہیں باتوں کے اپنانے سے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے، اپنے اوپر لاگو کرنے سے، ہم جماعت کی ترقی میں اہم کردار اداکررہے ہوں گے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍اگست2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل16؍ستمبر2005ءصفحہ7)
اللہ کرے ہمارا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی فکر کو دیکھ کر یہ وعدہ کیاتھا کہ تیرے راستہ پر چل کر میرا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ہم جو احمدی ہیں اور ہمارادعویٰ ہے کہ سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ ہمارے محب اور معشوق ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ ہم اس عشق کو سچ کردکھائیں۔ اور ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں اور ہم نے ا س زمانے کے امام کو مان کر یہ ثابت کر دیاہے کہ ہم صرف دعویٰ ہی نہیں کررہے بلکہ حقیقت میں آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی اور ہم نے امام کوپہچانا اور مانا اور ہم اس جماعت میں داخل ہو گئے ہیں جس پراللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔ لیکن اس کے ساتھ سب سے بڑھ کر ہمیں خود بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اس طرف توجہ دینی ہوگی کیونکہ نیک نمونہ سب سے بڑا پیغام سب سے بڑا اقرار اور سب سے بڑی تبلیغ ہے۔
ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتّقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
یہی اک فخرِ شانِ اولیاء ہے
بجز تقویٰ زیادت اِن میں کیا ہے
عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ
مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ
سنو! ہے حاصلِ اسلام تقویٰ
خدا کا عِشق مَے اور جام تقویٰ
مُسلمانو! بناؤ تام تقویٰ
کہاں اِیماں اگر ہے خام تقویٰ
٭…٭…٭