متفرق مضامین

حج کے احکامات کی تفسیرِ لطیف از حضرت مصلح موعودؓ: حجِ بیت اللہ۔ خدائے واحد کا عظیم الشان نشان

وَ اَذِّنۡ فِی النَّاسِ بِالۡحَجِّ یَاۡتُوۡکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاۡتِیۡنَ مِنۡ کُلِّ فَجٍّ عَمِیۡقٍ۔لِّیَشۡہَدُوۡا مَنَافِعَ لَہُمۡ وَ یَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡلُوۡمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ ۚ فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ۔ ثُمَّ لۡیَقۡضُوۡا تَفَثَہُمۡ وَ لۡیُوۡفُوۡا نُذُوۡرَہُمۡ وَ لۡیَطَّوَّفُوۡا بِالۡبَیۡتِ الۡعَتِیۡقِ (سورۃ الحج: 28تا 30)

ترجمہ: اور تمام لوگوں میں اعلان کردے کہ وہ حج کی نیت سے تیرے پاس آیا کریں۔ پیدل بھی اور ہر ایسی سواری پر بھی جو لمبے سفر کی وجہ سے دُبلی ہو گئی ہو ( ایسی سواریاں ) دُور دُور سے گہرے راستوں پر سے ہوتی ہوئی آئینگی۔ تاکہ وہ (یعنی آنیوالے ) اُن منافع کو دیکھیں جو اُن کیلئے ( مقرر کئے گئے )ہیں۔ اور کچھ مقرر دنوں میں اللہ تعالیٰ کو اُن نعمتوں کی وجہ سے یاد کریں جو ہم نے انکو دی ہیں ( یعنی ) بڑے جانوروں کی قسم سے ( جیسے گائے اونٹ وغیرہ ) پس چاہیئے کہ وہ اُن کے گوشت کھائیں اور تکلیف میں پڑے ہوئے نادار کو کھلائیں۔ پھر اپنی میل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پُرانے گھر ( یعنی خانہ کعبہ ) کا طواف کریں۔

سورۃ الحج کی ان آیات کی تفسیر میں حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ

’’فرماتا ہے۔ ہم نے ابراہیم ؑکویہ بھی کہہ دیا تھا کہ یہ حکم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کیلئے ہے کہ لوگ دُوردُور سے سفر کی وجہ سے دُبلی ہونے والی سواریوں پرچڑھ کر جو رستوں میں بھی کثرتِ سفر کی وجہ سے گڑھے ڈال دیں گی اور تیز دوڑنے والی ہونگی تیرے پاس آئیں تاکہ دنیوی نفع بھی اُن کو پہنچے اور مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی وہ خوب کریں اور اس طرح ساری دنیا میں ایک دین قائم ہو جائے۔ اور چاہیے کہ تم میں سے مالدار لوگ قربانیوں کے گوشت میں سے خود بھی کھائیں اور باقی غریبوں کو بھی کھلائیں۔ اور جب قربانیاں کر چکیں تو نہائیں۔ اور اپنی میل دُور کریں۔ یعنی جسمانی لحاظ سے بھی اپنی صفائی کریں اور روحانی لحاظ سے بھی اپنے دلوں کے گند دُور کریں۔ اور انہوں نے خداتعالیٰ سے جو عہد باندھے تھے اُن کو پورا کریں اور اس پُرانے عبادت خانہ کا طواف کریں۔

طواف کی حقیقت

اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ایک بے جان چیز کو خداتعالیٰ کا مرتبہ دیا گیا ہے بلکہ طواف کرنا ایک پُرانی رسم تھی جو قربانی دینے کی علامت تھی۔ لوگ بیماروں کے گرد طواف کرتے تھے جس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ ہم قربان ہوجائیں اور یہ بچ جائیں۔ اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے رہیں جو اس گھر کی عظمت اور خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم رکھنے کیلئے اپنی جانیں قربان کرتے رہیں۔ ورنہ طوافِ ظاہری تو اپنی ذات میں کوئی بڑی بات نہیں۔

حجِ بیت اللہ۔خدائے واحد کا عظیم الشان نشان

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حج ِ بیت اللہ کا ذکر فرمایا ہے جو ایک اہم اسلامی عبادت ہے اور جس کے مطابق ہر سال لاکھوں آدمی جن میں سے کوئی کسی قوم کا ہوتا ہے اور کوئی کسی ملک کا ایک دوسرے کے رسم و رواج ایک دوسرے کی زبان اور ایک دوسرے کی عادات وغیرہ سے ناواقف ہوتے ہوئے مکّہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اسلامی توحید نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسا متحد کر دیا ہے کہ باوجود اختلافِ زبان۔ اختلافِ عقائد۔ اختلافِ رنگ و نسل۔ اختلاف ِخیالات اور اختلافِ آب و ہوا کے ہم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیّککہہ کر ایک جگہ پر جمع ہونے کیلئے تیار ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں نے اپنے عمل سے ظاہری حج کے علاوہ یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں اور جب تک مسلمانوں میں یہ رُوح قائم رہیگی کسی دشمن کی یہ طاقت نہیں ہوگی کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرے یا مسلمانوں کی یکجہتی کو توڑ سکے۔ کیونکہ جب تک خانہ کعبہ رہیگا مسلمانوں کی یکجہتی بھی قائم رہے گی۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے نہ صرف یہ نظارہ ہوتا ہے کہ دنیا کے کن کن کونوں میں خداتعالیٰ نے اسلام کو پھیلا دیا بلکہ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک بے آب و گیاہ جنگل سے بلند ہونیوالی وہ آواز جس کو غیر تو الگ رہے اپنے بھی نہیں سُنتے تھے اور آواز دینے والے کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بناتے تھے۔آج دنیا کے کونوں، کونوں تک پہنچ کر لاکھوں انسانوں کے اجتماع کا باعث بن رہی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھتے اور اپنے ایمانوں میں ایک تازگی اور لطافت محسوس کرتے ہیں کہ کہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پید اہوئے جنہوں نے ایک ایسی آواز بلند کی جو گونجی اور گونجتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ وہ دُور دراز ملکوں میں پہنچی اور لاکھوں لوگو ں کو یہاں کھینچ لائی۔ اور وہ مکّہ جہاں رہنے والوں کی اذیتّوں اور تکلیفوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور جنھیں اِس سرزمین میں

لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

کہنے کی اجازت تک نہیں تھی آج اُسی مکّہ مکّرمہ میں ہر ایک کی زبان پر

اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ

جاری ہے اور وہ

لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ

کہتے جارہے ہیں۔ گویا اس وقت خداتعالیٰ اُن کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور وہ اُس سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ ہم حاضر ہیں۔ ہم اقرار کرتے ہیں کہ تیرا کوئی شریک نہیں صرف تُو ہی اس امر کا مستحق ہے کہ بندوں کو آواز دے۔ اور اے خدا تیرے بلانے پر ہم تیرے حضور حاضر ہیں۔ پس مکّہ مکّرمہ وہ مقام ہے جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان صرف اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کریں۔ اور دنیا کے سامنے اس بات کی شہادت پیش کریں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے۔اورآپ کے خادم آج بھی آپ کی آواز کو بلند کرنے کیلئے دنیامیں موجود ہیں۔

حج کا دنیا کو پیغام

گویا حج دنیا کو یہ پیغام پہنچاتا ہے کہ اسلام کی رگوں میں اب بھی زندگی کا خون دوڑ رہا ہے۔ اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق رکھنے والے لوگ اسلام کے مرکز مکّہ مکّرمہ میں جمع ہیں اور انہوں نے اپنے اس تعلق کا اعلان کیا ہے جو انہیں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے۔ انہوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ چاہے کمزورہی سہی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اب بھی دنیا میں موجو د ہیں اور اب بھی مسلمانوں کی قومی زندگی کی رگ پھڑک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے جس طرح نماز اور روزہ اور زکوٰۃ کو ضروری قرار دیا ہے اسی طرح اُس نے حج کو بھی ایک ضروری فریضہ قرار دیا ہے۔بے شک حج کی اصل غرض روحانی طور پر یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو توڑ کر دل سے خدا کا ہو جائے۔ مگر اس غرض کو پورا کرنے کیلئے خداتعالیٰ نے ایک ظاہر ی حج بھی رکھ دیا اور صاحب استطاعت لوگوں پر یہ فرض قرار دے دیا کہ وہ گھر بار چھوڑ کر مکّہ مکّرمہ میں جائیں۔ اور اس طرح اپنے وطن اور عزیز و اقرباء کی قربانی کا سبق سیکھیں۔ کیونکہ اسلام جسم اور رُوح دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے جس طرح دنیا میں ہر ایک انسان کا ایک مادی جسم ہوتا ہے اور اس جسم میں رُوح ہوتی ہے۔ اسی طرح مذہب اور روحانیت کے بھی جسم ہوتے ہیں جن کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اسلام نے نماز کی ادائیگی کیلئے بعض خاص حرکات مقرر کی ہوئی ہیں۔ اب اصل غرض تو نماز کی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت پیدا ہو۔اس کی صفات کو وہ اپنے ذہن میں لائے اور اُن کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کرے۔ ان باتوں کا بظاہر ہاتھ باندھنے یا سیدھا کھڑا ہو نے یا زمین پر جھک جانے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا مگر چونکہ کوئی رُوح جسم کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اس لئے خداتعالیٰ نے جہاں نماز کا حکم دیا وہاں بعض خاص قسم کی حرکات کا بھی حکم دیدیا۔جن مذاہب نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور انہوں نے اپنے پیروؤں کیلئے عبادت کرتے وقت جسم کی حرکات کو ضروری قرار نہیں دیا وہ رفتہ رفتہ عبادت سے ہی غافل ہوگئے ہیں۔ اور اگر اُن میں کوئی نماز ہوتی بھی ہے تو ایک تمسخر سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اسی طرح گو حقیقی حج یہی ہے کہ انسان ہر قسم کے تعلقات کو منقطع کرکے خدا کا ہو جائے،چنانچہ اسی لئے خواب میں اگر کوئی شخص اپنے متعلق دیکھے کہ اُس نے حج کیا ہے تو اُس کی تعبیر یہ ہے کہ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد خداتعالیٰ کی عبادت اور اُس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ جیسے وہ فرماتا ہے کہ

مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِ لَّا لِیَعْبُدُوْنَ

کہ میں نے بنی نوع انسان کو صرف اپنا مقرب بنانے کیلئے پیدا کیا ہے۔ پس حج اس بات کی علامت ہے کہ جس غرض کیلئے انسان کو پیدا کیا گیا تھا وہ اُس نے پوری کرلی۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ حج کیا ہے ؟خداتعالیٰ کی رؤیت اور اس کا دیدار۔ مگر اس کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک ظاہر ی جسم بھی رکھ دیا تا کہ جسم کے ذریعہ رُوح کی بھی حفاظت ہوتی رہے۔

سچی قربانی اور سچّے اخلاص کا واقعہ

پھر حج اُس سچّے اخلاص کے واقعہ کو بھی تازہ کرتا ہے جس کا نمونہ آج سے چارہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دکھا یا اور جس کے نتائج آج تک دنیا کو نظر آرہے ہیں۔ اُوؔر کی سرزمین میں آج سے چار ہزار سال پہلے ایک مشرک گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا( دیکھو پیدائش باب 11آیت28) اُس نے ایسے لوگوں میں تربیت پائی جن کا رات دن مشغلہ خدا کا شریک بنانا۔اور ُبتوںکی پرستش کرناتھا۔مگر وہ بچہ ایک نورانی دل لے کر پید اہوا تھا۔ اور وہ بچپن سے ہی بُتوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ جب دنیا کی بڑھتی ہوئی گمراہی اور اُس کے طوفانِ ضلالت کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے چاہا کہ بنی نوع انسان میں سے کسی کو اپنا بنائے۔ تو اُس کی جوہر شناس نگاہ نے کسدؔیوں کی بستی میں سے ابراہیم کو چنا ( پیدائش باب11آیت 31) اور اُسے اپنے فضل سے ممسوح کیا۔ اور اُسے کہا کہ اے ابراہیم جا اور اپنے بیٹے کو قربان کر تاکہ لوگوں سے الگ میری خاص حفاظت اور نگرانی میں ایک پنیری لگائی جائے۔ نیکی اور تقویٰ کی پنیری۔ ایک چشمہ پھوڑاجائے۔ پاکیزگی اور طہارت کا چشمہ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بہت اچھا۔ میں تیار ہوں چنانچہ انہوں نے اپنے اس بیٹے کو جو بڑھاپے میں نصیب ہواتھا۔ اس وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر چھوڑ دیا۔ جس کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ اُس میں کھانے اور پینے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ایسی پُر خطر اور بھیانک وادی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اس لئے اپنے بیٹے اور اُس کی والدہ کو چھوڑا تاکہ خدا کا ذکر بلند ہو اور اُس کی کھوئی ہوئی عظمت دنیا میں پھر قائم ہو۔ صرف ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور اُس ماں اور بچے کو دئے گئے جن کے متعلق یہ الٰہی فیصلہ تھا کہ اب انہوں نے اسی جنگل میں ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی بسر کرنی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجور کتنے دن کا م دے سکتی ہے۔ پھر سوائے ریت کے ذرّوں اور آفتاب کی چمک کے او ر کوئی چیز میری بیوی اور بچے کیلئے نہیں ہوگی۔ یہ سوچتے ہی اُن پر رقت طاری ہوگئی۔اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ حضرت ہاجرہ ؓ ان کی آنکھوں کی نمی اور ہونٹوں کی پھڑ پھڑ اہٹ سے سمجھ گئیں کہ بات کچھ زیادہ ہے۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے چلیں اور کہنے لگیں ابراہیم ؑ ! تم ہمیں کہاں چھوڑ چلے ہو۔ یہاں تو پینے کیلئے پانی تک نہیں اور کھانے کیلئے کوئی غذا نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دینا چاہا مگر رقّت کی وجہ سے آواز نہ نکل سکی۔ تب حضرت ہاجرہؓ نے کہا کہ کیا آپ خدا کے حکم سے ایسا کر رہے ہیں یا اپنی مرضی سے۔ اس پر انہوں نے آسمان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا دئیے جس کے معنے یہ تھے کہ میں خدا کے حکم کے ماتحت ایسا کر رہا ہوں۔ اس جواب کو سُن کر یقین اور ایمان سے پُر ہاجرہؓ جو اپنی جوانی کی عمر میں تھی اور جس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اُس وقت موت کی نذر ہو رہا تھا فوراً رُک گئی اور کہنے لگی اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کریگا۔ آخر پانی ختم ہو ا۔غذا ختم ہوئی اور باوجود اس کے کہ اس علاقہ میں کوئی چیز نظر نہ آتی تھی حضرت ہاجرہ ؓ اپنے بچے کی تکلیف کو نہ دیکھ کر جو پیاس سے تڑپ رہا تھا ایک ٹیلے پر چڑھ گئیں کہ شاید کوئی آدمی نظر آئے اور اس سے پانی مانگ لیں یا شاید کوئی آبادی دکھائی دے۔ انہوں نے جس حد تک انسانی نظر کام کر سکتی تھی دیکھا مگر انہیں کہیں پانی کا نشان نظر نہ آیا۔ تب وہ اسی گھبراہٹ میں اُتریں اور دوڑتی ہوئی دوسرے ٹیلے پر چڑھ گئیں۔ وہاں سے بھی دیکھا مگر پانی کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ اسی کرب و اضطراب کی حالت میں حضرت ہاجرہ ؓسات دفعہ دوڑیں۔ اور آخر اُن کا دل بیٹھنے لگا کہ اب کیا ہوگا۔ اس پر معاً خداتعالیٰ کا الہام نازل ہوا کہ اے ہاجرہ ؓ! خدا نے تیرے بچے کیلئے سامان پیدا کر دیا ہے۔ جا اور اپنے بچے کو دیکھ۔ حضرت ہاجرہ ؓ واپس آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ جہاں بچہ پیاس سے تڑپ رہا تھا وہاں پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا ہے۔ یہی وہ چشمہ ہے جس کو چاہ زمزم کہتے ہیں۔ زمزم درحقیقت اُس گیت کو کہتے ہیں جو خوشی میں گایا جاتا ہے۔معلوم ہوتا ہے حضرت ہاجرہ ؓ نے اُس چشمہ کانام خود زمزم رکھا تھا کیونکہ اس چشمہ کے ذریعہ سے اپنے بچہ کی نجات کی خوشی میں اُن کیلئے شکریہ میں گانے کا موقعہ پیدا ہوا تھا۔ پانی کا تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح انتظام کر دیا اب غذا کی فکر تھی۔ اتفاقاً ایک قافلہ راستہ بھول گیا اور وہ اُسی جگہ آپہنچا جہاں حضرت ہاجرہ ؓبیٹھی تھیں۔ قافلہ والوں کو پانی کی سخت ضرورت تھی انہوں نے جب وہاں چشمہ دیکھا تو حضرت ہاجرہؓ سے کہا کہ ہم آپ کی رعایا بن کر یہاں رہیں گے۔ آپ ہمیں اس جگہ بسنے کی اجازت دے دیں۔ حضرت ہاجرہ ؓنے انہیں اجازت دیدی۔اور وہ وہاں حضرت ہاجرہ ؓاور اسمٰعیل ؑکی رعایا بن کر رہنے لگے۔ اور پیشتر اس کے کہ اسمٰعیل ؑ جو ان ہوتا خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔

( بخاری کتاب بدء الخلق)

صفا و مروہ پر سعی کی وجہ

آج تک حج کے ایّام میں حضرت ہاجرہ ؓ کے اس واقعہ کی یاد گار کے طور پر ہی صفاؔ اور مروہؔ پر ہر حاجی کو سات دفعہ دوڑنا پڑتا ہے۔ یہ دوڑنا حضرت ہاجرہ ؓکے نقشِ قدم پر چلنے کا ایک اقرار ہوتا ہے۔ یہ دوڑنا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اگر ہمیں بھی خدا کیلئے کسی وقت اپنے عزیزوں کو چھوڑ نا پڑا تو ہم انہیں چھوڑنے میں کوئی دریغ نہیں کریں گے۔ پس حج ایک اہم عبادت ہے جو اسلام نے مقرر کی ہے۔ جب کوئی شخص مکہ مکرمہ میں جاتا ہے اور مناسکِ حج کو پوری طرح بجا لاتا ہے تو اس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آجاتا ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنیو الے ہمیشہ کیلئے زندہ رکھے جاتے ہیں۔

مرکزیت کی روح

پھر حج سے مسلمانوں کے اندر مرکزیت کی روح بھی پیدا ہوتی ہے اور انہیں اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غورو فکر کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔اسی طرح ایک دوسرے کی خوبیوں کو دیکھنے اور اُن کو اخذ کرنے کا انہیں موقع ملتا ہے اور باہمی اخوت اور محبت میں ترقی ہوتی ہے۔ غرض حج ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رُکن ہے جس کی طرف اسلام نے لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مالی وسعت عطا فرمائی ہو اور جن کی صحت سفر کے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہواُن کا فرض ہے کہ وہ اس حکم پر عمل کریں اور حج بیت اللہ کی برکات سے مستفیض ہوں۔

آجکل کے امراء کیلئے سب سے بڑی نیکی

میں سمجھتا ہوں آجکل کے امراء کیلئے سب سے بڑی نیکی حج ہی ہے کیونکہ باوجود مال و دولت کے وہ کبھی حج کیلئے نہیں جاتے اورجو لوگ حج پر جاتے ہیں اُن میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن پر حج واجب نہیں ہوتا۔ میں جب حج کیلئے گیا تو ایک حاجی میرے پاس آیا اور اُس نے مجھ سے کچھ مانگا۔ حضرت نانا جان صاحب ؓمرحوم میرے ساتھ تھے انہوں نے اُسے کہا کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں تھا تو تم حج کیلئے آئے کیوں ؟ وہ کہنے لگا۔ میرے پاس بہت روپے تھے مگر سب خرچ ہوگئے۔ حضرت نانا جان مرحوم نےپوچھا کہ کتنے روپے تھے وہ کہنے لگا جب میں بمبئی پہنچا تھا تو میرے پاس پینتیس (35)روپے تھے اور میں نے ضروری سمجھا کہ حج کر آؤں۔ تو وہ پینتیس (35)رپوؤں کو ہی بہت سمجھتا تھا مگر مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو 35ہزار بلکہ 35-35لاکھ روپے رکھتے ہیں اور پھر بھی وہ حج کیلئے نہیں جاتے لیکن غرباء میں بہت حاجی نظر آتے ہیں۔ ایک شخص ساری عمر تھوڑا تھوڑا روپیہ جمع کرتا رہتا ہے اور جب چند سو روپیہ اسکے پاس اکٹھا ہو جاتا ہے تو وہ تمام عمر کا اندوختہ لے کر حج کے لئے چل پڑتاہے۔ حالانکہ اُسی روپیہ پر اُس کے بیوی بچوں کی آئندہ زندگی کا مدار ہوتا ہے۔ وہ اگر اس روپے سے اچھے بیل خرید لے یا کچھ ایکڑزمین لے لے تو اس کے بیوی بچوں کیلئے سہولت پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتا اور روپیہ اٹھا تا اور حج کیلئے چل پڑ تا ہے تو۔ امراء کیلئے سب سے بڑی نیکی حج ہے۔ کیونکہ وہ حج میں سب سے زیادہ کوتاہی کرتے ہیں۔ اسی طرح کئی ملازم ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پنشن لے کر حج کو جائیں گے لیکن یہ خیال نہیں کرتے کہ پنشن پانے کے بعد زندگی بھی پائیں گے یا نہیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ پنشن لینے کے بعد ایسے بیمارپڑتے ہیں کہ اس قابل ہی نہیں رہتے کہ حج کو جاسکیں۔ پنشن تو گورنمنٹ دیتی ہی اُسی وقت ہے جب اچھی طرح نچوڑ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اب یہ ہمارے کام کا نہیں رہا۔پھر بعض لوگ کاروبار کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ اگلے سال جائینگے پھر اُس سے اگلے سال کا ارادہ کر لیتے ہیں۔ حالانکہ دُنیا کے کام تو ختم ہوتے ہی نہیں۔ اگر خداتعالیٰ نے توفیق دی ہو تو جلدی حج کرلینا چاہیے۔

حج کا سفر

میں جب تعلیم کیلئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤنگا۔ مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اُسی سال حج کرونگا۔ یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کرونگا۔ جب میں بمبئی پہنچا تو وہاں نانا جان صاحب ؓ مرحوم بھی آملے۔ وہ براہ راست حج کو جارہے تھے۔ اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کر لوں۔ جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز میں سوار ہو جاؤ کیونکہ یہ آخری جہاز ہے گو حج میں ابھی دس پندرہ روز کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے۔اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی اور کئی جہاز حاجیوں کے مصر سے جدہ جائیں گے۔ میرے ساتھ عبدالحی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے۔ مگر مجھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز سے جاؤ ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہو جائے گی۔ اس لئے میں نے چلنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ وہاں جو ایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہاز جائیں گے۔ قاہرہ اور اسکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں۔ اتنی دُور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج رہ جانے کا خطرہ ہے اس لئے میں تو ضرور جاؤنگا۔ چنانچہ اُس جہاز ران کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اس جھگڑے نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہوا اور کمپنی والے اس سال حاجیوں کیلئے کوئی اور جہاز نہ لے گئے۔

غرض کئی لوگ حج کی خواہش تو رکھتے ہیں مگر وقت پر اُسے پورا نہیں کرتے اور اس طرح وہ ایک بہت بڑی نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پس جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے استطاعت عطا فرمائی ہو۔وہ حج بیت اللہ سے مشرف ہونے کی کوشش کریں مگر حج میں بھی جب تک تقویٰ اور خشیۃ اللہ کو مدّنظر نہ رکھا جائے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔

حاجی کے لیبل کے لئے حج کرنا

میں جب حج کرنے کیلئے گیا تو سوؔرت کے علاقہ کے ایک نوجوان تاجر کو میں نے دیکھا کہ جب وہ منٰی کی طرف جا رہا تھا تو بجائے ذکرالٰہی کرنے کے اردو کے نہایت ہی گندے عشقیہ اشعار پڑھتا جا رہا تھا اتفاق کی بات ہے کہ جب میں واپس آیا تو جس جہاز میں مَیں سفر کر رہا تھا اُسی جہاز میں وہ بھی واپس آرہا تھا ایک دن میں نے موقعہ پا کر اُس سے پوچھا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ حج کیلئے کیوں آئے تھے۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ آپ منٰی کو جاتے ہوئے بھی ذکر الٰہی نہیں کر رہے تھے۔ اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حاجی کی دکان سے لوگ سودا زیادہ خریدا کرتے ہیں جہاں ہماری دکان ہے اُس کے بالمقابل ایک اور شخص کی دکان بھی ہے۔ وہ حج کرکے گیا اور اُس نے اپنی دکان پر حاجی کا بورڈ لگا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے لگ گئے۔ یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ تُو بھی حج کر آ تا کہ واپس آکر تُو بھی حاجی کا بورڈ اپنی دکان پر لگا سکے۔ اب بتاؤ کہ کیا اُس کا حج اس کیلئے ثواب کا موجب ہوا ہوگا۔ ثواب کا تو کیا سوال ہے اُس کا حج اُس کیلئے یقینا ًگناہ کا موجب ہوا ہوگا۔ پس انسان کو اپنے تمام کاموں میں ہمیشہ یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیئے کہ اچھے سے اچھا کام کرنے میں بھی خداتعالیٰ کی رضا کو مدّنظر رکھے۔ ورنہ وہی نیکی اس کیلئے ہلاکت اور عذاب کا باعث بن جائیگی۔بے شک حج ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اس لئے حج پر جاتا ہے کہ اس کا لوگوں میں اعزاز بڑھ جائے یا رسم و رواج کے ماتحت جاتا ہے یا اس لئے جاتا ہے کہ لوگ اُسے حاجی کہیں تو وہ اپنا پہلا ایمان بھی مٹا کر آئیگا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا۔ کسی ریل کے اسٹیشن پر کوئی اندھی بڑھیا گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا سوائے ایک چادر کے جو اُس نے پاس رکھی ہوئی تھی۔تاکہ جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تیز ہوا کی وجہ سے سردی محسوس ہو تو اوڑھ لے۔ اُس نے وہ چادر پاس رکھی ہوئی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اُسے ٹٹول لیتی تھی۔ ایک شخص اس کے پاس سے گذرا اور اُس نے سوچا کہ یہ تو اندھی ہے اور پھر اندھیرا بھی ہو چکا ہے۔ اس لئے اگر میں یہ چادر اٹھا لوں تو نہ اس کو پتہ لگے گا اور نہ پا س کے لوگوں کو پتہ لگے گا۔ اس پر اُس نے چپکے سے وہ چادر کھسکا لی۔ بڑھیا چونکہ بار بار اُسے ٹٹولتی تھی اُسے پتہ لگ گیا کہ کسی نے چادر اٹھالی ہے۔ اُس نے جھٹ آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اے بھائی حاجی میری چدّر دے دو۔میں اندھی غریب ہوں اور میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں۔ وہ شخص فوراً واپس مڑا اور اُس نے چادر تو آہستہ سے اُس کے ہاتھ میں پکڑا دی مگر کہنے لگا۔ مائی یہ تو بتائو تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں۔ وہ بڑھیا کہنے لگی بیٹا ! ایسے کام سوائے حاجیوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا۔ میں اندھی کمزور اور غریب ہوں، سردی کا موسم ہے اور میں بالکل اکیلی ہوں۔ ایسی حالت میں میرا ایک ہی کپڑا چُرانے کی کوئی عادی چوربھی جرأ ت نہیں کر سکتا۔یہ ایسا کا م ہے جسے حاجی ہی کر سکتا ہے۔

غرض حج کااُسی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے جب انسان اپنے دل میں خداتعالیٰ کا خوف رکھے اور اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فریضہ کو ادا کرے۔ اگر وہ اخلاص کے ساتھ حج کیلئے جاتا ہے تو وہ ایمانوں کے ڈھیر لے کر واپس آتا ہے اوراگر وہ اخلاص کے بغیر جاتا ہے تو وہ اپنے پہلے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

بیت اللہ کی تعمیر

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو الْبَیْتُ الْعَتِیْق قرار دیکر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ نہیں بنایا بلکہ وہ پہلے سے بنا ہو ا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل ؑ کے ساتھ مل کر صرف پہلے نشانوں پر اس کی دوبارہ تعمیر کی تھی۔ چنانچہ حضرت حاجرہ ؓ اور حضرت اسمٰعیل ؑکو چھوڑ تے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور جو دُعا کی اُس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں کہ

رَبَّنَآ اِنّٓيْ اَسْکَنْتُ مَنْ ذُرِّ یَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ (ابراہیم 18رکوع6)

کہ اے میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ چلاہوں جہاں نہ کھانے کیلئے کوئی دانہ ہے اور نہ پینے کیلئے کوئی چشمہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔ اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ

اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للِنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَمُبَارَکً وَّ ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ ( آل عمران رکوع10)

یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے روحانی فائدہ اور ان کی ایمانی حفاظت کیلئے بنایا گیا تھا وہ وہی ہے جو مکّہ میں ہے۔ اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام دنیا کے لوگوں کیلئے اس میں فضل اور رحمت کے سامان اکٹھے کردئیے گئے ہیں۔اس آیت میں وُضِعَ لِلنَّاسِ کے الفاظ اس پیشگوئی کے بھی حامل تھے کہ اس گھر کے ذریعہ وہ لوگ جو متفرق ہو چکے ہونگے پھر اکٹھے کر دئیے جائیں گے۔ یعنی عالمگیر مذہب کا اس کے ساتھ تعلق ہوگا۔ اور ساری دنیا کو جمع کرنے کا یہ گھر ایک ذریعہ ہوگا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام ِ عالم کو ایک ہاتھ پر جمع کردیا اور اسی طرح کعبہ تمام متفرق لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ یسعیاہؔ نبی نے بھی اس کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا تھا :

’’رب الافواج فرماتا ہے میں نے اس کو صداقت میں برپا کیا ہے اور میں اُس کی تمام راہوں کو ہموار کرونگا۔ وہ میرا شہر بنائیگا۔ اور میرے اسیروں کو بغیر قیمت اور عوض لئے آزاد کر دیگا۔ خداوند یوں فرماتا ہے کہ مصر کی دولت اور کوش کی نجات اور سباؔکے قد آور لوگ تیرے پاس آئینگے اور تیرے ہونگے۔وہ تیری پیروی کریں گے وہ بیڑیاں پہنے ہوئے اپنا ملک چھوڑ کر آئیں گے اورتیرے حضور سجد ہ کریں گے وہ تیری منّت کریں گے اور کہیں گے۔ یقیناً خداتجھ میں ہے اور کوئی دوسرا نہیں اور اُس کے سوا کوئی خدا نہیں۔‘‘

(یسعیاہ باب 45 آیت 13-14)

اس پیشگوئی میں پہلی بات تو یہ بتائی گئی تھی کہ ایک خدا کا شہر بنایا جائیگا چنانچہ ساری دنیا میں صرف بلد اللہ الحرام ہی ایک ایسا شہر ہے جو خدا کا شہر کہلاتا ہے۔پھر بتا یا گیا تھا کہ اس کو بنانیوالا یعنی اس کی عظمت کو قائم کرنے والا میرے اسیروں کو بلا اُجرت لئے چھڑائیگا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کو فتح کرکے بلا کسی تاوان لینے کے

لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ

کی آواز بلند کرکے قیدیوں کو چھوڑ دیا۔اسی طرح آپ روحانی قیدیوں سے بھی یہی کہتے رہے کہ

لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ( انعام10)

یعنی میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ پھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہی مصر کی دولت اور کوشؔ کامنافع اور سباؔ کے قد آور لوگ آئے۔

گزشتہ انبیاء میں سے صرف حضرت مسیح ؑ کے متعلق عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ شاید وہ اس پیشگوئی کے مصداق ہوں۔لیکن ان میں ایک بات بھی اِن باتوں میں سے نہیں پائی جاتی۔ بیشک مصر پر رومیوں کا ایک عرصہ تک قبضہ رہا لیکن کوش کا منافع اُن کو نہیں ملا۔ گو مسیحی مؤرخوں نے زور دیکر ایتھوپیا کو کوش ؔ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر تازہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کوشؔ جس کا یسعیاہؔ میں ذکر آتا ہے وہ علاقہ ہے جو ایلام اور میڈیا کے درمیان میں واقع ہے۔ ایلام کا علاقہ خلیج فارس کے کنارے کا دجلہ تک کا علاقہ ہے۔اور میڈیا کیپین لیک کے جنوب کا علاقہ ہے۔ اس علاقہ کا منافع عیسائیوں کو کبھی نہیں ملا۔یعنی یہاں کے لوگوں نے مسیحیت کو قبول نہیں کیا۔اسی طرح سباؔ کے قد آور آدمی بھی مسیحی مقامات پر سجدہ کرنے کیلئے نہیں گئے۔ اور اگر جائیں بھی تو وہ تثلیث کی تائید کرنے والے ہونگے حالانکہ یسعیا ہ بتاتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مصداق ایک خدا کی پرستش کے لئے اس شہر میں جمع ہونگے اور وہاں یہ آوازیں دیتے ہوئے آئیں گے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ لیکن اسلام کو یہ سب باتیں حاصل ہیں۔ کعبہ کو خدا کا گھر ماننے والے مصر میں بھی ہیں، یمن میں بھی ہیں جس میں سباؔ واقع ہے اور کوش ؔ میں بھی ہیں اور یہاں سے ہزاروں لوگ ہر سال اس شہر کو جاتے ہیں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے۔ اور وہاں جا کر اس گھر میں جو خدا کا گھر کہلاتا ہے یہ کہتے ہوئے داخل ہوتے ہیں کہ

لَبَّیْکَ۔ لَبَّیْکَ۔ اَلّلَّھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ

یعنی میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں ۔ اے میرے اللہ ! میں حاضر ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ پس اس پیشگوئی میں بھی مکّہ مکّرمہ کی طرف رجوع ِ خلائق کا اشارہ پایا جاتا تھا۔جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پوری ہوئی۔ اور اسی تعلق کے قیام کیلئے نماز میں بیت اللہ کی طرف مُنہ کر نے کا حکم دیا گیا۔

بہرحال بیت اللہ ایک نہایت ہی پُرانا مقام ہے اور تاریخ بھی اس کے قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے۔چنانچہ سرولیم میور’’ لائف آف محمد ؐ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مکّہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانے کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیرو ڈوٹس مشہور یونانی جغرافیہ نویس نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلا لات کا ذکر کرتا ہے (یعنی خداؤں کا خدا) اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مکّہ میں ایک ایسی ہستی کی پرستش کی جاتی تھی جسے بڑے بڑے بتوں کا بھی خدا مانا جاتا تھا۔

(C.11/102)

پھر لکھا ہے کہ مؤرخ ڈایو ڈورس سکولس جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گذرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصّہ جو بحیرۂ احمر کے کنارے پر ہے اُس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں۔

( دیباچہ لائف آف محمد ؐ C.11/103)

پھر لکھتا ہے کہ قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے۔یعنی یہ اتنا پُرانا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ بالکل اَلْبَیْتُ الْعَتِیْق کا ہی مفہوم ہے جو دوسرے الفاظ میں ادا کیا گیا ہے۔

پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا۔ اور کچھ عرصہ تک اُن کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہو ئے تھے (خروج باب 17 آیت 8تا 16 وگنتی باب 24 آیت 20) گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی بہت پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے تھے اور وہ بھی اس کے بانی نہ تھے بلکہ یہ گھر اُن سے بھی پہلے کا بنا ہوا تھا اور انہوں نے اُس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا۔ پس تاریخی شواہد کی رو سے بھی بیت اللہ کا بیت عتیق ہونا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔

اس موقعہ پر حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کے ایک کشف کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب فتوحات ِمکیہ کی جلد 3میں بیان فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں۔ پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یاد رہا۔وہ شعر جو مجھے یاد رہا وہ یہ تھا کہ

لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا

بِھٰذَا الْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا

یعنی ہم بھی اس مقد س گھر کا سالہا سال اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر بڑا تعجب ہو ا پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتا یا مگر وہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا۔ اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ دادوں میں سے ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گذر چکا ہے اُس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گذر رہا ہے۔ میں نے کہا زمانۂ آدم پرتو اتنا عرصہ نہیں گذرا۔ اُس نے کہا کہ تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو کیا اُس آدم کا جو تمہارے قریب ترین زمانہ میں ہوا ہے۔ یا کسی اور آدم کا۔ وہ کہتے ہیں اس پر معاً مجھے آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث یا د آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں۔ اور میں نے سمجھا کہ میرے یہ جدِّاکبر بھی انہیں میں سے کسی ایک آدم سے تعلق رکھنے والے ہونگے۔ ( فتوحات مکیہ جلد 3 باب 390صفحہ549)

حضرت محی الدین صاحب ؒ ابن عربی کا یہ کشف بھی بتا رہا ہے کہ بیت اللہ نہایت قدیم زمانہ سے دنیا کا مرکز اور لوگوں کی ہدایت کا ایک ذریعہ بنا رہا ہے اور اسی طرح یہ دنیا بھی لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے۔ چنانچہ آج سے ہزار ہا سال قبل بھی لوگ اس مقدّس گھر کا اِسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج ہم بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ یہی حقیقت قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے کہ یہ البیت العتیق ہے جو زمانۂ قدیم سے خدا تعالیٰ کے انوار و برکات کا تجلی گاہ رہا ہے اور قیامت تک دنیا کو ایک مرکز پر متحد رکھنے کا ذریعہ بنا رہیگا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 29تا 39)

(مرسلہ: ذیشان محمود)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button