احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت مسیح موعودؑ کےآباواجداد
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ پنجم)
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ
[پیدائش:اندازاً1791ءوفات:جون1876ء]
دشمنوں سے حسن سلوک
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :
’’دشمنوں کو بھی اپنے اس فیض سے محروم نہ رکھتے تھے بلکہ بہت جلد ان کی طرف توجہ کرتے جب موقعہ ہوتا۔اور جس طرح بھی ممکن ہوتا دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے کبھی نہ رکتے۔یہ بے نظیر خوبی بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ دنیادار تو خصوصیت سے اس عیب میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں کو بجز گزند پہنچانے کے اور کچھ جانتے ہی نہیں۔مگر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ہمیشہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرتے۔قادیان میں ان کی رعیت کے بعض محسن کش لوگ ان کے مقابلہ میں قِسم قِسم کی شرارتیں کرتے اور مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیتے۔ لیکن وہ ساتھ ہی جانتے اور یقین کرتے تھے کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا وجود ان کے لئے ابرِ رحمت ہے۔وہ کینہ توز اور انتقامی فطرت رکھتے ہی نہ تھے۔کہتے ہیں کہ ایک دکھ دینے والا دشمن جو قادیان ہی کا باشندہ تھا فوت ہو گیا۔ایک شخص نے آکر میرزا صاحب کو مبارکباد دی۔تو انہوں نے اس کو اپنی مجلس سے نکال دیا۔اور سخت ناراض ہوئے۔اس کی وفات پر اظہار افسوس کیا۔یہ فطرت ہر شخص کو نہیں دی جاتی۔اور بجز وسیع الحوصلہ انسان کے کسی کا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے دشمنوں سے نیک سلوک کرے۔یہ لوگ جو آئے دن ان کی مخالفت کرتے۔جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تو ان کا حضرت مرزا صاحب کے پاس آ کر صرف یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ ہم تو آپ کی رعایا ہیں۔پھر وہ اپنی شان اور ہمت کے خلاف پاتےکہ ان کی ایذا رسانی کی کوشش کریں۔بلکہ ان کی تکالیف اور شکایت کو دور کر دینے کے لئے ہر ممکن سعی فرماتے۔حکام چونکہ حضرت مرزا صاحب کی بہت عزت و احترام کرتے تھے۔اور مقامی حکام ان کے مکان پر تشریف لاتے تھے۔اس لئے ایسے معاملات میں جو حکام سے متعلق ہوتے حضرت مرزا صاحب بلا تکلّف مراسلہ لکھ دیتے۔اور معاملات کو رفع دفع کرا دیتے۔‘‘
(حیات احمد:جلد اول صفحہ 51)
علم اور کتب خانہ سے محبت
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ ایک عالم بھی تھے اور علم دوست بھی، کتب خانہ کا خاص طور پر شوق تھا۔اور بہت سی کتابیں آپ کے کتب خانہ میں موجود تھیں۔آپ کی ایک بہت بڑی لائبریری تھی۔چنانچہ آپ کے پوتے جو خود ایک ذی علم اورصاحب طرزادیب بھی تھے۔یعنی حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب ؓ،ان کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی۔ اور اس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں…‘‘
(سیرت المہدی جلد اول،روایت نمبر227)
یہ بیان کیاجاچکاہے کہ آپؑ کے بزرگ آباواجدادکا ایک وسیع کتب خانہ تھا جوکہ قادیان پر سکھوں کے قبضہ کے وقت جلادیاگیا۔لیکن آپؑ کے بزرگوں کی علم سے محبت کایہ عالم تھاکہ انہوں نے جب قادیان واپس آکرقادیان کو آبادکیا تو مساجد کے ساتھ ساتھ اس کتب خانہ کو بھی دوبارہ بحال کیا۔یہ کتب خانہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق ہزارہاکتب پر محیط تھاجس میں ایک ہزارسے زیادہ کتابیں تو صرف طب کے متعلق ہی تھیں۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک جگہ اس کتب خانہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے کہ ’’ مَیں نے بعض متن کتب طب کے بیس بیس جزو کے حفظ کئے تھے۔ہزارسے زیادہ کتاب طب کی ہمارے کتب خانے میں موجود تھی۔ جن میں سے بعض کتابیں بڑی بڑی قیمتیں دے کر خرید کی گئی تھیں۔‘‘
(بدر جلد1 نمبر33صفحہ 2کالم2 مورخہ 6 نومبر 1905ء بحوالہ ملفوظات جلد8 صفحہ190)
جس کتب خانے میں صرف علم طب پر ایک ہزارسے زائد کتب ہوں اسکی وسعت اور قیمت کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ لیکن افسوس یہ کتب خانہ آہستہ آہستہ مرورِزمانہ کا شکار ہوکر ختم ہوگیا۔نہ جانے کتنی قیمتی کتابیں اس میں موجودہوں گی۔ اس کتب خانے میں قرآن کریم بھی کثرت سے تھے اور قلمی نسخے تھے۔ایک قرآن کریم تو دیرتک قادیان کی احمدیہ مرکزی لائبریری میں موجود رہا۔اس ضمن میں جلسہ سالانہ قادیان 2009ء کے موقع پر مکرم ومحترم جناب مولانا حمیدکوثر صاحب (سابق )پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان نے خاکسار کو بتایا کہ انہوں نے خود ایک قرآن کریم دیکھاتھا جو بہت ہی خوبصورت لکھا ہوا تھا اوربڑے سائز میں تھا۔اوراس کے ابتدائی صفحہ پرحضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کانام بھی لکھاہواتھا۔
آپؒ کی علم وادب سے دلچسپی اورمحبت ہی تھی کہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لئے آپ نے بھاری مشاہرے پر اساتذہ مقرر فرمائے جو مختلف علاقوں سے قادیان میں صرف تعلیم کے لئے قیام فرمارہتے۔البتہ تعلیم اورعلم کے زیور سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں سے محبت کا یہ پہلو بھی غالب بھی تھاکہ مطالعہ میں اتنا زیادہ شغف نہ ہوکہ خرابیٔ صحت کا اندیشہ ہو۔
اخلاقی جرأت اور خود داری
جہاں حضرت مرزا صاحب میں شجاعت، مروت،عفو و احسان اور مخلوق خداسے ہمدردی جیسی قابلِ قدر خوبیاں تھیں وہاں آپ کے اوصاف ِحمیدہ میں ایک نمایاں وصف اخلاقی جرأت بھی تھا اور اس کے ساتھ ہی آپ صادق اور راست باز مشہور تھے۔اگرچہ بعض اوقات امر واقعہ کے اظہار نے آپ کو کسی رنگ میں نقصان پہنچایامگر کہنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ آپ کی طبابت کی ذیل میں لکھاہے۔آئیے اس واقعہ کو دوبارہ اس خلق جرأت کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ مہاراجہ شیر سنگھ صاحب کاہنووان کے چھنب میں شکار کے لئے تشریف لے گئے۔حضرت مرزا صاحب بھی ساتھ تھے۔ مہاراجہ کے بازدار کو جو قوم کا جولاہا تھا، زکام کی بیماری ہو گئی اور کسی قدر شدید ہو گئی۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اس کو دو ڈھائی پیسے کا ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ فوراً اچھا ہو گیا۔ اس کے بعد خود راجہ صاحب اسی بیماری سے بیمار ہو گئے اور حضرت مرزا صاحب کو علاج کے لئے کہا گیا۔ حضرت مرزا صاحب نے تیس چالیس روپیہ کا ایک نسخہ ان کے لئے تجویز کیا۔ مہاراجہ صاحب نے کہاکہ کیا بات ہے! اس جولاہے کے لئے دو اڑھائی پیسے کا نسخہ اور میرے لئے اتنا قیمتی اور بیماری ایک ہی ہے۔فرمایا۔شیر سنگھ اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے۔آپ نے ایسی دلیری اور جرأت سے اس کو جواب دیاکہ مہاراجہ شیر سنگھ ناراض ہونے کی بجائے بہت ہی خوش ہوا۔اور اس زمانے کے رواج کے موافق عزت افزائی کے لئے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی۔
( ماخوذ از حیات احمد جلد اوّل صفحہ59،58)
مہاراجہ کے سامنے اس طرح ایک جرأت اور خداداد رعب رکھنے والا شخص ہی کہہ سکتاہے جوصرف اپنے خدا سے ہی ڈرتاہو۔
اسی طرح حکام سے جب ملتے خواہ وہ کتنے ہی بڑے پایہ کے ہوں،بے تکلف ملتے تھے اور نہایت آزادی سے گفتگو کرتے تھے۔اور حکام بھی پوری توجہ سے ان کی باتوں کو سنتے تھے اور قدر کرتے تھے۔حکام سے بے تکلفی کے ساتھ صاف گوئی اور اپنے وقار کابھی خیال رکھتے۔ایک واقعہ آپ کی اس طبع کاشاہدہے۔
میں ہر کارہ نہیں !سلام !!
’’ایک مرتبہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے رابرٹ کسٹ صاحب (Mr.Robert Cast۔ناقل) سے، جو کمشنر تھے،ملاقات کی۔اس نے اثناء گفتگو میں پوچھا۔کہ قادیان سے سری گو بند پور کتنی دور ہے؟ مرزا صاحب نے کہا۔کہ ’’میں ہرکارہ نہیں! سلام‘‘کمشنر صاحب نے محسوس کیا۔کہ مرزا صاحب کو یہ استفسار ناگوار گزرا ہے۔اس لئے کہا۔کہ آپ میری بات سے ناراض کیوں ہوئے؟ مرزا صاحب نے کہا۔کہ ہم آپ کے پاس اپنی باتیں کرنے آتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے لئے نہیں آتے۔یہ میرا کام نہیں جو آپ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ رابرٹ کسٹ صاحب مرزا صاحب کی اخلاقی جرأت اور اپنے مقام شناسی سے بہت خوش ہوئے۔ اور انہوں نے سمجھ لیا۔کہ مرزا صاحب کس پایہ اور عزت کے انسان ہیں۔‘‘
(حیات احمدؑ جلد اول صفحہ61)
قارئین کرام!خصوصاً جو انیسویں صدی کے ہندوستان کے سیاسی ماحول سے واقف نہیں وہ اس واقعہ میں پوشیدہ اس جرأت اور بہادری کو شایدپوری طرح محسوس نہ کرسکیں کہ تب کے انگریز اور وہ بھی کمشنر انگریز!اسکے سامنے ایسی بات کہنا دل گردے کا کام تھا۔1857ء کا سانحہ ایسا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریز ہندوستانی باشندوں بالخصوص مسلمانوں کو بہت ہی حقیراور قابل نفرین سمجھتے تھے۔اس ماحول میں آپ کا ایک کمشنر کے سامنے ایسی بات کرنا آپ کی اس اخلاقی جرأت کی نشاندہی کرتاہے جو ایک شاہانہ شجاعت اور وقار کے ساتھ ساتھ ایک درویشانہ شان بھی اپنے اندررکھتاہے۔
آپ کی ایسی ہی جرأت کا اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتاہے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحب ؓاپنی مبارک اور وقیع تصنیف ’’سیرت المہدی ‘‘ میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمدصاحبؒ کی ایک روایت لائے ہیں۔آپ فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے نے کہ ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے۔ راستے میں انہوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپکے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے؟ دادا صاحب نے کہا کہ گاؤں چل کر جواب دوں گا۔ جب قادیان پہنچے تو دادا صاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہو ئے ہیں۔ مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر207)
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭