الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتےہیں۔

حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ

ماہنامہ’’تشحیذالاذہان‘‘ربوہ نومبر2012ءمیں حضرت منشی فیاض علی صاحبؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

حضرت منشی صاحبؓ 1841ء میں محلہ قریشیاں سراوہ، کپورتھلہ، ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ قوم قریشی ہاشمی تھی۔ والد کا نام رسول بخش تھا۔ جدّامجد زاہد علی قریشی تھے جو جہانگیر بادشاہ کے دَور میں عرب سے ہندوستان آئے اور حضرت مجدّد الف ثانیؒ کی بیعت کی۔ انہوں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت بھی فرمائی کہ جو بھی امام مہدی کو پائے وہ اُن کی بیعت کرے۔

حضرت منشی عبدالرحمٰن صاحبؓ نے منشی فیاض علی صاحب کو سراوہ سے بلاکر کپورتھلہ کی فوج میں بھرتی کروادیا تھا اور اپنے مکان میں رہائش کا انتظام بھی کردیا تھا۔ وہ ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے وقت سے ہی آپ کو ترغیب دے رہے تھے کہ قادیان جاکر بیعت کرلو۔ بالآخر 21؍اگست 1889ء کو آپ نے قادیان جاکر حضور علیہ السلام کی دستی بیعت کا شرف حاصل کرلیا۔ بعدازاں آپؓ کے اخلاق سے متأثر ہوکر آپ کی اہلیہ اور ہمشیرہ نے بھی 21؍فروری 1892ء کو بیعت کرلی۔ آپؓ 1892ء کے جلسہ سالانہ میں بھی شریک ہوئے۔

آپؓ حضورعلیہ السلام کے اُن بارہ حواریوں میں شامل تھےجو سفرِ دہلی میں حضورؑ کے ساتھ تھے۔

حضرت منشی صاحبؓ حقّہ نوشی کے عادی تھے۔ جالندھر میں حضورؑ نے وعظ فرماتے ہوئے حقّہ نوشی کی مذمّت کی تو آپؓ نے عرض کی کہ حقّہ چھوڑنا مشکل ہے، دعا فرمائیں تو چھوٹ جائے گا۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا: ابھی دعا کرلیتے ہیں۔ چنانچہ دعا کروائی گئی۔ اس کے بعد آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپؓ کے سامنے ایک نہایت نفیس حقّہ لاکر رکھا گیا ہے۔ آپؓ نے حقّہ سے منہ لگانا چاہا تو وہ سانپ بن کر لہرانے لگا۔ اس سے دل میں خوف پیدا ہوا اور آپؓ نے وہ سانپ مار دیا۔ اس کے بعد آپؓ کو حقّے سے نفرت ہوگئی۔

احمدیہ مسجد کپورتھلہ کا مقدمہ سات سال سے چل رہا تھا۔ ایک دن اتفاقاً حضرت منشی صاحبؓ نے حضور علیہ السلام سے دعا کے لیے عرض کی تو حضورؑ نے بڑے جلال سے فرمایا: اگر مَیں سچا ہوں اور میرا سلسلہ سچا ہے تو یہ مسجد تمہیں ہی ملے گی۔ چنانچہ آپؓ نے واپس آکر سب کو یہ خبر بتادی اور ایک غیراحمدی ڈاکٹر سے شرط بھی لگالی۔ بالآخر احمدیوں کے حق میں مسجد کا فیصلہ ہوگیا۔

آپؓ کا ایک افسر کرنل حوالہ سنگھ آپؓ کو بہت ستاتا تھا۔ آپؓ نے حضورعلیہ السلام کو دعا کے لیے لکھا تو حضورؑ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد دو سو دفعہ لاحول پڑھا کرو خدا نجات دے گا۔ نتیجے کے طور پر چند دن بعد ہی خدا نے اُس کی ریٹائرمنٹ مقدّر کردی اور اُس کی جگہ اُس کا بیٹا آگیا جو آپؓ پر مہربان تھا۔

حضرت منشی صاحبؓ نے 16؍اکتوبر 1935ء کو دہلی میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں مدفون ہوئے۔ آپؓ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

………٭………٭………٭………

محترمہ امۃالحئی صاحبہ آف ملتان

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ فروری 2012ء میں محترمہ امۃالحئی صاحبہ اہلیہ چودھری محمد اکرام اللہ صاحب مرحوم (سابق امیر جماعت احمدیہ ملتان)کا ذکرخیر مرحومہ کی بیٹی کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔مرحومہ حضرت محمد بشیر چغتائی صاحبؓ کی بیٹی، حضرت بابو روشن دین صاحبؓ بانی مدرسہ احمدیہ سیالکوٹ کی پوتی، حضرت شیخ نیاز محمد صاحبؓ کی نواسی اور حضرت بابو اکبرعلی صاحبؓ آف سٹارہوزری قادیان کی بہو تھیں۔ 15؍جولائی 2011ء بروز جمعہ کو 81؍سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی نماز جنازہ غائب بھی پڑھائی۔

مکرمہ امۃالحئی صاحبہ مرحومہ بے حد دعاگو اور سادہ مزاج تھیں۔ پنجگانہ نماز کے علاوہ نماز تہجد و اشراق کا التزام بھی کرتیں۔ روزہ، زکوٰۃ اور متفرق چندوں کی ادائیگی کا بہت خیال رکھتیں۔ شادی سے قبل 16 سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہوگئی تھیں۔ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؓ نے یورپ کی کسی مسجد کے لیے چندے کی تحریک کی تو آپ کے پاس صرف ایک طلائی انگوٹھی تھی جو آپ نے پیش کردی۔ طوعی چندہ جات اپنے والد کی طرف سے بھی دیا کرتیں۔ وفات سے قبل ہمیں ترغیب دی کہ ہم لاہور اور ملتان میں اپنے فلیٹس اور کوٹھی کا سارا سامان طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو بطور ہدیہ پیش کردیں۔

آپ نے اپنی وفات تک پردے کا خاص خیال رکھا۔ 25سال تک لجنہ اماءاللہ ملتان کی مختلف حیثیتوں میں خدمت کی توفیق پائی۔ چار سال تک بہت فعّال صدرلجنہ بھی رہیں اور اس دوران لجنہ ملتان پہلی مرتبہ اوّل قرار پائی۔

آپ اپنے شوہر کا غیرمعمولی احترام اور اُن کی بھرپور معاونت کرتیں۔ اگر انہوں نے کبھی کسی بات سے منع کیا تو اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کی ہدایت کا خیال رکھا۔ بچوں کی تربیت کے لیے آپ نے اپنی دیگر مصروفیات کو قریباً ختم کردیا۔ فجر، مغرب اور تہجد کی نمازیں اکثر گھر میں باجماعت ادا کرواتیں۔ربوہ میں ہونے والے تربیتی پروگراموں میں شامل ہونے کے لیے اپنے بچوں کو ضرور بھجواتیں۔ تربیت کا اپنا ہی انداز تھا۔ اگر بچے کبھی جائز ضرورت کے لیے پیسے مانگتے تو جواب ملتا: اللہ میاں سے مانگو، قادر ذات صرف خدا کی ہے۔

بچوں سے بہت دوستانہ تعلق رکھا۔ ہر بچہ بلاتکلّف ہر موضوع پر آپ سے بات کرلیتا۔اگلی نسل سے بھی ایسا ہی تعلق رکھا ہوا تھا۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم انس احمد چودھری صاحب کو 1980ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں شہید کردیا گیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ یہ پندرھویں صدی ہجری کا پہلا شہید ہے۔ جوان بیٹے کی شہادت پر مرحومہ نے کمال کا صبر دکھایا۔ ایک دفعہ تعزیت کے لیے آنے والے چند مہمانوں کے سامنے مَیں جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور بے ساختہ رونے لگی تو آپ نے مجھے کمرے سے باہر بھیج دیا اور بعد میں بہت ناراض ہوئیں کہ آنسو صرف خداتعالیٰ کے حضور بہاتے ہیں جس کے پاس ہر درد کا مداوا ہے۔

آپ کے تمام بچے بچیاں موصی ہیں اور مختلف حیثیت میں خدمت دین کی توفیق پارہے ہیں۔ مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پردے میں رہتے ہوئے .Ph.D کرنے کی توفیق ملی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر تمغہ عطا فرمایا اور تمغہ پہنانے کے لیے اہتمام سے والدہ مرحومہ کا انتخاب فرمایا کہ جن کی اعلیٰ تربیت کی وجہ سے مجھے یہ نمونہ قائم کرنے کی توفیق ملی تھی۔

آپ بہت شفیق تھیں۔ گھریلو ملازمین سے ناراضگی بھی ہوتی تو خیال رکھتیں کہ وہ کھانا کھائے بغیر نہ جائیں۔ اگر کبھی ملازمہ کو تھکا ہوا محسوس کرتیںتو جلدی گھر بھیج دیتیں۔

آپ کی وفات بہت اچانک ہوئی۔ آپ اپنے نواسے کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان گئی تھیں۔ گھر سے ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے مجھے تاکید کی کہ اُن کی وصیت کی فائل رکھنا نہ بھولوں۔

………٭………٭………٭………

سکنڈےنیویا میں احمدیت

ماہنامہ’’تحریک جدید‘‘ ربوہ ستمبر2012ء میں تاریخ احمدیت کا ایک ورق شامل اشاعت ہے جس میں سکنڈے نیویا میں احمدیت کے آغاز اور فروغ کا طائرانہ جائزہ لیا گیا ہے۔

1932ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک کشف میں دیکھا کہ ناروے، سویڈن، فِن لینڈ اور ہنگری کے ممالک احمدیت کے پیغام کے منتظر ہیں۔ 7؍اگست 1956ء کو مکرم سیّد کمال یوسف صاحب کی تبلیغ کے نتیجےمیں گوٹن برگ سویڈن کی ایک سعید روح کو قبول احمدیت کی توفیق ملی جن کا نام Mr Erickson تھا۔ اُن کا اسلامی نام سیف الاسلام محمود رکھا گیا اور بعدازاں انہیں سوئٹزرلینڈ کے اعزازی مبلغ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔

مکرم سیّد کمال یوسف صاحب 14؍جون 1956ء کو سویڈن پہنچے تھے۔ بعد ازاں 28؍اگست 1958ء کو آپ اوسلو چلے گئے اور ڈنمارک میں بھی تبلیغ کا آغاز کردیا۔ ڈنمارک کے پہلے احمدی مکرم عبدالسلام میڈیسن صاحب تھے جنہوں نے 1960ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے قرآن کریم کا ڈینش زبان میں ترجمہ کرنے کا آغاز کیا۔ یہ ترجمہ 1967ء میں شائع ہوا۔ڈنمارک کی پہلی مسجد ‘مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن ’تھی جو سکنڈے نیویا کی بھی پہلی مسجد تھی اور یہ مکمل طور پر احمدی خواتین کی مالی قربانی سے تعمیر ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے 21؍جولائی 1967ء کو اس مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کی مساجد کے دروازے ہر مذہب اور ہر فرقے کے اُس شخص کے لیے کھلے ہیں جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتا ہے۔

یکم اگست 1980ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے ‘مسجد نُور’ اوسلو کا افتتاح فرمایا جو ناروے میں پہلی مسجد تھی۔

25؍جون 1993ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے قطب شمالی میں نماز جمعہ پڑھائی اور خطبہ ارشاد فرمایا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ستمبر 2005ء میں ناروے کا پہلا دورہ فرمایا جبکہ ستمبر 2011ء میں دوسرے دورے کے دوران ‘مسجد بیت النصر’ اوسلو کا افتتاح فرمایا۔

………٭………٭………٭………

گولہ پھینکنا

گولہ پھینکنے کے کھیل کی ابتدا سترہویں صدی میں آئرلینڈ میں گول پتھر پھینکنے کے مقابلوں سے ہوئی۔ ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ فروری 2011ء میں عزیزم سلطان نصیر کے مضمون میں اس حوالے سے چند معلومات پیش کی گئی ہیں۔

مَردوں کے لیے گولے کا وزن 16پاؤنڈ اور عورتوں کے لیے 8.82 پاؤنڈ ہوتا ہے۔ گولہ سات فٹ قطر کے دائرہ سے پھینکا جاتا ہے۔ دائرے کے اُس طرف جہاں گولہ پھینکنا ہوتا ہے ایک قوس نما لکڑی کا بورڈ ہوتا ہے جسے سٹاپ بورڈ کہتے ہیں۔ گولہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر رکھ کر اسے ہنسلی کی ہڈی کے ساتھ رکھتے ہوئے کندھے سے آگے کی طرف پھینکا جاتا ہے۔ گولہ پھینکتے وقت ہاتھ کو کندھے سے نیچے یا پیچھے کی طرف لے جانا خلافِ قانون ہے۔ تاہم کھلاڑی اضافی طاقت حاصل کرنے کے لیے دائرہ کے اندر گھومتے ہوئے، جمپ لے کر یا گلائیڈ کرتے ہوئے کسی بھی طریقے سے گولہ پھینک سکتا ہے۔ گولہ پھینکنے کے بعد کھلاڑی اُسی وقت دائرے کو چھوڑ سکتا ہے جب گولہ زمین پر گِر جائے۔ گولہ پھینکتے وقت دستانے استعمال نہیں کیے جاسکتے لیکن گولہ پر بہتر گرفت کے لیے ہاتھوں پر پاؤڈر لگایا جاسکتا ہے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button