6؍اگست 1945ء ہیروشیما پر ایٹم بم کا حملہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا تاریخی انتباہ
جولائی 1945ءکے آخر میںامریکہ، سوویت یونین اور برطانیہ کے لیڈر جرمنی میں پوٹسڈ یم (Potsdam) کے مقام پر ایک کانفرنس کے لیےجمع تھے۔دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ اٹلی اور جرمنی ہتھیار ڈال چکے تھے۔ اب صرف جاپان میدان جنگ میں موجود تھا۔فاتح اقوام کے لیڈر یہ فیصلہ کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے کہ شکست خوردہ جرمنی کا انتظام کیسے کرنا ہے۔ دنیا میں عمومی طور پر یہ اطمینان پایا جاتا تھا کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بھیانک جنگ، جس میں کروڑوں انسانوں کے خون سے زمین رنگین ہو گئی، اب اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی۔
اس وقت جاپان کے قبضے میں بہت سے علاقے تھے لیکن اس کی خستہ حال فضائیہ اور بحریہ اب اس قابل نہیں تھی کہ کسی اور ملک کے لیے خطرہ بن سکے۔ اس کی افواج میں آخر دم تک لڑنے کی روایت موجود تھی لیکن اب نوشتہ دیوار سب کو نظر آ رہا تھا۔ گو کہ جرمنی کے خلاف جنگ میں سوویت یونین برطانیہ اور امریکہ کے اتحادی کے طور پر شامل ہوا تھا لیکن سوویت یونین اور جاپان کے درمیان عدم جارحیت کا معاہدہ تھا۔ کئی سال سے جاپان کی فوجیں امریکہ اور برطانیہ کی افواج سے لڑ رہی تھیں لیکن جاپان اور سوویت یونین کے درمیان یہ معاہدہ اب تک برقرار تھا۔چنانچہ خفیہ طور پر جاپان کی حکومت سوویت یونین کی وساطت سے جنگ کو بند کرنے کی کوششیں کر رہی تھی۔
بچے تسلی بخش طریق پر پیدا ہو گئے
بہر حال اب امریکہ، برطانیہ اور سوویت یونین کے لیڈر پوٹس ڈیم میں سر جوڑ کر بیٹھےتھے تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں۔امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن (Stimson)امریکہ کے وفد میں شامل نہیں تھے اور اپنے ملک میں تھے۔ 17؍جولائی کو وہ اچانک پوٹسڈیم میں برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی عارضی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور ان کے آگے ایک کاغذ رکھا جس پر لکھا ہوا تھا ’’بچے تسلی بخش طریق سے پیدا ہو گئے ہیں۔‘‘اس پیغام کا مطلب یہ تھا کہ ایک روز قبل امریکہ میں دنیا کے پہلے ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا ہے۔ اب انسان کے ہاتھ میں دنیا کی تاریخ کا مہلک ترین ہتھیار آ چکا تھا۔
یہ تجربہ امریکہ میں نیو میکسیکو کے مقام پر کیا گیا تھا۔اس تجرباتی ایٹم بم کو زمین سے سو فٹ کی بلندی پر نصب کیا گیا تھا۔ دس میل تک تمام علاقہ خالی کر الیا گیا تھا۔ دس میل کے فاصلے پر حفاظتی دیواروں کے پیچھے اس پراجیکٹ کے سائنسدان منتظر تھے۔ سب نے دھماکے کے وقت ایک عظیم شعلے کو بلند ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے معاًبعد دھوئیں اور گرد کی ایک چھتری بلند ہوئی۔ تجربہ کامیاب ہو گیا تھا۔یہ بم جہاں بھی گرے گا ایسی تباہی ہو گی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملے گی۔ اسی وقت امریکہ کے صدر ٹرومین کو خفیہ پیغام کے ذریعہ اطلاع دی گئی۔ اور اگلے روز امریکہ کے سیکرٹری جنگ تفصیلی رپورٹ لے کر پوٹسڈیم پہنچ گئے۔
کیا ایٹم بم استعمال کرنے کے بارے میں اختلاف تھا؟
اب یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ اس ہتھیار کو استعمال کرنا ہے کہ روایتی طریق پر جنگ جای رکھنی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس وقت ونسٹن چرچل برطانیہ کے وزیر اعظم تھے۔چرچل نے کئی جلدوں پر مشتمل دوسری جنگ عظیم کی تاریخ بھی لکھی ہے۔اس کتاب کی چوتھی جلد 1953ء میں لکھی گئی اور اس جلد میں جاپان پر ایٹم بم گرانے کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ اور 1953ء کے سال میں ہی انہیں لٹریچر کا نوبل پرائز بھی دیا گیا۔
اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ اس بارے میں کبھی کوئی دو رائے نہیں تھیں کہ یہ بم جاپان پر استعمال کر کے انہیں جلد ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جائے گا۔اور بقول اُن کے اتحادیوں کو امید تھی کہ ایٹم بم استعمال کرنے سے جنگ مختصر ہو گی اور نسبتاًکم جانیں ضائع ہوں گی۔اور کامیاب تجربے سے قبل 4؍ جولائی کو ہی برطانیہ اس کے استعمال پر اپنی رضامندی دے چکا تھا۔
[Churchill,W.(1953). The Second World War Vol 6.London, Cassel & Co, 1954. P532–554)]
صدر ٹرومین کا بیان
اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ چرچل بہت زور دے کر بیان کر نا چاہ رہے ہیں کہ اُس وقت تمام قائدین اس بات پر متفق تھے کہ یہ بم جاپان کے خلاف استعمال کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔چرچل کی یہ کتاب 1953ء میں لکھی گئی اور1954ء میں شائع ہوئی۔اس کے ایک سال بعد اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی یاداشتیں Year of Decisionsکے نام سے شائع ہوئیں۔ اس میں وہ بالکل مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے صدر بنتے ہی ایک کمیٹی قائم کر دی تھی جو یہ فیصلہ کرے کہ اگر امریکہ ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا اسے دشمن کے خلاف استعمال کیا جائے یا نہیں۔ اس کمیٹی میں وہ سائنسدان بھی شامل تھے جو ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ میں اہم کردار اداکر رہے تھے۔ یکم جون 1945ء کو انہوں نے اپنی رپورٹ بھجوا ئی جس کے مطابق اس کمیٹی نے یہ تجویز دی تھی کہ اس ہتھیار کو جتنا جلدی ہو سکے دشمن کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے استعمال سے پہلے کوئی معین وارننگ نہ دی جائے۔اگر دشمن کو تجرباتی طور پر کسی غیر آباد ٹارگٹ پر گرا کے دکھایا جائے کہ اس کے کتنے تباہ کن اثرات ہوں گے تو اس سے جنگ ختم نہیں ہو گی۔یہاں تک تو چرچل کی بات کی تائید ہوتی ہے لیکن جب ایٹمی دھماکے کا کامیاب تجربہ ہو گیا اور اس بم کو استعمال کرنے یا نہ کرنے کے فیصلے کا مرحلہ آیا تو اس کے بارے میں ٹرومین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اہم عہدیداروں کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس میں آرمی کے جنرل بھی شامل تھے اور اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا:
’’We reviewed our military strategy in light of this revolutionary development. We were not ready to make use of this weapon against the Japanese, although we did not know as yet what effect the new weapon might have, physically or psychologically, when used against the enemy. For that reason the military advised that we go ahead with the existing military plans for the invasion of Japanese home islands.‘‘
(Truman, HS(1955). Year of Decisions 1945. Great Britian (1955) .Hodder and Stoughton. P345-.349)
ترجمہ: اس انقلابی پیش رفت کی روشنی میں ہم نے اپنی جنگی حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لیا۔ ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ اگر دشمن کے خلاف استعمال کیا گیا تو اس ہتھیار کے جسمانی اور نفسیاتی اثرات کیا ہوں گے؟ اس لیے ہم اسے جاپان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔اس وجہ سے فوج نے یہی مشورہ دیا کہ ہم جاپان کے جزیروں پر قبضے کے لیے انہی منصوبوں پر عمل کریں جنہیں تیار کیا گیا تھا۔
اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ جب ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا توکمیٹی کے سابقہ فیصلے کو نظر انداز کر کے یہی فیصلہ کیا گیا کہ جاپان کے خلاف ایٹم بم کو استعمال نہ کیا جائے۔پھر یہ فیصلہ کس طرح تبدیل ہوا اور کن وجوہات کی بنا پر اور کس کے مشورے پر تبدیل ہوا ؟ اس کتاب میں اس کا کچھ ذکر نہیں ملتا۔بہر حال ایٹم بم کے کامیاب تجربہ کے بعد اتحادی طاقتوں نے جاپان کو ایک الٹی میٹم (Ultimatum)جاری کیا کہ جرمنی کو جس تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ ان کے سامنے ہے۔ اگر انہوں نے غیر مشروط طور پر ہتھیار نہ ڈالے تو وہ مکمل تباہی کے لیے تیار ہو جائیں۔
ننھا لڑکا گرایا جاتا ہے
6؍اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہیروشیما کے باشندے اپنا معمول کا دن گذارنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بعض لوگوں کو آسمان پر امریکہ کی فضائیہ کا بی۔29جہاز نظر آ رہا تھا۔ اس جنگ کے دوران اتنی بمباری ہو چکی تھی کہ آسمان پر ایک جہاز کا منڈلاناکوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی۔ جہاز کے اندر پائلٹ سمیت آٹھ افراد کا عملہ موجود تھا۔انہیں سیاہ چشمے لگانے کی ہدایت تھی۔پال ٹیبٹس(Paul Tibbets) جہاز چلا رہے تھے۔ مقرر کردہ ہدف پر پہنچ کر عملے کے ایک اور فرد تھامس فور بی(Thomas Forebee) نے بم گرا دیا۔
نیچے ہیرو شیما میں شاید چند لوگوں نے ہی محسوس کیا ہو کہ اس جہاز نے ایک بم گرایا ہے۔اور فوری طور پر واپس پلٹ گیا۔اس بم کا سائز غیر معمولی نہیں تھا۔اس کا وزن چار سو پائونڈ کے قریب ہوگا۔ اس بم کے ساتھ ایک پیراشوٹ لگا ہوا تھا۔یہ بم زمین کی سمت آنا شروع ہوا۔جب وہ زمین سے کچھ فاصلے پر رہ گیا تو ایک عظیم دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا۔ دنیاکی تاریخ میں اس سے زیادہ خوفناک دھماکاکبھی نہیں ہوا تھا۔
جب وہ بم گرانے کی جگہ سے دس میل کے فاصلے پر پہنچ گئے تو انہوں نے ایک عظیم شعلے کو دیکھا، جس نے ہیروشیما کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس کے ساتھ دھوئیں اور گرد کا ایک طوفان بلند ہوا۔جہاز کے اندر موجود عملے کے منہ سے ’’اوہ میرے خدا‘‘کے الفاظ نکلے۔وہ جو کچھ دیکھ رہے تھے انہیں اس پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ان میں صرف تین کو یہ علم تھا کہ ان کا ہوائی جہاز نیا اور نہایت مہلک بم گرانے جا رہا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ اس بم کا نام little boyیعنی ننھا لڑکا رکھا گیا تھا۔
اُس روز ہیرو شیما پر جو قیامت ڈھائی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت کی شائع ہونے والی خبروں کے مطابق چند لمحوں میں ڈیڑھ سے دو لاکھ کے قریب افراد جل کر یا جھلس کر ہلاک ہو گئے۔ لیکن اس بارے میں صحیح اعدادو شمار کا جمع ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔ شہر کا بیشتر حصہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ گنجان آباد شہر کے متاثرہ علاقے میں صرف کنکریٹ کی ایک بڑی عمارت کی کچھ دیواریں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔اس مقام پر کوئی ذی روح چیز باقی نہیں رہی تھی۔یہ بم اُس وقت دنیا کے مہلک ترین بم سے دو ہزار گنا زیادہ تباہ کن تھا۔اس حملے کے چند گھنٹے بعد امریکی ایئر فورس کے جہاز نے کافی اوپر سے شہر کی تصویریں لیں۔ شہر میں دو مقامات پر آگ جل رہی تھی اور باقی شہر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔
حضرت مصلح موعود ؓکی مذمت اورانتباہ
ہیروشیما کی تباہی کے ساتھ جنگوں کی تاریخ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ تاریخ کی کتاب میں ایک نئے باب کا پہلا ورق پلٹا گیا تھا اور یہ ورق خون سے تر تھا۔اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اُس وقت مختلف حلقوں کی طرف سے کیا رد عمل ظاہر کیا گیا۔ ہم یہ جائزہ نہیں لے رہے کہ اس سانحہ کے پانچ سال بعد، دس سال بعد یا پھر آج کی دنیا میں اس پر کیا تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ اب اس ایجاد کے بہت سے پہلو سائنسی طور پر اتنے واضح ہو چکے ہیں کہ انہیں جھٹلانا ممکن نہیں رہا۔ اب دنیا میں موجود ایٹمی ہتھیاروں کا ڈھیر اتنا بلند ہو چکا ہے اور اتنا پھیل چکا ہے کہ اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں کوئی شک نہیں رہا۔ ہم یہ جائزہ لیں گے کہ اُس وقت جب جنگ کا جوش ذہنوں کو مفلوج کر رہا تھا اور اخلاقیات کا جنازہ نکال رہا تھا، کس کی کیا رائے تھی؟ اس وقت جب کہ ابھی بنیادی معلومات بھی صحیح طرح جمع نہیں ہوئی تھیں کس نے ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کیا تھا کہ اس ہتھیار کے استعمال کے مستقبل پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اس مضمون کے موضوع کے حوالے سے ہم سب سے پہلے حضرت مصلح موعودؓ کے اُس خطبہ جمعہ کے حوالے درج کرتے ہیں جو آپؓ نے 10؍ اگست 1945ء کو ارشاد فرمایا۔آپؓ نے فرمایا :
’’یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطہ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے۔ لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں۔ لیکن با وجود ان عداوتوں کے اور با وجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خون ریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان برا لگے یا اچھا …‘‘(الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ1تا2)
پھر آپؓ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ احمدی بھی اس جنگ میں بھرتی ہو کر شامل ہوئے ہیں فرمایا:
’’مگر اس کے ہر گز یہ معنی نہیں کہ جنگی افسروں کے ہر فعل کو خواہ وہ انسانیت کے کتنا ہی خلاف ہو۔ خواہ وہ شریعت کے کتنا ہی خلاف ہو۔ جائز قرار دیں۔اگر اس قسم کی جنگ کا راستہ کھل گیا۔ تو وہ دنیا کے لئے نہایت ہی خطرناک ہو گا۔پہلے زمانے کے لوگوں نے لمبے تجربہ کے بعد کچھ حد بندیاں مقرر کر دی تھیں۔ جن کی وجہ سے جنگیں خواہ کتنی ہی خطرناک ہوتی تھیں ایک حد پر جا کر ان کا خطرہ رک جاتا تھا۔‘‘
(الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ2)
جیسا کہ بعد میں حوالے درج کیے جائیں گے کہ اُس وقت کم ازکم وقتی طور پر یہ اطمینان محسوس کیا جا رہا تھا کہ ایٹم بم بنانے کا نسخہ اور صلاحیت صرف چند بڑی طاقتوں تک محدود رہے گی اور اس طرح ان کے ہاتھ مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا :
’’جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایٹومک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کر سکےگا۔یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ خیال صرف ایٹومک بم کے ایجاد ہونے پر ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جب بندوق ایجاد ہوئی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ بندوق والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ اور جب توپ ایجاد ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ توپ والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ جب ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے۔ تو لوگوں نے گمان کیا تھا کہ ہوائی جہاز والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ جب گیس ایجاد ہوئی تھی تو لوگوں نے خیال کیا کہ گیس والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ لیکن پھروی۔ ون (V.One)اور وی۔ ٹو (V.Two)نکل آئے۔ تو لوگ سمجھے کہ وی ون اور وی ٹو والے ہی دنیا میں غالب ہوںگے۔ اس کے بعد اب اٹومک بم نکل آئے۔
یاد رکھو خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
لَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُو۔
یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹومک بم مل گیا ہے۔تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنسدان کو کسی اور نکتے کی طرف توجہ دلا دے۔ وہ ایسی چیز تیار کر لے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹریوں کی بھی ضرورت نہ ہو۔بلکہ ایک شخص گھر بیٹھے بیٹھے اسے تیار کر لے اور اس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹومک بم کا بدلہ لینے لگ جائے۔پس جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مہلک چیزوں کو کم کیا جائے۔ نہ کہ بڑھایا جائے۔‘‘
پھر آپؓ نے فرمایا :
’’پس میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں۔ گو حکومت اسے برا سمجھے گی۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہےکہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اس قسم کی تباہی لانے والے ہوں …ہمارا فرض ہے خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبے کی وجہ سے مجبور ہیںکہ اس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔‘‘
( الفضل 16؍اگست 1945ء صفحہ3)
امریکہ کے سیاسی اور عسکری حلقوں کا فوری رد عمل
سب سے پہلے جس شخص کو اس کامیاب حملے کی اطلاع دی گئی وہ امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین تھے۔ وہ اس وقت پوٹس ڈیم کانفرنس سے واپس امریکہ آ رہے تھے۔وہ بحری جہاز پر دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے کہ جہاز کے کیپٹن نے انہیں ایک کاغذ پر لکھا ہوا پیغام پہنچایا۔ ٹرومین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس کامیابی کی خبر سن کر میں جذباتی ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جہاز میں ہر ایک کو یہ خبر سنائی اور کہا کہ یہ دنیا کی تاریخ کا ’’عظیم ترین‘‘ لمحہ ہے۔ حیرت ہے کہ اتنے اعلیٰ منصب پر فائز شخص ’’ بھیانک ترین ‘‘ اور’’عظیم ترین‘‘میں فرق نہیں کر پا رہا تھا۔
(Truman, HS(1955). Year of Decisions 1945. Great Britian (1955) .Hodder and Stoughton.p352)
اب ہم یہ موازنہ کریں گے کہ اگلے چند روز میں اُس وقت کے سیاسی قائدین، اُس وقت کے اخبارات اور تجزیہ نگار اور اُس وقت کے سائنسدان کن آراء کا اظہار کر رہے تھے۔کیا وہ اُن پیچیدگیوں اور مسائل کا اندازہ کر پا رہے تھے جو ایٹم بم کی ایجاد اور استعمال سے پیدا ہو سکتے تھے یاپھر وہ وقتی کامیابی کے نشے میں ان پہلوئوں کو فراموش کیے بیٹھے تھے۔
جب ہم ہیروشیما پر حملے کے فوری بعد کے اخبارات کا جائزہ لیتے ہیں تو بالعموم ان میں صرف شادیانے بجانے کا ماحول نظر آ تا ہے۔اس پہلو کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ اس حملے کے نتیجے میں کچھ اخلاقی حدود پھلانگی گئی ہیں اور اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور عورتوں کا خون بہایا گیا ہے۔
ایٹم بم کے کامیاب تجربے کے صرف تین ہفتے بعد ہیروشیما پر یہ بم گرا دیا گیا۔ظاہر ہے کہ سب کو اس بات کا علم تھا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں ریڈیائی شعائیں خارج ہوں گی اور یہ شعائیں زندہ اشیاء پر اثر انداز ہوں گی۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی کہ ان کے انسانوں اور دوسری زندہ اشیاء پرفوری اور طویل المیعاد کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ معلوم کرنا آسان تھا۔ صرف کچھ صبر درکار تھا۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ بم کے بننے کے بعد اسے عجلت میں استعمال کیا گیا کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔
مزید ایٹم بم گرانے کا اعلان
اس حملے کے ساتھ ہی امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن نے بیان دیا کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک بم بھی تیار کر رہے ہیں جو جلد تیار ہوجائے گا۔اور ان بموں کے استعمال سے یہ جنگ مختصر ہو جائے گی۔اور اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ جرمنی نے یہ بم بنانے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہ ہو سکے اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ جاپان اسے بنانے میں کامیاب ہو جائے۔(Evening Star 6 August 1945)اس بیان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم از کم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرانے سے اصل میں جنگ مختصر کی جا رہی ہے اور دوسرے ممالک یہ ہتھیار حاصل نہیں کر پائیں گے۔اس بیان سے صرف دور کی نظر کمزور ہونے کا شک ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ریڈیو پر جاپان کے لوگوں کے نام یہ پیغامات نشر ہو رہے تھے کہ جاپان کی حکومت نے اتحادیوں کے الٹی میٹم کو جس طرح حقارت سے رد کیا تھا، یہ تباہی اس کے نتیجے میں آئی ہے۔ اور اگر اب بھی انہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو اُن پر آسمان سے تباہیوں کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔سیکرٹری جنگ سٹمسن نے بیان دیا کہ حکمت عملی کے اعتبار سے ہیروشیما کی وہی منطقی اہمیت ہے جو کہ تجربات میں ایک گنی پگ کی ہوتی ہے۔ لیکن ابھی صحیح طرح اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ ہیروشیما ابھی دھوئیں اور بادلوں میں چھپا ہوا ہے۔(The Morning Star 7 August 1947)
اس شہر میں ایک سے دو لاکھ کے درمیان لوگ جل کر مر گئے لیکن ان کے نزدیک ہیروشیما کو اسی طرح استعمال کیا گیاتھا جس طرح ایک لیبارٹری میں گنی پگ کو استعمال کیا جاتا ہے۔دوسری طرف جاپان کی حکومت یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھی کہ ہیروشیما پر کس قسم کی قیامت برپا ہوئی ہے کہ چار میل کے قطر میں تو کوئی بھی ذی روح نہیں بچی۔ پہلے وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک سے زیادہ بم گرائے گئے ہیں۔کچھ دنوں میں انہیں سمجھ آنی شروع ہوئی کہ یہ نیا بم دنیا کے طاقتور ترین بم سے دو ہزار گنا زیادہ تباہ کن ہے۔
اور بم گرانے والوں میں اس وقت جوش کا یہ عالم تھا کہ بجائے اس کے کہ اس پر کوئی تأسف ہوتا کہ اتنی بڑی تعداد میں عام شہری جھلس کر ہلاک ہوگئے ہیں حکومت کے نمائندے سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے ہیروشیما پر یہ بم کیوں گرایا ؟ اس کی جگہ ٹوکیو پر یہ بم کیوں نہیں گرایا گیا ؟ ظاہر ہے کہ ٹوکیو کئی گنا زیادہ بڑا اور گنجان آباد شہر تھا۔ وہاں پر بم گرانے کا مطلب تھا کہ کئی گنا زیادہ لوگ متاثر ہوتے۔ اور ریڈیائی شعائیں بعد میں بھی تباہی پھیلاتی رہتیں۔ حکومت کے نمائندے نے اس پر یہ جواب دیا کہ شاید یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ اگر ٹوکیو پر یہ بم گراتے تو جنہوں نے ہتھیار ڈالنے کی کارروائی کرنی تھی وہ بھی مر جاتے۔ تو پھر ہتھیار کون ڈالتا؟ سوال اور جواب دونوں سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت عقلوں پر سنگ دلی اور انتقام کا بھوت سوا ر تھا۔اتنی تباہی کے بعد بھی جاپان میں عہدیدار اور اخبارات یہ آواز بلند کر رہے تھے کہ ہم اب بھی جنگ جاری رکھیں گے اور آخری دم تک لڑیں گے۔ اور دوسری طرف امریکہ کی طرف سے یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ ہمارے پاس اس جیسے اور بھی بم تیار ہیں۔ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالے تو جاپان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔
(The Evening Star 7 August 1945)
بم بنانے والوں کی خام خیالی
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انتباہ فرمایا تھا کہ یہ خیال ہی بچگانہ ہے کہ کوئی اور اس ٹیکنالوجی کو حاصل نہیں کر سکے گا۔یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس وقت اس بم کے بنانے والوں کے دل میں بھی تو یہ خیال پیدا ہوا ہوگا کہ اگر دنیا میں کسی اور ملک نے یا اس سے بھی بد تر صورت میں کسی گروہ نے یہ بم بنا لیا تو کیا ہو گا؟ امریکہ کے سیکرٹری جنگ سٹمسن صاحب نے اس بارے میں تسلی دیتے ہوئے ایک اعلان جاری کیا کہ ہم نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں اس بم کے لیے درکار ایندھن یعنی یورینیم کی پیداوار کے حقوق حاصل کر لیے ہیں۔ اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔اس بات کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں کہ یہ بم اور سائنس کا یہ نیا میدان صرف امن پسند اقوام کی حفاظت اور انسانیت کی خدمت کے لیے ہی استعمال ہو سکیں گے۔
(Evening Star 6 August 1945)
اب تک دنیا جو کچھ دیکھ چکی ہے اس کی روشنی میں سٹمسن صاحب کے اس بیان کو بطور لطیفے کے تو پڑھا جاسکتا ہے لیکن کوئی ہوش مند اس کو صحیح نہیں سمجھ سکتا۔لیکن اُس وقت اندھے جذبات کا یہ عالم تھا کہ امریکہ کے جنرل کارل سپاٹز(Spaatz)صاحب، جو کہ یورپ میں جنگ کے دوران فضائی حملوں کی مہم کے نگران تھے، انہوں نے اس بات کاافسوس کےساتھ اظہار کیا کہ اگر ہمیں یہ بم کچھ عرصہ پہلے میسر ہوجاتا تو ہم اسے جرمنی پر گرا کے جنگ کو چند ماہ مختصر کر سکتے تھے۔ اور اس سے جو تباہی ہونی تھی اور عام شہریوں کی جو ہلاکت ہونی تھی، انہوں نے اس کا کوئی ذکر کرنے کا تکلف نہیں کیا۔اور نیوی نے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے اعلان جاری کیا کہ جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے چار پانچ شہروں کو تو تباہ کرنا ہوگا۔
جب سب بغلیں بجا رہے ہوں تو بم گرانے والوں کے اہل خانہ کس طرح پیچھے رہ جاتے۔ چنانچہ جو پائلٹ صاحب یہ جہاز اڑا رہے تھے ان کی بیگم صاحبہ نے بیان داغا کہ مجھے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ میرے خاوند کے والدین تو انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن دیکھیں انہوں نے کیا کارنامہ سرا نجام دیا ہے۔
(The Evening Star 8 Aug 1945)
اُس وقت ایٹم بم کو امن قائم کرنے کا ذریعہ ثابت کرنے کے لیے اتنا زور لگایا جا رہا تھا کہ ایک سائنسدان ڈاکٹر جیکبسن نے، جو کہ ایک مرحلہ پر اس پراجیکٹ سے بھی منسلک رہے تھے، اس رائے کا اظہار کر دیا کہ ایٹم بم کےریڈیائی اثرات ستر سال تک رہ سکتے ہیں۔سائنس کے میدان میں تو ہر قسم کے خیالات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں نے اُن کے خیالات کی تردید کی لیکن اس کے ساتھ حکومتی اداروں نے انہیں فون کرکے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ اُن کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے۔
(The Evening Star 9 August 1945)
سوویت یونین جاپان کے خلاف جنگ شروع کرتا ہے
اب جبکہ جاپان کی مزاحمت دم توڑ رہی تھی تو سب اپنا اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ سوویت یونین نے جاپان سے معاہدے توڑ دیے اور جاپان کے زیر تسلط علاقے پر بڑا حملہ شروع کر دیا۔اور اس حملے کو شروع ہوئے صرف نو گھنٹے ہی گذرے تھے کہ امریکہ نے جاپان کے ایک اور شہر ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرادیا۔ اگلے روز ایک اخبار نے یہ شہ سرخی شائع کی کہ ’’ساری چھت جاپان پر گر گئی‘‘۔ اور جنرل سپاٹز نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ہیروشیما کی نسبت ناگاساکی میں گھر قریب قریب تعمیر کیے گئے تھے، اس لیے امید ہے کہ نقصان زیادہ ہوا ہوگا۔ظاہر ہے کہ گھروں کو عسکری ٹارگٹ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ تمام اخلاقی اور جنگی اصول ترک کر کے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جائے۔
(Monitor Leader 9th August 1945)
جاپان ہتھیار ڈالتا ہے
کہا جاتا ہے کہ ناگاساکی کے بم کے نتیجے میں 75000 شہری چند لمحوں میں جل کر راکھ ہو گئے۔اور سوویت یونین کے حملہ نے اس کی رہی سہی امیدوں کو ختم کردیا تھا۔اب جاپان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا کہ ہتھیار ڈال دے اور اتحادی ممالک کی شرائط تسلیم کر لے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاپان کی افواج نے دوران جنگ مفتوحہ علاقوں پر بہت مظالم کیے تھے۔ لیکن کسی بھی پہلو سے ان دو ایٹمی حملوں کا اخلاقی جواز موجود نہیں تھا۔ جاپان نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا کہ ہیروہیٹو کو بادشاہت سے معزول نہ کیا جائے۔ ایٹم بموں کے نتیجے میں جس طرح لاکھوں افراد خاک میں تبدیل ہو گئے تھے، وہ پڑھ کر بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لیکن اُس وقت اخبارات نے جاپان کی شکست پر کارٹون بنا کروالہانہ خوشی کا اظہار کیا۔اخبار مانیٹر لیڈر نے اپنی 10؍اگست کی اشاعت میں ایک بڑا کارٹون شائع کیا جس میں جاپان کے نقشے کو ایک عظیم دھماکے کی زد میں دکھایا گیا تھا اور سمندر میں اس کے جہاز جلتے ہوئے دکھائے تھے۔ اور اوپر جلی حروف میں لکھا تھا “FINIS”۔اسی روز اخبار ایوننگ سٹار نے یہ کارٹون شائع کیا کہ جاپان کے وزیر اعظم سوزوکی نے ہاتھ میں ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کی اور سوویت یونین کے حملے کی خبر پکڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے ماتحت کو کہہ رہے ہیں کہ کوڑے دان میں سے جلدی سے اتحادیوں کا وہ الٹی میٹم نکالو جو کہ انہوں نے پوٹس ڈیم سے جاری کیا تھا۔ مانیٹر لیڈر نے اپنی 11؍ اگست کی اشاعت میں ایک جاپانی قیدی کی برہنہ حالت میں نہاتے ہوئے تصویر شائع کی۔ اس پر الفاظ لکھے تھے All Washed Up یعنی سب کچھ دھل گیا۔ اور سیاسی حلقوں میں سخت دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک سینیٹر نے یہ بیان دیا کہ میں تو جاپان والوں کو ایک انچ بھی دینے کو تیار نہیں۔بھاڑ میں گیا ان کا بادشاہ۔ اسے تو پائوں کی انگلی سے باندھ کر الٹا لٹکا دینا چاہیے۔ایک اور سینیٹر نے یہ بیان دیا کہ جاپان کے بادشاہ سے وہی سلوک ہونا چاہیے جو کہ ہٹلر سے ہوا تھا۔ہٹلر نے خود کشی کر لی تھی اور اس کی لاش کو جلا دیا گیا تھا۔بہر حال جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اورہیرو ہیٹو کو بطور بادشاہ برقرار رکھا گیا لیکن یہ شرط لگائی گئی کہ وہ اتحادیوں کی فوجی کمان کے ماتحت ہوں گے۔
(The Evening Star 10 Aug 1945)
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ جب یہ اظہار مسرت ہو رہا تھا اور تمسخر کیا جا رہا تھا، اُس وقت موت کا رقص ختم نہیں ہواتھا۔ بلکہ تابکاری کے اثرات کی وجہ سے روزانہ دو ہزار سے زائد لوگوں کی اموات ہو رہی تھیں۔ ان میں سے اکثر کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ عام شہری تھے۔ایک خبر کے مطابق اس طرح دو ہفتہ میں تیس ہزار کے قریب لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔اور جو اس علاقے میں ان لوگوں کی مدد کے لیے جا رہے تھے ان میں سے کئی لوگوں کو خون کی بیماریاں شروع ہو گئیں۔
(The Evening Star 24 August 1945)
اُس وقت ان حملوں کی کس نے مذمت کی؟
جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایٹم بم گرانے کی مذمت فرمائی تھی، اُس وقت ہر طرف سے یہی صدا بلند ہو رہی تھی کہ یہ بم تو جنگ کو مختصر کرنے کے لیے گرائے گئے ہیں۔ جاپان سے باہر کون ان کی مذمت کرنے کو تیار تھا؟ ان ہفتوں میں وِ یٹیکن کے ایک اخبار میں یہ تبصرہ شائع ہوا کہ اس بم کو نہ ہی بنایا جاتا تو بہتر تھا۔ لیکن یہ اخبار کی طرف سے تبصرہ تھا پوپ پائس XIIکی طرف سے مذمت نہیں تھی۔
(The Evening Star 7 August 1945)
اس وقت بڑی طاقتوں کی طرف سے نفرت کا اتنا طوفان اُ ٹھایا جا رہا تھا کہ ان وحشیانہ حملوں کی کوئی مذمت نہیں کر رہا تھا۔ بر صغیر کی تاریخ میں گاندھی جی نے عدم تشدد کے پرچار میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔ اس وقت ستمبر 1945ء میں لندن کے ٹائمز نے گاندھی جی سے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے ایٹم بم کے بارے میں کوئی بیان دیا ہے تو انہوں نے ایک سطر میں یہ جواب دیا:
‘‘NEVER MADE ANY PUBLIC STATEMENT ABOUT ATOMIC BOMB’’.
یعنی میں نے ایٹم بم کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
24؍ اکتوبر 1945ء کو گاندھی جی نے ایک خط میں تحریر کیا :
‘‘I kept your letter with me thinking what I should do. The more I think the more I feel that I must not speak on the atomic bomb.’’
ترجمہ : میں نے تمہارا خط اپنے پاس رکھا اور سوچتا رہا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں جتنا زیادہ سوچتا ہوں مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیے۔
(The Collected Works of Mahatma Gandhi Vol 88 p 742)
اس وقت تو سب خاموش رہے لیکن کچھ ہی عرصہ میں اتحادی ہائی کمان میں شامل افراد کی طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ جاپان پر بلاوجہ ایٹم بم برسائے گئے۔ اس سے پہلے ہی جاپان ہتھیار ڈالنے کا عندیہ دے چکا تھا۔ اور اس سلسلہ میں بات چیت آگے بڑھانا چاہتا تھا۔یہ نظریہ بھی پیش کیا گیا کہ ایٹم بموں کی بجائے سوویت یونین کی جنگ میں شمولیت نےزیادہ دبائو ڈالا تھا۔ جو لوگ اُس وقت خاموش تھے بعد میں یہ اظہار کرنے لگے کہ یہ ایک ظالمانہ اور غیر ضروری فعل تھا۔خود صدر ٹرومین کے چیف آف سٹاف William Leahyنے اسے غیر انسانی فعل قرار دیا۔نیوی کے Fleet Adm. Chester Nimitzنے بعد میں بیان دیا کہ بس ایک کھلونا ہاتھ آ گیا تھا جسے جاپانیوں پر چلا دیا گیا۔آئزن ہاور نے یورپ میں اتحادی افواج کی قیادت کی تھی اور وہ بعد میں امریکہ کے صدر بھی بنے۔انہوں نے کہا جب مجھے اس فیصلے کا بتایا گیا تو میں نے اُس کی مخالفت کی تھی کیونکہ اُس وقت تک جاپان جنگ ہار چکا تھا اور یہ غیر ضروری تھا۔مختصر یہ کہ اب ماہرین کی بڑی تعداد کا یہی خیال ہے کہ صرف سوویت یونین کی طرف سے اعلان جنگ اور یہ اعلان کہ جاپان کی بادشاہت قائم رکھی جائے گی کافی تھا۔ کیونکہ جاپان سوویت یونین کی وساطت سے جنگ ختم کرنے کا عندیہ دے چکا تھا۔
(https://www.thenation.com/article/archive/why-the-us-really-bombed-hiroshima/accessed on 1st Aug 1945)
اس سانحہ کے چار روز بعد ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کئی خطرات کی نشاندہی فرمائی تھی۔ اب اس انتباہ کے درست ہونے کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا۔ ایٹم بم پر ایک دو ممالک کی اجارہ داری نہیں ہے۔ 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں اس وقت چودہ ہزار کے قریب ایٹم بم موجود ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد بم روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔ 6490؍جوہری بموں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے اور 6185؍بموں کے ساتھ امریکہ کا دوسرا نمبر ہے۔ اور ان دونوں ممالک نے ماضی میں ایک معاہدے کے تحت اس تعداد میں تدریجی کمی کی ہے۔اس کے بعد فرانس کے پاس تین سو، چین کے پاس 290؍اور برطانیہ کے پاس دو سو جوہری بم ہیں۔اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے اور پاکستان کے پاس 160؍جوہری بم موجود ہیں۔ بھارت کے اسلحہ خانے میں 140؍ اسرائیل کے پاس نوے اور شمالی کوریا کے پاس تیس جوہری بم ہیں۔اس کے علاوہ بعض ایسے ممالک ہیں جنہوں نے ایٹم بم تیار کرنے کی سمت میں کام شروع کر کے اسے روک دیا۔
دنیا میں ان کی تعداد کو روکنے کے لیے بہت سے معاہدے کیے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں سے ایسی ڈرائنگ بھی برآمد ہوئی ہیں، جن سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ یہ ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب اُس ابتدائی ایٹم بم سے بہت زیادہ خطرناک ہائیڈروجن بم اور دوسری خطرناک صورتیں سامنے آ چکی ہیں۔اس صورت حال میں عقل یہی نتیجہ نکال سکتی ہے کہ دنیا کو حضرت مصلح موعود ؓکی ان ہدایات کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ورنہ بموں کا یہ انبار انسانیت کے سر پر ایک لٹکتی ہوئی تلوار بنا رہے گا۔
٭…٭…٭