قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط اوّل)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت مصلح موعوؓد کے ارشا دکی تعمیل میں مورخہ 25؍ اگست تا 25؍ستمبر 1945ء ایک ماہ کی تعلیم القرآن کلاس قادیان میں منعقد ہوئی۔ اس تعلق میں حضرت مصلح موعود نے مورخہ 11؍ستمبر1945ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں یہ تقریر ارشاد فرمائی جس میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت نیز قرآن کریم کے سمجھنے کے متعلق نہایت اہم باتیں بیان فرمائیں اور جماعت کو پُرزور تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’ہراحمدی کو قرآن کریم پڑھنا چاہئے اور جو پڑھنا نہیں جانتے اُن کو سنا کر قرآن کریم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ سَو فیصدی افراد کو قرآن شریف کا ترجمہ سمجھا دیں گے اور اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری فتح میں کوئی شک ہی نہیں اور ہماری روحانی حالت میں ایک عظیم الشان تغیر آ جائے گا۔‘‘
تشہد، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
میں نے پہلے بھی کئی بار بلکہ کئی بار کا لفظ بھی شاید غلط ہوگا یوں کہنا چاہئے کہ اپنے پیشروؤں کے تسلسل میں متواتر اور بار بار جماعت کو اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ قرآن شریف کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرے لیکن ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے جیسے انسان کی پیدائش اور موت کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے درختوں کے پھل لانے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے سبزیاں اور ترکاریاں بونے کا ایک وقت ہوتا ہے، جیسے اُن کے کاٹنے کا ایک وقت ہوتا ہے اِسی طرح بنی نوع انسان کے اعمال بھی خاص خاص ماحول میں پیدا ہوتے، پنپتے، بڑھتے اور مکمل ہوتے ہیں۔
ہمارے ایک پُرانے بزرگ اپنے واقعات میں سے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ کوئی مالدار شخص بہت ہی عیاش تھا اور رات دن اپنے اموال گانے بجانے اور شراب وغیرہ کے شغل میں خرچ کیا کرتا تھا۔ کوئی بزرگ تھے اُنہوں نے اُسے کئی دفعہ سمجھایا لیکن بجائے اِس کے کہ اُن کی نصیحت اس کے دل پر اثر کرتی اور بجائے اِس کے کہ وہ ان کے وعظ سے نصیحت حاصل کرتا وہ اپنی بداعمالیوں میں اور زیادہ بڑھتا چلا گیا اور بجائے اِس کے کہ وہ اس بزرگ کی خیر خواہی اور اس کے اخلاص کی قدر کرتا اُس نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں ان کو دُکھ دینا شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کر دیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لے گئے۔ ایک دفعہ حج کے ایام میں جب کہ لوگ ذوق و شوق سے طوافِ کعبہ کر رہے تھے اور وہ بزرگ بھی طواف کعبہ میں مشغول تھے (حج کرنے والوں نے تو وہاں کی حالت کو دیکھا ہے جنہوں نے نہیں دیکھا وہ اِس طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس طرح شمع کے گِرد پروانے چکر لگاتے ہیں اِسی طرح کعبہ کے گِرد ایک عجیب والہانہ رنگ میں دینِ اسلام کے شیدائی پھر رہے ہوتے ہیں۔ اُس وقت اُن کی وہ مضطربانہ حرکات انسانوں کی حرکات معلوم نہیں ہوتیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ شمع ہے اور اُس کے گِرد گھومنے والے پروانے ہیں اور حج کے ایام میں تو اس کے گِرد چلتے وقت راستہ ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ جیسے میلوں وغیرہ کے دنوں میں ریلوے ٹکٹ گھر کے سامنے لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے اور قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں اِسی طرح وہاں کی حالت ہوتی ہے) اُن کو اپنے سامنے کے آدمی سے ٹھوکر لگی اُنہوں نے آنکھیں اُٹھا کر دیکھا تو وہ مغرور امیر جس کی وجہ سے اُن کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا تھا طوافِ کعبہ کر رہا تھا اُن کو حیرت ہوئی اور اُنہوں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں؟ اُس نے جواب میں کہا جہاں آپ مجھے دیکھ رہے ہیں وہیں ہوں۔ انہوں نے کہا آخر تمہاری ہدایت کا موجب کونسی چیز ہوئی؟ میں نے ہر طریقہ وعظ کا تمہاری ہدایت کے لئے اختیار کیا تھا اور ہر ذریعہ نصیحت دلانے کا میں نے استعمال کیا تھا لیکن تم پر ایک ذرہ بھر بھی اثر نہ ہوا اب خدا تعالیٰ نے وہ کونسی نئی بات پیدا کر دی ہے جو تمہارے لئے ہدایت کا موجب ہوئی۔ اُس نے کہا کچھ بھی نہیں آپ نے بیشک قرآن شریف بھی استعمال کیا، حدیث بھی استعمال کی، عقل بھی استعمال کی، غرض ہر ممکن طریقہ مجھے سمجھانے کے لئے استعمال کیا لیکن میرے نصیحت حاصل کرنے کا ابھی وقت نہ آیا تھا۔ مجھے قرآن شریف کی آیات بے معنی معلوم ہوتی تھیں، مجھے حدیث کا کلام بالکل فرسودہ کلام نظر آتا تھا، مجھے آپ کی عقل کی باتیں پاگل پن کی باتیں نظر آتی تھیں اور میں اپنی شرارتوں اور اپنی لغویات میں بڑھتا چلا جاتا تھا اور ان حالات میں کسی قسم کا بھی کوئی فرق نہ پڑتا تھا لیکن ایک دن میں اِسی طرح اپنی مجلسِ راگ و رنگ منانے کے لئے بیٹھا ہوا تھا اور تمام سامان تعیش کا موجود تھا اور میں لُطف اُٹھا رہا تھا کہ گلی میں سے نہ معلوم کون شخص گزرا۔ اتفاقاً اُس کی آواز اور میری توجہ ہم آہنگ ہوگئیں اور میرے کانوں میں ترنم سے ایک آواز آئی اور یہ الفاظ میرے کانوں میں پڑے
اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ (الحدید:17)
کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خدا کی یاد کی طرف مائل ہوں؟ اُس نے کہا یہ الفاظ جو نہ معلوم کون شخص کس طرز پر اور کس خیال میں پڑھتا چلا جاتا تھا میرے کانوں پر اِس طرح گرے جیسے بیان کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن اسرافیل کا صور پھونکا جائے گا۔ اِن الفاظ کا میرے کانوں میں پڑنا تھا کہ دنیا میری نگاہوں میں تاریک ہوگئی اور وہ چیزیں جن کو میں زندگی کا جزو سمجھتا تھا اب نہایت ہی بے ہنگم نظر آنے لگیں، میں اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور خدا تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اب آپ مجھے یہاں دیکھ رہے ہیں جہاں میں ہوں۔ تو جس شخص پر سارے قرآن شریف نے اثر نہ کیا جب وقت آیا تو ایک آیت نے اُس کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ہدایت پانے سے محروم ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ ہدایت دینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ اُس وقت جب کہ ایک شخص کے لئے ہدایت مقدر ہوتی ہے تھک کر اس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے دس سال مغز ماری کی ہے مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے ہم اِس کا کیا کریں؟ اگر اُنہیں علمِ غیب ہوتا تو وہ یہ جانتے کہ یہ دس سال مُہروں کے دس سال تھے مگر اس سے اگلا منٹ جس وقت وہ اس کو چھوڑ کر چلے آئے وہی وقت تھا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے اس مُہر کو توڑنے کے لئے آ رہے تھے اور ہزار ہا انسان اسی لئے ہدایت سے محروم ہو جاتے ہیں کہ وہ ہدایت کی باتیں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، اُن کے دل میں سچائی کو تلاش کرنے کی جستجو اور خواہش ہوتی ہے مگر ایک وقت گزر جانے کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کے سینوں کو سچائی سے پُر کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اُن کی مُہروں کو توڑنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے اور کہتے ہیں ہم نے بہت غور کر لیا ہے اور بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی ہے شاید دنیا میں ہدایت ہے ہی نہیں یا ہدایت ہمارے لئے مقدر ہی نہیں اس لئے سچے مذہب کی جستجو کی خواہش فضول ہے اور وہ عین اُس وقت اپنے پاؤں کولَوٹا دیتے ہیں جس وقت منزلِ مقصود اُن کے قریب آچکی ہوتی ہے۔
تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک وقت مقدر تھا کہ جب اِس تحریک کو ایسی شکل ملنی تھی جس کے ذریعے سے تمام باہر کی جماعتوں کے احمدی قرآن شریف سے واقفیت حاصل کر سکیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اِس تحریک میں نئی تبدیلیوں کا بھی اثر ہے جو قادیان کے مرکزی نظام میں مجھے پچھلے سال سے کرنی پڑیں۔
……یہ تحریک بھی میں سمجھتا ہوں کہ اِس تبدیلی کی ممنونِ احسان ہے۔ نیا خون انسان کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان پہلے بوڑھا ہوتا ہے۔ پھر اپنی طاقتیں کھوتا ہے اور پھر عمرِ طبعی کو پہنچ کر مر جاتا ہے اور اگر وقتاً فوقتاً نیا عنصر اُس میں داخل کیا جائے تو وہ سلسلہ قائم رہتا ہے ورنہ نہیں۔ بہرحال مجھے خوشی ہے گو خوشی ابھی مکمل نہیں ہو سکتی کیونکہ لاکھوں کی جماعت میں سے صرف 70، 80آدمیوں کاقرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے کے لئے آنا یہ ایک چھوٹا سا بیج تو کہلا سکتا ہے لیکن ایسا درخت نہیں کہلا سکتا جس کے سایہ کے نیچے لاکھوں انسان آرام کر سکیں۔ مگر بہرحال بیجوں سے ہی روئیدگیاں پیدا ہوتی ہیںاور روئیدگیوں سے ہی تنے بن جایا کرتے ہیں اور اِن تنوں سے ہی شاخیں نکلتی ہیں اور شاخیں ہی پتے پیدا کیا کرتی ہیں اور اس طرح وہ ایک بڑا درخت بن جاتا ہے جس کے سائے کے نیچے سینکڑوں بلکہ ہزاروں انسان آرام پاتے ہیں۔ اسی طرح یہ 70، 80 یہ تو نہیں کہتا کہ نوجوان کیونکہ اِن میں سے بعض عمر کے لحاظ سے بوڑھے بھی ہیں لیکن یہ روحانی نوجوان جو اِس جگہ پڑھنے کے لئے جمع ہوئے ہیں اگر ہم ان کو بیج کے طور پر تصور کر لیں اور سمجھیں کہ یہ اپنے اپنے وطن جا کر حقیقی بیج ثابت ہونگے (بیج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس کے اندر بڑھنے بڑھانے، پھلنے اور پھولنے کی طاقت پائی جاتی ہو) تو یہ لوگ سلسلہ کے لئے نہایت ہی مفید وجود ثابت ہو سکتے ہیں اور اسلام کی کھیتی کے لئے کھاد ثابت ہو سکتے ہیں۔
(جاری ہے)