حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل کا اس کالم کے تمام مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں)

پاکستان: نصاب اور نظامِ تعلیم میں کی جانے والی تبدیلیاں ہمیں کہاں لے جا رہی ہیں؟

’’پاکستان! خبردار! عمران خان کی حکومت پاکستان کے تعلیمی نظام پر ایسا مہلک وار کرنے جا رہی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سنگل نیشنل کریکلم (ایس این سی) یعنی یکساں نصابِ تعلیم کے نام پر جو تبدیلیاں متعارف کروانے کا منصوبہ ہے وہ تو ضیاء الحق کی مذہبی جنونی آمریت نے بھی نہ سوچی تھیں۔ ان تبدیلیوں پر اگلے سال سے عمل درآمد شروع ہو گا۔‘‘

یہ انکشاف معروف ماہرِ تعلیم اور کالم نگار ڈاکٹر پرویز امیرعلی ہود بھائی نے کیا ہے،جسےانگریزی روزنامہ ڈان نے 18؍جولائی 2020ء کو شائع کیا ہے۔

اپنی تحریر میں محترم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے موجودہ پاکستانی حکومت کی تعلیمی پالیسی سے متعلق کیے جانے والے حالیہ اقدامات کا گہرا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے ماہرتعلیم کی حیثیت سے مبسوط تبصرہ پیش کیا ہے۔ واضح رہے کہ آپ نیوکلیئر فزکس کے عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ہیں۔ آپ سالہا سال قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک رہے ہیں۔

’’جدوجہد ڈاٹ کام‘‘ویب سائٹ نے آپ کے اس کالم کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ جو افادہ عام کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔آپ لکھتے ہیں:

’’ بظاہر تمام اسکولوں میں یکساں نصاب ِتعلیم ایک قابل ستائش عمل ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یکساں نصاب کے نتیجے میں اس نفرت انگیز طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو جائے گا جو روز اول سے تعلیمی نظام کے پاؤں کی بیڑی بنا ہوا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایلیٹ پرائیویٹ اسکولوں کے طلبہ اورغیر معیاری سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے مابین فرق بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ایسے میں کیا یہ ایک اچھا اِقدام نہیں کہ تمام بچے ایک جیسا نصاب پڑھیں اور ایک ہی پیمانے پر ان کی قابلیت کا امتحان لیا جائے؟

بظاہر اخلاقی لحاظ سے اس پر کشش سوچ کو ہائی جیک کر لیا گیا ہے، اس کی روح کو اس بری طرح سے کچل دیا گیا ہے کہ اصل مقصد ہی فوت ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کوتاہ نظر لوگ، جن کے ہاتھ میں پاکستان کے مستقبل کی باگ ڈور ہے، وہ اپنے باس (وزیر اعظم) کی طرح مدرسہ اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔

17-2016ء میں وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے لیے کروڑوں روپے کی امداد دی۔ یاد رہے مولانا سمیع الحق، جو پراسرار حالات میں اپنے ہی ایک کارندے کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے، طالبان کے خود ساختہ ابا جی تھے۔

ابھی تک پہلی سے پانچویں جماعت تک کے نصاب میں SNC منصوبے کے تحت ہونے والی تبدیلیوں بارے تفصیلات دستیاب ہو سکی ہیں۔ نصاب میں جس قدر مذہب کو شامل کیا گیا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اگر پاکستان میں مدرسہ نظام تعلیم کے دو بڑے اداروں، تنظیم المدارس اور رابطہ المدارس، کے ساتھ مجوزہ تبدیلیوں کا موازنہ کیا جائے تو ایک بار آپ کو دھچکا ضرور لگے گا۔

آئندہ سے اسکولوں میں مدرسوں سے بھی زیادہ رٹابازی پر زور دیا جائے گا۔ اسکول ٹیچرز چونکہ مذہبی تعلیم نہیں دے سکتے اس لیے قاری حضرات اور حافظِ قرآن حضرات کی ایک فوج ظفر موج کو اسکولوں میں تنخواہ دار ملازم کے طور پر تعینات کیا جائے گا۔ اس کا عمومی ماحول پر کیا اثر پڑے گا یا بچوں کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے گی، اس بارے ابھی کچھ کہنا ممکن نہیں۔

مشترکہ نصاب تعلیم تین مفروضات کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے مگر مندرجہ ذیل تین نکات ذہن نشین رہیں:

پہلی بات: یہ تصور بالکل غلط ہے کہ پاکستان میں اسکولوں کے مختلف نظاموں کی وجہ سے معیار تعلیم کا فرق پایا جاتا ہے۔ جغرافیہ، معاشرتی علوم یا سائنس جیسے سیکولر مضامین اور موضوعات سب ہی سکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں۔ ترجیحات اور تفصیلات کا فرق ہو سکتا ہے مگر سب جگہ یہی پڑھایا جاتا ہے کہ دنیا میں سات بر اعظم ہیں اور ہائیڈروجن کے دو ایٹم آکسیجن کے ایک ایٹم کے ساتھ مل کر پانی بناتے ہیں۔

ان اسکولوں میں فرق اس بنیاد پر ہے کہ مختلف اسکولوں میں طریقہ تعلیم (ٹیچنگ میتھڈ)بھی مختلف ہیں اور طلبہ کی قابلیت جانچنے کا طریقہ بھی مختلف۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بچہ جب بورڈ کا امتحان دے گا تو اس سے ریاضی کے پرچے میں پوچھا جائے گا کہ فلاں کلیہ کس نے بنایا تھا۔ او لیول کے امتحان میں کہا جائے گا کہ فلاں کلیہ لگا کر سوال حل کرو۔ جدید دنیا میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کلیےکی مدد سے حل ڈھونڈے گا، کلیےکو رٹا نہیں لگائے گا۔

دوسری بات : یہ تصور بھی سراسر غلط ہے کہ بچوں کو مذہبی بنا دینے سے ایچی سن کالج اور محلے کے سرکاری اسکول کے طالب علم ایک ہی سطح پر آ جائیں گے۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ضرور ہوتے تھے مگر نماز کے بعدوہ رہتے آقا و غلام ہی تھے۔ اسی طرح غریب اور امیر اسکولوں کا فرق اس وقت تک ختم نہیں ہو گا جب تک سب اسکولوں میں اچھا انفرا سٹرکچر، معیاری کتب، تربیت یافتہ اساتذہ اور انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہو گی۔ یہ وسائل کہاں سے پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ آپ خود لگا لیجئے۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو بہر حال دفاع کے علاوہ ہر شعبے کا بجٹ کم کر رہی ہے۔

تیسری بات: یہ تصور بھی انتہائی غلط ہے کہ جدید اسکول اور مدرسے کا فرق ختم کیا جا سکتا ہے۔ جدید تعلیم کی بنیاد ہی تنقیدی سوچ پر ہے۔ یہاں کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ یہ ہے کہ طلبہ مسائل حل کر سکتے ہیں یا نہیں اور ان کے پاس دنیاوی علم ہے یا نہیں۔ مدرسے کا نصب العین اہم سہی مگر یہ اسکول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ مدرسے میں طالب علم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہب پر عمل پیرا ہو گا اور اپنی آخرت سنوارنے پر توجہ دے گا لہٰذاتنقیدی سوچ کو اہم نہیں سمجھا جاتا۔

یہ بات درست ہے کہ اب کچھ مدارس میں انگریزی، سائنس اور کمپیوٹر سائنس جیسے سیکولر مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ مدرسوں نے یہ سلسلہ کافی دباؤ کے بعد شروع کیا۔ گیارہ ستمبر کے بعد مدارس پر سب کی نظر تھی کیونکہ مدارس کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا تھا۔

مشرف حکومت جو امریکہ کی بات پر دھیان دینے پر مجبور تھی، نے حکم دیا تھا کہ مدرسوں میں یہ مضامین پڑھائے جائیں۔ کچھ مدارس نے تو سرے سے انکار کر دیا البتہ بعض نے یہ سلسلہ شروع کر دیا۔ مدرسوں میں البتہ سیکولر اور مذہبی مضامین ایک ہی انداز میں پڑھائے جاتے ہیں: منطق تقریباًغائب نظر آتی ہے جبکہ آمرانہ طریقہ تعلیم غالب رہتا ہے۔

پہلی سے پانچویں جماعت بارے SNCدستاویز میں سیکولر مضامین پر بات تو کی گئی ہے مگر زیادہ تر انگریزی، جنرل نالج، جنرل سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم بارے بے معنی بڑبڑ کے سوا کوئی ٹھوس بات نہیں کی گئی۔ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے علمی اور عملی وسائل درکار ہوں گے، وہ کیسے مہیا کیے جائیں گے…کوئی بات نہیں کی گئی۔

اسکول کے نصاب سے بھی بڑی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ حکومت ِپنجاب نے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ناظرہ قرآن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ یہ امتحان پاس کئے بغیر کسی کو بی اے، بی ای، بی ایس سی، ایم اے، ایم ایس سی، ایم بی بی ایس، ایم فل یا پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ملے گی۔

یہ شرط تو ضیاء دور میں بھی نہیں لگائی گئی تھی۔ اَسی کی دہائی میں یونیورسٹی میں پروفیسر لگنے کے لیے امہات المومنین کے نام یا دعائے قنوت جیسی مشکل دعائیں یاد کرنا ہوتی تھیں مگر طلبہ یہ مراحل طے کیے بغیر ڈگری لے سکتے تھے۔ اب یہ اختیار بھی چلا گیا۔

ایران، بنگلہ دیش اور انڈیا کے طلبہ سے بھی کم صلاحیت رکھنے والے پاکستانی طلبہ سائنس اور ریاضی کے تمام عالمی مقابلوں میں بہت بری کارکردگی دکھاتے ہیں۔ جن کی کارکردگی اچھی ہوتی ہے، وہ اے لیول اور او لیول والے ہوتے ہیں۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ ہے کہ اپنا ما فی الضمیرنہ درست اردو میں بیان کر سکتے ہیں نہ انگریزی میں۔ کتابیں پڑھنا تو قصۂ پارینہ بن چکا۔

تحریک انصاف حکومت کی نئی پالیسی اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے کہ طلبہ کی ہنر مندی میں کیسے اضافہ کیا جائے گا۔ ٹیکنیکل اور ووکیشنل کالجوں میں معیارِ تعلیم اس قدر پست ہے کہ نجی شعبہ جب کسی کو نوکری دیتا ہے تو نئے سرے سے ٹریننگ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی شعبے میں صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا خلائی پروگرام ناکام ہو چکا ہے جبکہ ایران نے حال ہی میں اپنا ایک عسکری سیارہ مدار میں چھوڑا ہے اور انڈیا مریخ پر پہنچنے والا ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبوں کو چاہیے کہ اس رجعتی منصوبے کو رد کر دیں جو اسلام آباد پر فی الوقت قابض رجعتی نظریہ دان لاگو کرنا چاہتے ہیں ورنہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ایک مذاق بن کر رہ جائے گا اور عرب ملکوں سے بھی پیچھے رہ جائے گا۔

پاکستان کی بد ترین ناکامی یہ ہے کہ شہریوں کو وہ ہنر نہیں سکھائے گئے جو زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں حالانکہ سب سے زیادہ اسی کی ضرورت تھی۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو ترجیح دی جائے۔ سیاسی فائدے حاصل کرنا ترجیح نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

حوالہ جات :

https://www.dawn.com/news/1569679
http://jeddojehad.com/?p=11474

(مرسلہ : طارق احمدمرزا۔ آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button