قوموں کی حقیقت
نسلی تفاخر کا مرض
یہ اُن اَمراض میں سے ایک ہے جو انسانوں کو مختلف نسلی گروہوں میں تقسیم کر کے قومی اور ملکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اِس مرض میں مبتلااقوام کا ایک طبقہ تو فخر و مُباہات اور قومی برتری کے زُعم میں سرشار میدانِ عمل میں خود کچھ کر دکھانے سے گریزاں رہتا ہے جبکہ دوسرا منافرت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور اُس کی خدا دادصلاحیّتیں اندر ہی اندر دم توڑ دیتی ہیں۔ ایسی اقوام کی طاقتیں اِنہی جھگڑوں میں ضائع ہوتی رہتی ہیں اور وہ ملکی ترقی میں کوئی قابلِ قدر تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ ہندوستان دنیا کے اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں اِس مرض کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ چنانچہ خاکسار اس مضمون میں برصغیر پاک و ہند میں ابھی تک چلے آنے والے cast system کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ گزارشات پیش کرے گا۔
جس زمانے میں یہاں اسلام پھیلنا شروع ہوا اُس وقت یہاں کی ہندو اکثریت برہمن، کھشتری، ویش، شودر اور ملیچھ وغیرہ نسلی طبقات میں بٹی ہوئی تھی۔ بعض اقوام اعلیٰ سمجھی جاتی تھیں اور اُنہیں معاشرے میں ہر طرح کے حقوق حاصل تھے جبکہ ادنیٰ اقوام شودر اور ملیچھ وغیرہ سے عملاً جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔
اِن اقوام میں سے جنہوں نے اسلام قبول کیاوہ اگرچہ مذہباً تو مسلمان ہو گئے لیکن ہندو اکثریت والے معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اپنی تمدنی زندگی سے پرانے ہندوانہ رسم و رواج اور روایات کے اثرات کو کلیتاً مٹا نہ سکے۔ ظاہر ہے اُن کا مذہب تبدیل ہوا تھا، ذاتیں اور قومیں تو تبدیل نہیں ہوئی تھیں۔ اِس لیے مسلمان ہونے کے باوجود اُن میں نسلی افتراق اور درجہ بندیاں اُسی طرح قائم رہیں۔ اِس مرض کی چھاپ اِس قدر گہری تھی کہ آج جبکہ اُنہیں اسلام قبول کیے سینکڑوں سال گزر چکے ہیں خاص طور پر زمیندار اقوام میں اپنے آباواجداد کےنسلی تفاخر کا گھمنڈ آج بھی اُن میں سے اکثر میں موجود ہے اورپاک و ہند میں آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی اِس طبقاتی منافرت کے آثار بڑے ہی واضح طور پردیکھے جا سکتے ہیں۔
خاکسار راقم الحروف کو ہندومُسلم مشترک معاشرے میں رہنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن پاکستان کی گاؤں کی زندگی میں یہ ساری صورتِ حال مَیں نے خود دیکھی ہوئی ہے جو بہت حدتک آج بھی موجود ہے۔ عیسائیوں کے مکانات گاؤں کی ایک طرف الگ ہوا کرتے تھے اور آج بھی وہی صورت ہے۔ اُن کے اِس رہائشی علاقے کو ٹھٹھی کہا جاتا تھا۔ آج کل تو گھروں میں نلکے لگ گئے ہیں لیکن تیس چالیس سال قبل پانی پینے کےلیے گاؤں میں کنویں ہوتے تھےجہاں سے لوگ گھروں میں پانی لایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ عیسائیوں کا الگ کنواں اُن کی ’’ٹھٹھی‘‘ میں ہوا کرتا تھا اور وہ لوگ مسلمانوں کے کنویں سے پانی نہیں لے سکتے تھے۔
بعض واقعات یا صورتِ حال ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیشہ کےلیے ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں اور پھر ساری عمر نہیں مٹتیں۔ اِن میں سے ایک کا مَیں یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ 1960ء کی دہائی کے آخرکا واقعہ ہے۔ گندم کی کٹائی ہو رہی تھی اور اسکولوں میں چھٹیاں تھیں۔ ایک دن مَیں بھی اپنے ایک زمیندارعزیز کے ڈیرے پر گیا ہوا تھا جہاں گندم کی کٹائی جاری تھی۔ اُن کا ایک عیسائی کارندہ بھی اُن کے ساتھ کٹائی کر رہا تھا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو گھر سے خواتین کھانا لے کر آئیں۔ ہم سب کھیت میں ہی کھاناکھانے بیٹھ گئے۔ وہ عیسائی خود ہی ہم سے قدرے پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا۔ گھر والوں میں سے ایک صاحب نے ایک روٹی پر سالن یا اچار رکھ کر اُس پَرے بیٹھے عیسائی کو پکڑا دی اور وہ بھی کھانے لگا۔ ایک روٹی ختم ہونے پر پہلے کی طرح دوسری بھی اُس کے ہاتھ پر رکھ دی گئی۔ آخر پر لَسّی پینے کا مرحلہ آیا۔ اُس عیسائی کےلیے گھر سے کوئی الگ برتن نہ آیا تھا۔ چنانچہ اُنہی صاحب نے لَسّی والا برتن (دُھنا) اٹھایا اور اُس عیسائی نے دونوں ہاتھوں کو اکٹھا کر کے دعا کرنے کے طریق سے’’ بُک‘‘ بنا کر منہ کو لگا لیا اور اُس کی ’’بُک‘‘ میں اُس برتن سے لَسّی اُنڈیلی گئی جو اُس نے پی۔ مَیں اُس وقت اسکول کا طالب علم تھا۔ اِس صورتِ حال کو بڑی حیرت و استعجاب کے جذبات سے دیکھا اور یہ ذہن پر ایسی نقش ہو گئی کہ آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی یاد ہے۔
باہر سے آ کر ہندوستان میں آباد ہونے والوں میں ایک قوم قریش بھی تھی۔ اس قوم کے لوگ زمانہ جاہلیت میں کعبے کے متولی ہونے کی وجہ سے خود کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے۔ اِس قوم کی اکثریّت تجارت پیشہ تھی اور یہ لوگ کاشتکاری کو ایک ذلیل پیشہ تصوّر کرتے تھے۔ جنگِ بدر کے موقع پر جب کفارِ مکہ کی طرف سے تین سردارانِ قریش عتبہ، شیبہ اور ولید میدان میں نکلے اور قدیم دستور کے مطابق مقابلے کےلیے مبارز طلب کی تو لشکرِ اسلام میں سے مدینے کے تین انصار صحابہ تیار ہوئے لیکن اُن متکبر سردارانِ قریش نے کہا کہ اِن زمین کھودنے والوں سے لڑنا ہماری ہتک ہے اِس لیے ہمارے پایہ کے (یعنی قریشی) بھجواؤ۔ اِس پر آنحضرتﷺ نے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبیدہؓ کو بھجوایا جن کے ہاتھوں یہ کفارِ مکہ مارے گئے۔ جب لڑائی ختم ہوئی تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کوئی جا کر معلوم کرے کہ ابوجہل کا کیا حال ہے۔ اِس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ گئےاورجب یہ ڈھونڈتے ہوئے ایک جگہ پہنچے تو دیکھا کہ ابو جہل زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ یہ دشمنِ اسلام دو انصاری نوجوانوں حضرت معاذ ؓ اور حضرت معوذ ؓ کے ہاتھوں شدید زخمی ہو کر گرا ہوا تھا۔ ابو جہل نے اُنہیں دیکھ کر بڑی حسرت سے کہا : لَوْ غَیْرَ اِکَارٍ قَتَلَنِیْ۔ یعنی اے کاش مَیں کسی کاشتکار کے ہاتھوں مارا نہ جاتا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیّنﷺ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ مطبوعہ2001ء صفحہ 360-363)
اِن ہر دو واقعات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قومِ قریش کس حد تک اِس مرض میں مبتلا تھی۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اِن کا سارا نسلی تفاخر نبی اکرمﷺ کی تربیت اور دین اسلام کی پیش کردہ مساوات کی تعلیمات کے باعث عجز و انکسار میں بدل گیااور یہی قوم انتہائی درجہ کی منکسر المزاج ہو گئی۔ آنحضرتﷺ کی قوتِ قدسیہ سے اِن لوگوں کے سارے گند دھوئے گئےاور ایک ایسا معاشرہ قائم ہوا جہاں نسلی تفاخر کا نام و نشان نہ تھا۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر کسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہ تھی۔ اگر کوئی مکرّم تھا تو وہی جو زیادہ متقی تھا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ مکہ کے معاشرے میں ایک سردارانہ مقام رکھنے والے حضرت عمرؓ حضرت بلال ؓکو جو قبل از اسلام محض ایک حبشی غلام تھےخاص احترام کے ساتھ ’’سیّدنا بلال‘‘ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ اِس حوالے سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’مَیں جب اِس زمانہ کے امریکن حبشی ٹام اور آج سے چودہ سو سال قبل کے عربی حبشی بلالؓ کے حالات پر نگاہ کرتا ہوں تو ایک عجیب منظر نظر آتا ہے……عربی غلام (یعنی بلالؓ) جب بادشاہِ وقت (عمر بن الخطاب) سے ملنے کیلئے جاتا ہے تو باوجود اِس کے کہ اُس وقت بڑے بڑے رؤسائے عرب بادشاہ کی ملاقات کے انتظار میں دروازے پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ بادشاہِ وقت بلال ؓکی خبر پا کر اُن رؤسائے عرب کو جو وہ بھی مسلمان ہی تھےنہیں بلاتا اور بلالؓ کو فوراً بلا لیتا ہے اور جب بلالؓ ملاقات سے فارغ ہو کر چلا جاتا ہے تو پھر اُس کے بعد اُن رؤسائے عرب کی باری آتی ہے اور جب اِس بادشاہ کی مجلس میں بلالؓ کا ذکر آتا ہے تو بادشاہ کہتا ہے بلالؓ ہمارا سردار ہے۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیّینﷺ مطبوعہ 2001ءصفحہ402)
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اِس حوالے سے یہاں آنحضرتﷺ کے چند پاکیزہ ارشادات پیش کر دیے جائیں جو ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ آپﷺ نے اپنی ساری زندگی نہایت درجہ مسکینی سے بسر کی اور اپنے ماننے والوں کو بھی احترامِ آدمیّت کا سبق دیا۔ آپﷺ نےاپنی زندگی کے آخری حج کے موقع پر ایک ایسا عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا جو تاریخِ انسانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپﷺ نے اِس خطبے میں جن خاص امور کی طرف توجہ دلائی اُن میں سے ایک یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی امت کونسلی افتراق اور طبقاتی درجہ بندیوں سے بچنے کی بطورِ خاص نصیحت فرمائی۔ آپﷺ نے فرمایا :
’’اے لوگو! تمہارا خدا ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ یاد رکھو کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سرخ و سفید رنگ والے کو کسی سیاہ رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو کسی سرخ و سفید رنگ والے پرکسی طرح کی کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں تقویٰ اور صلاحیّت وجہ ترجیح اور فضیلت ہے۔ ‘‘
(مسنداحمد بحوالہ حدیقۃ الصالحین مطبوعہ 2003ءصفحہ 673-674)
اِسی طرح دیگر مواقع پر آپﷺ نے فرمایا :
’’تم سب آدم ؑکی اولاد ہواور آدم ؑمٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگو! اپنے باپ دادا کے نام پر فخر کرنے سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریت کے تودوں اور آبی پرندوں سے بھی زیادہ ہلکے ہو جاؤ گے۔ ‘‘
(مسند احمدجلد14مطبوعہ بیروت 1997ءحدیث نمبر 8736)
’’تمہارے یہ نسب نامے کوئی کام دینے والے نہیں۔ تم سب برابر برابر کے حضرت آدم ؑ کے بیٹے ہو۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں۔ ہاں فضیلت دین و تقویٰ سے ہے۔ انسان کو یہی برائی کافی ہے کہ وہ بدگو، بخیل اور فحش کلام ہو۔ ‘‘
(مسند احمدجلد28 مطبوعہ بیروت 1999ء حدیث نمبر 1744)
’’اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اُس کی تحقیر نہیں کرتا۔ اُس کو شرمندہ یا رُسوا نہیں کرتا۔ آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔ یہ الفاظ آپﷺ نے تین بار دہرائے پھر فرمایا:انسان کی بد بختی کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اُس کیلئے واجب الاحترام ہے۔ ‘‘
(مسلم بحوالہ حدیقۃ الصالحین مطبوعہ2003ء صفحہ 674-675)
’’تمام مخلوقات اللہ کی عیال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اُس کے عیال (مخلوق) کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ ‘‘
(ابو داؤد بحوالہ حدیقۃ الصالحین مطبوعہ2003ء صفحہ 679)
قرونِ اولیٰ کے بعد قومِ قریش کہ جس کی خوش نصیبی میں کعبے کی تولیت کے علاوہ حضرت خاتم الانبیاءﷺ کی تشریف آوری نے چار چاند لگا دیے تھے کی بعض شاخیں یا یہ کہنا درست ہو گا کہ ان شاخوں کے بھی بعض قلیل حصے ایک دفعہ پھر نسلی تفاخر کا شکار ہونے لگے۔ بلاشبہ ہندوستان میں سادات بزرگوں نے عظیم الشان خدماتِ اسلام سرانجام دیں اور اُن کی تبلیغ سے بے شمار بندگانِ خدا نے قبولِ اسلام کی سعادت پائی اور خوداُن کا اپنا مقام و مرتبہ بھی ایسا بلند تھا کہ وہ اولیائے امت اور اپنے اپنے وقتوں کے مجد دین اور آسمانِ اسلام کے روشن ستارے تھے۔ لیکن اِس میں بھی شک نہیں کہ جب یہ ستارے جھڑنے لگے تو اُن کے بعد آنے والوں میں سے بعض نہ صرف یہ کہ اپنے آباء جیسا نیکی اورتقویٰ کا معیار قائم نہ رکھ سکےبلکہ مرورِ زمانہ کے ساتھ توحید کا پرچار کرنے والے اُن عاجز اور بے نفس بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا دیا گیا اور ہندو معاشرے سے متاثر ہو کر ایسی ایسی مشرکانہ رسومات، توہمات اور بدعات رواج پا گئیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ بڑی بڑی درگاہیں اور آستانے وجود میں آ گئے جہاں مدفون بزرگان کی نسلیں یا ان کے متعلقین حقیقی نیکی، تقویٰ اور روحانیت سے عاری و تہی دامن پدرم سلطان بود کے مصداق اپنے بڑوں کے ناموں کے سہارے کئی کئی لاکھ مریدوں کے پیشوا اورمرشد بن بیٹھے۔
ملک ہندوستان میں نسلی افتراق کا سسٹم تو تھا ہی، جو لوگ ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے وہ بعض افراد کو آنحضرتﷺ سے قومی اور نسلی تعلق اور ان کے نیکی اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے اپنا مذہبی پیشوا اور نجات دہندہ سمجھتےاور نہایت درجہ عقیدت و احترام سے پیش آتے۔ اور جیسا کہ ذکر آ چکا ہے کہ آہستہ آہستہ دین اسلام کی بے مثال خدمت کرنے والے بزرگان کی نسلوں میں سے بعض لوگ خود کو دیگر اقوام سے اعلیٰ اور ارفع سمجھنے لگے اور آہستہ آہستہ نسلی تفاخر ایک نئی شکل میں ظاہر ہوا۔ اب اِن میں زمانۂ جاہلیت والی متکبرانہ اور ظالمانہ انانیّت نہ تھی۔ اب یہ آلِ رسولﷺ اور قابلِ عزت و احترام مذہبی بزرگ شمار کیے جاتے تھے جن کی خدمت کےلیے لاکھوں مرید موجود تھےجو اِن کے ہاتھ چومتے، پاؤں چھوتے، بعض اوقات اِن کے آگےسجدے بھی کرتے، نذرانے دیتے اور اِن کے حضور سے اُلٹے پاؤں چلتے واپس آتے نظر آتے مبادا اِن کی طرف پیٹھ ہوجائے۔ لوگ کسی حد تک عقیدت اور زیادہ تر کسی خوف کے پیش نظر پیروں اور گدی نشینوں کی اِس قدر تعظیم کرتےکہ کوئی غیر سیّد اِن کے برابر بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ جب یہ مثلاً چارپائی پر بیٹھتے تو لازم ہوتا کہ باقی سب زمین پر بیٹھیں۔ اکثر درگاہوں اور گدی نشینوں اور پیروں فقیروں کی جانب سے شریعت کے معروف احکامات نماز روزہ کی بجائے لوگوں کو خود ساختہ وظائف بتائے جاتے ، تعویذ دیے جاتے اور یوں اِن کے ذریعے ہندوستان میں پیر پرستی اور قبر پرستی پھیلتی چلی گئی۔ آلِ رسولﷺ کہلانے والا یہ طبقہ عوام الناس کو ‘امتی’ کے نام سے یاد کرتا۔ عوام الناس میں یہ مسئلہ عام طور پر مشہور تھا کہ غیر سیّد مَرد کا نکاح کسی سیّدانی سے مذہباً جائز نہیں۔
دوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں سے اسلام میں آئی ہوئی بعض اقوام خود کو اِن سے بھی اونچا سمجھتی تھیں۔ یہاں تک کہ اِن میں سے بعض لوگ اگر ایک طرف کسی کو اپنا پیر و مُرشد اور مذہبی پیشوا مانتے تو دوسری طرف قوم اور نسب کے لحاظ سے اپنے سے کم تر بھی سمجھتے۔ اِس جہالت کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک راجپوت تھے۔ غربت اور مفلسی نے کمر توڑ رکھی تھی لیکن اِس کے باوجود خود کو کچھ زیادہ ہی ’’راج پُوت‘‘ سمجھتے تھے۔ بیٹی کی شادی قرض لے کر اور زمین تک رہن رکھ کر خوب دھوم دھام سے کی تاکہ لوگوں میں چرچا ہو کہ ایک راجپوت نے اپنی بیٹی کو کس شان سے بیاہا ہے۔ شادی کے بعد جب مالی لحاظ سے تنگ ہوئے اور قرض خواہوں نے بھی ناطقہ بند کیا تو کسی ہمدرد نے کہا کہ قرض میں دبنے کی کیا ضرورت تھی، سادگی سے بیٹی کورخصت کردیتے۔ دیکھو ہمارے پیارے رسولﷺ نے کس سادگی سے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کی شادی کی تھی۔ راجپوت صاحب بولے: ’’ٹھیک ہے وہ ہمارے نبی ہیں اور ہم اُن کا کلمہ پڑھتے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ وہ راجپوت تو نہیں تھے نا۔ ‘‘ یہ محض ایک لطیفہ ہی نہیں بلکہ یہ سوچ ایک حقیقت ہے۔ چند سال قبل خاکسار راقم الحروف کی خود ایک اور صاحب سے اِس موضوع پر بات ہوئی جنہوں نے حضورﷺ کے حوالے سے تو نہیں لیکن اپنے پیر و مُرشد کے حوالے سے بالکل یہی نظریہ پیش کیا۔
یہ ایک مشکل اور حساس موضوع ہے۔ اِس مرض کی تشخیص اور پھر صدیوں سے آزاد اِس جِن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اقوام جو خود کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ اور حقیر سمجھتی ہیں اُن کے پاس اِس نسلی تفاخر کا کوئی جواز بھی ہے؟ کیا خدا نے اُن کی پیدائش میں ہی کوئی فرق رکھا ہےیا اُنہیں کسی اعلیٰ درجہ کے مواد سے بنایا ہےاور اُن میں پیدائشی طور پر ہی خاص طور پر بہترصلاحیّتیں پیدا کی ہیں؟ اللہ تعالیٰ کسی مخصوص علاقے کا پیدا کرنے والا تو نہیں۔ وہ تو رب العالمین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تو اُس نے اُنہیں پیدا ہی برتری کےلیے کیاہےتو کیا اِس قسم کی مخلوق اُس نےدنیا کے دیگر ممالک خصوصاً یورپ اور امریکہ میں بسنے والی ترقی یافتہ اقوام میں بھی پیدا کی ہوئی ہے؟ اِس تجزیے کےلیے آئندہ صفحات میں کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
و باللّٰہ التوفیق۔
شجرۂ اقوامِ عالَم
درخت کو عربی زبان میں شَجَرَۃٌکہتے ہیں۔ ظاہرہے کہ ایک درخت جڑوں، تنے، ٹہنیوں، پتوں اور پھلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ قوم کی مثال بھی درخت کی سی ہوتی ہے۔ جڑ اُس قوم کی جدِّ امجد ہوتی ہے اور وہ تنے، بڑی چھوٹی ٹہنیوں اور پھلوں کی شکل میں پھلتی پھولتی رہتی ہے۔ اِسی لیے اِسے شجرۂ نسب کہتے ہیں یعنی قبیلے یا قوم کا درخت۔ اِس درخت کے بعض پھل مستقبل میں کسی زمین میں پڑ کر اپنی خدا دادصلاحیّتوں کی وجہ سے منفرد حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ایک نئے درخت کی قابلِ ذکر جڑ یا بالفاظِ دیگر جدِّ امجد قرار پاتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ اُس درخت کے پھل پھر جڑ بنتے ہیں اور نئے درختوں کو جنم دیتے ہیں اور اِسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔
قارئین سے گزارش ہے کہ یہاں ذرا رُک کر عالَمِ تصور میں ماضی میں سفر شروع کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ اِن درختوں کی تعداد کم ہونی شروع ہو گئی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ جو جڑیں تھیں دراصل وہ کسی اور درخت کے پھل تھے۔ اِس سفر میں جوں جوں ہم پیچھے کی طرف چلتے چلے جاتے ہیں درختوں کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ آخر ایک ایسا مُقام آتا ہے کہ وہاں صرف ایک ہی درخت کھڑا نظر آتا ہے۔
بات اتنی مشکل تو نہیں لیکن پھر بھی ایک مثال سے اِس کی مزید وضاحت کی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑکو اگر ہم ایک شجرۂ نسب کی جڑ قرار دیں تو اِس درخت کے دو پھل تھے جن کے نام حضرت اسحاق ؑاور حضرت اسماعیل ؑتھے۔ اِن میں سے حضرت اسماعیل ؑکی اولاد مکہ میں آباد ہوئی اور صدیوں تک پھلتی پھولتی رہی اور اِس کے پھل مزید جڑوں کا روپ دھارتے رہے اوراُن سے پھر کئی درخت اُگتے رہے۔ اِن میں سے ایک درخت کی جڑ کا نام تھا عدنان۔ یاد رہے کہ حضرت اسماعیل ؑسے عدنان تک کئی پشتوں کا فاصلہ ہے۔ عدنان کی اولاد کئی شاخوں میں منقسم ہو کر پورے ملک میں پھیل گئی۔ کئی پشتوں بعد اِنہی شاخوں کا ایک نامور پھل فہر کہلایا۔ آگے اِس شجرۂ فہر کے ایک مخصوص پھل کا نام تھا قصّی۔ یہ شخص بڑا ذہین و فہیم اور قائدانہ صلاحیتوں کا مالک تھا۔ اِس کا مخصوص کارنامہ یہ تھا کہ اِس نے کعبہ کی تولیت کے بعد اپنے قبیلے کو جو منتشر تھا جمع کر کے مکہ میں آباد کیا۔ اِس اتحادِ قومی کی بنیاد رکھنے کے سبب سے یہ قریش کہلایا کیونکہ لفظ قریش میں منتشر افراد کو اکٹھا کرنے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ بعض روایات میں اِس کارنامے کو فہر سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ بہرحال آگے اِس درخت کے ایک قابلِ ذکر پھل کا نام تھا عبد مناف جس کے چار بیٹے نوفل، عبد شمس، مُطلب اور ہاشم تھے۔ ہاشم کی اولاد ہاشمی کہلائی اور عبد شمس کی اولاد میں حضرت عثمان ؓ، حضرت ابو سفیان ؓ اور حضرت معاویہ ؓہوئے۔ ہاشم کے چار بیٹے صیفی، شیبہ(عبدالمطلب)، اسد اور فضلہ تھے۔ اِن میں سےحضرت عبدالمطلب کے آگے دس بیٹے تھے جن میں سے حضرت عبداللہ سب سے چھوٹے تھے جو ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مُصطفےٰﷺ کے والدِ گرامی تھے۔ اِس لحاظ سے آپﷺ کا تعلق قبیلہ قریش کی ہاشمی شاخ سے تھا۔
حضرت عبدالمطلب جن کا اصل نام شیبہ تھا، کے قابلِ ذکر بیٹوں میں سے حضرت ابو طالب، حضرت عباس ؓ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عبداللہ ہیں۔ ابو لہب بھی اِنہی کا بیٹا اور رشتہ میں آنحضرتﷺ کا سگا چچا تھا۔ حضرت ابو طالب کے چار بیٹے طالب، عقیل، جعفر اور علی تھے۔ حضرت علیؓ رسولِ خداﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد ہونے کی خصوصیّت کی وجہ سے آگے چل کر قریشیوں کی مختلف شاخوں کے جدِّ امجد قرار پائے۔ جگر گوشۂ رسولﷺ حضرت فاطمہ الزہراؓ کے بطنِ مبارک سے پیدا ہونے والے حضرات حسنین رضی اللہ عنھما کی اولاد سیّد کہلائی جبکہ آپ کی دوسری بیویوں سے اولاد علوی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیّنﷺ مطبوعہ2001ء صفحہ 82-87)
شجرۂ قریش سے آگے کئی درخت پیدا ہوئےجو دراصل اِسی کے پھل ہیں۔ یہ علوی، عباسی، فاروقی، صدیقی، سیّد وغیرہ سب قریشی ہی ہیں۔ شروع میں علوی بھی سادات کہلاتے تھے اور آج بھی کئی لوگ اِنہیں سیّد ہی کہتے ہیں لیکن بعد میں یہ لقب بالعموم صرف حضرت علی ؓ کی حضرت فاطمہ ؓ سے اولاد کے ساتھ مخصوص ہو گیا اور آج سیّد کا لقب ایک الگ قوم کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ آگے سادات کی بھی کئی شاخیں بن چکی ہیں۔ بخاری، گیلانی، نقوی، گردیزی، کاظمی، جعفری وغیرہ۔ علوی قریشیوں کےبھی آگےکئی درخت پیدا ہو چکے ہیں اور عوام الناس میں سے اکثر کو یہ بھی علم نہیں کہ وہ بھی دراصل علوی قریشی ہیں۔ مثال کے طور پر شجرۂ علوی کے ایک پھل کا نام تھا عَون۔ کچھ مورخین اِنہیں حضرت عباس ابن علی ؓ کی اولاد سے ثابت کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے اِنہیں حضرت علیؓ کے دوسرے بیٹے محمد بن حنیفہ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ یہ اپنے زمانے کے ولی اللہ تھے اور قطب شاہ کے لقب سے مشہور تھے۔ اَعوان کا مطلب ہے معاون اور مددگار۔ روایات کے مطابق سلطان محمود غزنوی نے آپ کو یہ لقب دیا تھا۔ آج جو لوگ قطب شاہی اَعوان کہلاتے ہیں دراصل علوی قریشی ہیں۔ اعوانوں کی تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ حضرت عَون تبلیغ کی غرض سے ہندوستان میں آ کر آباد ہوئے۔ اُن کی چار بیویاں تھیں۔ ایک کا تعلق تو ساداتِ بغداد سے تھا جبکہ تین نکاح آپ نے ہندوستان میں کیے جن میں سے ایک بیوی راجپوتوں کی کھوکھر ذات سے تھی جس کا اسلامی نام زینب تھا۔ اُس سے آپ کے تین بیٹے تھے جن کی اولاد کھوکھر قطب شاہی کہلاتی ہے۔ اِس پہلو سے یہ بھی علوی قریشی ہیں۔ اِسی طرح کشمیر کے علاقے میں ایک دھنیال نام کی قوم آباد ہے جس کی آگے کئی شاخیں ہیں۔ یہ بھی دراصل علوی قریشی ہیں۔ اب یہ تینوں اقوام شجرۂ علوی کے پھل ہونے کے باوجود اعوان، کھوکھر اور دھنیال کہلاتی ہیں۔
(ماخوذ از اقوامِ پنجاب مصنفہ انجم شہباز سلطان ایم۔ اے صفحہ 606-614)
قریشیوں کی تمام شاخوں اور نئے ناموں سے پھلنے پھولنے والی اولاد در اولاد کا ذکر یہاں ممکن نہیں اور نہ ہی یہ ہمارا موضوع ہے۔ اِس پر بڑی بڑی ضخیم کتب لکھی گئی ہیں جن میں بڑی تفصیل سے اِن شاخوں پر بحث کی گئی ہے۔ یہ مختصر سی مثال درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کرام کو شجرۂ عالَم کی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہوکہ کس طرح وقت کے ساتھ ساتھ نئے ناموں سے مختلف قومیں اور ذاتیں وجود میں آتی ہیں۔ اب ذرا لمبے سفر کی بجائے صرف چودہ سو سال کا پیچھے کی جانب سفر کیجیے۔ کیا دنیا میں پھیلے ہوئے مختلف ناموں کے قریشیوں کے یہ درخت آخر ایک ہی درخت کے پھل ثابت نہیں ہوتے؟ یقین جانیں دنیا کی باقی سب اقوام کا بھی یہی حال ہے۔ آخر سب ایک جگہ آ کر مل جاتے ہیں۔ کچھ ایک صدی بعد، کچھ دو اور کچھ پانچ چھ صدیوں بعد۔ در اصل ’’منڈھ‘‘ سب کا ایک ہی ہے۔ سب ایک ہی درخت کے پھل ہیں جن کو خالقِ حقیقی نے پہچان کےلیے مختلف شعوب اور قبائل کے نام دیے ہیں۔ یہی وہ شجرۂ عالَم ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام قرآن شریف میں اِن الفاظ میں فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً…(سورۃ النساء:2)
ترجمہ: اے لوگو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں میں سے مَردوں اور عورتوں کو بکثرت پھیلا دیا۔ …
ایک غلط فہمی کا اِزالہ
انسانی پیدائش کی ابتداء کے حوالے سے بائبل کی آیات اور قرآنِ کریم کی مذکورہ بالا آیت اور اِسی مضمون کی دیگر آیات سے عوام الناس عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نسلِ انسانی کی ابتدا آج سے تقریباً چھ ہزار سال قبل خدا تعالیٰ کے نبی حضرت آدمؑ سے ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح کمہار گیلی مٹی سے برتن وغیرہ بناتے ہیں ایک مَردانہ انسانی شکل بنائی اور پھر اُس میں روح پھونکی تو وہ مٹی سے گوشت پوست کا ایک زندہ انسان بن گیا۔ پھر اُس کی پسلی کی طرف سے کچھ گوشت نکالا اور بعضوں کے نزدیک ایک پسلی نکالی اور اُس سے زنانہ شکل بنائی۔ مَرد حضرت آدم ؑاور عورت اُن کی بیوی حضرت حوّا ہیں۔ اِن دونوں سے پھر آگے نسلِ انسانی دنیا میں پھیلی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خیال درست نہیں اور خدا کے کلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں۔ وہ آدمؑ جن کا ذکر بائبل اور قرآنِ پاک میں ملتا ہے وہ ہرگز پہلے انسان نہ تھے بلکہ اُن سے پہلے بھی دنیا میں انسان موجود تھے۔ جدید نظریۂ ارتقا کے ماہرین کے مطابق انسان لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں سے اِس زمین پر بس رہے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ یہ اِس دور کے آدم ہیں اور اِس طرح کے نامعلوم کتنے آدم گزر چکے ہیں۔ اِسی طرح یہ نظریہ بھی درست ہے کہ مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کی پیدائش ہوئی جن سے آگے نسلِ انسانی دنیا میں پھیلی۔
اجزائے ترکیبی اور مراحلِ پیدائش
تمام انسانوں کے اجزائے ترکیبی ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ وہ مادہ جس سےہر قوم و ملّت کا انسان بنتا ہےایک ہی جیسے عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور رحمِ مادر میں ایک ہی جیسی مدّت میں مختلف مراحل سے گزر کر انسانی شکل میں ڈھلتا اور پھر ایک ہی طریق سے پیدا ہو کر اِس دنیا میں آتا ہے۔ سب کا بنیادی ڈھانچہ بھی ایک ہی جیسا ہوتا ہےاور زندہ رہنے کےلیے سب میں ایک ہی جیسا نظام موجود ہوتا ہے۔ رگوں میں دوڑنے والے خون کا رنگ بھی سب کا ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے اجزائے ترکیبی دوسری قوم کے افراد سے مختلف ہیں یا جس مصالحے سے وہ تیار ہوا ہے وہ دوسروں کے مصالحوں سے اعلیٰ کوالٹی کا ہے۔ اِس پہلو سے بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جس کی بنا پر ہم کسی طبقے کو اعلیٰ قرار دیں اور دوسرے کو کم تر۔ سائنس بھی کہتی ہے اور خدا بھی کہ سب انسانوں کی ابتدا ایک ہی طرح ہوئی اور سب ہی ایک بدبودار قطرے یعنی نطفے سے پیدا ہوتے ہیں اور سب کا ہی جسم اپنی ماؤں کے خونِ حیض سے پرورش پاتا ہے۔ لیکن بعض لوگ اپنی پیدائش کو بھول کر اترانے اور باتیں بنانے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے :
اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَخَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلْقَہٗ…(یٰسٓ : 78-79)
ترجمہ : کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اُسے نطفے سے پیدا کیا تو پھر یہ کیا انقلاب ہوا کہ وہ ایک کھلا کھلا جھگڑالو بن گیا اور ہم پر باتیں بنانے لگا اور اپنی خِلقت کو بھول گیا۔ …
حسب نسب کے اثرات
نسب کہتے ہیں کسی کی اصل کو یعنی کوئی کس درخت کا پھل اور جدّ کی آل اولاد ہے جبکہ حسب کا مطلب ہے اُس خاندان کےمورثِ اعلیٰ کے ذاتی اوصاف، صلاحیّتیں، قابلیت اور لیاقت۔ سورۃ الحجرات آیت 14میں ارشادِ ربانی ہے :
یٰٓاَ یُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثیٰ وَ جَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔
ترجمہ : اے لوگو ہم نے تمہیں نَر اور مادہ سے پیدا کیااور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناً اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) ہمیشہ با خبرہے۔
اِس آیتِ کریمہ میں نوعِ انسانی کی شعوب و قبائل میں تقسیم کا مقصد صرف پہچان بیان کیا گیا ہے۔ پہچان کے معروف معنی تو یہ ہیں کہ ایک ہی نام کے اگر زیادہ لوگ ہیں تو اُن کے ناموں کے ساتھ اُن کی قوم یا قبیلے کےنام کی وجہ سے اُن کی پہچان ہو سکے کہ اِس نام کے فلاں شخص کی بات ہو رہی ہے اور دوسرے یہ کہ دنیا میں قومی تشخص بھی قائم رہے۔ لیکن اِن معنوں کے علاوہ اِس سے ایک تو یہ مراد ہے کہ وہ اپنے خاندان کے رشتوں کو پہچانیں اور صلہ رحمی اختیار کریں یعنی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور دوسرے یہ بھی مراد ہے کہ اپنے خاندان اور اسلاف کے بزرگوں کی خوبیوں اور کارناموں کا علم حاصل کریں اور اُنہیں اپنی آئندہ نسلوں میں جاری رکھیں۔
جیسا کہ زیر عنوان شجرۂ اقوامِ عالَم بیان ہو چکا ہے کہ نسب کے اعتبار سے تو بنیادی طور پر سب انسان ایک ہی درخت کے پھل ہیں۔ یہ درست ہے کہ محض نسب کا شرف تو کچھ چیز نہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مختلف خاندانوں اور قبائل میں بعض خصوصیات کی وجہ سے وہ قابلِ احترام سمجھے جاتے ہیں اور لوگ اُن کی عزت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے والے افراد کی آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود لوگ اِس لیے عزت کرتے ہیں کہ نبیٔ اسلامﷺ اِس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اِسی طرح کسی قوم کا جدِّ امجد مثلاً ولی اللہ، شجاع، سخی یا اپنے وقت کاایک منصف مزاج حاکِم تھا تو لوگ اُن اقوام یا خاندانوں کی عزت کرتے ہیں کہ یہ فلاں بڑے آدمی کی آل اولاد ہے۔ اب کیا اِس سے بھی یہی ثابت نہیں ہوتا کہ معاشرے میں عزت و احترام اور شرافت کی بنیاد بھی دراصل حسب ہے نہ کہ نسب۔ یعنی خاندانوں کے بزرگوں میں پائی جانے والی خوبیوں کی وجہ سے لوگ عزت کرتے ہیں۔ اگر اُسی نامور خاندان کے کسی شخص نے بد معاشی، بد کرداری اور ظلم میں نام پیدا کیا ہو تو اُس کی اولاد کی لوگ کچھ بھی عزت نہیں کرتے۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں کہ گھر گھرانے نہیں ہوتے بلکہ کام گھرانے ہوتے ہیں۔ دیکھیں ! کیا حضرت نوح علیہ السلام کا عالی نسب نہ تھا ؟ کیا ابو لہب، ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ قبیلہ قریش کے سردار نہ تھے؟ لیکن حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی ایک نبی کا بیٹا ہونے اور اُن سردارانِ مکہ کی قبیلہ قریش سے تعلق رکھنے کے باوجود کچھ بھی عزت نہیں ہے۔
ابن خلدون اپنی کتاب مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون میں لکھتے ہیں:
’’دیکھئے عالم عناصر کی ہر چیز فانی ہے اور ختم ہو جانے والی ہے۔ ذات کے اعتبار سے بھی اور حالات کے اعتبار سے بھی خواہ نباتات ہوں یا معدنیات یا حیوانات یا انسان۔ خاص طور پر انسان کے حالات پر نظر ڈالیئے۔ اِن میں قسم قسم کے علوم پیدا ہوتے ہیں پھر مٹ مٹا کر نذرِ فنا ہو جاتے ہیں۔ یہی دیگر صنعتوں کا حال ہے۔ درحقیقت حسب یا شرافت اُن انسانی عوارض میں سے ہے جو لوگوں کو عارض ہوتے رہتے ہیں۔ اِس لئے یہ نذرِ فنا ہو کر رہتا ہے…… پھر شرافت کی زیادہ سے زیادہ حد چار پشتوں تک ہے کیونکہ وہ تکلیفیں مو سس مَجْد(بڑائی، بزرگی، شرف، عظمت۔ معنی از ناقل راقم الحروف) کو ہی معلوم ہیں جو اُس نے مجْد کے بنانے میں اٹھائی ہیں اور وہی اُن اوصاف کی حفاظت کرتا ہے جو بقائے مجْدکے اسباب ہیں۔ پھر بانی مجْدکابیٹا باپ کے بعد اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتا ہے کیونکہ اُس نے اپنے باپ سے مجْدکا چرچا سنا ہے اور اُسی سے مجْدحاصل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ مجْدسے جس قدر محبت اور لگاؤ اُس کے بانی کو ہو گا اُس قدر سننے والے کو نہیں ہو گا۔ تیسری پشت میں محض دوسری پشت کی تقلید رہ جاتی ہے اور پوتا بیٹے سے مجْدمیں اُسی قدر کوتاہ رہ جاتا ہے جس قدر مقلد مجتہد کے پیچھے رہتا ہے۔ پھر پڑپوتے کا زمانہ آتا ہے تو وہ اپنے باپ، دادا اور پردادا سب کا طریقہ چھوڑ دیتا ہے اور وہ تمام اسباب گنوا بیٹھتا ہے جو مجْدکی بقا کیلئے ضروری تھے اور اُنہیں حقیر سمجھتا ہے اور گمان کر بیٹھتا ہے کہ بنائے مجْدمیں کوئی تکلیف یا تکلف اٹھانا نہیں پڑا تھابلکہ مجْداُن کی موروثی چیز ہے اور شروع سے ہی اُن کے خاندان میں چلی آ رہی ہے۔ اب اِس کیلئے محض خاندانی ہونا شرط ہے اور مجْدعصبیّت پر موقوف نہیں اور نہ کسی خوبی پر اِس کا مدا رہے۔ بہرحال پڑپوتا لوگوں میں اپنی خاندانی شوکت کو دیکھتا ہے لیکن اِس سے بے خبر ہوتا ہے کہ کس طرح شرافت پیدا ہوئی اور اِس کے اسباب کیا تھے۔ پس اُس کا یہی خیال ہوتا ہے کہ مجْد ایک نسبی صفت ہے……کیونکہ اُسے اپنے اُسی ماحول پر بھروسہ ہے جس میں اُس نے پرورش پائی ہے کہ لوگ اُس کے بزرگوں کی عزت کیا کرتے تھے اور اُن کی بات مانا کرتے تھے اور یہ معلوم نہیں کہ وہ کن اسباب سے اُن کی عزت و تکریم کیا کرتے تھے اور کیوں اُن کے مطیع تھے اور اُن کے آگے بچھے جاتے تھے اور اُنہیں دلوں کی گہرائی سے چاہتے تھے……یہ دعویٰ کہ حسب صرف چار پشتوں تک چلتا ہے غالب کے اعتبار سے ہے، کوئی کلی قاعدہ نہیں کیونکہ بعض خاندان چار پشتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی شرافت و عظمت کھو بیٹھتے ہیں، فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور اُن کی عمارت آ گرتی ہے اور کبھی حسب و شرف پانچ اور چھ پشتوں تک بھی لگاتار چلتا رہتا ہے۔ البتہ چار پشتوں کے بعد روبہ انحطاط ضرور ہو جاتا ہے اور زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ ‘‘
(مقدمہ ابنِ خلدون مطبوعہ 1986ءصفحہ360-362)
پس عوام کی کس قدر خوش فہمی ہے کہ وہ صرف نسب پر ہی اتراتے رہتے ہیں کہ ہم فلاں کی اولاد ہیں اور حسب کی طرف چنداں دھیان نہیں کرتے۔ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ محض نسب کی فضیلت کچھ چیز نہیں جب تک اُس قوم کے افراد میں اپنے بزرگوں کے اوصاف بھی پائے نہ جائیں اور اوصاف کے بارے میں ابنِ خلدون نے لکھا ہے کہ اِن کے اثرات بھی چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ چھ پشتوں تک چلتے ہیں۔ پس اصولاً اِس عرصے کے بعد تو حسب کی وجہ سے بھی شرف اور عزت کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا چہ جائیکہ انسان محض اپنے نسب کو وجہ فضیلت سمجھتا رہے۔ پس محض کسی ہندو یا سکھ راجے کی اولاد ہونا یا کسی ولی بزرگ یا نبی کی قوم سے تعلق رکھنا پدرم سلطان بود سے زیادہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ خود کچھ کر کے دکھانا چاہیے۔ حقیقی عزت اپنی ذاتی قابلیت، اوصاف، نیکی اور تقویٰ سے ملتی ہے۔
ذاتیں اور پیشے
لوگ عموماً پیشوں اور ذاتوں میں تمیز نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر زمینداری ایک پیشہ ہے کوئی قوم نہیں۔ جس کسی کی بھی زرعی اراضی ہو اور وہ کاشتکاری کرتا ہو وہ زمیندار ہے۔ اگر ایسا شخص زمین فروخت کر کے تجارت کا پیشہ اختیار کر لیتا ہے تو اگرچہ اُس کی قوم تو وہی رہے گی لیکن پیشے کے لحاظ سے اب وہ ایک تاجر ہے زمیندار نہیں۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کا دادا ایک صدی قبل مثلا ًجولاہے کا کام کرتا تھالیکن اُس نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہ کسی کالج میں پروفیسر ہے یا کسی دوسرے علم کا ماہریا عدالت کا جج ہے یا بہت بڑا تاجر ہے تو باوجود اِس کے کہ اُس نے اپنے دادا کا پیشہ نہیں اپنایا لوگ اُسے جولاہا ہی کہتے رہتے ہیں حالانکہ یہ اُس کے دادا کا پیشہ تھا، قوم ممکن ہے اُن کی کوئی اور ہو۔ اِس قسم کی بے شمار مثالیں ہیں جو ایسے معاشرے کی ذہنی پستی اور گراوٹ کی غمازی کرتی ہیں۔
بعض معزز ترین انسانوں یعنی خدا کے نبیوں اور دیگر بزرگان نے بھی ایسے پیشے اپنائے جنہیں ہندو معاشرے کے زیرِ اثر نسلی تفاخر کی مرض میں مبتلا افراد حقیر جانتے ہیں۔ مثال کے طور پرحضرت نوح ؑ نجار یعنی بڑھئی کا کام کرتے تھے اور جس کشتی کے بنانے کا اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا تھا، اُنہوں نے خود بنائی تھی۔ بعضوں کے نزدیک اِس ہنر کا آغاز ہی آپؑ سے ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑکا خاندان لکڑی کے بت بنا کر بیچا کرتا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ بچپن میں اُن کا باپ بت بیچنے کےلیے اُنہیں بھی دکان پر بٹھایا کرتا جہاں وہ بتوں کی پرستش کے خلاف دلائل دے دے کر خود اپنی دکان داری خراب کیا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت یوسف نجار کی بیوی تھیں اور یہودی اُنہیں بڑھئی یا بڑھئی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ چنانچہ مرقس کی انجیل میں لکھا ہے:
’’پھر وہاں سے نکل کر وہ اپنے وطن میں آیااور اُس کے شاگرد اُس کے پیچھے ہو لئے۔ جب سبت کا دن آیا تو وہ عبادت خانہ میں تعلیم دینے لگا۔ اور بہت لوگ سن کر حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ باتیں اِس میں کہاں سے آگئیں۔اور یہ کیا حکمت ہے جو اسے بخشی گئی اور کیسے معجزے اُس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسف اور یہوداہ اور شمعون کا بھائی ہے۔ ‘‘
(مرقس باب 6آیات 1-3)
حضرت موسیٰ ؑجب ہجرت کر کے مدین چلے گئے تو وہاں اُنہوں نے آٹھ سے دس سال تک بھیڑبکریاں چرانے کی ملازمت کی۔ (سورۃ القصص : 28-29) دونوں جہانوں کے بادشاہ اور سب نبیوں کے سردارﷺ نے اوائل عمری میں مکہ والوں کی بکریاں چرائی ہیں۔ چنانچہ اِس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’آنحضرتﷺ جب شام کے سفر سے واپس آئے تو بدستور ابو طالب کے پاس ہی رہتے تھے مگر عرب میں بچوں کو عموماً مویشی چرانے کے کام پر لگا دیتے تھےاِس لئے اس زمانہ میں آپﷺ نے بھی کبھی کبھی یہ کام کیااور بکریاں چرائیں۔ زمانۂ نبوت میں فرمایا کرتے تھےکہ بکریاں چرانا بھی انبیاء کی سنّت ہے اور مَیں نے بھی بکریاں چرائی ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر سفر میں آپﷺ کے اصحاب جنگل میں پیلو جمع کر کے کھانے لگےتو آپﷺ نے فرمایا کالے کالے پیلو تلاش کر کے کھاؤ کیونکہ جب مَیں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اُس وقت کا میرا تجربہ ہے کہ کالے رنگ کے پیلو زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ مطبوعہ 2001ء صفحہ 103)
فقہ کے عظیم امام حضرت امام ابو حنیفہ ؒکپڑے کا کاروبار کیا کرتے تھے اور اُن کے مخالفین اور اُن کے مقام و مرتبے اور معاشرے میں عزت و احترام کو دیکھ دیکھ کر جلنے والے اُنہیں جولاہا کہا کرتے تھے۔ اِسی طرح دنیا کی کئی دیگر نامور شخصیات نےیا تو شروع میں خود ایسے پیشے اپنائے یا ایسے پیشے رکھنے والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے مثلاً امریکی صدر جنرل گرانٹ ایک چمرنگ کے بیٹے تھے۔ اِن کے والد صاحب کے کام کی صورتِ حال پڑھ کرانسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کے ایک پروفیسر ا ِن کی زندگی کے بارے میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں:
‘‘His father was a Tanner who took animal hides and processed them into leather…He made a good living but the work conditions were horrible…skinned and raw animal carcasses everywhere, their hides tossed into kettles of stinging, stinking chemicals. Although Grant occasionally worked in the tannery as a child but he hated the work and swore to his father that once he was an adult, he would never do it again.’’
(Biography written by Joan Waugh, Professor of History, University of California, Los Angeles.)
ترجمہ : اِن کے والد چمرنگ تھے جو جانوروں کی کھالوں سے چمڑا تیار کرتے تھے۔ اُنہوں نے اپنی گزارے کی صورت تو اچھی بنا لی تھی لیکن اُن کےکام کی صورتِ حال بہت ہی ہیبت ناک اور خوفناک تھی۔ ہر طرف کھال کے بغیر جانوروں کی لاشیں، بدبودار اور جلد کو کاٹنے والے کیمیکل کی کڑاہیوں میں پڑی ہوئی اُن جانوروں کی کھالیں۔ اگرچہ بچپن میں گرانٹ کو بھی کبھی کبھی یہ کام کرنا پڑتا تھا لیکن اُنہوں نے اپنے والد کے سامنے قسم کھائی تھی کہ جب وہ بڑے ہوں گے تو کبھی دوبارہ یہ کام نہیں کریں گے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں بڑی بڑی ایجادات کرنے والے جن سے آج مخلوقِ خدا فیض یاب ہو رہی ہے بنیادی طور پر اِسی قسم کے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ کس قدر ظلم اور زیادتی ہے کہ بعض معاشروں میں اِس ہنر مند طبقے کو جواپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے محنت کر کے ہزاروں قسم کی اشیا معاشرے کو مہیا کرتا ہےاور ایجادات کے ذریعے نوعِ انسانی کی خدمت کرتا ہےاور علم کی دولت دیتا ہے، ذلیل اور حقیر سمجھا جاتا ہے اور اُنہیں اُن کی قوموں یا مقام اور مرتبے کی بجائے اُن کے پیشوں کے حوالے سے یاد کیاجاتا ہے اور اگر وہ پیشہ ترک بھی کر دیں تو بھی صدیوں تک اُنہیں چڑانے کےلیے اُسی حوالے سے پکارا جاتا ہے۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭