الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ

ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ ستمبر 2013ء میں حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ کا ذکرخیر شائع ہوا ہے جو مکرم شفاقت احمد صاحب کے قلم سے مکرم نصراللہ خان ناصر صاحب کی سیرت اصحاب احمد ؑپر محرّرہ ایک کتاب سے منقول ہے۔قبل ازیں آپؓ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 29؍ستمبر 1995ء، 18؍اپریل 1997ء اور 4؍جون 2004ءکے شماروں میں بھی کالم ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ کی زینت بن چکا ہے۔

حضرت منشی صاحبؓ 1839ء میں محلہ قصاباں کپورتھلہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم محمد جیون کا انتقال آپؓ کے بچپن میں ہی ہوگیا جس کی وجہ سے آپؓ کو تعلیم چھوڑ کر کچہری میں ملازمت اختیار کرنی پڑی۔

‘‘براہین احمدیہ’’ کے ذریعے آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف ہوا اور اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپؓ کے دل میں حضورؑ کی محبت گھر کرگئی۔ 1884ء میں آپؓ نے بٹالہ کے مقام پر حضورؑ کی زیارت کی۔ آپؓ بیعت اولیٰ میں شامل ہوئے اور رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کا نام 36ویں نمبر پر درج ہے۔ آپؓ اُس وقت نقشہ نویس تھے۔

آپؓ کی ملازمت میں ترقی تدریجی تھی۔ آپؓ چپڑاسی بھرتی ہوئے تھے اور نائب تحصیل دار کے طور پر 1914ء میں ریٹائر ہوئے۔ ریاست کی طرف سے آپؓ کو خان صاحب کا خطاب ملا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے سچائی کے کاموں میں بہادر قرار دیا تھا۔ بہادر پٹھان ہوتے ہیں جبکہ مَیں چھنبہ ذات ہوں۔ مگر حضورؑ کی بات کو سچا کرنے کے لیے خدا نے مجھے خان صاحب کا خطاب دلوایا۔

آپؓ پیسے جمع کرتے رہتے اور جب قادیان جانے کے لیے کافی ہوجاتے تو قادیان کا سفر کرتے۔ جن دنوں آپؓ سیشن جج کے دفتر میں ملازم تھے تو آپؓ نے قادیان جانے کے لیے چھٹی مانگی۔ مجسٹریٹ نے کہا کہ کام بہت ہے چھٹی نہیں دی جاسکتی۔ منشی صاحبؓ نے کہا کہ مَیں تو آج ہی دعا میں لگ جاتا ہوں۔ آخر مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان ہوا کہ وہ ہر ہفتے کے دن خود ہی حکم دیتا کہ چونکہ منشی صاحب نے قادیان جانا ہوتا ہے اس لیے کام جلدی بند کردیا جائے۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اپنی کتاب ‘‘ازالۂ اوہام’’ میں آپؓ کے بارے میں فرماتے ہیں:

‘‘منشی صاحب محبت اور خلوص اور ارادت میں زندہ دل آدمی ہیں، سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں … ان کو اس عاجز سے نسبت عشق ہے۔’’

پنشن پانے کے بعد حضرت منشی صاحبؓ قادیان آگئے اور یہیں 25؍اکتوبر 1919ء کو وفات پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جنازہ کو کندھا دیا اور تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔ آپؓ نے پسماندگان میں ایک بیٹی چھوڑی۔

………٭………٭………٭………

قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ اگست 2012ء میں مکرم طاہر نقاش صاحب کے قلم سے ایک تاریخی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں قیامِ پاکستان کے دوران جماعت احمدیہ کے کردار پر مختلف اخبارات و مطبوعات سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

٭…… 1933ء میں قائداعظم محمد علی جناحؒ جب کانگریس میں شامل ہندوذہنیت رکھنے والے علماء کے رویے سے مایوس ہوکر انگلستان جابسے تو حضرت مصلح موعودؓ نے معاملے کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے لندن مشن کے امام مکرم مولانا عبدالرحیم درد صاحب کے ذریعے قائداعظم کو واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالنے کی تحریک فرمائی۔ یہ کوشش کامیاب ہوئی اور اس کا اعلان قائداعظم نے مسجد فضل لندن میں خطاب کرتے ہوئے یوں کیا: ‘‘امام مسجد فضل لندن کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لیے کوئی راہ بچنے کے لیے نہ چھوڑی۔’’ (تاریخ احمدیت جلد ششم)

اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز صحافی جناب م ش نے لکھا: ‘‘یہ مسٹر لیاقت علی خان اور مولانا عبدالرحیم درد ہی تھے جنہوں نے مسٹر محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ اپنا ارادہ بدلیں اور وطن واپس آکر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔’’

(پاکستان ٹائمز 11؍ستمبر 1981ء)

٭…… جب حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو ہندوستانی وفد کے قائد کی حیثیت سے کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا تو آپؓ نے انگریزی حکومت کے سامنے ہندوستان کی آزادی کا مطالبہ ایسے مدلّل اور زوردار الفاظ میں پیش کیا کہ ہندو اخبار ‘‘پربھارت’’ نے بھی 20؍فروری 1945ء کی اشاعت میں لکھا: ‘‘ایک ایک ہندوستانی کو سر ظفراللہ خان کا ممنون ہونا چاہیے کہ انہوں نے انگریزوں کے گھر جاکر حق کی بات کہہ دی۔’’

٭…… 1945ء کے آخر میں جب وائسرائے ہند سردیول نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو ہندو کانگریس نے مسلمان علماء کے ذریعے پاکستان اور مسلم لیگ کے خلاف پراپیگنڈہ کا ایک جال پھیلادیا تا مسلم لیگ ان انتخابات میں ناکام ہو اور پاکستان کا قیام عمل میں نہ آسکے۔ ایسے وقت میں حضرت مصلح موعودؓ نے مسلم لیگ کی پالیسی کی حمایت کا اعلان فرمایا۔ حضورؓ کا ایک خط قائداعظم نے خود پریس کو جاری کیا۔مجلس احرار اسلام نے ان حالات کا نقشہ یوں کھینچا ہے:

‘‘1945ء میں جب انتخابات کا زمانہ شروع ہوا تو مرزائیوں اور لیگیوں میں خفیہ سازباز شروع ہوئی۔ مرزا محمود احمد خلیفہ قادیان نے اکتوبر کے مہینے میں ایک اہم اعلان کیا …… اس کے بعد مسٹر جناح نے کوئٹہ میں تقریر کی اور مرزا محمود احمد صاحب کی پالیسی کو سراہا اور اس کے بعد سنٹرل اسمبلی کے الیکشن ہوئے تو تمام مرزائیوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیے یہاں تک کہ … کسی زمانہ میں مرزائیوں کے شدید ترین دشمن … مولانا ظفر علی خان کے حق میں ووٹ ڈالے گئے۔’’

(مسلم لیگ اور مرزائیوں کی آنکھ مچولی پر تبصرہ)

٭…… انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت کے قیام میں ایک بہت بڑی روک خضر حیات خان کی وزارت تھی اور مسلم لیگ کے ذمہ دار اکابرین سر خضرحیات کو وزارت سے استعفیٰ دینے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس نازک موقعے پر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے ذریعے سر خضرحیات کو استعفیٰ دینے پر آمادہ کیا اور اس طرح پنجاب کی پاکستان میں شمولیت ممکن ہوئی۔ اس کا ذکر اخبارات ‘‘ٹریبیون’’ (5؍مارچ 1947ء) اور ‘‘ملاپ’’ (20؍فروری 1951ء) نے بھی کیا۔

٭…… 30؍جون 1947ء کو پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے لیے ایک حدبندی کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا گیا۔ اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کی ہدایت پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک محضرنامہ پیش کیا گیا تا پنجاب کی حدود کو مسلم اکثریتی ضلع گورداسپور تک پھیلایا جاسکے۔

اس محضرنامہ کی تیاری کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے امریکہ اور برطانیہ سے نہایت قیمتی باؤنڈری لٹریچر بذریعہ ہوائی جہاز منگوایا اورغیرملکی ماہرین کی خدمات حاصل کیں جس پر جماعت احمدیہ نے ہزاروں روپیہ خرچ کیا۔

مسلم لیگ کی طرف سے باؤنڈری کمیشن کے سامنے کیس پیش کرنے کی اہم ذمہ داری قائد اعظمؒ نے حضرت ظفراللہ خان صاحبؓ کے سپرد کی۔ آپؓ نے جس مدلّل اور پُرشوکت انداز میں اپنا کیس پیش کیا اس کا ذکر اخبار ‘‘نوائے وقت لاہور’’نے یوں کیا: ‘‘سرظفراللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی طرف سے نہایت مدلّل نہایت فاضلانہ اور نہایت معقول بحث کی …سر ظفراللہ خان کو کیس کی تیاری کے لیے بہت کم وقت ملا مگر اپنے خلوص اور قابلیت کے باعث انہوں نے اپنا فرض بڑی خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ پنجاب کے سارے مسلمان بلالحاظ عقیدہ ان کے اس کام کے معترف اور شکرگزار ہوں گے۔’’

(بتاریخ یکم اگست 1947ء)

٭…… قائداعظم نے حضرت چودھری سرظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپؓ کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا اور 25؍دسمبر 1947ء کو پاکستان کا پہلا وزیرخارجہ مقرر فرمایا۔ اخبار ‘‘نوائے وقت’’ لکھتا ہے:

‘‘قائداعظم نے خوش ہوکر آپ کو یو این او میں پاکستانی وفد کا قائد مقرر کیا۔ … آپ نے ملک و ملّت کی شاندار خدمات سرانجام دیں تو قائداعظم انہیں پاکستان کے اس عہدہ پر فائز کرنے کے لیے تیار ہوگئے جو باعتبار منصب وزیراعظم کے بعد سب سے اہم اور وقیع عہدہ شمار ہوتا ہے۔’’(مؤرخہ 24؍اگست 1948ء)

………٭………٭………٭………

مکرم عبدالحکیم جوزا صاحب مربی سلسلہ

روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 9؍جنوری 2013ء میں مکرم عبدالحکیم جوزا صاحب مربی سلسلہ کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ مکرم محمد موسیٰ صاحب آف ڈیرہ غازیخان کے بیٹے تھے۔ 3؍جنوری 2013ء کی شب 76 سال کی عمر میں وفات پائی۔ بوجہ موصی ہونے کے تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔

مرحوم پاکستان کے مختلف مقامات کے علاوہ گھانا میں بھی بطور مبلغ سلسلہ خدمات بجالاتے رہے۔ ربوہ میں قرآن کریم کی پروف ریڈنگ کے کام کے علاوہ وکالت تصنیف اور بطور استاد جامعہ احمدیہ بھی خدمت کی توفیق پائی۔ غریب پرور تھے اور خدمت خلق ان کی فطرتِ ثانیہ تھی۔ کبھی کسی کی دل آزاری نہ کی اور نہ ہی کسی سے ناراض ہوئے۔ اگر کسی نے سخت الفاظ استعمال بھی کیے تو بس یہی کہا کہ اللہ سب پر اپنا فضل فرمائے مَیں تو آپ سے ناراض نہیں ہوں۔ مرحوم نے لواحقین میں بیوہ مکرمہ مبارکہ خانم صاحبہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم اعجاز احمد کلیم صاحب نصرت جہاں انٹرکالج ربوہ میں اور بیٹی مکرمہ عائشہ ثمینہ صاحبہ نصرت جہاں اکیڈمی میں ٹیچر ہیں۔

………٭………٭………٭………

سچل سرمستؒ

ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ ستمبر 2012ء میں وادیٔ سندھ کے مشہور صوفی شاعر اور بزرگ سچل سرمستؒ کے بارے میں تحریر ہے کہ آپ خیرپور کے ایک قصبے دلازا میں 1739ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام عبدالوہاب تھا۔ والد کا نام صلاح الدین تھا۔ آپ کا شجرہ نسب 38ویں پشت پر حضرت عمرؓ سے جاملتا ہے۔ آپ کا صوفیانہ کلام سندھی کے علاوہ پنجابی، اردو، فارسی اور سرائیکی میں بھی ملتا ہے۔ آپ کو ہفت زبان شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سے بھی فیض حاصل کیا۔ چودہ برس کی عمر میں عربی اور فارسی زبان سیکھ لی اور قرآن مجید بھی حفظ کرلیا تھا۔ آپ کی وفات 1826ء میں ہوئی۔

………٭………٭………٭………

مجلس انصاراللہ جرمنی کے سہ ماہی ’’الناصر‘‘ اپریل تا جون 2012ء میں ایک محفل مشاعرہ کی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں مکرم خواجہ حنیف تمنّا صاحب کا درج ذیل نمونہ کلام شامل ہے:

ہمیں مٹائے گا کذب و شر سے، عدوّ خوش فہم کو یقیں ہے

ہمیں تعجب ہے اس امر پر یہ کس خیال و گمان میں ہے

اسے بھروسہ ہے اپنی طاقت پہ اور بارودی اسلحے پر

ہمارا تیرِ دعا بہدفِ مراد ربّ کی کمان میں ہے

یہ منکرانِ مسیح دیکھو تو حالتِ اضطرار میں ہیں

نہ جانے ان کو ہے زُعم کیسا نہ جانے یہ کس خمار میں ہیں

بہار تو آچکی ہے لیکن یہ انتظارِ بہار میں ہیں

کہ آنے والا تو آچکا ہے یہ دائمی انتظار میں ہیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button