اگر تم تقویٰ کرنے والے ہوگے تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی
فرمایا۔ ہمیں جس بات پر مامور کیا ہے۔ وہ یہی ہے کہ تقویٰ کا میدان خالی پڑا ہے تقویٰ ہونا چاہیے نہ یہ کہ تلوار اٹھائو۔ یہ حرام ہے۔ اگر تم تقویٰ کرنے والے ہوگے۔ تو ساری دنیا تمہارے ساتھ ہوگی۔ پس تقویٰ پیدا کرو۔ جو لوگ شراب پیتے ہیں یا جن کے مذہب کے شعائر میں شراب جزواعظم ہے ان کو تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ وہ لوگ نیکی سے جنگ کر رہے ہیں۔ پس اگر اﷲ تعالیٰ ہماری جماعت کو ایسی خوش قسمت دے اور انہیں توفیق دے کہ وہ بدیوں سے جنگ کرنے والے ہوں اور تقویٰ اور طہارت کے میدان میں ترقی کریں یہی بڑی کامیابی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی چیز مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس وقت کل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض تقویٰ مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ حقیقی خدا چھپ گیا ہے اور سچے خدا کی ہتک کی جاتی ہے مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھتے ہیں وہ متوکل نہیں ہوسکتے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 357تا358۔ایڈیشن 1984ء)
جو لوگ نری بیعت کرکے چاہتے ہیں کہ خدا کی گرفت سے بچ جائیں۔ وہ غلطی کرتے ہیں۔ ان کو نفس نے دھوکا دیا ہے۔ دیکھو طبیب جس وزن تک مریض کو دوا پلانی چاہتا ہے۔ اگر وہ اس حدتک نہ پیوے تو شفا کی امید رکھنی فضول ہے۔ مثلاً وہ چاہتا ہے کہ دس تولہ استعمال کرے اور یہ صرف ایک ہی قطرہ کافی سمجھتا ہے یہ نہیں ہوسکتا پس اس حد تک صفائی کرو۔ اور تقویٰ اختیار کرو جو خدا کے غضب سے بچانے والا ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ رجوع کرنے والوں پر رحم کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا۔ تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ انسان جب متقی ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور اس کے غیر میں فرقان رکھ دیتا ہے اور پھر اس کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے نہ صرف نجات بلکہ
يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطّلاق: 4)۔
پس یاد رکھو جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے خدا تعالیٰ اس کو مشکلات سے رہائی دیتا ہے اور انعام و اکرام بھی کرتا ہے اور پھر متقی خد اکے ولی ہو جاتے ہیں۔ تقویٰ ہی اکرام کا باعث ہے کوئی خواہ کتنا ہی لکھا پڑھا ہوا ہو وہ اس کی عزت و تکریم کا باعث نہیں اگر متقی نہ ہو۔ لیکن اگر ادنیٰ درجہ کا آدمی بالکل اُمّی ہو مگر متقی ہو وہ معزز ہوگا۔ یہ دن خدا تعالیٰ کے روزہ کے ہیں۔ ان کو غنیمت سمجھواس سے پہلے کہ وہ اپنا روزہ کھولے تم اس سے صلح کر لو اور پاک تبدیلی کر لو۔ جنوری کا مہینہ باقی ہے۔ فروری میں پھر وہی سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ ایسی بلائوں کا باعث صادق کی تکذیب ہوتی ہے۔ اس لئے اَور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا۔ بعض صحابہ ؓبھی اس مرض سے مرے ہیں لیکن وہ شہید ہوئے۔ جیسے لڑائیاں جو دشمنوں کی ہلاکت کا موجب تھیں ان میں مرنے والے صحابہ بھی شہید ہوئے تھے۔ جو نیک آدمی مرجاتا ہے اس کو بشارتِ شہادت ملتی ہے جو بد آدمی مرتا ہے اس کا انجام جہنم ہے۔ جو شخص نیکیوں میں ترقی کرتا ہےاور خدا سے پناہ مانگتا رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو بچا لیتا ہے۔ دیکھو ایک لاکھ چوبیس ہزار یا کم وبیش واﷲ اعلم پیغمبر گذرے ہیں۔ مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے بھی ہلاک ہوا تھا۔ ہرگز نہیں۔ یہ بلابھی مامور ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے حکم سے نازل ہوتی ہے۔ اس کی مجال نہیں کہ بِلا حکم کوئی کام کرے۔
(یہاں حضرت اقدس نے ہاتھی والی رئویا سنائی جو کئی مرتبہ شائع ہوئی)
پھر فرمایا کہ اگرچہ آج کل کسی قدر امن ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ وہ وقت خطرناک زور کا قریب ہے اس لئے ہماری جماعت کو ڈرنا چاہیے۔ اگر کسی میں تقویٰ ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ تو وہ بچایا جائے گا۔ اس سلسلہ کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے۔ پس جو متقی بنیں گے ان کو معجزہ کے طور پر بچایا جائے گا۔
عرب صاحب نے پوچھا جو لوگ حضور کو برا نہیں کہتے اور آپ کی دعوت کو نہیں سنا۔ وہ طاعون سے محفوظ رہ سکتے ہیں یا نہیں۔
فرمایا: میری دعوت کو نہیں سنا تو خدا کی دعوت تو سنی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں۔ پس جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے خواہ اس نے ہماری دعوت سنی ہو یا نہ سنی ہو کیونکہ یہی غرض ہے ہماری بعثت کی۔ اس وقت تقویٰ عنقا یا کبریت کی طرح ہو گیا ہے۔ کسی کام میں خلوص نہیں رہا بلکہ ملونی ملی ہوئی ہے۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس ملونی کو جلا کر خلوص پیدا کرو۔ اس وقت
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الرّوم:42)
کا نمونہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت یورپ اور دیگر ممالک کی بگڑی ہوئی حالتوں کا علم نہ تھا۔ خدا تعالیٰ کی وحی پر ایمان تھا اور اب عرفان کی حالت پیدا ہو گئی ہے جو چاہے ان ممالک میں جا کر دیکھ لے۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 361تا363۔ایڈیشن 1984ء)