قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید (قسط چہارم)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب اسلام باہر کے ممالک میں پھیلا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تو اُن کے لئے یہی مشکل پیش آئی کہ وہ نمازیں کس طرح پڑھیں، قرآن کس طرح پڑھیں جبکہ اُن کو عربی ہی نہیں آتی۔ اِس حالت کو دیکھ کر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فتویٰ دے دیا کہ گو نماز کو اصل صورت میں پڑھنا زیادہ ثواب کا موجب ہے لیکن جو قرآن شریف نہیں پڑھ سکتے اور نماز بھی عربی میں نہیں پڑھ سکتے وہ قرآن کا ترجمہ پڑھ لیا کریں اور یہ بھی جائز ہے کہ نمازکا بھی اپنی زبان میں ترجمہ کرلیں اور اسے یاد کرلیں اور نماز دل میں پڑھا کریں۔غرض ایک تو وہ لوگ تھے کہ وہ جب
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
پڑھتے تھے تو جانتے تھے کہ اِس کے کیا معنی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کے کیا معنی ہیں لیکن ایک آجکل کے لوگ ہیں جو مسلمان تو ہیں لیکن قرآن شریف کو نہیں جانتے اسلام سے محض ناواقف ہیں۔ ان دونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص وہ ہے جو ٹرنک کھولتا ہے اور اُس میں سے کپڑے نکال کر دیکھتا ہے کہ یہ پاجامہ ہے، یہ قمیض ہے، یہ کوٹ ہے، یہ پگڑی ہے اور ایک اَور انسان ہے وہ ایک ٹرنک جس کو تالا لگا ہوا ہے اُس پر ہاتھ پھیرلیتا ہے کیا اِن دونوں میں کوئی نسبت ہو سکتی ہے؟ جس شخص کو قرآن شریف کے معنی نہیں آتے اُس کی مثال تو ویسی ہے جیسے ٹرنک پر ہاتھ پھیرنے والاانسان۔ اُس کو نہ کپڑے دیکھنے اور نہ استعمال کرنے کی توفیق ہوئی، نہ اُس نے ہاتھوں سے اُن کپڑوں کو ٹٹولا، نہ اُس کے جسم نے انہیں پہنا اور نہ ہی پہن سکتا ہے کیونکہ ٹرنک کو تالا لگا ہوا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اُس شخص کی مثال کی طرح کس طرح ہو سکتی ہے جس کے پاس اس ٹرنک کی چابی ہے وہ چابی سے تالا کھولتا ہے، کپڑے پہنتا ہے اور اس سے اپنے جسم کو ڈھانکتا ہے اور اسے خوشنما بنا کر دوستوں کو دکھاتا ہے اِن دونوں میں تو کوئی نسبت ہی نہیں۔ تو جب تک قرآن شریف کو ہم کھول کر لوگوں کے سامنے نہیں لے آتے اورجب تک لوگوں کو اس سے اچھی طرح واقف نہیں کرادیتے اُس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ ہم کوئی تغیر پیدا کر لیں گے غلط ہے۔ اور ہماری حالت اُس برہمن کی سی ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ایک دن جبکہ بہت زیادہ سردی تھی نہانے کے لئے دریا پر گیا زیادہ سردی کی وجہ سے وہ راستہ میں ٹھٹھررہا تھا اور ڈر رہا تھاکہ اگر دریا میں نہایا تو بیمار ہو جاؤں گا لیکن چونکہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ برہمن کوضرور روزانہ دریا پر (دریا اگر پاس ہو) تو نہانا چاہئے اِس لئے باوجود سخت سردی کے وہ دریا کی طرف چل دیا۔ جب وہ دریا کی طرف جارہا تھا تو راستہ میں اسے کوئی دوسرا برہمن آتا ہوا نظر آیا اُس کو دیکھ کر اُس نے کہا کیا کریں آج تو نہایا نہیں جاتا بڑی سردی ہے تم نے کیا کیا؟ دوسرے برہمن نے جواب دیا کہ میں نے تو یہ کیا کہ ایک کنکر اُٹھا کر دریا میں پھینکا اور کہا ’’توراشنان سومور اشنان‘‘ یعنی تیرا نہانا میرا نہانا ہوگیا میں یہ کہہ کر واپس آگیا۔ اس پر وہ برہمن کہنے لگا ’’تور اشنان سوموراشنا ن‘‘ یہی بات ہے تو پھر تیرا نہانامیرا نہانا ہو گیا۔یعنی کنکر کا نہانا اِس برہمن کا نہانا ہو گیا اور اُس برہمن کا نہانا اِس دوسرے برہمن کا نہانا ہوگیا۔یہی اِس وقت کے لوگوں کی حالت ہے جب کسی سے کوئی اس کے مذہب کے متعلق سوال کرے تو کہہ دیتے ہیں ہمارے مولوی صاحب خوب جانتے ہیں۔گویا ان کے دماغوں کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ بے کار ہو چکے ہیں۔ قرآن شریف کا جاننا تو الگ رہا اِن کی حالت تو اُس شخص کی طرح ہے جو صرف ٹرنک پر ہاتھ پھیرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا اور پا لیا۔
میں جس وقت حج کے لئے گیا تو میاں عبدالوہاب صاحب ایک شخص سہارن پور کے رہنے والے تھے وہ بھی حج کے لئے گئے ہوئے تھے وہ چونکہ بہت ہی سیدھے سادھے آدمی تھے اِس لئے لوگ اُن سے مذاق کرتے تھے۔ اُن کے پاس تھوڑے سے روپے تھے جو اُن کے لڑکوں نے اُن کو دیئے تھے کچھ شرارتی لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ وہ روپیہ اُن سے لے لیں۔ میں مصر کے راستہ سے گیا تھا اور ہمارے نانا صاحب میرناصر نواب صاحب مرحوم جو جہاز سیدھا عرب جاتا ہے اُس میں گئے تھے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ لوگ ان سے مذاق کرتے ہیں اور ان سے روپیہ لوٹ لینا چاہتے ہیں تو انہوں نے ان کو اپنی حفاظت میں لے لیا۔ وہ جہاز سے اُترے اور مجھ سے ملے تو میاں عبدالوہاب صاحب ان کے ساتھ تھے۔مَیں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ بڑا سادہ آدمی ہے اور اس کی سادگی کی وجہ سے کچھ شرارتی لوگ اِس کو لُوٹنا چاہتے تھے اس لئے اس کو میں نے اپنے ساتھ لے لیا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی وہ بڑا سادہ آدمی تھا۔ قرآن شریف کا ان کو کچھ پتہ نہیں تھا، نماز انہیں آتی نہیں تھی۔ میں حیران تھا کہ جب اِن کو دین کا کچھ علم ہی نہیں تو آخر وہ کس طرح یہاں آئے؟ میں نے اُن سے پوچھا آپ کا مذہب کیا ہے؟ یہ سوال کر کے میں منٹ بھر خاموش انتظار کرتا رہا جب اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو میں سمجھا کہ شایدسنا نہیں۔ پھر میں نے اِسی سوال کو اونچی آواز سے دُہرایا کہ میاں عبدالوہاب! تمہارا مذہب کیا ہے؟ وہ کہنے لگے جلدی نہ کرو سوچ کر جواب دیتا ہوں۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ سوچنے کا کیا مطلب، حساب تھوڑا ہی ہے کہ ضربیں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا میاں عبدالوہاب! میں نے مذہب پوچھا ہے سوچنے والی بات کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یونہی نہ گھبرا دیا کرو ذرا سوچ تو لینے دو۔ پھر میں نے کہا اس کا تو ہر ایک کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہنے لگے واپس جاؤں گا تو مُلاّ سے لکھوا کر بھیجوں گا۔ میں نے کہا مَیں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھ رہا آپ کا مذہب پوچھ رہا ہوں۔ پھر کہنے لگے ٹھہر جائیں ذرا سوچ تو لینے دیں آپ تو گھبرا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد سوچ سوچ کر کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ۔ میرے ذہن میں نہ آیا کہ علیہ کا کیا مطلب ہے۔ میں نے کہا کہ علیہ تو آج تک کوئی مذہب نہیں سنا۔ پھر انہوں نے کہا تم تو گھبرا دیتے ہو سوچنے نہیں دیتے۔ خیر تھوڑی دیر تک علیہ علیہ کر کے کہنے لگے میرا مذہب ہے علیہ امام۔ اُس وقت میرا ذہن اِس طرف گیا کہ علیہ امام سے مطلب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ تب میں نے جان کر اُنہیں چڑانا شروع کیا کہ بتائیے آپ کا مذہب کیا ہے چپ کیوں ہیں؟ اِس پر وہ پھر کہنے لگے مَیں نے جو کہا ہے مُلاّ سے لکھوا دوں گا۔ مَیں نے پھر کہا کہ میں مُلاّ کا مذہب نہیں پوچھتا آپ کا پوچھتا ہوں۔ آخر بڑا سوچ سوچ کر انہوں نے کچھ اس قسم کا فقرہ کہا رحمۃ اللہ امام علیہ۔ اِس پر مَیں نے کہا میاں عبدالوہاب! آپ کے یہاں آنے کا کیا فائدہ تھا، آپ خواہ نخواہ اس بڑھاپے میں حج کے لئے چلے آئے آپ کو تو اسلام کا کچھ بھی پتہ نہیں۔ وہ بڑے غصہ میں آ کر بولے۔ میرے بیٹوں نے مجھے مجبور کیا کہ ابا! جا کر حج کر آؤ تب ہم خوش ہونگے۔ مجھے کیا پتہ حج کیا ہوتا ہے۔جب مسلمانوں کی یہ حالت ہو تو کیا اِس پر یہ امید کی جاتی ہے کہ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی۔ جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ خدا اور رسول کیا چیز ہے وہ خدا اور رسول کی کیا حکومت قائم کر سکتا ہے وہ تو جب بھی قائم کرے گا اپنے نفس کی حکومت قائم کرے گا تو قرآن شریف جانے بغیر اور اس کو سمجھے بغیر خدا کی حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔
ہماری قربانیاں بے شک قابلِ قدر ہیں، ہمارے چندے بھی بے شک قابلِ قدر ہیں اور ہماری تبلیغ بھی قابلِ قدر ہے مگر ہم کس چیز کو قائم کرنا چاہتے ہیں؟ خدا اور اُس کے رسول کی حکومت کو؟ مگر خدا اور اس کے رسول کی حکومت بغیر قرآن شریف سمجھے قائم نہیں ہو سکتی۔ ہمیں کیا پتہ ہے کہ جس وقت اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا اُس وقت کون زندہ ہوگا، ہمیں کیا پتہ ہے کہ اگر ہم زندہ بھی ہوں گے تو اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق ہمیں ملے گی یا کسی اَور کو۔ کیونکہ ہر انسان ہر جگہ موجود نہیں ہوتا۔ پس کیا معلوم کہ جسے اسلام کا جھنڈا گاڑنے کی توفیق حاصل ہوگی وہ کون سا ہاتھ ہوگا۔ اگر اُن انسانوں کو جو ہمارے قائم مقام ہونگے اگر اُن کے زمانہ میں جھنڈا گڑا یا اس جگہ پر جہاںجھنڈا گاڑا گیا جو ہمارا قائم مقام ہوا اگر اُس کو قرآن شریف کا پتہ نہیں ہوگا تو اُس نے کیا کرنا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ ایک پٹھان تھا اُس کو خواہش پیدا ہوگئی کہ کسی کو کلمہ پڑھا کر مسلمان بناؤں۔ اُسی گاؤں میں جس میں وہ رہتا تھا ایک بنیا تھا ایک دن اُسے اکیلا دیکھ کر اُسے جوش آ گیا اُس نے اُسے پکڑ لیا اور کہا کلمہ پڑھ، نہیں تو مارتا ہوں۔ اُس نے کہا میں کلمہ کس طرح پڑھوں؟ میں تو مسلمان نہیں ہوں۔ کہنے لگا خو مسلمان ہے یا نہیں آج تم کو کلمہ ضرور پڑھوانا ہے کیونکہ تم کو مسلمان کر کے میں نے جنت میں جانا ہے۔ لالہ نے بڑی منتیں کیں اور ٹالتا رہا کہ شاید اِس عرصہ میں کوئی دوسرا آدمی آ جائے اور میرا چھٹکارا ہو مگر اتفاق کی بات کہ اُس وقت کوئی دوسرا وہاں نہ پہنچا۔ بزدل آدمی کو جان زیادہ پیاری ہوتی ہے جب دیکھا کہ اتنی دیر سے کوئی نہیں آیا تو کہنے لگا اچھا تم کلمہ بتاتے جاؤ میں پڑھتا جاتا ہوں۔ پٹھان نے کہا خو تم آپ پڑھو۔ بنیےنےکہا میں ہندو ہوں مجھے کلمے کا کیا پتہ۔ اس پر پٹھان بولا خو تمہارا قسمت بڑا خراب ہے کلمہ تو مجھ کو بھی نہیں آتا، نہیں تو آج تم مسلمان ہو جاتا اور ہم جنت میں چلا جاتا۔ یہی قرآن نہ جاننے والوں کی حالت ہے۔ اس حالت میں کیا چیز ہے جو ہم دنیا کے سامنے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ اگر ہم بھی قرآن شریف جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی طرف پیغام ہے اس کو نہیں جانتے، اگر ہمیں اِس کا کچھ علم ہی نہیں اور اِس کی بجائے ہم اپنی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ غلط بات اور لغو خیال ہے۔
٭…٭…(جاری ہے )…٭…٭