حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کےقبولیت دعا کے چند واقعات
(حضرت مولانا صاحبؓ کے اپنے الفاظ میں)
اس سے قبل کہ خاکسار اصل مضمون کے سلسلہ میں کچھ عرض کرے۔ خاکسار اپنا اور اپنی جماعت کا مختصر تعارف کرانا چاہتا ہے جو مجھے امید ہے کہ اس کا اصل مضمون سے ایک لحاظ سے تعلق بھی ہے اور یقینا ًقارئین اس حصے سے بھی ضرور مستفید ہوں گے۔
ہندوستان کی تقسیم کے وقت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت کے نوجوانوں کو تحریک فرمائی کہ قادیان میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو پیش کریں۔ حضورؓ کو 313نوجوان احمدیوں کی اس تحریک پر لبیک کہنے کی توقع تھی۔ چنانچہ جماعت کے نوجوانوں نے اپنے پیارے امام کی آواز پر والہانہ انداز میں لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ ان میں میرے والد صاحب (بشیر احمد ٹھیکیدار) بھی شامل تھے۔ چنانچہ ہماری والدہ ہم دو بھائیوں اور دو بہنوں کو لے کر ہجرت کر کے پاکستان آ گئیں اور ہم سب بچے اپنی والدہ کے ساتھ چونڈہ ضلع سیالکوٹ میں ننھیال کے پاس رہائش پذیر ہوئے۔ لیکن 1952ءمیں محترمہ والدہ صاحبہ نے محسوس کیا کہ بچوں کی تربیت اور صحیح تعلیم کے حصول کے لیے ربوہ جاکر رہنا زیادہ بہتر ہو گا۔ انہوں نے ہمارے والد صاحب سے اس خواہش کا ذکرکیا جس پر ابا جان نے خوشی کا اظہار کیا۔
ربوہ میں قیام کے دوران خاکسار کی ملاقات مسجد آتے جاتے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ سے ہو جاتی۔ ان کے زہد و تقویٰ کا چرچا ہر ایک کی زبان پر تھا۔ لیکن میری لڑکپن کی عمر تھی اور مجھے ان کے مقام کا صحیح ادراک نہیں تھا۔ ایک روز میں ان سے ملنے کے لئےان کے گھر چلا گیا۔ وہ اپنے مکان کے صحن میں ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ ان سے کوئی بات ہوئی یا نہیں لیکن اتنا ضرور یا دہے کہ میں ان کی شخصیت سے اس دن اتنا متاثر ہوا کہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ واقعہ میری زندگی پربہت اثر انداز ہوا۔ اور اتنے سالوں کے بعد آج بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
1954ء کے شروع میں میری والدہ کو میرے بھائی اور دونوں بہنوں کے ساتھ قادیان جا کر رہنے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ وہ مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کروا کر قادیان چلی گئیں۔ ان کو یہ احساس تھا کہ جس مقصد کے لیے وہ ربوہ آئی تھیں۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ میری تعلیم ربوہ میں جاری رہے۔ چنانچہ میں نے 1954ء میں تعلیم ا لاسلام ہائی سکول سے اچھی فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران میں سکول کی چھٹیوں میں اکثر قادیان چلا جاتا اور چھٹیاں وہاں گزارتا۔
قادیان میں موجود درویشان میں ایک وہ ہستی بھی تھی جو حضرت مولانا غلام رسو ل صاحب راجیکی ؓکے بیٹے مولوی برکات احمد راجیکی صاحب تھے۔ ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی جس سے میں بہت متاثر ہوا۔ اس لیے بھی کہ وہ زہد و تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائزباپ کے انتہائی نیک برخوردار اور دعا گو انسان تھے۔
جب قادیان سے واپس آتا تو ایک عرصہ تک اداسی خاکسار کو گھیرے رہتی جس کانتیجہ یہ ہوا کہ خاکسار نے اپنے والدین کی رضامندی سے1955ء میں تعلیم الاسلام کالج میں ایک سال تعلیم پانے کے بعد جہاں مجھے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ جو اُس وقت کالج کے پرنسپل تھےاور ان کی شفقتوں سے وافر حصہ ملا، سیالکوٹ آ کر اپنی دادی محترمہ کے پاس رہنے لگا جہاں دو سال بعد شدید بیمار ہو گیا اور ڈاکٹروں نے تپ دق کی نشاندہی کی اورمیں کچھ عرصہ ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے مکمل شفا عطا فرمائی۔ خاکسار نے 1962ء میں بی ایس سی کی ڈگری حا صل کی اور پھر خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ مجھے یوکے کی منسٹری آف ایمپلائمنٹ کی طرف سے ملازمت کے لیے یوکے آنے کا خط ملا۔
1963ء میں خاکسار انگلینڈآ کر بریڈفورڈ میں رہائش پذیر ہوا۔ اُس وقت بریڈفورڈ میں گنتی کے چند احمدی تھے۔ لیکن باقاعدہ جماعت نہیں تھی۔ 1964ء میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ اس وقت کے مبلغ انچارج مولانا رحمت خاں صاحب کے ہم راہ بریڈفورڈ تشریف لائے تا کہ یہاں باقاعدہ جماعت قائم کی جائے۔ خاکسار کو اچھی طرح یاد ہے کہ ان کی آمد پر ایک اجلاس Dawnay Roadمیں منعقد ہوا جس میں قریباً دس احمدی شامل ہوئے جن میں خاکسار بھی شامل تھا۔ اُس اجلاس کا آج کی بریڈفورڈ جماعت سے موازنہ کریں تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتاہے۔ آج بریڈفورڈ میں دو جماعتیں۔ بریڈفورڈ نارتھ اوربریڈفورڈ ساؤتھ ہیںجن کی مشترکہ تجنیدتقریباً 800 افراد پر مشتمل ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے بارے ایک نظم میں تحریر فرمایا:
با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں
یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ یَّرَانِیْ
آج یہ دعا آپؑ کی روحانی اولاد کے لیے بھی پوری ہو رہی ہے۔ الحمد للہ۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ کا شمار سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ان صحابہ میں ہوتا ہے جو صاحبِ رؤیا و کشوف تھے۔ ان کے بارے میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ ان کی ربُّ الکریم کے حضور دعائیں بہت ہی مقبول ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو دعا کرتے ہی دعا کی درخواست کرنے والے کو بتا دیا کرتے تھے کہ دعا قبول ہوئی ہے یا نہیں اور اگر قبول ہوئی ہے تو کس رنگ میں اور کب قبولیت ظاہر ہو گی۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نہ صرف صاحب رؤیا و کشو ف بزرگ تھےبلکہ آپ انتہائی کامیاب مناظربھی تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور پنجابی میں شاعرانہ مزاج بھی رکھتے تھے۔ اس جگہ خاکسار ان کے کلام سے بطور نمونہ مختلف زبانوں میں کہے گئے چند اشعار پیش کرتا ہے۔
درویشان قادیان کے متعلق ان کی نظم کے دو اشعار درج ہیں:
زہے قسمت کہ دنیا میں فدائے قادیاں تم ہو
مسیحائے محمدؐ کے نشانوں میں نشاں تم ہو
تمہاری شان درویشی پہ قرباں تاجداری ہے
کہ محبوب خدا کے آستاں کے پاسباں تم ہو
(حیات قدسی، حصہ سوم صفحہ 111)
اب ان کا پنجابی مشہور کلام ’جھوک مہدی والی‘ سے انتخاب پیش ہے :
سُنیو نی سیو ماہی بدلے نے دیس نی
چھوڑ مدینہ آ گئے ساڈ ڑ ے دیس نی
نبی محمد ہوئے مہدی دے دیس نی
جھوک مہدی والی ہوئی منظور ئے
قادیئیں وسیا احمد نبی دا نور ئے
نام مولا دے منّوں رسول نوں
پاک مسیح احمد مہدی مقبول نوں
جھوک ہادی والی
( حیات قدسی، حصہ چہارم صفحہ402)
عربی قصیدہ کے دو اشعار حضرت مسیح موعود ؑکی مدح میں درج ذیل ہیں :
وَ ھو الذی فی ذاتہٖ وَ صفاتہٖ
فردّ و لیس کمثلہ شیٌ بدا
یُعۡبِی الۡقلوۡبَ کَمَالُ حُسْنَ بَیَانہٖ
سُبْحَانَ مَنۡ اَوۡحیٰ وَانۡطَقَ اَحۡمَدا
(حیات قدسی، حصہ دوم صفحہ 79)
ترجمہ : اور اللہ ہی وہ ہستی ہے جو اپنی ذات اور صفات میں یگانہ ہے۔ اور اس جیسی کوئی چیزمنصہ شہود پر نہیں آئی۔
اس کے حسن بیان کا کمال دل کو موہ لیتا ہے۔ وہی پاک ذات ہے جس نے حضرت احمدؑ کی طرف وحی کی اور ہمکلامی کا شرف بخشا۔
فارسی کے دو اشعار کلامِ قدسی سے ملاحظ فرمائیں :
من ذرّہ ا م کہ از خو رِ تاباں درخش من
و ایں نگہت و شمیم ز گلہائے آں چمن
ایں غنچہ ام شگفتہ ز فیض نسیم اوست
ایں بسطت علوم زِ لطفِ عمیم اوست
( حیات قدسی، حصہ سوم صفحہ 191)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مولانا موصوف کے بارے میں فرمایا :
’’میں سمجھتا ہوںکہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی۔ مگربعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ، دلوں پر اثرکرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب راجیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی۔ تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں۔ آپ کی وجہ سے ہمارے گھرمیںبرکت نازل ہو گی۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍نومبر1940ء)
اب ذیل میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کے بیان فرمودہ اپنے متعلق بعض حالات و واقعات درج کیے جاتے ہیں:
تعارف اور خاندانی حالات
میرا نام غلام رسول ہے اور میرے والد مرحوم کا نام میاں کرم دین صاحب اور میری والدہ مرحومہ کا نام آمنہ بی بی تھا۔ میرے گاؤں کا نام راجیکی ہے جو گجرات ( پنجاب) کے شہر سے تقریباً14میل کے فاصلہ پر مغرب کی جانب آباد ہے۔
میری قوم ہمارے مورث اعلیٰ بہڑائچ کے نام کی وجہ سے پنجاب اور قندھاروغیرہ علاقوں میں وڑائچ یا بہڑائچ کہلاتی ہے۔ ضلع گجرات میں ہماری قوم کے قریباً پچاسی گاؤں ہیں جو مشرق سے مغرب کی طرف پچاس کوس میں آباد ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری قوم پنجاب کے اکثر اضلاع میں اور صوبہ اودھ اور قندھار وغیرہ علاقوں میں بھی بود و باش رکھتی ہے۔ چنانچہ صوبہ اودھ کا شہر بہڑائچ اور گجرات کاٹھیاواڑ کا علاقہ بھڑوچ اسی قوم کا جنم بھوم خیال کئے جاتے ہیں۔ واللّٰہ اعلم با لصّواب۔
ہمارے ضلع گجرات کے وڑائچ جیسا کہ ہماری قوم کے تحریری ریکارڈوں، زبانی نسب ناموں اور ایک انگریز کی تاریخ سے ظاہر ہے راجہ جیتو جو بہڑائچ کی نسل میں سے ایک راجہ تھا اس کی اولاد میں کسی زمانہ میں اس راجہ کے بڑے بیٹے ہری نے گجرات شہر کے قریب ایک گاؤں بسایا تھا اور اس کا نام اپنے نام پر ہرئیے والا رکھا تھا۔ ایسا ہی اس کے بیٹے مگو نامی نے مگو وال اورپھر اس کے بیٹے راجہ نے موضع راجیکی آباد کیا تھا۔ چنانچہ ہمارا خاندان اور راجیکی کے تقریباً تمام زمیندار اسی راجہ کی اولاد ہیں جو راجہ جیتو کے سب سے بڑے بیٹے ہری کا پوتا تھا۔
(حیات قدسی حصہ او ل صفحہ 5)
میری پیدائش
میری والدہ ماجدہ کے بیان کے مطابق میں غالباً 1877ء اور 1879ءکے بین بین بھادوں کے مہینہ میں پیدا ہوا تھا۔ میری پیدائش پر میرے بڑے بھائی میاں تاج دین صاحب نے اصرار کیا کہ اس کا نام غلام رسول رکھا جائے۔ چنانچہ والد صاحب محترم نے بھائی صاحب کی خاطر یہی نام تجویز فرما دیا۔ حسن اتفاق سے میرے بھائی کا رکھا ہوا یہ نام ایک پیشگوئی ثابت ہوا اور واقعی میرے مولا کریم نے مجھے مرسلِ وقت علیہ السلام کی غلامی سے نواز لیا۔ میری والدہ ماجدہ نے بھی میری پیدائش سے پہلے رویا میں دیکھا تھا کہ ہمارے گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے تمام گھر جگمگا اٹھا ہے۔
(حیات قدسی، حصہ اول صفحہ8)
مو ضع دُھدرہا کا واقعہ
ایسا ہی موضع دھدرہا میں جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب مغرب ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے جب میں تبلیغ کے لئے جاتا تو وہاں کا ملاں محمد عالم لوگوں کو میری باتیں سننے سے روکتا اور اس فتویٰ کفر کی جو مجھ پر لگایا گیا تھا جا بجا تشہیر کرتا۔ آخر اس نے موضع مذکور کے ایک مضبوط نوجوان جیون خاں نامی کو جس کا گھرانہ جتھے کے لحاظ سے بھی گاؤںکے تمام زمینداروں پر غالب تھا۔ میرے خلاف ایسا بھڑکایا کہ وہ میرے قتل کے درپے ہو گیا اور مجھے پیغام بھجوایا کہ اگر تم اپنی زندگی چاہتے ہو تو ہمارے گاؤں کا رُخ نہ کرنا ورنہ پچھتانا پڑے گا۔ میں نے جب یہ پیغام سنا تو دعا کے لئے نماز میں کھڑا ہو گیا اور خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے جیون خاں اور ملاں محمدعالم کے متعلق مجھے الہاماً بتایا کہ
تَبَّتۡ یَدَاۤ اَبِیۡ لَہَبٍ وَّ تَبَّ۔ مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُ مَالُہٗ وَ مَا کَسَبَ۔
اس القاء ربانی کے بعد مجھے دوسرے دن ہی اطلاع ملی کہ جیون شدید قولنج میں مبتلا ہو گیا ہے اور ملاںمحمدعالم ایک بد اخلاقی کی بناء پر مسجد کی امامت سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ پھر قولنج کے دورہ کی وجہ سے جیون خاں کی حالت تویہاں تک پہنچی کہ چند دنوں کے اندر وہ قوی ہیکل جوان مشت استخوان ہو کر رہ گیا۔ اور اس کے گھر والے جب ہر طرح کی چارہ جوئی کر کے اس کی زندگی سے مایوس ہو گئے تو اس نے کہا کہ میرے اندر یہ وہی کلہاڑیاں اور چھریاں چل رہی ہیں جن کے متعلق میں نے میاں غلام رسول راجیکی والے کو پیغام دیا تھا۔ اگر تم میری زندگی چاہتے ہو توخدا کے لئے اسے راضی کرو اور میرا گناہ معاف کراؤ ورنہ کوئی صورت میرے بچنے کی نہیں۔ آخر اس کے نو دس رشتہ دار باوجود ملاں محمدعالم کے روکنے کے ہمارے گاؤں کے نمبردار کے پاس آئے اور اسے میرے راضی کرنے کے لئے کہا۔ اس نے جواب دیا کہ میاں صاحب اگرچہ ہماری برادری کے آدمی ہیں مگر ان کے گھرانے کی بزرگی کی وجہ سے ہمارا کوئی فرد ان کی چارپائی پر بیٹھنے کی جرأت نہیں کرتا۔ میں تو ڈرتا ہوں کہ کہیں اس قسم کی باتوں میں ان کی کوئی بےادبی نہ ہو جائے۔ با لآخر وہ ہمارے نمبردار کو لےکر میرے والد صاحب محترم اور میرے چچا میاں علم دین صاحب اور حافظ نظام دین صاحب کے ہمراہ میرے پاس آئے اور اپنے سروں سے پگڑیاں اتار کر میرے پاؤں پر رکھ دیں اور چیخیں مار مار کر رونے لگے اور کہنے لگے اب یہ پگڑیاں آپ ہمارے سر پر رکھیں گے تو ہم جائیں گے ورنہ یہ آپ کے قدموں پر ہی دھری رہیں گی۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے والد صاحب اور میرے چچوں نے ان کو معاف کرنے کی سفارش کی جسے بالآخر میں مان کر اپنے بزرگوں کی معیت میں ان لوگوں کے ساتھ دھدرہا پہنچا۔ جیون خاںنے جب مجھے آتے ہوئے دیکھا تو میری توبہ میری توبہ کہتے ہوئے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اور اتنا رویا اور چلایا کہ اس کی اس گریہ و زاری سے اس کے تمام گھر والوں نے بھی رونا اور پیٹنا شروع کر دیا۔ اس وقت عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ جیون خاں جسے علاقے کے طبیب لا علاج سمجھ کر چھوڑ گئے تھے ہمارے پہنچتے ہی افاقہ محسوس کرنے لگا اور جب تک ہم وہاں بیٹھے رہے وہ آرام سے پڑا رہا مگر جب ہم اپنے گاؤں کی طرف لوٹے تو پھر کچھ دیرکے بعد اس کے درد و کرب کی وہی حالت ہو گئی جس کی وجہ سے پھر اس کے رشتہ داروں نے مجھے بلانے کے لئے آدمی بھیجا۔ اور میں والد صاحب اور اپنے چچوں کے فرمانے پر اس آدمی کے ہمراہ جیون خاں کے گھر چلا آیا۔ یہاں پہنچتے ہی اس گھر کی تمام عورتوں اور مردوں نے نہایت منت و زاری سے مجھے کہا کہ جب تک جیون خاںکو صحت نہ ہو جائے آپ ہمارے گھر ہی تشریف رکھیں اور اپنے گاؤں نہ جائیں۔ ادھر ملاںعالم اور اس کے ہمنواؤں نے جب میری دوبارہ آمد کی خبر سنی تو جا بجا اس بات کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا کہ وہ مریض جسے علاقہ بھر کے اچھے اچھے طبیب لا علاج بتا چکے ہیں اور اب لبِ گور پڑا ہوا ہے یہ مرزائی اسے کیا صحت بخشے گا۔
یہ باتیں جب میرے کانوں میں پہنچیں تو میں نے جوشِ غیرت کے ساتھ خدا کے حضور جیون خاں کی صحت کے لئے نہایت الحاح اور توجہ سے دعا شروع کر دی۔ چنانچہ ابھی ہفتہ عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ جیون خاںکو خدا تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اعجازی برکتوں کی وجہ سے دوبارہ زندگی عطا فرما دی اوہ وہ بالکل صحت یاب ہو گیا۔ اس کرشمہ کا ظاہر ہونا تھا کہ اس گاؤں کے علاوہ گرد و نواح کے اکثر لوگ بھی حیرت زدہ ہو گئے اور جا بجا اس بات کا چرچا کرنے لگ گئے کہ آخر مرزا صاحب کوئی بہت بڑی ہستی ہیں جن کے مریدوں کی دعا میں اتنا اثر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے جلالی و قہری ہاتھ نے ملاں محمدؐ عالم کو پکڑا اور اس کی روسیاہی اور رسوائی کے بعد اسے ایسے بھیانک مرض میں مبتلا کیاکہ اس کے جسم کا آدھا طولانی حصہ بالکل سیاہ ہو گیا اور وہ اسی مرض میں اس جہاں سے کوچ کر گیا۔
انَّ السموم لَشرّ ما فی العالم
شر السموم عداوۃ الصلحاءٖ
(حیات قدسی، حصہ اول صفحہ25تا27)
موضع سعد اللہ پور کا واقعہ
موضع سعد اللہ پور جو ہمارے گاؤں سے جانب جنوب کوئی تین کوس کے فاصلہ پر واقعہ ہے۔ یہاں کے اکثر حنفی لوگ بھی ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے۔ اس لئے میں کبھی کبھار اس موضع میں تبلیغ کی غرض سے جایا کرتا تھا۔ اور ان لوگوں کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اس موضع میں مولوی غوث محمدصاحب ایک اہلحدیث عالم تھے اور امرتسر کے غزنوی خاندان سے نسبت تلمذ رکھنے کی وجہ سے احمدیت کے سخت معاند اور مخالف تھے۔ میں نے ایک روز ان کی موجودگی میں ظہر کے وقت مسجد میں لوگوں کو احمدیت کی تبلیغ کی اور انہیں بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتابیں اور رسالے مطالعہ کے لئے دیئے۔ جب انہیں اس تبلیغ اور حضور اقدس کی کتابوں سے یہ علم ہوا کہ میں حضرت مرزا صاحب کو مسیح موعود اور امام مہدی تسلیم کرتا ہوں تو انہوں نے میرے حق میں بےتحاشا فحش گوئی شروع کر دی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات والا صفات کے متعلق بھی بہت گند اچھالا۔ میں نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ آپ جتنی گالیاں چاہیں مجھے دے لیں لیکن حضرت اقدس علیہ السلام کی توہین نہ کریں مگر وہ اس سے باز نہ آئے۔ آخر چار و ناچار میں تخلیہ میں جا کر سجدہ میں گر پڑا اوررو رو کر بارگاہ ایزدی میں دعا مانگی اور رات کو بغیر کھانا کھائے ہی مسجد میں آ کر سو گیا۔ جب سحری کے قریب وقت ہوا تو مولوی غوث محمدصاحب مسجد میں میرے پاس پہنچے اور معافی مانگتے ہوئے مجھے کہنے لگے۔ خدا کے لئے ابھی حضرت مرزا صاحب کو میری بیعت کا خط لکھو ورنہ میں ابھی مر جاؤں گا اور دوزخ میں ڈالا جاؤں گا۔ میں نے جب ان کا احمدیت کی طرف رجوع دیکھا تو حیران ہو کر اس کی وجہ دریافت کی۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ رات میں نے خواب میںدیکھاہے کہ قیامت کا دن ہے اور مجھے دوزخ میں ڈالے جانے کا حکم صادر ہوا ہے اور اس کی تعمیل کرانے کے لئے میرے پاس بڑی بھیانک شکل کے فرشتے آئے ہیں۔ اور ان کے پاس آگ کی بنی ہوئی اتنی بڑی بڑی گرزیں ہیںجوبلندی میں آسمان تک پہنچتی ہیں۔ انہوں نے مجھے پکڑا ہے اور کہتے ہیںکہ تم نے مسیح موعود و امامِ زمانہ کی شان میں گستاخی کی ہے اس لئے اب دوزخ کی طرف چلو اور اس کی سزا بھگتو۔ میں نے ڈرتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ میں توبہ کرتا ہوں۔ آپ مجھے چھوڑ دیجیئے۔ انہوں نے کہا اب توبہ کرتا ہے اور مجھے مارنے کے لئے اپنا گرز اٹھایا جس کی دہشت سے میں بیدار ہو گیا اور اب آپ کی خدمت میںحاضر ہوا ہوں کہ خدا کے لئے میرا قصور معاف فرمائیں اور حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں میری بیعت کا خط لکھ دیں۔ چنانچہ اس خواب کی بنا پر آپ احمدی ہو گئے اور اس کے بعد ہم دونوں کی تبلیغ سے اس گاؤں کے بیسیوں مرد اور عورتیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئیں۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔
(حیات قدسی، حصہ اول صفحہ28تا29)
موضع راجیکی کا واقعہ
میاں محمد دین صاحب کشمیری جن سے میں نے سکندر نامہ تک فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے والد ماجد میاں کریم بخش صاحب تھے جو کشمیر سے کسی حادثہ کی بنا پر ہمارے گاؤں آ بیٹھے تھے اور یہیں ہمارے بزرگوں کی خدمت میں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی ایک دفعہ جب میاں محمد دین صاحب کا چھوٹا بھائی میاں سلطان محمود سخت بیمار ہوا اور طبیبوں نے اس کی بیماری کو لا علاج قرار دے دیا تو اس کی بیوی مسماۃ زینب بی بی میرے پاس آئی اور بڑی لجاجت سے دعا کے لئے کہا۔ اس وقت اگرچہ میاں سلطان محمود کی عمر کوئی پچپن سال کے قریب تھی۔ مگر اس کی بیوی کی درخواست پرمیں نے عا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ میاں سلطان محمود کی عمر اسی (80 ) سال ہو گی۔ چنانچہ اس بشارت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے صحت بھی دی اوراسی (80)سال تک زندہ رہا۔ الحمد للہ علیٰ ذالک
(حیات قدسی، حصہ اول صفحہ42تا43)
علاج بالتبلیغ
مولوی امام دین صاحب رضی ا للہ عنہ ساکن گولیکی جو میرے استاد بھی تھے۔ ان کا بڑا صاحبزادہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گیا تو مولوی صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت دے۔ چونکہ مولوی صاحب موصوف کے استاد ہونے کے علاوہ ویسے بھی میرے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اس لئے میں نے ان کے بیٹے قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب کے لئے دعا کر نی شر وع کر دی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً فرمایا:
’’اگر محمد ظہور الدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصدیق و تائید میں کوئی تحریری خدمت بجا لانے کی کوشش کرے تو اسے صحت ہو جائےگی‘‘۔
چنانچہ ا لہامِ الٰہی کے بعدجب اکمل صاحب نے سلسلہ کی تحریری خدمت شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آج تک لمبی عمر بھی عطا فرمائی اور مرض مایوسہ سے صحت بھی دیدی۔ اور حضور اقدس علیہ السلام کے عہد مبارک کے آخر میں یا شاید اس کے بعد کے زمانہ میں جب انہوں نے ایک کتاب ’’ظہور المہدی ‘‘ لکھی تو اس وقت مجھے اس کتاب کا الہامی نام
حجج احمدیہ
بھی بتایا گیا جسے اکمل صاحب نے ظہور المہدی کے سر ورق پر شائع بھی کرا دیا۔ اس کتاب میں انہوں نے میری ایک گذشتہ تقریر کے علاوہ میرا ایک واقعہ بھی لکھا ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔
واقعہ
ایک دفعہ میرے گاؤں راجیکی کا ایک زمیندارمیرے پاس آیا اور کہنے لگا میرا ایک لڑکا اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گوجرانوالہ کے ضلع میں بیل خریدنے گیاہوا تھاکہ راستے میں ان کو چور ملے جواپنے ساتھ چوری کے بیل لے جا رہے تھے۔ ان لڑکوں نے جب ان کے پاس خوبصورت بیل دیکھے تو انہوں نے ان کے متعلق دریافت کیا اور قیمت وغیرہ پوچھی۔ چوروں نے جب یہ دیکھا کہ خریدار تو رستے میں ہی مل گئے ہیں تو انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے وہ بیل ان لڑکوں کے پاس کم قیمت پر بیچ دیئے اور چلے گئے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان بیلوں کے اصل مالک جو بیلوں کا کھوج لگاتے ہوئے پیچھے آ رہے تھے انہو ں نے بیل بھی ہمارے لڑکوں سے چھین لئے اور انہیں پولیس کے سپرد کر دیا۔
اس واقعہ کو سنانے کے بعد اس زمیندار نے مجھ سے خواہش کی کہ آپ رمل، جعفر یا نجوم وغیرہ اعمال سے ان کی رہائی کے متعلق پتہ کر دیں کہ وہ کب اس مصیبت سے چھٹکارہ پائیں گے۔ میں بیعت سے پہلے اگرچہ ان علوم سے اکثر استفادہ کیا کرتا تھا اور ان علوم میں اچھی دسترس بھی تھی یہاں تک کہ بعض دفعہ مایوس کُن حالات میں بھی میں نے ان ظنی علوم سے جو نتائج اخذ کئے تھے وہ بسا اوقات صحیح نکلے تھے۔ مگر احمدیت کے بعد میں نے ان تمام غیر یقینی اور ظنی علوم کی بجائے دعاؤں کو ہی اپنا سرمایہ زندگی سمجھا اور انہی کو زیادہ مؤثر اور کارگر دیکھا ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی میں نے اس زمیندار کو کہا کہ اب رمل اورنجوم کوتو احمدیت کے باعث ترک کر چکا ہوںاب ان کی جگہ میں تمہارے لئے دعائے استخارہ ہی کروں گااور جوبات خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے معلوم ہوئی تمہیں بتا دوں گا۔ چنانچہ رات میں نے جب استخارہ کیا اور سو گیا توخواب میںدیکھا کہ ایک شکاری نے جال لگایا ہے اور اس میں دو بٹیرے پھنس گئے ہیںمگر اچانک وہ بٹیرے اس جال میں سے اُڑ گئے ہیں۔ صبح ہوتے ہی میں نے یہ خواب زمیندار کو بتایا اور کہا کہ تم کوئی فکر نہ کرودونوں لڑکے انشاء اللہ بہت جلد رہا ہو جائیں گے۔ تم فوراً گوجرانوالہ جاؤ اور کوشش کرو۔ چنانچہ وہ زمیندار گوجرنوالہ گیا اور وہ دونوں لڑکے بے قصور ثابت ہونے کی وجہ سے حوالات سے رہا کر دیئے گئے اور جو اصل مجرم تھے ان کا پتہ چل گیا۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔
(حیات قدسی، حصہ دوم صفحہ90تا92)
تاثیر دعا
ایک دفعہ میری بیوی کے بڑے بھائی حکیم محمد اسمٰعیل صاحب کی ایک آدمی سے لڑائی ہو گئی جس میں حکیم صاحب نے اس آدمی کو مار مار کر لہو لہان کر دیا۔ اس مضروب کے وارثوں نے جب اسے قریب الموت پایا تو وہ اسے چارپائی پر ڈال کر حافظ آباد کے تھانے میںلے گئے۔ میری خوشدامن صاحبہ نے جب یہ واقعہ سنا تو مجھے حکیم صاحب موصوف کے لئے دعا کرنے کے لئے کہا میں نے جب ان کے لئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسی تسکین دی کہ میں نے دعا کے بعد ہی سب گھر والوں کو بتایا کہ نہ تو وہ مضروب مرے گا اور نہ ہی اس کے وارث اسے حافظ آباد لے جائیں گے اور نہ ہی مقدمہ دائر کریں گے۔ چنانچہ اس دعا کے بعد وہ لوگ جوزخمی کو اٹھا کر حافظ آبادلے جارہے تھے جب تقریباً ڈیڑھ کوس کا فاصلہ طے کر کے حافظ آباد اور اپنے گاؤں کے درمیان ایک نہر کے پُل پر پہنچے تو وہاں سے پھر واپس آ گئے اور اس کے بعد وہ مضروب جو بظاہر قریب الموت ہو چکا تھا وہ بھی چند دنوں میں اچھا ہو گیا اور حکیم صاحب کے خلاف مقدمہ بھی کسی نے دائر نہ کیا۔
(حیات قدسی، حصہ دوم صفحہ137تا138)
میرا واقعہ اور یونس نبی علیہ السلام کی تسبیح
ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو گیا اور میری حالت نازک ہو گئی باوجود ہر کوشش کے کوئی علاج کارگر نہ ہو سکا۔ اطباء اور معالجوں نے میرے متعلق یاس آلود رائے کا اظہار کر دیا۔ اس نہایت ہی خطرناک اور نازک حالت میں مجھے الہام ہوا۔
’’یاد آیا میکہ یونس بود اندر بطن حوت‘‘
میں نے اس الہام کے متعلق کئی بزرگ ہستیوں سے مطلب دریافت کیا لیکن کوئی توجیہ تسلی بخش نہ ہو سکی تب میں نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اس کی تفہیم کے لئے توجہ کی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سمجھایا گیا کہ اس الہام کا یہ مطلب ہے کہ جو شخص کسی ایسے سخت ابتلا میں پھنس جائے جس سے بظاہر حالات سےنجات پانانہایت دشوار ہو( جیسے حضرت یونس نبی علیہ السلام کے وہ ایام تھے جو آپ کو مچھلی کے پیٹ ( بطن حوت) میں گزارنے پڑے جو ابتلا کے لحاظ سے اس قدر سخت تھے کہ ان سے نجات نا ممکن نظر آتی تھی تو ایسے شخص کو
لَا اِلٰہَ اِلَّااَ نْتَ سُبۡحَانَکَ اِنِّی کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ
کے مبارک الفاظ میں تسبیح کرنی چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نازل ہو کر ایسے ابتلا سے نجات ملتی ہے۔
چنانچہ اس تسبیح کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے بہت جلد مجھے بظاہر اس مایوس کن مرض سے شفا عطا فرمائی۔ فا لحمد للّٰہ علی ذالک۔
(حیات قدسی، حصہ سوم صفحہ224تا225)
غیبی امداد
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان مقدس میں تھا۔ اتفاق سے گھر میں اخراجات کے لئے کوئی رقم نہ تھی۔ اور میری بیوی کہہ رہی تھیں کہ گھر کی ضروریات کے لئے کل کے واسطے کوئی رقم نہیں۔ بچوں کی تعلیمی فیس بھی ادا نہیں ہو سکی۔ سکول والے تقاضا کر رہے ہیںبہت پریشانی ہے۔ ابھی وہ بات کہہ رہی تھیں کہ دفتر نظارت سے مجھے حکم پہنچا کہ دہلی اور کرنال وغیرہ میں بعض جلسوں کی تقریب ہے آپ ایک وفد کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو کر ابھی دفتر میں آ جائیں۔ جب میں دفتر جانے لگا۔ تو میری اہلیہ نے پھر کہا کہ آپ لمبے سفر پر جا رہے ہیںاور گھر میںبچوں کے گذارا اور اخراجات کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ میں ان چھوٹے بچوں کے لئے کیا انتظام کروں؟ میں نے کہا میں سلسلہ کا حکم ٹال نہیں سکتا اور جانے سے رُک نہیں سکتا کیونکہ میں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہؤا ہے۔ صحابہ کرامؓ جب اپنے اہل و عیال کو گھروں میںبے سرو سامانی کی حالت میںچھوڑ کر جہاد کے لئے روانہ ہوتے تھے تو گھر والوں کو یہ بھی خطرہ ہوتا تھا کہ نہ معلو م وہ واپس آتے ہیں یا شہادت کا مرتبہ پا کر ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اور بچے یتیم اور بیویاں بیوہ ہوتی ہیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ میں ہم سے اور ہمارے اہل و عیال سے نرم سلوک کیا گیا ہے اور ہمیں قتال اور حرب درپیش نہیںبلکہ زندہ سلامت آنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ پس آپ کو اس نرم سلوک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا شکربجا لانا چاہئے۔ اس پر میری بیوی خاموش ہو گئیں اور میں گھر سے نکلنے کے لئے باہر کے دروازہ کی طرف بڑھا۔ اس حالت میںمَیںنے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ ‘اے میرے محسن خدا تیرا یہ عاجز بندہ تیرے کام کے لئے روانہ ہو رہا ہے اور گھر کی حالت تجھ پر مخفی نہیںتو خود ہی ان کا کفیل ہو اور ان کی حاجت روائی فرما۔ تیرا یہ عبد حقیر ان افسردہ دلوں اور حاجتمندوں کے لئے راحت و مسرت کا کوئی سامان مہیا نہیں کر سکتا۔ ’
میں دعا کرتا ہوا ابھی بیرونی دروازہ تک نہ پہنچا تھا کہ باہر سے کسی نے دروازہ پر دستک دی میں نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ تو ایک صاحب کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص نے ابھی ابھی مجھے بلا کر مبلغ یک صد روپیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آپ کے ہاتھ میں دے کر عرض کیا جائے کہ اس کے دینے والے کے نام کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ میں نے و ہ روپیہ لے کر انہی صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور کہا کہ میں تو گھر سے تبلیغی سفر کے لئے نکل کھڑا ہوا ہوں۔ بازار سے ضروری سامان خورو نوش لینا ہے وہ آپ میرے گھر پہنچا دیں۔ کیونکہ میرا اب گھر میں واپس جانا مناسب نہیں۔ وہ صاحب بخوشی میرے ساتھ بازار گئے۔ میں نے ضروری سامان خرید کر ان کو گھر لے جانے کے لئے دیدیا۔ اور بقیہ رقم متفرق ضروریات کے لئے ان کے ہاتھ گھر بھجوا دی۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔
( حیات قدسی، حصہ چہارم صفحہ266تا267)
دُعائے مستجاب
ایک دفعہ میں ضلع سر گودہا میں بسلسلہ تبلیغ سفر پر تھا کہ میرا لڑکا عزیزم مبشر احمد جس کی اس وقت چار پانچ سال کی عمر تھی۔ تپ محرقہ میں مبتلا ہو گیا۔ جب بخار کو آتے ہوئے 29 روز ہو گئے اور اس میں کچھ افاقہ نہ ہوا اور بخار کے ساتھ آنکھیں متورم ہو گئیں اور ان میں پیپ پڑ گئی تو حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مع دوسرے ڈاکٹروں کے جو اس کے معالج تھے سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اول تو بچے کی زیست کی کوئی امید نہیں لیکن اگر وہ جانبر ہو گیا تو بھی اس کی آنکھیںبالکل ضائع ہو جائیں گی۔ اسی دوران میں دفتر نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے مجھے تار آیا کہ بچے کی حالت بہت خراب ہے۔ آپ فوراً قادیان پہنچیں۔ چنانچہ میں قادیان آ گیا۔ جب میں نے بچہ کو اس تشویشناک حالت میں دیکھا تو بہت بے چین ہوا اور فوراً وضو کر کے ایک عریضہ حضرت خلیفۃ المسیح ا لثانی اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور خود ایک کوٹھڑی میں داخل ہو کر اور اس کا دروازہ بند کر کے دعا میں مصروف ہوا اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے اضطرار کی حالت میسر آ گئی اور روح پگھل کر آستانۂ الوہیت پر پانی کی طرح بہنے لگی اور مجھے محسوس ہونے لگا کہ دعا قبول ہو گئی ہے۔ جب میں آدھ یا پون گھنٹہ کے بعدکوٹھڑی سے باہر نکلا اور بچے کو دیکھا تو اس کا تپ اُترا ہوا تھا۔ فا لحمد للّٰہ۔
آنکھوں کا علاج
اس کے بعد میں نے تین تولہ گائے کا مکھن پانی سے بیس اکیس دفعہ دھونے کے بعد لیا اور توے پرتین تولہ پسی ہوئی پھٹکڑی کو اس کے ساتھ دائرہ کی شکل میں بچھا کر اوپر چپنی دیدی اور کناروں کو آٹے سے بند کر کے نیچے ایک گھنٹہ تک نرم آگ جلائی۔ بعد ازاں ٹھنڈا کر کے اس مدبر پھٹکڑی کو پیس کر ایک شیشی میں ڈال لیا اور یہ دوائی استعمال کرنی شروع کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس معمولی دوائی میں شفا رکھ دی اور چند دنوں میں بچے کی آنکھیں صاف اور درست ہو گئیں۔
فا لحمد للّٰہ رب ا لعٰلمین و خیر المحسنین والمحبوبین۔
( حیات قدسی، حصہ چہارم صفحہ 473تا474)
ڈاکٹر سید محمد حسین صاحب کے بچّہ کو معجزانہ شفا
ڈاکٹرسید محمدحسین صاحب کو مجھ پر ابتدا میں حسنِ ظن تھا۔ بلکہ قبولیت دعا کے متعدد واقعات دیکھ کر ان کی اہلیہ صاحبہ بھی جو شیعہ مذہب رکھتی تھیں مجھ پر حسنِ ظن کرتی تھیں۔ اور اکثر دعا کے لئے کہتی تھیں۔ ایک دفعہ ان کاچھوٹا لڑکا بشیر حسین بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی خاص توجہ سے اس کا علاج کرتے اور دوسرے ماہر ڈاکٹروں اور طبیبوں سے بھی اس کے علاج کے لئے مشورہ کرتے۔ لیکن بچہ کی بیماری بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن اس کی حالت اس قدر نازک ہو گئی کہ ڈاکٹر صاحب اس کی صحت سے بالکل مایوس ہو گئے۔ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کا وقتِ نزاع آ پہنچا ہے۔ گورکنوں کو قبر کھودنے کے لئے کہنے کے واسطے اور دوسرے انتظامات کےلئے باہرچلے گئے۔
اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز و انکسار اور چشمِ اشکبار سے مجھے بچہ کے لئے دعا کے واسطے کہا۔ میں ان کے الحاح اور عاجزی اور بچہ کی نازک حالت سے بہت متاثر ہوا اور میں نے پوچھا کہ یہ رونے کی آواز کہاں سے آرہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بعض رشتہ دار عورتیں اندر ‘ بشیر’ کی مایوس کُن حالت کے پیشِ نظر غم و الم کر رہی ہیں۔
میں نے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چارپائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں۔ اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا میں لگ جائیں اور بشیر حسین کی چارپائی کے پاس جائے نماز بچھا دیا جائے۔ تا میں نماز اور دعا میں مشغول ہو جاؤں۔ والدہ بشیر حسین نے اس کی تعمیل کی۔ مجھے اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کا بیان فرمودہ گُر یاد آ گیا۔ اور میں کمرہ سے باہر نکل کر کیلیانوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا اور ا یک ضعیف اور بوڑھی غریب عورت کو جو وہاںسے گذر رہی تھی آواز دےکر بلایا۔ اور اس کی جھولی میں ایک روپیہ ڈالتےہوئے اسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کے لئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھادعا کرنے کی درخواست کی۔
اس کے بعد میں خو د مریض کے کمرہ میں واپس آ کر نماز اور دعا میں مشغول ہو گیا۔ اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خدا تعالیٰ کی خاص توفیق سے حصولِ شفا کے لئے رقت اور تضرع سے پڑھا۔ اس وقت میری آنکھیں اشکبار اور دل رقت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کا ضرور جلوہ دکھائے گا۔ پہلی رکعت میں مَیں سورۃ یٰس پڑھی۔ اور رکوع و سجود میں بھی دعا کرتا رہا۔ جب میں ابھی سجدہ میں ہی تھا کہ بشیر حسین چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا میرے شاہ جی کہاں ہیں۔ میری اماں کہاں ہے۔ میں نے اس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دعا کا تیر نشانہ پر لگ چکا ہے۔ اور بقیہ نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا۔
میں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اس نے کہا میں نے پانی پینا ہے۔ اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں اور کمرے کے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولو ی صاحب !آپ کس سے باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ اندر آ کر دیکھو۔ جب وہ پردہ کر کے کمرہ میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ بشیر چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگ رہا ہے۔ تب انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بہت شکریہ ادا کیا اور بچے کو پانی پلایا۔
ابھی چند منٹ ہی گذرے تھے کہ ڈاکٹر سید محمدحسین صاحب بھی آ گئے۔ اور یہ نظارہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جب گھر والوں نے پوچھا کہ کہاں گئے تھے۔ تو قبر کے انتظام کا راز تو دل میں رکھا۔ اور خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔
والدہ صاحبہ بشیر حسین نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ کی ڈاکٹری کا امتحان کر لیاہے۔ جو کچھ اہل اللہ کی دعائیں کر سکتی ہیں وہ ماہر فن ڈاکٹروں اور طبیبوں سے نہیں ہو سکتا۔
افسوس کہ خلافت ثانیہ کے عہد سعادت میں ڈاکٹر صاحب اور ان کے دوسرے ساتھی عداوتِ سیدنا حضرت محمودایدہ اللہ کے باعث خلافت کے ساتھ وابستگی سے محروم ہو گئے… خلافت جماعت کے لئے ایک نعمتِ عظمیٰ ہے اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی خاص برکتیں اور انعامات وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کا مورد بنائے اور شمعِ خلافتِ حقہ احمدیہ کے ارد گرد پروانوں کی طرح قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
( حیات قدسی، حصہ پنجم صفحہ491تا493)
٭…٭…٭