شروط عمریہ قرآن و سنت کے آئینے میں (قسط دوم)
خلفائے راشدین کا تعامل
خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی رسول اللہﷺ کےان معاہدات اور ہدایات کا پاس کیا گیا اور ان پر عملدرآمد کروایا گیا۔ خصوصاً حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب فتوحات کا سلسلہ عراق، ایران اورشام تک پھیل گیا۔اس دوران بھی صلح کے جومعاہدات ہوئےان میں بھی ہر مذہب کےجان ومال،مذہبی آزادی اور جملہ املاک کی حفاظت شامل ہے۔خاص طور پرمعاہدہ بیت المقدس(15ھ)قابل ذکر ہے۔جس کی شرائط بھی عین قرآن و سنت اور معاہدات نبویؐ کے عین مطابق تھیں جس کا آگے تفصیلی ذکر کیا جائے گا۔
معاہدہ اہل جزیرہ و شروط عمریہ
عہد نبویؐ اور خلافت راشدہ کے ان تمام مستند معاہدات کےبالکل برعکس شام کے شمال مشرق میں اہل جزیرہ کے عیسائیوں سے جملہ مذہبی حقوق سلب کرنے کےایک عجیب وغریب، ظالمانہ معاہدہ کا ذکر چوتھی صدی میں ملتا ہے۔پہلی تین صدیوں خیر القرونمیں اس کاکوئی ذکر یا حوالہ موجود نہیں۔اچانک چوتھی صدی میں آکرحضرت عمرؓ کی طرف اس ظالمانہ معاہدہ کی نسبت نہ صرف جعلی ہےبلکہ یہ ایک گہری سازش ہے جس میں بدقسمتی سے یہود و نصاریٰ کے علاوہ بعض ظالم مسلمان بادشاہ بھی شریک ہوگئے۔
مقالہ نگارڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے 24؍اپریل2020ء کے شمارہ ہفت روزہ الاعتصام لاہورمیں مسند احمد کے زوائد لعبداللہ بن احمد بن حنبل (متوفی:290ھ) میں عبد الرحمٰن بن غنم صحابی راوی سے اس معاہدہ کا متن بیان کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ زوائد مسند احمد میں کہیں اس کا متن درج نہیں ۔چنانچہ موصوف خود یکم مئی کے شمارہ میں تسلیم کرتے ہیں کہ’’ڈاکٹر عامر حسن صبری کے تحقیق شدہ’’زوائد‘‘کے ایک مجموعے (طبع دارالبشائر الاسلامیة) میں یہ روایت راقم کو نہیں مل سکی۔‘‘
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور مورخہ 1؍تا7؍مئی2020ء صفحہ29)
البتہ اس معاہدہ کا ذکرتیسری صدی کے بعد جن علماء نے ایک دوسرے سے بلا سند نقل کیا ہے ،درج ذیل ہیں مگر یہ استناد کےلیے کافی نہیں۔
i.علامہ ابوبکر الخلال(متوفی:311ھ)نے’’احکام اھل الملل والردة من الجامع لمسائل الإمام احمد بن حنبل‘‘
ii.علامہ أبو محمد الربعي (المتوفى: 329ھ)نے اپنی کتاب ’’جزءفيه شروط النصارى‘‘ میں ۔
iii.علامہ ابن الاعرابی(متوفی:340ھ)نے اپنی معجم میں۔
iv.علامہ ابن سماک(متوفی:344ھ) نے اپنی کتاب ’’جزء فيه شروط أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه على النصارى‘‘ میں۔
v.علامہ ابن حزم اندلسی (متوفی456ھ)نے المحلی بالآثارمیں۔
vi.بیھقی(متوفی:458ھ)نے سنن الکبریٰ میں۔
vii.ابن عساکر(متوفی:571ھ) نے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں۔
viii.ابن تیمیہ(متوفی:728ھ)نے’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘میاورعلامہ ابن قیم(متوفی:751ھ) نے ’’احکام اھل الذمة‘‘ میں یہ معاہدہ بیان کیا ہے۔
یہی معاہدہ خلیفہ راشد حضرت عمرؓ بن خطاب کی طرف منسوب ہوکر’’شروط عمریہ‘‘کے نام سےمشہور ہوااور قریباً 32شروط پر مشتمل ہے ،جس میں نصرانیوں کی ہرقسم کی مذہبی آزادی مکمل طور پرسلب کی گئی ہے۔
فی الواقعہ یہ معاہدہ نہ صرف خودحضرت عمرؓ کےمعاہدہ بیت المقدس اوردیگر معاہدات نبویؐ و خلفائے راشدین کے بالکل برعکس ہے بلکہ اسلام کی آزادیٔ ضمیر و مذہب کی بنیادی تعلیم کے بھی خلاف ہےاور ابتدائی صدیوں کے کسی مستند ماخذمیں مذکور نہیں۔جس سے اس کا وضعی،جعلی،الحاقی اور مشکوک ہونا صاف ظاہر ہے۔
معاہدہ اہل جزیرہ کی مبیّنہوضعی شرائط
چوتھی صدی میں سامنے آنے والے اس معاہدہ کے مطابق اہل جزیرہ کے عیسائی خود اپنی مذہبی آزادی کے برخلاف اپنےلیے ایسی کڑی شرائط تجویز کرتے ہیں جو عقلاً محال ہے۔اورپھرحضرت عمرؓ جیسے خلیفۂ راشد سے اصولی اسلامی تعلیم کے برعکس ایسی شرائط عائد کرنا خلاف قیاس ہے۔
چنانچہ روایت کے مطابق خوداہل جزیرہ نے عبد الرحمٰن بن غنم کو لکھا کہ جب آپ ہمارے شہروں میں آئے اور ہم نے آپ سے امان چاہی تو ہم نے آپ کی خاطر اپنے اوپر درج ذیل شرطیں عائد کیں:
1۔ہم اپنے شہر میں کوئی نیا گرجا نہیں بنائیں گے اور نہ ہی اپنے ماحول میں کوئی معبد اور نہ کوئی مذہبی عمارت اور نہ کوئی راہب خانہ بنائیں گے اور اپنے گرجوں کی تعمیرِ نو نہیں کریں گے اور نہ ہی جو ان میں مسلمانوں کی حد کے اندر ہوں، ان کے ساتھ ایساہی کریں گے۔
2۔ہم مسلمانوں کو اپنے گرجوں میں رات دن بطور مہمان ٹھہرنے سے نہیں روکیں گے۔ہم ان کے دروازے مسافر اور راہ گیر کے لیے کھلے رکھیں گے۔
3۔اور اپنے گھروں میں کسی جاسوس کو پناہ نہ دیں گے۔
4۔ہم مسلمانوں کو پوشیدہ طور پر دھوکا نہ دیں گے/ ہم مسلمانوں سے خیانت نہیں کریں گے۔
5۔ہم اپنے ناقوس دھیمی آواز میں اپنے گرجوں کے اندر بجائیں گے اور گرجوں پر صلیب نہیں لٹکائیں گے۔
6۔اور ہم نماز میں اپنی آواز اونچی نہیں کریں گے اور ہمارے گرجوں میں جب مسلمان موجود ہوں تو مناجات نہیں کریں گے۔
7۔اور ہم مسلمانوں کے بازار میں صلیب باہر نہیں نکالیں گے نہ ہی اپنی کتاب(بائیبل)۔
8۔اور ہم اپنے تہوار کے دن لوگوں کو باہر نہیں نکالیں گے۔
9.اور ہم اپنے لوگوں کی میت پر آوازیں بلند نہ کریں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے بازاروں میں ان کے جنازے کے ساتھ آگیں جلائیں گے۔
10.ہم مسلمانوں کی ہمسائیگی میں خنزیر نہیں رکھیںگے۔
11.اور نہ ہی شراب کی تجارت کریں گے۔
12.ہم شرک ظاہر نہیں کریں گے۔
13.ہم اپنے دین کے لیے کسی کو ترغیب نہ دیں گے اور نہ ہی دلائل کے ساتھ کسی کو دعوت دیں گے۔
14.اور ہم اس چاندی سے جو مسلمانوں کے حصہ غنیمت میں آئی ہو کوئی زیور نہیں بنائیں گے۔
15.اور ہم اپنے رشتہ داروں کو جو اسلام میں داخل ہونا چاہیں منع نہیں کریں گے۔
16.اور ہم جہاں بھی ہوں گے اپنا خاص لباس استعمال کریں گے۔
17.اور ہم مسلمانوں کے ساتھ ٹوپی،عمامہ اور جوتوں اور مانگ نکالنے اور ان جیسی سواری پر سوار ہونے میں مشابہت اختیار نہیں کریں گے۔
18.اور ہم ان (مسلمانوں)کی اصطلاحیں استعمال نہیں کریں گے۔
19.نہ ان(مسلمانوں) کی کنیت استعمال کریں گے۔
20.ہم اپنے بالوں کا اگلا حصہ کاٹیں گے۔
21.ہم (بالوں میں)مانگ نہیں نکالیں گے۔
22.اپنی کمر پر زنانیر باندھیں گے۔
23.ہم اپنی انگوٹھیوں پر عربی نقش نہیں بنائیں گے۔
24.ہم (اپنی سواری پر) زین استعمال نہیں کریں گے۔
25.کوئی اسلحہ نہیں رکھیں گے اور نہ ہی اسلحہ اٹھا کر چلیں گے اور نہ ہی تلواریں حمائل کریں گے۔
26.اور ہم مسلمانوں کی مجالس میں ان کی عزت کریں گے اور ان کو راستہ کی رہنمائی کریں گے۔اور ان کی خاطر اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اگر وہ بیٹھنا چاہیں۔
27.اور ہم ان کے گھروں میں نہیں جھانکیں گے۔
28.اور ہم اپنے بچوں کو قرآن نہیں پڑھائیں گے۔
29.اور جو کوئی مسلمان تجارت میں ہم سے شراکت کرے گا تو تجارت کا جملہ معاملہ مسلمان کے سپرد ہوگا۔
30.اور ہم ہر مسلمان مسافر کو تین دن تک ضیافت دینے کے پابند ہوںگے اور اپنی توفیق کے مطابق اسے متوسط یا درمیانے درجہ کا کھانا پیش کریں گے۔
ان شرائط پر ہم اپنے نفوس،اولادو ازواج اور مساکین کی طرف سے ضامن ہیں۔اگر ہم ان شرطوں کے خلاف کریں جو اپنے اوپر عائد کی ہیں تو ہمارے لیے کوئی امان نہ ہوگی اور آپ کے لیے ہم سے وہ سب کچھ جائز ہوگا جو دشمنوں اور مخالفت کرنے والوں کے ساتھ جائز ہوتا ہے۔
(أحكام أهل الذمة لابن قیم جزء3ص 1159تا1160،الطبعة الاولیٰ،رمادی للنشر الدمام،المملکة العربیة السعودیة 1997ء)
علامہ ابن قیم(متوفی:751ھ) کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے اس معاہدہ میں مزیددو شرائط کا اضافہ بھی کیا۔
31.مسلمانوں کے ذریعے قیدی بنائی گئی عورتوں کو ذمی نہیں خرید سکتے۔
32.اگر وہ کسی مسلمان کو ماریں تو ان سے معاہدہ ختم کردیاجائے۔
( أحكام أهل الذمة جزء3صفحہ1161)
معاہدہ اہل جزیرہ کی روایت پر جرح
1.روایت کے لحاظ سےشروط عمریہ کی اسناد و متن ضعف سے خالی نہیں۔اس بارہ میں علماء دورحاضر کی آرا یہ ہیں:
i.پہلی رائے ان تمام شروط عمریہ کے انکاراور نفی سے متعلق ہے کیونکہ یہ روح اسلام اور اس آزادیٔ مذہب کے منافی ہیں جس کا اقرار اسلام کی طرف سے
’’لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ‘‘ (البقرة:257)
میں موجود ہے۔
ii.دوسری رائے کے مطابق شروط عمریہ کی روایات اپنی سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔بلکہ علامہ ناصر الدین البانی کے نزدیک تو انتہائی ضعیف ہیں کیونکہ ان میں ایک راوی یحٰی بن عقبہ کے بارے میں علامہ ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اسے کذاب،خبیث اور خدا کادشمن کہا گیا ہے۔امام بخاری نے اسے منکر الحدیث یعنی اوپری حدیثیں لانے والا اور ابو حاتم نے حدیث گھڑنے والا قرار دیا۔
یحیٰ بن عقبہ کے علاوہ یہ روایت دوسری سند سے ابن عساکر میں موجود ہے اور علمائے اسلام میں سے ابن تیمیہ اور ابن قیم اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہاجاتا ہے کہ گذشتہ ائمہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا۔
iii.متن کے لحاظ سے اس معاہدہ کی روایات اندرونی تضادکا شکار ہیں۔
iv.ان شروط میں سےاکثر پر تعامل ثابت نہیں جوان کے عدم صحت پر دلیل ہے۔
v.قرآن کریم میں یہ شروط ثابت نہیں یا ان کے خلاف صراحت نہیں۔
vi.یہ شروط غیر متواترہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں۔
vii.دوسری صدی ہجری کے آخر تک ان شرائط کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔اس کے بعد اچانک ان کی اشاعت ہوئی۔جس سے ظاہر ہے کہ یہ معین اسباب کی خاطر بعض فقہاء کی اختراع ہے۔
(ارشیف ملتقی اھل حدیث 4 جزء47 صفحہ474من المکتبة الشاملة)
شرائط عمریہ کے بارے میں یہ رائے بھی ہے کہ بعض فقہاء نے غیر مسلموں کو خوش کرنے کےلیے ان شرائط کو ردّ کیاہے۔اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ ابن عساکر خود درجہ سوم کی کتب میں سے ہے جس کی روایات قابل قبول نہیں۔ابن تیمیہ اور ابن قیم کی اس روایت سے حجت کا ذکر آگے آئے گا اور فقہاء کی غیر مسلموں کو خوش کرنے کی رائے محض سوئےظن ہے۔
2.درایت کے لحاظ سے بھی یہ شروط معاہدہ قرآن کریم کی اسلامی شریعت،بنیادی حقوق انسانی اوراخلاقی و معاشرتی اقدارکے برخلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔
اصول روایت کے لحاظ سے شرائط عمریہ کا ردّ!
شروط عمریہ کی اصلیت کا پہلا معیار اس کے راوی ہیں۔ان روایات کے بارہ میں ڈاکٹر ھمام سعید (ولادت:1944ء)نے اپنی کتاب ’’الوضع القانونی لاھل الذمة‘‘میں شروط عمریہ پر مشتمل روایات کے تمام طرق کو ضعیف قرار دیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’ اس معاہدہ یعنی شروط کی اسناد کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نہایت کمزور ہیں اورجن مختلف طرق سے یہ روایات بیان ہوئی ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ کمزور راویوں پر مشتمل ہیں اور بعض اسناد تو نہ صرف مجہول بلکہ انقطاع سے بھی خالی نہیں۔یعنی ان میں راوی مسلسل نہیں بلکہ بعض غائب ہیں۔‘‘
(نقد النصوص التراثیة علی ضوء قیم المواطنة از محمد اکیج ص 3،مجلة الجامعة الاسلامیة (سلسلة الدراسات الاسلامیة )مجلد الرابع عشر العدد الثانی ، روایات العھد العمریة دراسة توثیقیة از رمضان اسحاق الزیانجلد14صفحہ190،الوضع القانونی لاھل الذمة صفحہ157)
علامہ ابن قیم (متوفی:751ھ)نے اپنی کتاب ’’احکام اھل الذمة‘‘ میں شروط عمریہ کی جو تین روایات درج کی ہیں۔ان کے راویوں کے متعلق علمائے فن حدیث کی رائےیہ ہے:
1۔اس روایت کی پہلی سند میں عیسیٰ بن خالد مجھول الحال ہیں اور اسماعیل بن عیاش امام نسائی کے نزدیک ضعیف ہیں اورعلامہ ابن حبان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی حدیث میں بہت غلطیاں کی ہیں۔
(المعجم الصغیرلرواة،میزان الاعتدالجزء1صفحہ241)
مسروق بن الاجدع(متوفی:62ھ)اورسفیان ثوری(متوفی:161ھ) کے درمیان انقطاع ہے۔
2۔دوسری سند میں راوی یحیٰ بن عقبة بن العیزارعلامہ ابن معین کے نزدیک کذاب، خبیث اور اللہ کا دشمن ہے۔امام بخاری نے اسے منکر الحدیث کہا ہے اور امام نسائی نے اسے غیر ثقہ قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال جزء4صفحہ397)
دیگر طرق میں مجالد بن سعید قوی نہیں اور بقیة بن الولید مدلس ہیں۔ابن کثیر نے ابن زبر سے یہ روایت نقل کی ہے۔علامہ خطیب بغدادی کے نزدیک ابن زبر غیر ثقہ ہیں۔
(دراسة نقدیة فی المرویاتصفحہ1061)
علامہ ابن قیم کو خودبھی ان روایات کی اسناد میں کمزوری کا احساس تھا اس لیے انہیں اس وضاحت کا سہارا لینا پڑا کہ
’’ان شروط کی شہرت انہیں سند سے بے نیاز کرتی ہے کیونکہ علماء نے ان کو قبول کرکے اپنی کتب میں لکھا اور ان سے دلیل لی۔‘‘(أحكام أهل الذمة جزء3صفحہ4116)
مگرعلامہ ابن قیم کی یہ رائےباعث تشفی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ اسناد کی گہری چھان بین کے اصول سے واضح انحراف ہے۔نیزیہ سلفی مدرسۂ خیال کے اس طریق سے انتہائی بعید ہے جو روایات کے متن او رسند کے متعلق گہری تحقیق کے اصل پرپختہ یقین رکھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ
مَاکُلُّ مَا صَحَّ سَنَدًا صَحَّ مَتْنًا وَلَاکُلُّ مَاصَحَّ مَتْنًا صَحَّ سَنَدًا
یعنی:ہر وہ روایت جو سند کے لحاظ سے صحیح ہو ضروری نہیں کہ وہ متن کے لحاظ سے بھی صحیح ہو اور نہ ہی ہر وہ روایت جو متن کے لحاظ سے صحیح ہو سند کے لحاظ سے بھی صحیح ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ سند و متن کو محض شہرت کی بنا پر بلا تحقیق ہرگز قبول نہیں کیاجاسکتا۔
مشہور عالم و فقیہ ڈاکٹر صبحی الصالح(متوفی:1986ء)جنہوں نے علامہ ابن قیم کی کتاب ’’احکام اھل الذمہ‘‘پر کافی تحقیق کرکے شرح بھی لکھی ہے وہ ابن قیم کے اس مسلک سے متعلق کہتے ہیں کہ
’’نہایت عجیب بات ہے کہ ایک بہت بڑا سلفی عالم ابن قیم تاریخ و شریعت کےایک نہایت حساس موضوع کے متعلق ایسی بات کہے کہ ’’ان شروط کی شہرت ان کو سند سے مستغنی کر دیتی ہے‘‘حالانکہ محض کسی بات کا بیان اس کی صحت و درستی کی دلیل نہیں ہوجاتا اور کوئی بھی عالم و محقق کسی راوی سےبےنیاز ہوکر محض بات کی شہرت پر اعتماد نہیں کرسکتا۔
(شرح الشروط العمریة مجردا من کتاب احکام اھل الذٍمة ھامش 3صفحہ7)
ڈاکٹرصبحی مزید لکھتے ہیں کہ
’’علامہ ابن قیم کا ان شروط کے بارہ میں ایسا بیان کہ شہرت کی وجہ سے یہ روایات قابل قبول ہیں،لاشعوری معلوم ہوتا ہے جو ان کی عام عادت سے ہٹ کر عجلت کاایک نمونہ ہے۔ان کے زمانہ میں شائع ہونیوالی اس جسارت آمیز عبارت کا مقصد ذمیوں کے حقوق پر حملہ نہ ہو پھر بھی انہوں نے حسن نیت اور سادگی کے باعث واضح اندرونی تضاد کے باوجود ان کو بیان کر دیا۔‘‘
(مقدمة شرح الشروط العمریة مجردا من کتاب احکام اھل الذٍمة للدکتور صبحی الصالح)
بیسویں صدی کےمشہور اسلامی مفکر اور معروف مصنف علامہ فھمی ھویدی شروط عمریہ کا ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’پوری پہلی صدی ہجری اور دوسری صدی کے نصف تک ایسی شروط کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔پہلی دفعہ دوسری صدی کے نصف آخر میں امام ابو یوسف حنفی(متوفی187ھ) نے اپنی کتاب الخراج لکھی جو اس میں ذمیوں کامسلمانوں سے جدا خاص لباس پہننے کا ذکر کیا اور ان شرائط کوپہلی مرتبہ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کر دیا۔
مثلاً ذمی کے زنّار باندھنے کی بات جو ان شروط عمریہ میں سے ایک ہے اورجسے ابو عبید نے کتاب الاموال میں بھی بیان کیا ہےمگراس کی سند کی کمزوری بھی صاف ظاہر ہےکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓاپنے والدحضرت عمرؓ سے یہ روایت نہیں کرتے بلکہ ان کے آزاد کردہ غلام نافع سے اور وہ حضرت عمرؓ کے ایک اورآزاد کردہ غلام اسلم سے بیان کرتے ہیں۔یہی بات اس کے مشکوک ہونے کے لیے کافی دلیل ہے۔‘‘(مواطنون لا ذمیون موقع غیر المسلمین فی مجتمع المسلمین۔دارالشروق القاھرة،الطبعہ الثانیة 1990 صفحہ206تا210)
خلفائے راشدین کے بعداموی دَور کا بھی خاتمہ ہوگیا۔حتی کہ عباسی دور کے اوائل میں بھی ان شروط کو حضرت عمرؓ سے کوئی نسبت نہ دی جاتی تھی۔
اگر( یہ معاہدہ اور اس میں بیان کردہ) شروط عمریہ درست ہوتیں توحضرت عمرؓ کے بعد دیگر خلفائے راشدین بشمول حضرت عمر بن عبد العزیزؒ (جو عمر ثانی کے نام سے موسوم تھے) نے ان کو نافذ کیوں نہ فرمایا۔حالانکہ اموی دَور میں تو فتوحات بھی بہت ہوئیں اور ہند و فارس ،اندلس و فرانس تک اسلامی سلطنت پھیل گئی مگر کہیں بھی’’شروط عمریہ‘‘جیسی خود ساختہ شرائط کا اطلاق نہ ہوا۔
مسلمان محققین کے علاوہ یورپین محققین نے بھی ان شروط پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ پروفیسر آرتھر سٹینلی ٹریٹن(Arthur Staney Tritton)نے اپنی کتاب The Caliphs and their non-Muslim Subjects جس کا عربی ترجمہ حسن حبشی نے 1949ء میں ’’اھل الذمة فی الاسلام‘‘ کے نام سےکیا ہے، میں ان تمام شروط کو باطل قرار دیا ہے۔ اور آخر میں لکھا ہے کہ
“The covenant was drawn up in the schools of law, and came to be ascribed, like so much else, to ‘Umar I.”
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects by A.S Tritton p.233)
یعنی حضرت عمرؓ سے منسوب معاہدہ مکاتب فکر میں وضع کی گئیں اور دیگر باتوں کی طرح اسے بھی حضرت عمر بن الخطابؓ کی طرف منسوب کر دیا گیا۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“Suspicion arises that the covenant is not the work of Umar. It presupposes closer intercourse between Christians and muslims than was possible in the early days of the conquest. We cannot save it by arguing that it was legislation for the future. That was not the way of Umar and his advisors; as statesmen they lived from hand to mouth, and did not look to the future. Sufficient proof of this is found in the laws about tribute.”
(The Caliphs and their non-Muslim Subjects by A.S Tritton p.10)
یورپی مؤرخ تھامس واکرآرنلڈ اپنی کتاب ’’الدعوة الی الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’عمومی طور پر خلفائے (اسلام) کا اپنی مسیحی رعایا کے ساتھ سلوک رواداری کے اصولوں پرہی تھا۔اور اگر ہم تشدد کے ادوار (جیسےعباسی خلیفہ المتوکل کا دور تھا) دیکھیں تو ان میں صرف وہ پابندیاں عائد کی گئیں جو نام نہاد قانون عمر میں تھیں۔‘‘
“But as a general rule, the behaviour of the Caliphs towards their Christians subjects has been guided by principles of toleration, and (if we expect particular periods of persecution such as the reign of Al Mutawakkil), the only restrictions imposed were those found in the so-called ordinance of Umar.”
(The Preaching of Islam: A History of the Propagation of the Muslim Faith page 51- 52)
پھر لکھا ہے کہ
’’بعد کے زمانہ کے لوگ حضرت عمرؓ کی طرف بعض ایسی پابندیاں منسوب کرتے ہیں جو انہوں نے عیسائیوں پر ان کے شعائر اور آزادی مذہب کے بارہ میں لگائیں۔مگر محققین De GoeieاورCaetaniنے ثابت کیا کہ یہ پابندیاں دراصل بعد کی ایجاد ہیں۔‘‘
(الدولة والسلطة فی الاسلام از صابر طعیمة صفحہ342بحوالہ مواطنون لا ذمیون لفھمی ھویدی صفحہ211)
مقالہ نگار نے خودشروط عمریہ کی اسناد کو ضعیف قرار دیتے ہوئے علامہ سبکی کا قول درج کیا ہے کہ
’’شروط عمریہ کو ایک جماعت نے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے جن میں ضعیف راوی یحیٰ بن عقبہ نہیں ہے لیکن وہ اکثر روایات ضعیف ہیں،تاہم یہ متعدد روایات ایک دوسرے سے مل کر درجہ قبولیت کو پہنچ جاتی ہیں۔‘‘
نیز انہوں نےلکھا:
’’اسناد پر مزید تحقیق میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’زوائد مسند امام احمد بن حنبل‘‘نامی کتاب میں شروط عمریہ کی اولین روایت کی سند کو تلاش کیا جائے…شروط عمریہ کی بعض اسانید ضعیف بھی ہیں جبکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒنے جس حرب کرمانی کی روایت کو کبھی صحیح اور کبھی جیّد قرار دیا ہے اس کی مکمل سند بھی بسیار کوشش کے باوجود نہیں مل سکی۔‘‘
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 1؍تا7؍مئی2020ء صفحہ29)
مقالہ نگار نے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے حکم نامہ بابت شروط عمریہ کے بارے میں دوروایات درج کیں۔ پہلی روایت کا حوالہ علامہ ابوبکر الخلال(متوفی:311ھ)کی کتاب ’’احکام اھل الملل والردة من الجامع لمسائل احمد بن حنبل ‘‘ کا دیا ہے۔
دراصل یہ روایت عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اپنےوالد محترم سے اور انہوں نے عبدالرزاق صنعانی سے اور انہوں نے معمر سے اور معمر نے عمرو بن میمون بن مہران سے بیان کی ہے۔یہ روایت مصنف عبد الرزاق (متوفیٰ:211ھ) میں بھی درج ہے۔اس کتاب کوحضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے کتب حدیث کے طبقہ سوم میں شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس طبقہ کے محدثین نے صحت کا التزام نہیں کیا اس لیے ان کی کتابیں طبقہ اولیٰ و ثانیہ تک نہیں پہنچ سکیں۔ ان کتابوں میں صحیح،حسن،ضعیف حدیثیں ہی نہیں پائی جاتی ہیں بلکہ ان میں بعض حدیثیں ایسی بھی موجود ہیں جن پر موضوع ہونے کا اتہام ہے۔
(عجالہ نافعہ اردو ترجمہ صفحہ49)
دوسری طرف درایت کے پہلوسےجب ہم حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں توآپ کا عمدہ نمونہ ان سخت شرائط کے واضح برخلاف ہے۔انہوں نے نہ صرف ذمیوں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال رکھا بلکہ ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنایا۔چنانچہ علامہ ابن سعد لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے ذمیوں کےفدیہ ادا کرنے کے لیے خود رقم ادا کی۔اسی طرح آپؒ گرجوں کا خیال رکھتے تھے اور یہود و نصاریٰ کے لیے اپنے مال کا ایک حصہ وقف کیا ہوا تھا۔
(الطبقات الكبرى جزء5صفحہ273تا275)
علامہ ابن عبد الحکم(متوفٰی:214ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت عمر بن العزیز نے اسلامی لشکر میں مال تقسیم کرنے کے بعد باقی بچا ہوا مال ان غیر مسلموں میں تقسیم کروانے کا حکم دیتے جو فساد کرنے والے نہ ہوتے تھے۔
(سيرة عمر بن عبد العزيز صفحہ 64)
ولید بن عبدالملک نے دمشق کے کنیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کرلیا۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے اس ظلم کی شکایت کی تو آپ نے اپنے گورنر کو حکم دیا کہ’’گرجا کی زمین کا جتنا حصہ مسجد میں شامل کیا گیا ہے ،اگر عیسائی اس کا معاوضہ لینے پر رضامند نہ ہوں تو وہ اُنہیں واپس لوٹا دیا جائے۔‘‘
(فتوح البلدان جزء1 صفحہ128)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے اس سلسلے میں یہ فتویٰ پوچھا:
’’کیا وجہ ہے کہ خلفائے راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سؤر کے معاملہ میں آزاد چھوڑدیا۔جواب میں حضرت حسن نے لکھا:انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیا کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔اور آپ کاکام گزشتہ طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا۔‘‘
(المبسوط للسرخسی جزء5 صفحہ39)
شرائط عمریہ کے صحابی راوی پر بحث
اہل جزیرہ سے صلح کرنے والے صحابی حضرت عیاض بن غنمؓ تھےنہ کہ تابعی عبد الرحمٰن بن غنم۔
شروط عمریہ کے جعلی ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ عیاض بن غنمؓ صحابی رسولﷺ شام میں حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے ہم راہ جنگی مہمات میں شامل تھے۔اور حضرت عمرؓ نے انہیں اہل جزیرہ کی طرف مع فوج بھیجا تو آپ نے اہل جزیرہ کے ساتھ مصالحت کے نتیجہ میں ان پر فتح پائی۔حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے انہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی (متوفی:748ھ)،جزء ثانی صفحہ354)
جزیرہ کے تمام ملک صلح کے نتیجہ میں فتح ہوئے۔حضرت عیاض بن غنمؓ نے ان کے ساتھ صلح کی۔
پس اس طرح اہل جزیرہ سے جو معاہدہ صلح ہوا وہ حضرت عیاض بن غنمؓ کے ذریعہ ہوا۔جس کا ذکر ابوعبید قاسم بن سلام (متوفی:224ھ)نے اپنی کتاب الاموال میں بھی کیا ہے کہ انہوں نے اہل الرھا کے ساتھ معاہدہ صلح کیا کہ
’’میں انہیں ان کی جانوں، اموال، اولاد، عورتوں، شہروں اور ان کی چکیوں پر امان دیتا ہوں۔‘‘
ابو عبید کہتے ہیں کہ جب عیاض بن غنم نے اہل الرھا سے معاہدہ صلح کیا تو تمام اہل جزیرہ اس میں شامل ہوگئے۔
(کتاب الاموال لحمید بن زنجویہ(251ھ) الجزء الاول صفحہ474)
حضرت عیاض بن غنمؓ کےاہل جزیرہ کے ساتھ اس معاہدہ میں جو شرائط ہیں وہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہیں۔
علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب میں اہل جزیرہ کے ساتھ عبد الرحمٰن بن غنم کے معاہدہ کا ذکر کیا ہے جبکہ عبد الرحمٰن بن غنم ایک مشہور تابعی اور فقیہ تھے جنہیں حضرت عمرؓ نے شام میں فقہ کی تعلیم وتدریس کے لیے بھجوایا تھا۔
پس اس لحاظ سے بھی علامہ ابن قیم کی تینوں روایات محل نظر ہیں کہ باقی تمام علاقوں میں ان کے سپہ سالار معاہدہ صلح کررہے ہیں۔اور اہل جزیرہ کے ساتھ ایک فقیہ کے معاہدہ کا ذکر ہورہا ہے۔دوسری مستند کتب تاریخ میں اہل جزیرہ کے ساتھ حضرت عیاض بن غنمؓ کےمعاہدہ صلح کا ذکر ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔اس لحاظ سے علامہ ابن قیم کی مندرجہ روایات صریحاً غلط ہیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭