خروج کے وقت بنی اسرائیل کتنے لوگ تھے؟
قرآن کریم اور بائبل کا موازنہ
پس منظر
متعدد واقعات قرآن کریم اور بائبل میں مشترکہ بیان کیے گئے ہیں۔ یعنی ایک ہی واقعہ بائبل میں بھی بیان کیا گیا ہے اور وہی واقعہ قرآن کریم نے بھی بیان فرمایا ہے۔ ایسے واقعات کے متعلق دونوں کتب کے بیان کا موازنہ متعدد اہم امور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ کا قصہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جو دونوں کتب میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے اور جس کا موازنہ بہت دلچسپ ہے۔ ذیل کے مضمون میں اس واقعہ کے صرف ایک پہلو، یعنی خروج کے وقت بنی اسرائیل کی تعداد کے متعلق دونوں کتب کا موازنہ پیش کیا گیا ہے۔
پہلے دونوں صحائف کے بیانات پیش کیے گئے ہیں۔ پھر بائبل کے بیانات پر خود بائبل، عقل اور آثار قدیمہ کی روشنی میں اٹھنے والے سوالات کا ذکر ہے۔ اور آخر پر بائبل کے بیان کی ایک ممکنہ تشریح پیش کی گئی ہے جس سے ایک حد تک بائبل پر اعتراض رفع ہو سکتا ہے۔
بائبل کا بیان، کم از کم ۲۴ لاکھ نفوس
بائبل بیان کرتی ہے کہ مصر سے خروج کے اگلے سال موسیٰؑ نے مردم شماری کروائی اور ہر قبیلہ کی الگ الگ تعداد گنی گئی۔ اس کے مطابق:
’’اسرائیل کا ہر ایک مرد جو بیس سال یا اُس سے زیادہ عمر کے اور فوج میں کام کر نے کے قابل تھا گِنا گیا۔ اُن مردوں کی فہرست اُن کے خاندانی گروہ کے ساتھ تیار کی گئی۔ آدمیوں کی ساری تعداد چھ لاکھ تین ہزار پانچ سو پچاس تھی‘‘۔
(گنتی باب۱، آیت ۴۵۔ ۴۶)
جبکہ ’’لا وی کے خاندانی گروہ سے خاندانوں کی فہرست اسرائیل کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ تیار نہیں کی گئی‘‘۔
(گنتی باب ۱، آیت ۴۷)
لاوی کے ایک ماہ سے زائد عمر کے مردوں کی تعداد ۲۲ہزار تھی۔
(گنتی باب ۲، آیت ۳۹)
بائبل کا اس پر مزید یہ اصرار بھی ہے کہ
’’اُن کے ساتھ کچھ ایسے دوسرے لوگ بھی سفر کر رہے تھے جو اسرائیلی نہیں تھے۔ لیکن وہ بنی اسرائیلیوں کے ساتھ گئے ‘‘۔
(خروج باب ۱۲، آیت ۳۷۔ ۳۸)
چونکہ فوجی خدمت کے قابل مرد اوسطاً کُل آبادی کا ایک چوتھائی ہوتے ہیں، اس لیے بنی اسرائیل کی کُل تعداد کم وبیش پچیس لاکھ بنتی ہے (NK Gottwald, The Tribes of Yahweh, Orbis Books, New York, 1979, pp 51) یعنی ۲۰ سال سے زائد عمر کے ہر جنگجو مرد پر اوسطاً ایک بیوی اور دو بچے ہوں تو یہ لاوی کے علاوہ ۲۴ لاکھ ہوئے وغیرہ۔
قرآن کریم کا بیان، ہزاروں
قرآن کریم اس بارہ میں فرماتا ہے؟
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ ہُمۡ اُلُوۡفٌ (البقرۃ۲آیت۲۴۴)
یعنی کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو کہ اپنے گھروں سے نکلے جبکہ وہ ہزاروں تھے؟ ’’الف‘‘ یعنی ہزار کی دو جمع ہیں۔ ایک آلاف اور دوسری اُلوف۔ تین سے دس ہزار تک آلاف اور اس سے زائد پر اُلوفکہا جاتا ہے
(لسان العرب)
پس یہ لوگ دس ہزار سے زیادہ تھے۔ حسب معمول مفسرین نے کسی دلیل اور ثبوت کے بغیر بہت سی اسرائیلیات بیان کی ہیں کہ یہ چار یا آٹھ یا نو یا دس یا تیس یا ستر ہزار لوگ تھے حالانکہ دس ہزار سے کم تو لغوی طور پر ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی کہ یہ طاعون یا جہاد سے ڈر کر بھاگے تھے۔ جگہ اور وقت کے متعلق بھی اسی طرح اختلاف پایا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت حضرت موسیٰؑ کے زمانہ کے بنی اسرائیل کے متعلق ہے۔ قرآن کریم خود اس کی تشریح فرماتا ہے۔ ہر بات جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے، یعنی موت کا خوف، مرنے کا حکم، زندہ ہونا یہ سب امور مصر سے ہجرت کرنے والے بنی اسرائیل کے متعلق بیان ہوئے ہیں جو کہ فرعون کے ہاتھوں اپنی موت کے ڈر سے نکلے اور جنہیں مر ہی جانے کا حکم دیا گیا اور پھر بعد قریب المرگ ہونے کے دوبارہ زندگی بخشی گئی۔
(حضرت مصلح موعودؓ، تفسیر کبیر)
مصر میں کتنی نسلیں تھیں؟
بائبل کے مطابق ’’یعقوب کے اہل خاندان میں جو مصر کو آئے کل افراد ستّر تھے ‘‘(پیدائش، باب ۴۶، آیت ۲۷)۔ نیز حضرت یعقوبؑ سے حضرت موسیٰؑ تک محض چار نسلیں تھیں کیونکہ:موسیٰؑ کے والد عمرام تھے۔ عمرام کے والد قہات تھے۔ قہات کے والد لاوی تھے۔ لاوی کے والد یعقوبؑ تھے (خروج باب ۶، آیت ۱۴ تا ۲۰)۔ چار نسلوں میں ۷۰ افراد کا ۲۴۔ ۲۵لاکھ ہو جانا عقل کے اتنا خلاف ہے کہ اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔ دوسری طرف بائیبل کہتی ہے کہ ’’بنی اسرائیل مصر میں ۴۳۰ سال تک رہے‘‘(خروج، باب ۱۲، آیت ۴۰)۔ چونکہ ایک نسل کی مدت قریباً ۳۰ سال ہوتی ہے۔
(Fenner, Cross-Cultural Estimation of the Human Generation Interval for use in Genetics-Based Poplation Divergence Studies, American Journal of Physical Anthropology, Vol 128, 2005, pp 415 to 423)
اس لیے ۴۳۰ سال میں قریبا ً۱۴نسلیں ہونی چاہئیں نہ کہ چار!
اس کا ایک حل یہ نکالا گیا ہے کہ مصر کا قیام ۴۳۰سال نہیں بلکہ ۲۱۵ سال تھا۔ اس بات کی بنیاد یہ ہے کہ بائبل کے یونانی ترجمہ (سبعینیہ) اور سامری تورات میں اس جگہ ’’مصر‘‘ کی بجائے ’’مصر اور کنعان‘‘ لکھا ہے۔ چنانچہ مصر میں قیام محض ۲۱۵سال بتایا گیا ہے۔
(PJ Ray Jr, The Duration of the Israelite Sojourn in Egypt, Andrews University Seminary Studies, Vol24, No 3 pp 231 to 248, 1986)
جبکہ ۴۳۰ سال سے مراد حضرت ابراہیمؑ سے لے کر مصر سے خروج تک کا زمانہ۔
اگر یہ دلیل درست بھی مان لی جائے تو بھی اول تو ۲۱۵ سال میں چار نہیں بلکہ سات نسلیں ہونی چاہئیں۔ دوئم ستّر افراد کے ۲۱۵ سال میں ۲۵ لاکھ ہونے کا مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ الجھ جاتا ہے۔ سوئم یہ کہ پیدائش باب ۱۵، آیت ۱۳کے مطابق پیشگوئی یہ تھی کہ ’’وہاں کے لوگ انہیں غلام بنا لیں گے۔ اور وہ وہاں چار سو برس تک تکالیف اٹھائیں گے‘‘ لیکن کنعان میں بنی اسرائیل کبھی غلام نہیں رہے اس لیے چار سو برس مصر میں ہی ہونے چاہئیں۔
اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ شجرۂ نسب نامکمل ہے جس میں سے متعدد نسلیں حذف کر دی گئی ہیں اور حقیقت میں۱۴نسلیں ہی تھیں تب بھی حساب درست نہیں بنتا۔ اگر ہر نسل پہلی سے دوگنا ہو یعنی ہر اسرائیلی کے چار زندہ رہنے اور جوان ہو کر شادی کرنے والے بچے ہوں جن کے آگے چار چار بچے ہوں اور ایسا مسلسل ۱۴نسلوں تک ہوتا رہے، تب بھی ۲۵ لاکھ کا سوال بھی نہیں پیدا ہوتا۔ یاد رہے کہ چند خاندانوں میں چند نسلوں تک زیادہ بچے ہو سکتے ہیں، لیکن ہزاروں خاندانوں میں ۱۴ نسلوں تک اوسطاً چار جوان ہونے والے بچے بہت زیادہ تخمینہ ہے۔ کچھ بچے حادثہ یا بیماری کے نتیجہ میں جلدی فوت ہو جاتے ہیں کچھ کے ہاں اولاد نہیں ہوتی وغیرہ۔ اسی لیے اوپر بنی اسرائیل کی خروج کے وقت کل تعداد کا تخمینہ لگاتے ہوئے ہر جنگجو مرد پر دو بچوں کا حساب لگایا گیا تھا۔ چار بچوں پر وہ تعداد ۳۶ لاکھ بنتی ہے!
پہلوٹھے کتنے تھے؟
بائبل میں دوسری جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’موسیٰ نے سبھی پہلوٹھے جن کی عمر ایک مہینہ یا اس سے زیادہ تھی ان کی فہرست تیار کی۔ اس فہرست میں ۲۲ ہزار ۲۷۳ نام تھے‘‘ (گنتی باب ۳ آیت ۴۳)۔ چونکہ بیس سال سے بڑی عمر والے جنگجو مردوں کی تعداد چھ لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے، یعنی تمام مردوں کی تعداد کم از کم دس لاکھ رہی ہو گی، اس لیے ہر پہلوٹھے پر قریباً ۵۰بیٹے بنے! اور چونکہ کسی بھی قوم میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد کم و بیش برابر ہوتی ہے اس لئے ہر اسرائیلی عورت کے ایک سو بچے، ۵۰ لڑکے اور ۵۰ لڑکیاں ہوئے! یہ پھر اتنی غیر معقول بات ہے کہ اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ لامحالہ تعداد میں شدید مبالغہ کیا گیا ہے۔
قافلہ کتنا لمبا تھا؟
خروج باب۱۳آیت۱۸کے مطابق بنی اسرائیل חֲמֻשִׁ֛ים (خمشیم)ہو کر مصر سے نکلے۔ یہ لفظ ’’خمش‘‘ یعنی پانچ سے نکلا ہے۔ چنانچہ یہودی مفسرین کے مطابق بنی اسرائیل نے پانچ پانچ افراد کی صفیں بنا کر سمندر عبور کیا تھا۔ ۲۵ لاکھ افراد کا مطلب ہے پانچ لاکھ صفوف۔ اگر ہر صف میں محض ایک میٹر کا فاصلہ ہو، جو کہ بہت کم ہے کیونکہ ’’اُن کے ساتھ اُن کی بھیڑیں، گا ئے، بکریاں اور دوسری کئی چیزیں تھیں‘‘(خروج، باب ۱۲، آیت ۳۸)، تو یہ ۵۰۰کلومیٹر لمبا قافلہ بنتا ہے! اتنے لمبے قافلے کو سمندر عبور کرنے کے لیے کئی دن چاہئیں جبکہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کے تعاقب میں تھا۔
ملک آباد کرنے کو کافی تھے؟
جب اسرائیلی مصر سے نکلے تو بائبل کے بیان کے مطابق اتنے کم تھے کہ فلسطین کو آباد نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہاں پہلے سے آباد لوگوں کے متعلق بتایا کہ
’’اگر میں لوگوں کو بہت جلدی سے باہر جانے کے لئے دباؤ ڈالوں تو ملک ہی خالی ہو جائے گا‘‘
(خروج باب۲۳، آیت ۲۹)
جبکہ ۲۵ لاکھ انسانوں سے فلسطین جیسے چھوٹے ملک کو آباد کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ یہود کی فلسطین میں حالیہ آباد کاری تک فلسطین کی ترکی سلطنت کے تحت آبادی دس لاکھ بھی نہیں تھی۔ انہی سے سارا ملک آباد تھا۔
(J McCarty, The Population of Palestine, Columbia University Press, New York, 1990, pp 37)
متفرق مسائل
مبالغہ انگیزی سے ہمیشہ مسائل پیدا ہوتے ہیں جو شاید اس وقت تو تنقید کا موجب نہ بنیں مگر بعد میں غور کرنے والوں کو بہرحال نظر آ جاتے ہیں۔ مثلاً بائبل بتاتی ہے کہ موسیٰؑ (استثناء باب ۱ آیت ۱)اور یوشعؑ نے تمام بنی اسرائیل سے خطاب کیا۔ لاؤڈسپیکر وغیرہ کے بغیر ۲۵ لاکھ کے مجمع سے خطاب کرنا کیسے ممکن ہے؟ بائبل کا ایک حکم یہ ہے کہ کاہن قربانی کے جانور کی کھال، گوبر وغیرہ بنی اسرائیل کے رہائشی علاقہ سے باہر لے جا کر جلائے (احبار، باب ۴، آیت ۱۱۔ ۱۲)۔ اگر ۲۵ لاکھ لوگ کہیں آباد ہوں تو کاہن تو سارا دن قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ہی لے جا کر جلاتا رہ جائے گا۔ اس قسم کے تضادات کی ایک لمبی فہرست بنتی ہے جو کہ بشپ کولینسو نے لکھی ہے۔
(JW Colenso, The Pentateuch And Book Of Joshua Critically Examined, Longman, Roberts & Green, London, 1862)
مصری تاریخ میں ذکر ؟
مصری تہذیب ایک پرانی تہذیب ہے۔ ہزاروں سال سے فراعین مصر اپنے وقت کی تاریخ مختلف کتبوں، مقبروں کی دیواروں پر کندہ کر کے محفوظ کرتے آئے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ کے فراعین کے مقبرے اور ان کی تاریخ بھی دریافت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کا جائزہ لینا بھی مفید ہو گا۔
۲۴، ۲۵ لاکھ لوگوں کا یک دم ملک سے نکل جانا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اگر ایسا ہو تو ملک میں افرادی قوت میں شدید کمی واقع ہو جائے، کھیتی باڑی کے لیے مزدوروں کی کمی کی وجہ سے فصلوں پر اثر پڑ کر قحط ہو جائے، صارفین کی تعداد میں اتنی کمی کی وجہ سے کاروبار اور معیشت بیٹھ جائے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ مبینہ طور پر اتنی بڑی کمی کا کوئی اثر تاریخ میں محفوظ نہیں۔ کسی جگہ بنی اسرائیل کی مصر میں موجودگی کا بھی ذکر نہیں کجا یہ کہ ان کے چلے جانے کا ذکر ہو۔ یاد رہے کہ اس وقت مصر کی کل آبادی کا اندازہ ۳۵ لاکھ کے قریب لگایا گیا ہے۔
(JK Hoffmeier, Ancient Israel in Sinai, Oxford University Press, 2005, pp 154)
چنانچہ مصری کتبوں اور خطوط میں خروج کا کوئی ذکر نہیں ملا:
There is nothing in the Egyptian texts that could be related to the story in the book of Exodus.
(Dozeman, Evans and Lohr, The book of Exodus, Brill, Leiden 2014, pp 63)
مشہور اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ Finkelstein اور Silberman لکھتے ہیں :
We have no clue, not even a single word, about early Israelites in Egypt: neither in monumental inscriptions on walls of temples, nor in tomb inscriptions, nor in papyri
(I Finkelstein and NA Silberman, The Bible Unearthed, Touchstone, New York, 2001, pp 60)
بعض علماء اب کوشش کر رہے ہیں کہ کھینچ تان کر مصری تاریخ میں بنی اسرائیل کا ذکر ڈھونڈ نکالیں۔ مگر اس کے لیے انہیں بعض ناقابل قبول ترامیم کرنی پڑتیں اور حضرت موسیٰؑ کا زمانہ قریباً دو سو سال پہلے لے جانا پڑتا ہے۔ لیکن بات پھر بھی بنتی نہیں۔
دشت سیناء اور فلسطین کے آثار قدیمہ
اگر بڑی تعداد میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے تو اس کے آثار ملنے چاہئیں مثلاً ان کے پاس چیزیں ہونی چاہئیں جو کہ راستہ میں پڑاؤ کی جگہوں پر ملنی چاہئیں۔ چالیس سال صحراء میں ان کی ایک پوری نسل فوت ہو گئی، ان کی قبور ملنی چاہئیں، لیکن ایسے تمام آثار غائب ہیں!
There is no archaeological evidence for an exodus such as is described in the Bible in any period within the second millennium BC
(Frerichs, Lesko, Exodus: The Egyptian Evidence, Eisenbrauns, 1997, pp 97)
فلسطین پہنچ کر بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل نے شہروں کو زیر نگیں کیا، جنگوں میں مقامی باشندوں کو قتل کیا گیا، مال و اسباب جلایا گیا اور بنی اسرائیل ملک میں آباد ہو گئے۔ مفتوحہ شہروں کے کھنڈرات میں تاہم کسی تباہی یا نئی آبادی کے کوئی نشانات نہیں ملے نہ ہی ان کا حدود اربعہ لاکھوں افراد والا ہے۔
After more than a century of research and the massive efforts of generations of archaeologists and Egyptologists, nothing has been recovered that relates directly to the account in Exodus of an Egyptian sojourn and escape or of a large-scale migration through Sinai۔
(C Meyers, Exodus, Cambridge University Press, 2005, pp 5)
دشت سیناء میں چالیس سال کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ تاہم اس عرصہ کے اسرائیلی آثار قدیمہ مکمل طور پر غائب ہیں:
Archaeological evidence concerning the end of the Israelites’ journey is entirely lacking. Most of the sites mentioned in Numbers and Deuteronomy can not be identified, especially those indicating stops along the journey. In the few sites that archaeologists can identify, they have found no evidence of permanent occupation during the Late Bronze Age, not even near the end when the exodus could have taken place. Although there are more than eighty sites from the Egyptian New Kingdom, including a series of Egyptian fortresses and supply centers cut through the Sinai along the Mediterranean coast, there is no trace of the wandering Israelites in any location in the Sinai Desert … So rather than archaeology providing support for historical elements of the exodus story, excavations to date actually contradict that tale’s claims.
(Ebeling, Wright, Elliot, Flesher, The Old Testament in Archaeology and History, Baylor University Press, 2017, pp 269)
اس زمانہ کے فراعین مصر کی دیگر بادشاہوں اور اپنے گماشتوں کے ساتھ خط و کتابت پر مشتمل ۴۰۰کے قریب دستاویزات دریافت ہو چکی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فراعین مصر بدستور حاکم اور معاملات پر گرفت رکھتے تھے۔ فلسطین کی آبادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یروشلم کے بادشاہ نے فرعون کو لکھا کہ اسے پچاس فوجی مہیا کیے جائیں تاکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کر سکے! مگیدو کے بادشاہ نے لکھا کہ سکم کے بادشاہ کے حملے سے بچاؤ کے لیے اسے ایک سو فوجیوں کی کمک بھیجی جائے۔ پچاس یا سو فوجیوں سے کسی ملک یا شہر کی حفاظت کی کوشش سے ظاہر ہے کہ وہ خود اور ان پر حملہ کرنے والے کتنی معمولی تعداد رکھتے تھے۔
(I Finkelstein and NA Silberman, The Bible Unearthed, Touchstone, New York, 2001, pp 78)
بائبل کے بیان کی متبادل تشریح
بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے متعلق بائیبل کے بیان کردہ اعداد و شمار اتنے غیر حقیقی اور غیر معقول ہیں کہ ان کو ماننا ممکن نہیں۔ چنانچہ اب ان کی متبادل تشریحات بھی کی گئی ہیں جو کہ کافی اعتراضات کو دُور کر دیتی ہیں۔ عربی کی طرح عبرانی میں بھی سب سے بڑا عدد ہزار ہے۔ چنانچہ لاکھ کو سو ہزار کہا جاتا ہے۔ ہزار کے لیے بائبل میں اس جگہ استعمال شدہ لفظ ’’الپ‘‘ ہے جس کے متعدد معانی ہیں مثلاً ہزار، خاندان، دستہ، سردار وغیرہ۔ پس بائبل میں جو چھ لاکھ کا ذکر ہے وہاں الفاظ میں ’’چھ سو ہزار‘‘ لکھا ہے۔ لیکن ’’الپ‘‘ کے دوسرے معنی کے لحاظ سے مراد چھ سو خاندان بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اوسطاً ہر خاندان چھ افراد پر مشتمل ہو تو یہ کُل ۳۶۰۰ لوگ ہوئے جو کہ قرین قیاس ہے اور قرآن کریم کے بیان کے نزدیک بھی۔ تاہم اس تشریح پر بعض دیگر اعتراضات واقع ہوتے ہیں۔
چنانچہ اس وقت سب سے زیادہ قابل قبول خیال یہ پیش کیا گیا ہے کہ بائبل کی اصل عبارت یوں تھی :
’’۵۹۸ الپ، پانچ الپ پانچ سو پچاس‘‘ اور اس سے مراد یہ تھی کہ بنی اسرائیل ۵۹۸ٹکڑیوں یا دستوں کی صورت میں منظم ہو کر مصر سے نکلے جن کی کُل تعداد ۵۵۵۰ تھی۔ بعد میں کسی نے پہلے الپ، جس سے مراد ’’دستہ ‘‘ تھی، اور دوسرے ’’الپ‘‘، جس سے مراد ہزار تھی، کو ملا کر ۶۰۳ہزار بنا دیا جو کہ اب بھی چھ لاکھ تین ہزار کی شکل میں موجود ہے۔ ساڑھے پانچ ہزار جنگجو میں سے ہر ایک پر اوسطاً ایک بیوی اور دو بچے لگائے جائیں تو ۲۲ ہزار سے زائد بنے اور تین بچے ہوں تو ساڑھے ۲۷ ہزار وغیرہ۔ پس خروج کے وقت اسرائیلیوں کی تعداد بیس ہزار کے قریب بنتی ہے
(Humphreys, The Number of People in the Exodus from Egypt: Decoding Mathematically the Very Large Numbers in Numbers I and XXVI, Vetus Testamentum, Vol 48, No 2, pp 196 to 213)
نتائج
مصر سے بنی اسرائیل کا خروج اس طریق پر اور اس تعداد میں ہرگز نہیں ہوا جو کہ عام طور پر بائیبل سے سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ چند ہزار لوگ تھے خواہ دس، بیس ہزار ہی ہوں، اسی لیے نہ دشت سیناء میں ان کے کچھ آثار ملتے ہیں نہ ہی فلسطین میں۔ چنانچہ ماہرین یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ
There is a consensus among scholars that the Exodus did not take place in the manner described in the Bible
(Levy, Schneider, Propp, Israel´s Exodus in Transdisciplinary Perspective, Springer, 2015, pp 476)
اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ
As for the number of Israelites said to have left Egypt in Exodus, 600,000 clearly is inflated highly. If Bene Yisrael initially included only the descendants of Jacob, then 6000, or even 600, would be a more reasonable figure.
(Frerichs, Lesko, Exodus: The Egyptian Evidence, Eisenbrauns, 1997, pp 49)
چھ سو والی بات تو بہرحال عام افراط کے مقابل پر کچھ زیادہ ہی تفریط ہے تاہم دس یا بیس ہزار زیادہ قرین قیاس ہے جو کہ قرآن کریم کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔
٭…٭…٭