واقعۂ کربلا
واقعۂ کربلا 10؍محرم 61ھ (بمطابق 682ء) کو ہوا۔ اس اندوہناک حادثہ میں نواسۂ رسولﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ 57سال کی عمر میں اپنے رفقاء اور اعزّہ کے ہم راہ ایک ایسی جمعیت کے ہاتھوں شہید ہوگئے جو سب مسلمان تھے اور اس وقت کے مسلمان حکمران یزید کے حکم بردار۔
پسِ منظر
وہ شورش جس کا انجام یہ واقعہ ٔشہادت ہوا اس کی ابتدا تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت کے چھٹے سال میں ہوئی تھی۔
اسلام جو ایک کمزور مذہبی تحریک کی شکل میں مکہ سے ظاہر ہوا تھا اورجسے 13سال کی عمر میں انتہائی کس مپرسی کی حالت میں مکہ سے جلا وطن ہونا پڑا تھا خدائی تقدیر کے تحت چند سالوں بعد ہی فتح مکہ کے نتیجہ میں ایک نمایاں سیاسی طاقت کی شکل اختیار کر گیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ا دوارِ خلافت میں اس طاقت میں اتنا اضافہ ہوا کہ اس نے آس پاس کی تمام بڑی حکومتوں کا خاتمہ کر دیا۔
اسلام کے اس غلبہ کے لازمی نتیجہ کے طور پر جہاں ایک بڑی تعداد میںدیگر عرب اور غیر عرب مسلمان ہوئے وہیں دیگر مخالف مذاہب اور حکومتوں کو اس بڑھتی ہوئی طاقت کو سنجیدگی سے لینا پڑا اور مخالفانہ منصوبہ بندی کا ایک بازار گرم ہو گیا۔ نئے نئے مسلمان ہونے والے اپنی مناسب تربیت کا سامان نہ ہونے کے سبب بڑی آسانی سے ان مخالف طاقتوں کا آلۂ کار بن گئے۔ اسلام کی طاقت کا رازنظامِ خلافت تھا۔یہ حقیقت دشمن سے اوجھل نہ تھی۔ اس لیے سازشوں کا نشانہ نمایاں طور پر بظاہر خلیفۂ وقت کا وجود لیکن درپردہ خلافت کا ادارہ تھا۔
مقامِ خلافت پر پہلا حملہ
خلیفۂ وقت کی ذات کو ایک عام سطح پر رکھ کر اعتراض کا نشانہ بنانے کا ایک واقعہ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ہی ہو ا جب آپ کے لباس پر برملا نکتہ چینی کی گئی اور سننے والوں نے کوئی رد عمل نہ دکھایا۔لیکن یہ دورجنگوں کا تھا۔ اس میں اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نصف دورِ خلافت تک دشمنوں سے محاذ آرائی نے ایک ایسا ماحول پید ا کر رکھا تھا جس میں تمام تر توجہات کا مرکز یہ حالتِ جنگ تھی۔ اس لیے یہ واقعہ محض ایک انفرادی گستاخی سے زائد کچھ نہ بن سکا۔ لیکن بعد میں حالتِ امن، خوشحالی اور غیر تربیت یافتہ مسلمان بھیڑ نے اس راہ پر مزید لوگوں کا چلنا آسان کر دیا۔
حضرت عثمان ؓسے مطالبہ عزل
دشمنوں کا آلۂ کار بن کر کچھ مفاد پرستوں نے تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراضات کی بھر مار کر دی اور اس بات کو یہاں تک بڑھایا کہ ان سے معزولی کا مطالبہ کر دیا۔ یہ جڑ کاٹ دینے والی بات تھی۔ اسلام کی زندگی نظامِ خلافت میں تھی اس لیے خلیفۂ وقت نے بجا طور پر پورے استقلال سے اس مطالبہ کو ردّ کر دیا۔ حالات مزید بگڑ کر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر منتج ہوئے۔
حضرت علی ؓکی مخالفت
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد بارِ خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھوں آن پڑا۔ نظام کو ایک دھکا تو لگ ہی چکا تھا۔دشمنوں نے اس کو بالکل ختم کر نے کی ٹھان لی۔وہ جوحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے اصل ذمہ دارتھے بھیس بدل کر ان کی شہادت کا بدلہ لینے کے دعویدار بن گئے۔ ان سب سازشوں کا مرکزی کردار ایک یہودی منافق عبد اللہ بن سبا تھا۔سازشیوں نے اس حادثہ میں بزرگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ملوث کرنا شروع کر دیاحتیٰ کہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام بھی ذمہ داروں میں گننے لگے۔
یہ سب الزا م تراشی محض جھوٹ تھی۔ کوئی صحابیٔ رسولﷺ اس سازش میں شریک نہ تھااور ہو بھی نہ سکتا تھا۔ وہ جنہوں نے دامنِ رسولﷺ میں تربیت پائی ہو ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب صحابہ نے بے مثال فدائیت کا مظاہر ہ کیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی روشن مثال ہیں اور حضرت علی ؓنے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حفاظت کی خاطر اپنے بیٹوں حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم تک کو مامور کر رکھا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس بات کے لیے دبائو ڈالا جانے لگا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قصاص لیں اور ان تمام بزرگ صحابہ کو سزا وار ٹھہرائیں جن کو یہ منافق ملزم کر رہے تھے۔اس ناجائز مطالبہ کا ماننا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے ممکن نہ تھا۔ اور نتیجہ میں افتراق کی لکیر بڑھ کر شگاف ہو گئی۔
وہ جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اپنے آپ کو شیعانِ علی( علی کے دوست) کہلانے لگے اور یوں اسلام میں سیاست کی خاطرفرقہ بازی کی بنیاد پڑی۔مسلمان باہم دست وگریبان ہوگئے۔ جنگِ جمل اور جنگِ صفین ایسی جنگیں تھیں جن میں دونوں طرف مسلمان تھے۔پھر خوارج ظاہر ہوئے جوعلی الاعلان خلافت کے خاتمہ کے داعی تھے اور انجام کار ایک خارجی کے ہاتھوں ہی خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔
حضرت حسن ؓکی خلافت سے دست برداری
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی بیعت لی۔ تاہم انہوں نے اختلاف اور افتراق کے ماحول کو امن سے بدل دینے کی شدید خواہش کے تحت یہ انتہائی قدم بھی اٹھالیا کہ حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں دستبردار ہو گئے۔
خلافت سے بادشاہت
حضرت امام حسن ؓ کے دست برداری کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پہلے ہی شا م اور مصر کے گورنر تھے پوری مسلم حکومت کے سربراہ بن گئے۔ حکومت کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے اپنے بعد اپنے بیٹے یزید کو نامزد کر دیا۔ گویہ طریقِ انتخاب نیا نہ تھا لیکن جو بات نئی ہوئی وہ یہ تھی کہ یزید اس منصب کا اہل نہ تھا اور نیکی اور راستبازی کے لحاظ سے انتہائی پست درجہ پر تھا۔اس بااختیار منصب پر ایک نااہل فرد کا تقرر اپنے دامن میںان تمام خرابیوں کو لے کر آیا جو بادشاہت کا لازمہ ہیں۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بجا طور پر اس نظام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور یزید کی بیعت نہکی۔ اور یوں اس تنازعہ کی ابتدا ہوئی جس کا انجام آپ کی شہادت ہوا۔
حضرت امام حسن ؓ اور حسین ؓکے طرزِ عمل کا فرق
حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما کے طرزِ عمل کا یہ فرق بعض کے نزدیک محل اعتراض ہے تاہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم و عدل اس بارے میں یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ
’’ہم تو دونوں کے ثناء خواں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص کے جداجدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدِ نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیوں کہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونوں کی نیت نیک تھی۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 580،ایڈیشن1988ء)
حالات ِ جنگ
مدینہ سے حضرت امام حسین ؓ کے کوفہ کے لیے عاز م ِسفر ہونے کی وجوہات، حالات ِسفر اورکربلا میں پیش آنے والے واقعات ایسے موضوع ہیں جن پر یوں تو تفاصیل کے انبار جمع ہیں اور ذاکر سارا سال انہیں بیان کرتے نہیں تھکتے لیکن ان میں اصل واقعات کتنے ہیں اور اضافے کس قدر، اس کا انتخاب بڑا دقت طلب ہے۔ یہ ایزادیاں دونوں طرف سے کی گئیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زائد تعلق جتانے والوں نے ان کی مظلومیت کو دو چند کرنے کے لیے اور مخالفین نے اس جھگڑے کو سیاسی رنگ دینے کے لیے۔ یہی رنگ آمیزیاں تھیں جنہوں نے ان دو انتہائوں کو جنم دیا کہ ایک طرف تو واقعۂ کربلا اسلام کا مقصد اور نجات کا ذریعہ ٹھہرا دوسری طرف حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغی اور یزید کو ہر قسم کے تعظیمی کلما ت کامستحق بھی لکھا گیا۔
معرکہ حق و باطل
ان دو انتہائوں کے درمیان اصل حقیقت اتنی ہی ہے کہ یہ حق و باطل کی ایک جنگ تھی۔ جس میں حق حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا کیونکہ وہ ساری علامات ان میں پائی جاتی تھیںجو حق کی علامات ہیں جیسے :
اقلیت میں ہونا
حضرت امام حسین ؓکے ساتھ محض چند ساتھی تھے اور آپ کا سامنا حکومتی لشکر سے تھا۔روحانی معاملات میں ایک وقت ہوتا ہے کہ جب اقلیت حق پر ہوتی ہے جبکہ اکثریت اس کی مخالفت کرتی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصتَ بِمُؤْمِنِیْنَ(یوسف 104:12)
ترجمہ: اور اکثر انسان، خواہ تو کتنا ہی چاہے، ایمان لانے والے نہیں بنیں گے۔
فتوی ٔکفر و وجوبِ قتل
بد قسمتی سے اس معرکہ میں وقت کے مفتی دنیا کی خاطر اپنے فتاویٰ کے ساتھ حق کے خلاف اور ظالم حکومت کے مدد گارتھے۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ
’حضرت سیّد الشہداء… کے قتل کے محضر پر دربارِ بنی امیہ کے ایک سو قاضیوں اور مفتیوں کی مہریں لگی تھیں اور سرِفہرت قاضی شریح کا نام تھا۔کہتے ہیں کہ بصرے کے گورنر ابن ِ زیاد نے قاضی شریح کو دربار میں طلب کیا اور کہا کہ آپ حسین ؓبن علیؓ کے قتل کا فتویٰ صادر کریں۔ قاضی شریح نے انکار کیا اور اپنا قلمدان اپنے سر پر دے مارا……اور اُٹھ کر اپنے گھر چلا گیا جب رات ہوئی تو ابنِ زیاد نے چند تھیلیاں زَر کی اس کے لئے بھیج دیں۔ صبح ہوئی شریح ابنِ زیاد کے پاس آیا تو ابنِ زیاد نے پھر وہی گفتگو شروع کی۔ قاضی شریح نے کہا کہ کل رات مَیں نے قتلِ حسین پر بہت غور کیا اور ا س نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کا قتل کر دینا واجب ہے چونکہ انہوں نے خلیفۂ وقت پر خروج کیا ہے، لہٰذا بر بنائے دفع مفسدہ و خارجی یہ لازم ہے۔پھر قلم اٹھایا اور فرزندِ رسولﷺ کے قتل کا فیصلہ اس مضمون کا لکھا:
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے نزدیک ثابت ہو گیا ہے حسین ابنِ علی دینِ رسولﷺ سے خارج ہو گیا ہے لہٰذا وہ واجب القتل ہے۔‘‘
(جواہر الکلام ازآقائی حاجی مرزاحسن صفحہ 88مطبوعہ 1323ھ مطبع علمی تبریز ایران)
طاقتور دشمن اور عافیت کوش عوام
حکومت سیاست کار مفتیوں کی حمایت کے ساتھ حضرت امام حسینؓ کی مخالف تھی اور اس طاقتور دشمن سے خائف وہ عام مسلمان جو خواہ دل میں حضرت حسین ؓکے حامی ہوں،عملاً کچھ کرنے کے روادار نہ تھے۔ یہ بھی حق پر ہونے والی جماعتوں میں عام ہے۔ خواہ رومی حکومت اور یہودی فریسیوں کا گٹھ جوڑ ہو یا سردارانِ قریش اور خانہ کعبہ کے متولیوں کا اکٹھ۔ سچ کو ہمیشہ اپنی کمزور حالت کے ساتھ بڑے دشمنوں اور طاقت کے سامنے سر نگوں عوام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بے خوفی اور بے جگری کے ساتھ مال و جان کی قربانی
ان مخالف حالات میں نتیجہ ما ل و جان کی قربانی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ سولی پر لٹکائے گئے اور اوّلین مسلمانوں کو کفارِ مکہ کے مظالم سہ کر تکالیف اٹھانی اور جانیں دینی پڑیں۔ حضرت امام حسین ؓ کے وقت بھی ایسا ہی پیش آیا اور بجز ایک کے سب ہم راہی مرد وں کوراہ ِحق میں قربان ہونا پڑا۔
انجام کار کامیابی
اس سب کا نتیجہ بھی ہمیشہ کی طرح نکلا، ریاست کی طاقت، فریسیوں اور مفتیوں کی دین فروشی، جمہور کا منافقانہ طور پر چپ سادھ رہنا سب رائیگاں گیا۔اپنے وقت کے یہ سب زندہ اور طاقتور ہمیشہ کے لیے موت کے اندھیروں میں ڈوب گئے اور وہ جو خاک و خون میں لتھیڑے گئے، ہمیشہ کی زندگی پاگئے۔ آج کوئی نہیں جو اپنے آپ کو ان ظالموں سے منسوب کرتا ہو جبکہ حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے زندہ ہونے پر زمانہ گواہ ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
حضرت امام حسینؓ کا عالی مرتبہ
حضرت مسیح موعود نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے کہ ہم حضرت امام حسینؓ کو بزرگ گردانتے ہیںجیسے کہ فرمایا:
جان و دلم فدائے جمالِ محمدؐ است
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۶۴۵)
میرے جان و دل محمدﷺ کے جمال پر فدا ہیں اور میری خاک آل ِ محمدﷺ کے کوچے پر قربان ہے۔
(ترجمہ از حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ)
فرمایا:’’حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہر تھا اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہّ کینہ رکھنا اس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبتِ الٰہی اور صبر و استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے…تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے…یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں…دنیا کی آنکھ وہ شناخت نہیں کر سکتی…یہی وجہ حسین ؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانے میں محبت کی تا حسینؓ سے محبت کی جاتی۔‘‘
( مجموعۂ اشتہارات جلد دوم صفحہ نمبر 654)
حضرت امام حسین ؓ کی یاد
تاہم ان کی یاد کو منانے کے لیے سینہ کوبی، مرثیہ گوئی، ماتم، تعزیے، نذر و نیاز کو ہم درست دینی تعلیم سے ماورا، وقتی اور آسان راہ جانتے ہیں۔ اور ان کی جگہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد منانے کا بہترین طریق ان کے اسوہ کی پیروی گردانتے ہیں بلکہ آج جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس قربانی کو عملاً زندہ کیے ہوئے ہے۔دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے ہر آن مال، وقت اور عزت کی قربانیاں دیتے چلے جانا اور جب وقت پڑے تو اسی استقامت سے جان بھی نذر کر دینا ہماری روشن و تابندہ روایت ہے۔اسی طرح سچائی پر قائم رہنے کے جرم پر مقدمات اور قید و بند کی صعوبتوںکو پوری ہمت اور بہادری سے برداشت کرتے چلے جانے کی مثالوں سے تاریخ احمدیت بھری پڑی ہے۔کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سچائی کی راہ کٹھن ہوتی ہے اور حق کےلیے قربانی دینے کو تیار اور آمادہ رہنا ہی اس کاتقاضا ہے جیسا کہ ہمیں یہ درس دیاگیا ہے؎
یہ عشق و وفا کے یہ کھیت خون سینچے بغیرنہ پنپیں گے
واقعہ ٔکربلا کے سبق
اس واقعہ سے ہم جو سبق سیکھتے ہیں وہ ظاہرطور پر دو ہیں:
پہلاسبق۔جادہ ٔحق میں استقامت
حق اور سچائی کی خاطرمشکلات و مصائب کو پوری استقامت اور استقلال سے برداشت کرنا اور اس کی خاطر جان سمیت ہر شے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہنا واقعہ ٔکربلا کا پہلا سبق ہے۔ یہ ظلم و زیادتی جماعت کامقسوم تھی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام حسین ؓ کے حوالے سے یوں فرمایا :
کربلائے است سیر ہر آنم
صد حسین است درگریبانم
(نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ 477)
میری ہر آن کی سیر ایک کربلا ہے، سینکڑوں حسین ؓ میرے گریبان کے اندر ہیں۔
(ترجمہ از حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ)
ظاہر بین نگاہوں نے اس شعر کو محلِ اعتراض جانا ہے جبکہ اصل میں تویہ دین کی محبت میں تڑپتے دل کی اس راہ میں درپیش مشکلات و مصائب کی اس کیفیت کا اظہار تھا جس میں حضرت مسیح موعود کے شب و روزگزرے۔ساتھ ہی اس میں یہ پیش خبری تھی کہ آپ کی جماعت کو بھی بار بار کربلاکے سے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اورآپ کے سینکڑوں ماننے والوں کو حضرت امام حسینؓ کے سے انجام سے دوچار ہونا ہو گا۔
پس اس واقعہ کا پہلا سبق نامساعد حالات پر کامل استقامت دکھانا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے چلے جانا ہے۔
آنے والی کل ہماری ہے
ضمنی طور پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج کربلا کی تاریخ گویا اپنے آپ کوپھر دہرا رہی ہے۔ ویسی ہی نا منصف ریاست ہے۔وہی حکومت اور مولوی کاگٹھ جوڑ ہے۔ قانون اسی طرح بے توقیر ہے۔ منصف اسی طرح کمزور اور ہوا کے رخ پر چلنے والے ہیں اور جمہور اسی طرح بے آواز اوربےجان کٹھ پتلیوں کی مانندہیں۔ یہ سب جب یکساں ہے تو نتیجہ کیوں پہلے سے مختلف ہو گا؟ یقینا ًپہلے کی طرح اب بھی آنے والی کل آج کے ہم مظلوموں کی ہو گی۔انشاء اللہ
سچ یہی ہے کہ حق کے سفر کی راہ میں خواہ کربلا ہو، کابل ہو،چک سکندر ہو یا لاہور کے خانۂ خدا دارلذکر اور بیت النور، یہ سب وہ سنگِ میل ہیں جن کے دوسرے سرے پر ہمیشہ روشنی اور نور اور اجالا اور صبح ہوتی ہے۔
دوسرا اور سب سے اہم سبق۔ خلافت کی حفاظت
دوسرے اس واقعہ تک تاریخ کے سفر میں نعمتِ خلافت کی ناقدری اور اس کا کھویا جانا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ خلافت ایک بڑی نعمت ہے اور اس کی حفاظت اور استحکام ہمارا انتہائی ضروری فریضہ ہے۔ جہاں پہلوں نے ٹھوکر کھائی ان سب مقامات پر ہمیں محتاط رہ کر گزرنا ہے۔اس لیے خلافت کی حفاظت کے لیے پوری طرح چوکس اور بیدار رہ کر کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہ کرکے اس کا قرار واقعی نوٹس لینا اورہر اس کوشش کے خلاف سینہ سپر رہنا جو نظامِ خلافت پر بال برابر بھی اثر انداز ہو سکتی ہو،ایک ضروری فرض ہے۔نیز اس بات پر یقین رکھنا کہ خلافت میں ہماری جان ہے اور خلیفۂ وقت کا وجود ہمارا سائبان۔ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اسی سایہ تلے رہنا ہے اور اسی کی محبت میں جینا ہے۔ اس لیے خلافت سے اپنے پیاروں سے بھی زیادہ پیار کرنا اور اپنے اہلِ و عیال کو بھی بار بار اس امر کی یاد دہانی کراتے رہنا ایک لازی فریضہ ہے۔ غرضیکہ ہمیںایمان بالخلافت اور خلافت کےلیے ضروری اعمالِ صالحہ کو بجا لا کر اپنے آپ کو اس قابل بنائے رکھنا ہے کہ قیامِ خلافت کا قرآنی وعدہ ہمیشہ ہمارے حق میں پورا ہوتا رہے۔
اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ (آمین)
٭…٭…٭