عربی ادب کے قرآنی شہ پارے
قرآنِ کریم خالقِ کائنات اور علیم و حکیم خدا کی طرف سے نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے جو بے مثل و بے نظیر ہمہ جہتی صفات کی حامل ہے۔ اگر ایک طرف یہ بنی نوع انسان کے ہر طبقہ کے لیے ہدایت اور مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی وجہ سے اُس کی زندگی کے تمام تمدنی، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کےلیے مطلوبہ رہ نمائی مہیّا کرتی ہے تو دوسری طرف اِس میں علم و حکمت، اَسرار و غوامض اور حقائق و معارف کا گویا ایک بحر ذخّار موجزن نظر آتا ہے۔ اِس کلامِ الٰہی کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اِس کااسلوبِ بیان اورطرزِاستدلال عربی ادب اور فصاحت و بلاغت کے تمام ضروری لوازمات سے مزیّن ہونے کے ساتھ ساتھ اِس کی آیات عربی زبان کے مشہور مقولہ خَیْرُ الْکَلامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ یعنی بہترین کلام وہ ہے جو مختصر اور مدلّل ہو، کی مصداق اور متعدد مقامات پر ایسی مسجَّع اور مقفّیٰ ہیں کہ قاری اِس کے حسن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآنِ مجید کی ارفع و اعلیٰ شان، اس کے بلند مقام، باطنی کمالات اور حیات بخش تاثیرات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں :
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوّتِ قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہوگا اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیوں کہ آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپؐ پر ختم ہوچکے تھے اور آپؐ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ اس مقام پر قرآن شریف جو آپؐ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہواہے اور جیسے نبوّت کے کمالات آپؐ پر ختم ہوگئے اسی طرح اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے۔ آپؐ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری۔ جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہوسکتے ہیں اُن سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمراتِ تعلیم، غرض جس پہلو سے دیکھو اُسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو۔ خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد خواہ بلحاظ تعلیم، خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں ۔ غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 2، صفحہ26-27، ایڈیشن1988ء)
جس بات نے مجھے یہ مضمون لکھنے کی طرف ترغیب دلائی ہے وہ عربی ادب کے لحاظ سےقرآنِ پاک کی خوبی ہے۔ دنیا میں لاکھوں مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اِس عظیم المرتبت کلام کو زبانی یاد کیا ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بہت سےاہلِ علم اور عاشقِ قرآن ایسے بھی ہیں جو اِس کی آیات کو موقع محل کے مطابق مضامین اور مفاہیم کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی روزمرّہ گفتگو میں ایسا بر محل استعمال کرتے ہیں کہ سننے والا ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔
خاکسار نے گذشتہ رمضان المبارک میں دو مرتبہ سورۃ القصص پڑھی اور ہر دفعہ جب آیت نمبر 8 پر پہنچتا تو ٹھہر جاتا اور قرآن کے اسلوب بیان کو پڑھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا اور مجھے ایک بدوی عورت کا وہ مکالمہ یاد آجاتاجو’’عربی ادب کے شہ پارے ‘‘ (مؤلّفہ صوفی محمد اسحاق صاحب فاضل، مطبوعہ اپریل 2000ء احسان منزل، رائل پارک لاہور) میں لکھا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک بدوکسی چشمہ کے پاس کھڑا تھا کہ اتنی دیر میں ایک بدوی عورت آئی اور اُس نے چشمہ کے پانی سے اپنا گھڑا بھرا اور پھر اسی مرد کو گھڑا اُٹھوادینے کے لیے کہا۔ جو الفاظ اُس عورت نے استعمال کیے اُن کو سن کر وہ کہنے لگا فَصِـیحَـةٌ جِـدًّا یعنی تو فصیح اللّسان ہے۔ اس پر وہ عورت کہنے لگی کہ مجھ سے زیادہ فصیح اللسان تو صاحبِ قرآن ہے اور پھر اُس نے سورۃ القصص کی یہ آیت پڑھی:
وَأَوْحَيْنَآ إِلٰٓى أُمِّ مُوسٓى أَنْ أَرْضِعِيْهِۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِيْ وَلَا تَحْزَنِيْ ۖ إِنَّا رَآدُّوْهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (سورۃ القصص :08)
ترجمہ: اَور ہم نے موسٰیؑ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اُسے دُودھ پلا۔ پس جب تُو اُس کے بارہ میں خوف محسوس کرے تو اُسے دریا میں ڈال دے اور کوئی خوف نہ کر اور کوئی غم نہ کھا۔ ہم یقیناً اُسے تیری طرف دوبارہ لانے والے ہیں اور اُسے مُرسَلین میں سے (ایک رسول) بنانے والے ہیں ۔
اب دیکھیں اس ایک آیت میں دو امر کے صیغے ہیں، دونہی کے اور دو پیشگوئیاں ۔
اس بدوی عورت کے اس آیت پڑھنے پر وہ بدّو اس عورت کی ذہانت و فطانت پر انگشت بدنداں ہوگیا اور گھڑا اُٹھاکر اُس کے سَر پر رکھ دیا۔
اس واقعہ پر غور کریں تو یہ صرف ایک بدوی عورت کے قرآنِ مجید پر غورو فکر کا نتیجہ ہے۔ کلام پاک میں ایجاز اور اختصار کی خوبی کی یہ صرف ایک مثال ہے۔ عربی ادب کی ایسی بے شمار خوبیاں قرآنِ پاک میں پائی جاتی ہیں ۔ اس لیے ہر مزاج کے لوگوں کو اس نے اپنی طرف کھینچا اور وہ اس کو حفظ کرنے کی طرف مائل ہوئے۔
کتاب ’’عربی ادب کے شہ پارے‘‘ میں ایک بدوی عورت کے عشقِ قرآن پر دلالت کا ایک اَور نادر واقعہ درج کیا گیا ہے جو کہ ایک مکالمہ کی صورت میں فقہ و حدیث کے ایک امام عبداللہ ابن مبارک ؒاور اس عورت کے درمیان ہوا جو کہ حج کے اِرادہ سے گھر سے نکلی تھی لیکن اپنے قافلہ سے بچھڑ گئی تھی۔ اس امام نے اس سے کوئی بیس سوالات اُس کی منزل مقصود اور اُس کا حال احوال پوچھنے کےلیے کیےجن کے جوابات اُس نے قرآن مجید کی کوئی آیت یا اُس کا کوئی حصہ پڑھ کر دیے۔ چونکہ وہ عورت بھی حج کے لیے جارہی تھی اِس لیے جب وہ چلتے چلتے اپنے قافلے کے قریب پہنچ گئی اور اُس نے اپنے بیٹوں کو ڈھونڈ لیا تو اُس نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئےیہ آیت پڑھی:
فَابۡعَثُوۡۤا اَحَدَکُمۡ بِوَرِقِکُمۡ ہٰذِہٖۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ فَلۡیَنۡظُرۡ اَیُّہَاۤ اَزۡکٰی طَعَامًا فَلۡیَاۡتِکُمۡ بِرِزۡقٍ مِّنۡہُ… (سورۃالکہف:20)
ترجمہ: پس اپنے میں سے کسی کو یہ سکّہ دے کر شہر کی طرف بھیجو۔ پس وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کونسا ہےتو پھر اُس میں سے وہ تمہارے پاس کچھ کھانا لے آئے…۔
اُس خاتون کا مطلب یہ تھا کہ جلدی کسی آدمی کو رقم دے کر بھیجو اورکھانا منگاؤ۔ چنانچہ اُن لڑکوں میں سے ایک جلدی کھانا لے کر آگیا تو اس عورت نے اِمام صاحب کو مخاطب کرکے یہ آیت پڑھی:
كُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِيْٓئًۢا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ (الحاقة:25)
ترجمہ : مزے مزے کھاؤ اور پیو اُن (اعمال) کے بدلے میں جو تم گزرے ہوئے دنوں میں کیا کرتے تھے۔
یعنی اِمام صاحب آئیں اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں ۔ کھانا کھانے کے بعد اُس عورت کے لڑکوں نے امام صاحب کو بتایا ہماری والدہ چالیس سال سے صرف قرآن مجید کی عبارت میں ہی ہم سے کلام کرتی ہیں ۔ یہ واقعہ اس عورت کے عشق قرآن کی منہ بولتی تصویر ہے۔
اب میں مذکورہ کتاب میں سے چند علمی و ادبی شہ پارے جن سے قرآنِ مجید کی عظمت اور بڑائی ظاہر ہوتی ہے، پیش کرتا ہوں ۔ درج ذیل واقعات میں مذکور احبابِ کرام کی قرآن مجید سے عشق و محبت، گہرے مطالعہ، غور و فکر اور ا س کے یاد کرنے میں دلچسپی کا اور اِ س کی آیات کے بر محل استعمال کابھی پتہ چلتا ہے۔ قرآنِ مجید کے ایجاز و اختصار کی مثال تو پہلے پیش کی جاچکی ہے۔ اب حاضر جوابی اور حاضر دماغی، استعارات و تشبیہات کے استعمال، طنز و مزاح، تُرکی بہ تُرکی جوابات اور ذہانت کے حوالے سےچند مزیدواقعات پیش کیے جاتے ہیں۔
خدا کہاں ہے؟
’’یو این او‘‘ میں پیش آنے والا یہ واقعہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے، جو کہ UNO میں ایک لمبا عرصہ پاکستان کے مستقل مندوب رہے ہیں ، مصنّف کتاب ’’عربی ادب کے شہ پارے‘‘کو خود بتایا۔ اُن دنوں رُوس نے نیا نیا ایک مصنوعی سیّارہ فضا میں چھوڑا تھا جو معیّنہ پروگرام کے مطابق واپس پہنچ گیا، روس کے اس تجربہ کی بڑی دھوم تھی بلکہ اُن کےلیے یہ بڑے فخر و تفاخر کا بھی باعث تھا۔ روس والوں کا ہستی باری تعالیٰ سے انکار تو معلوم ہی ہے لیکن ادھر خداوند کریم پر چودھری صاحب اَیسے راسخ العقیدہ کا ایمان بھی زبان زد عام تھا۔ اقوام متحدہ ہی کی عمارت میں روسی نمائندے نے چودھری صاحب کو دیکھتے ہی کہا کہ ہمارا مصنوعی سیّارہ فضا میں چکر لگا کے آگیا ہے وہاں اُسے کوئی خدا نظر نہیں آیا۔ چودھری صاحب نے اُنہیں قرآن کریم کی زبان میں ہی جواب دیا کہ یہ خام خیالی کوئی نئی بات نہیں ۔ فرعون نے بھی خدا کے بارے میں اِسی قسم کے غلط خیال کا اظہار کیا تھا کہ حضرت موسی ٰعلیہ السلام کا خدا کہیں اوپر موجود ہے۔ آپ نے اُن کے جواب میں فوراًقرآن کی یہ آیت پیش فرمائی:
وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرِیۡۚ فَاَوۡقِدۡ لِیۡ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیۡنِ فَاجۡعَلۡ لِّیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی ۙ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ (القصص:39)
ترجمہ : اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی اور معبود کو نہیں جانتا۔ پس اے ہامان! میرے لئے مٹی (کی اینٹوں ) پر آگ بھڑکا۔ پس مجھے ایک محل بنادے تاکہ میں موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں تو سہی اور میں یقیناً یہی گمان رکھتا ہوں کہ وہ جھوٹاہے۔
قرآنی آیات کی تاویلات
ضرب الامثال ہر زبان میں ایک مسلمہ اور مروّجہ ادبی اسلوب ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی انجیل ان سے بھری پڑی ہے۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب مرحومؓ کا ایک دفعہ ممبئی میں ایک نابینا حافظ قرآن سے مناظرہ ہوا تو دوران مناظرہ حافظ صاحب نے الزام لگایا کہ آپ لوگ قرآن کی تاویلیں بہت کرتے ہیں ۔ حضرت میر صاحب کھڑے ہوئے اور آپ نےقرآنِ پاک کی یہ آیت پڑھی
وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا(بنی اسرئیل:73)
بس پھر کیا تھا، حافظ صاحب نابینا تو تھے ہی، وہیں کھڑے کھڑے گونگے بھی ہوگئے۔ حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔ کیا جواب دیتے؟ اگر کہیں کہ اس کی تاویل نہیں ہوسکتی تو آخرت میں بھی اندھے رہنا پڑتا ہے اور اگر کہیں کہ یہاں تاویل ضروری ہے تو پھر مناظرہ میں ناکامی و نامرادی اپنا نصیب بنتا ہے۔ دنیا حضرت میر صاحبؓ کے اس دم نقد معجزہ سے انگشت بدنداں ہوگئی اور عش عش کر اُٹھی۔ بہرحال تمثیلات والا کلام ایک مانا ہوا ادبی اسلوب اور فصاحت و بلاغت کا ایک حصہ ہے۔
ترکی بہ ترکی
خوبصورتی اور بدصورتی سب خدا کی تخلیق ہے اس لیے اپنی خوبصورتی پر کسی کو اِترانا یا نازاں نہ ہونا چاہیے اور کسی کی بدصورتی پر کسی کو طعن و تشنیع کرنے کا حق نہیں ہے لیکن بعض لوگ اِس اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسی قسم کی ایک اخلاقی گراوٹ کا اظہار ایک بدّو سے اس وقت ہوا جب اس نے ایک بدصورت عورت کو دیکھ کر یہ کہا کہ
وَإِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ (التکویر:6)
یعنی جب وحشی جمع کیے جائیں گے۔
اس پر اُس بدوی عورت نے اُسے فی الفور جواب دیا کہ
وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِيَ خَلْقَهٗ ۖ (یٰس:79)
یعنی ہمارے لئے تو مثالیں بیان کرتا ہے اور اپنے اندازِ تخلیق کو بھول جاتا ہے۔
تشبیہ بلیغ
عربی فصا حت و بلاغت میں تشبیہات کا بہت دخل ہے اگر کلام میں حرفِ تشبیہ یعنی ’’ک‘‘ اور مثل وغیرہ موجود ہوں تو یہ سادہ تشبیہ ہے۔ لیکن اگر یہ کلام سے حذف کردیے جائیں تو اسے ’’تشبیہ بلیغ‘‘کہا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کی مثالیں بکثرت پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب کے ایک گروہ کے متعلق فرماتا ہے
وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيْرَ (المائدۃ:61)
یعنی خداتعالیٰ نے اُن میں سے بعض کو بندر اور سؤر بنادیا۔ یہ تشبیہ بلیغ تھی لیکن نیم مُلّاؤں نے اس آیت کی تفسیر کو الف لیلہ کی داستان بناکر وہ حاشیہ آرائی کی کہ الامان و الحفیظ۔ بہرحال تشبیہ بلیغ عربی فصاحت و بلاغت کا ایک اہم جزو ہے اور عرب شعراء نے اسے خوب استعمال کیا ہے۔
حاضر جوابی اور حاضر دماغی
حاضر جوابی اور حاضر دماغی دو ایسے وصف ہیں جو انسان کو محبوب بنا دیتےہیں اور اُسے مجالس میں مقبولیت بخشتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک فقیر بازار میں یہ صدا لگا رہا تھا کہ
اَيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْثِرُوْنَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ
یعنی قرآن کریم کی اس آیت (الحشر :10) کے مصداق (لوگ) کدھر گئے ہیں جن کے متعلق آیا ہے کہ وہ اپنی ضرورت پر اپنے بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ سن کر کسی منچلے نے اُس کو برجستہ جواب دیا کہ
ذَهَبُوْا مَعَ الَّذِيْنَ لَا يَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافًا
یعنی وہ مومن اُن فقراء کے ساتھ ہی دُنیا سے رخصت ہوگئے ہیں جو لوگوں سے لپٹ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ (البقرۃ :274)
غضِ بصر
ایک بدوی عورت ایک جھکڑ والے دِن میں بنو نُمَیر کی ایک مجلس کے پاس سے گزری تو ایک نمیری نے اسے مخاطب کرکے کہا:
يَا اَعْرَابِيَّةُاِنَّكِ لَرَسَحَاءُ
یعنی اے بدوی عورت! تجھ میں ایک نسوانی عیب پایا جاتا ہے۔ اس پر اُس عورت نے اُسے فی البدیہ کہا: اے بنو نمیر! بخدا نہ تو تم نے خدا کی بات مانی اور نہ ہی شاعر کی۔ خداتعالیٰ کہتا ہے
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِهِمْ (النور :31)
یعنی مومنوں سے کہو کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں ۔ اور شاعر نے تمہارے متعلق کہا ہے کہ
فَغَضِّ الطَّرْفَ إنَّكَ مِنْ نُمَيرٍ
فَلَا كـَـعْبًا بـَلَغْتَ وَلَا كِـلَابًــا
یعنی اے نُمیری! تُو اپنی آنکھ نیچی کر۔ کیونکہ خاندانی لحاظ سے تیرا سلسلہ نسب نہ تو بنو کعب تک پہنچتا ہے اور نہ ہی بنوکلاب تک (جو عرب کے معزز قبائل میں شمار ہوتے ہیں )۔
طفیلی
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کچھ شعراء اپنا کلام سنانے کے لیے کسی خلیفہ کے دَربار میں گئے تو ایک طفیلی بھی ان کے پیچھے لگ گیا اور دربار میں جا پہنچا۔ جب شعراء باری باری اپنا کلام سنا چکے تو شاعر سمجھ کر اسے بھی اپنا کلام سنانے کے لیے کہا گیا تو وہ کھسیانا ہوکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: جناب! مَیں شاعر تو نہیں ہوں لیکن مَیں اُن لوگوں میں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے
وَالشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُوْنَ(الشعراء:225)
اِس پر خلیفہ ہنس پڑا اور اُسے انعام بھی دے دیا۔
قرآنی علاج
ادبی روایات میں آتا ہے کہ کسی اسلامی خلیفہ کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہوگئی جو دُور نہ ہوتی تھی۔ خلیفہ بڑا عبادت گزار اور دُعاگو تھا۔ اُس نے اللہ تعالیٰ سے اس بیماری کا علاج چاہا تو اُسے خواب میں کہا گیا
كُلْ لَا وَادْهُنْ لَا
یعنی ’’لَا‘‘کھاؤ اور ’’لَا‘‘ کی مالش کرو۔ بادشاہ نے درباری معبرین سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے یوسفؑ کے شاہِ مصر کے درباریوں کی طرح کہا کہ أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ یعنی یہ پراگندہ خوابیں ہیں ۔ لیکن خلیفہ کو اس پر اعتبار نہ آیا۔ اس لیے اُس نے کسی اَور عالم کی تلاش جاری رکھی جو اسے مل گیا اور اُس نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ اس سے مراد زیتون ہے کیونکہ صرف اِس پودے کے متعلق قرآنِ کریم میں دو دفعہ ’’لا‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ (النور:36)
خلیفہ کو یہ تعبیر پسند آئی اور اُس نے زیتون کھانا بھی شروع کردیا اور اُس کے تیل سے جسم پر مالش بھی کی۔ جس کے نتیجہ میں وہ بالکل تندرست ہوگیا۔
ایک کی قربانی قبول ہوئی جبکہ دوسرے کی نہیں
خلیفہ عبد الملک کے زمانہ میں حجاج عراق کا گورنر تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ خلیفہ عبد الملک نے حکم دیا کہ مسجد بیت المقدس کے لیے ایک دروازہ بنایا جائے جس پر اُس کا نام کندہ ہو۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ یہ دیکھ کر حجّاج کو بھی شوق پیدا ہوا تو اُس نے بھی خلیفہ سے درخواست کی کہ اُسے بھی اپنے نام کا ایک دروازہ مسجد بیت المقدس میں لگانے کی اجازت دی جائے۔ خلیفہ نے اس کی اجازت دے دی تو اس کے نام کا ایک دروازہ بھی وہاں لگ گیا۔ اب کارِ قضاء ایک دِن آسمان سے ایک بجلی گری جس سے خلیفہ عبدالملک والا دروازہ جل گیا لیکن حجّاج والا دروازہ بچ گیا۔ اس سے طبعًا خلیفہ کو بہت رنج ہوا۔ حجّاج کو جب اس بات کا علم ہوا تو اُس نے خلیفہ کو ایک خط لکھا جس میں اُس نے کہا کہ میری اور آپ کی مثال آدم کے دو بیٹوں کی طرح ہے جن کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ
إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ(المائدۃ:28)
ترجمہ: جب اُن دونوں نے قربانی پیش کی تو اُن میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی۔ کہتے ہیں کہ خلیفہ عبدالملک کو یہ نکتہ بہت پسند آیا اور اس سے بہت محظوظ ہوا۔
برابر کی چوٹ
ایک مجلس جس میں عرب کےمشہور شاعر فرزوق اور خالد بن صفوان دونوں موجود تھے اس مجلس میں خالد بن صفوان نے ازرہِ مذاق فرزوق کو کہا کہ
مَا اَنْتَ بِالَّذِىْ قِيْلَ لَه: لَمَّا رَأَيْنَهٗٓ أَ كْبَرْنَهٗ (سورۃ یوسف:32)
یعنی ’’تو اس شخص جیسا نہیں ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ زنانِ مصر نے جب اُسے دیکھا تو اُسے ایک عظیم الشان اِنسان پایا (مراد حضرت یوسفؑ)‘‘۔
اس کے جواب میں فرزوق نے فوراً کہا:
وَلَا أَنْتَ يَا ابْنَ صَفوان بالذي قالت فيه الفتاة لأبيها فی صفتہ: يَاَ آبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِيْنُ۔ (القصص: 27)
کہ ابنِ صفوان! تو بھی اس جیسا نہیں جس کے بارے میں اس نوجوان لڑکی نے اپنے والد سے کہا تھا کہ اے میرے باپ تو اس کو ملازم رکھ لے کیونکہ بہترین ملازم وہ ہے جو طاقتور ہوتے ہوئے دیانتدار بھی ہو (مراد حضرت موسیٰؑ)۔
مسجّع و مقفّٰی کلام
کلام کرنا خاصہ انسان ہے اور کلام ہی انسان اور حیوان کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ اس لیے اہلِ منطق نے انسان کو ’’حیوانِ ناطق‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ عام لوگوں کا کلام سادہ اور غیر پیچیدہ ہوتا ہے لیکن ادباء و بلغاء کا کلام فخامتِ الفاظ سے مرصع و مزیّن ہوتا ہے اور بسا اوقات مسجّع و مقفّٰیبھی جس سے کلام دل کش، دل نشیں اور مؤثر ہوجاتا ہے۔ اس لیے عبارت اگر سادہ ہو تو اس کی تاثیر اَور طرح کی ہوتی ہے لیکن اگر مسجّع و مقفّٰی ہو تو اس کی تاثیر اَور رنگ کی ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے دونوں قسم کے اسالیب کو اپنایا ہے۔ ایسی آیات بھی بکثرت ہیں جن کی عبارت سادہ ہے لیکن ایسی آیات بھی بے شمار ہیں جن کی عبارت خوب مسجّع و مقفّٰیہے۔ مثلاً قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے یہ دُعا نقل ہوئی ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ۔ وَيَسِّرْ لِيْ أَمْرِيْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِيْ۔ یَفْقَهُوْا قَوْلِي۔ وَاجْعَل لِّيْ وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِيْ۔ هَارُوْنَ أَخِي۔ اشْدُدْ بِهٓ أَزْرِيْ۔ وَأَشْرِكْهُ فِيْٓ أَمْرِيْ۔ کَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيْرًا۔ َنَذْكُرَكَ كَثِيْرًا۔ اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْرًا (طٰہٰ:26تا36)
یہ آیات قرآنی مسجّع و مقفّٰی عبارت کا ایک بہت ہی عمدہ نمونہ ہیں ۔ ایسی عبارتیں قرآنِ کریم میں بے شمار ہیں۔
آخر پر حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام سے چند اشعار نقل کرتا ہوں جو آپؑ نے قرآن کے عشق میں ڈوب کر لکھے ہیں ۔ فرمایا:
جمال و حُسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا، ہمارا چاند قرآں ہے
بہارِ جاوداں پیدا ہے اس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے
کلام پاکِ یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لؤلوئے عمّاں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے
٭…٭…٭