حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور خلیفۂ وقت کے ساتھ بھائی چارے کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے
نویں شرط بیعت(حصہ ششم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بنی نوع انسان کی ہمدردی(حصہ سوم)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس بارہ میں فرماتے ہیں :
’’منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ
اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا یَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِیۡرًا (الدھر:11)
کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں۔ عَبُوْس تنگی کو کہتے ہیں اور قَمْطَرِیْر دراز یعنی لمبے کو۔یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہوگا اور لمبا ہوگا۔ بھوکوں کی مدد کرنے سے خداتعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دے دیتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہے
فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّ سُرُوْرًا
خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچا لیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے۔میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام کی تنگیوں سے بچ جائو گے۔ خدا تعالیٰ مجھ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں ابدالاباد کی عزت اور راحت کی بھی کوشش کریں۔ آمین
(حقائق الفرقان۔ جلد 4۔ صفحہ290۔291)
یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے کہ جس حد تک توفیق ہے خدمت خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور جو وسائل میسر ہیں ان کے اندر رہ کر جتنی خدمت خلق اور خدمت انسانیت ہو سکتی ہے کرتی ہے،انفرادی طورپربھی اورجماعتی طورپر بھی۔ احباب جماعت کو جس حد تک توفیق ہے بھوک مٹانے کے لئے، غریبوں کے علاج کے لئے،تعلیمی امداد کے لئے،غریبوں کی شادیوں کے لئے،جماعتی نظام کے تحت مدد میں شامل ہوکر بھی عہدبیعت کو نبھاتے بھی ہیں اورنبھانا چاہئے بھی۔اللہ کرے ہم کبھی ان قوموں اور حکومتوں کی طرح نہ ہوں جو اپنی زائد پیداوار ضائع تو کردیتی ہیں لیکن دُکھی انسانیت کے لئے صرف اس لئے خرچ نہیں کرتیں کہ ان سے ان کے سیاسی مقاصد اور مفادات وابستہ نہیں ہوتے یا وہ مکمل طورپران کی ہر بات ماننے اور ان کی Dictationلینے پر تیار نہیں ہوتے۔ اور سزا کے طورپر ان قوموں کو بھوکا اور ننگا رکھا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو پہلے سے بڑھ کر خدمت انسانیت کی توفق عطا فرمائے۔
یہاں ایک اَور بات بھی عرض کرناچاہتاہوں کہ جماعتی سطح پر یہ خدمت انسانیت حسب توفیق ہو رہی ہے۔مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتاہے،وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجا لارہے ہیں۔ لیکن مَیں ہر احمدی ڈاکٹر، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کرسکتاہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتاہے،ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آنے کی کوشش کریں۔ نتیجۃً اللہ تعالیٰ آپ کے اموال ونفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھاہے جس کوپورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھرآپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اوربرکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے۔
دسویں شرط بیعت
’’یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰہ باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو‘‘۔
………………………………………………
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفۂ وقت کے ساتھ بھائی چارہ کا رشتہ قائم کرنا ضروری ہے
اس شرط میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام ہم سے اس بات کا عہد لے رہے ہیں کہ گوکہ اس نظام میں شامل ہوکر ایک بھائی چارے کا رشتہ مجھ سے قائم کر رہے ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے لیکن یہاں جو محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو رہا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہاں برابری کا تعلق اوررشتہ قائم نہیں ہو رہابلکہ تم اقرار کررہے ہوکہ آنے والے مسیح کو ماننے کا خدا اور رسول کا حکم ہے۔ اس لئے یہ تعلق اللہ تعالیٰ کی خاطر قائم کررہاہوں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اسلام کو اکناف عالم میں پہنچانے کے لئے، پھیلانے کے لئے رشتہ جوڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ تعلق اس اقرار کے ساتھ کامیاب اور پائیدار ہو سکتاہے جب معروف باتوں میں اطاعت کا عہد بھی کرو اور پھراس عہد کو مرتے دم تک نبھائو۔ اور پھر یہ خیال بھی رکھو کہ یہ تعلق یہیں ٹھہر نہ جائے بلکہ اس میں ہر روز پہلے سے بڑھ کر مضبوطی آنی چاہئے اور اس میں اس قدر مضبوطی ہو اور اس کے معیار اتنے اعلیٰ ہوں کہ ا س کے مقابل پر تمام دنیاوی رشتے،تعلق، دوستیاں ہیچ ثابت ہوں۔ ایسا بےمثال اور مضبوط تعلق ہوکہ اس کے مقابل پر تمام تعلق اور رشتے بے مقصد نظر آئیں۔ پھر فرمایاکہ یہ خیال دل میں پیدا ہوسکتاہے کہ رشتہ داریوں میں کبھی کچھ لو اور کچھ دو، کبھی مانو اورکبھی منوائوکا ا صول بھی چل جاتاہے۔ تو یہاں یہ واضح ہو کہ تمہارا یہ تعلق غلامانہ اور خادمانہ تعلق بھی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔تم نے یہ اطاعت بغیر چون وچرا کئے کرنی ہے۔کبھی تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہ کہنے لگ جائو کہ یہ کام ابھی نہیں ہو سکتا، یا ابھی نہیں کرسکتا۔ جب تم بیعت میں شامل ہو گئے ہو اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی جماعت کے نظام میں شامل ہو گئے ہوتو پھر تم نے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا اور اب تمہیں صرف ان کے احکامات کی پیروی کرنی ہے،ان کی تعلیم کی پیروی کرنی ہے۔ اور آپ کے بعد چونکہ نظام خلافت قائم ہے اس لئے خلیفۂ وقت کے احکامات کی، ہدایات کی پیروی کرنا تمہارا کام ہے۔ لیکن یہاں یہ خیال نہ رہے کہ خادم اور نوکر کاکام تو مجبوری ہے، خدمت کرنا ہی ہے۔خادم کبھی کبھی بڑبڑا بھی لیتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ذہن میں رکھو کہ خادمانہ حالت ہی ہے لیکن ا س سے بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ کی خاطر اخوت کا رشتہ بھی ہے اوراللہ کی خاطر اطاعت کا اقرار بھی ہے۔
(باقی آئندہ)