جائز امور میں اعتدال
نیکی کے ذکر پر فرمایا کہ
نیکی کی جڑ یہ بھی ہے کہ دنیا کی لذات اور شہوات جو کہ جائز ہیں ان کو بھی حد اعتدال سے زیادہ نہ لے جیسا کہ کھانا پینا اﷲ تعالیٰ نے حرام تو نہیں کیا مگر اب اسی کھانے پینے کو ایک شخص نے رات دن کا شغل بنا لیا ہے۔ اس کا نام دین پر بڑھاتا ہے ورنہ یہ لذات دنیا کی اس واسطے ہیں کہ اس کے ذریعہ نفس کا گھوڑا جو کہ دنیا کی راہ میں ہے کمزور نہ ہو۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کہ یکہ والے جب لمبا سفر کرتے ہیں تو سات یا آٹھ کوس کے بعد وہ گھوڑے کی کمزوری کو محسوس کرکے اسے دَم دِلا دیتے ہیں۔ اور نہاری وغیرہ کھلاتے ہیں۔ تاکہ اس کی پچھلی تھکان دور ہو جاوے تو انبیاء ؑنے جو حظّ دنیا کا لیا ہے وہ اسی طرح ہے کیونکہ ایک بڑا کام دنیا کی اصلاح کا ان کے سپرد تھا۔ اگر خدا کا فضل ان کی دستگیری نہ کرتا تو ہلاک ہو جاتے۔ اسی واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی وقت حضرت عائشہؓ کے زانو پر ہاتھ مار کر فرماتے کہ اے عائشہ راحت پہنچا۔ مگر انبیاؑء کا یہ دستور نہ تھا کہ اس میں ہی منہمک ہو جاتے۔ انہماک بے شک ایک زہر ہے۔ ایک بدقماش آدمی جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے کھاتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک صالح بھی کرے تو خدا کی راہیں اس پر نہیں کھلتیں۔ جو خدا کے لئے قدم اٹھاتا ہے۔ خدا کو ضرور اس کا پاس ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المائدۃ: 9)
تنعم اور کھانے پینے میں بھی اعتدال کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ صرف یہی گناہ نہیں ہے کہ انسان زنا نہ کرے۔ چوری نہ کرے بلکہ جائز امور میں حد اعتدال سے نہ بڑھے۔
اُسوۂ حسنہ
ایک دفعہ حضرت عمرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ اندر ایک حجرہ میں تھے۔ حضرت عمر ؓنے اجازت چاہی۔ آپؐ نے اجازت دے دی۔ حضرت عمرؓ نے آکر دیکھا کہ صف کھجور کے پتوں کی آپؐ نے بچھائی ہوئی ہے اور اس پر لیٹنے کی وجہ سے پیٹھ پر پتوں کے داغ لگے ہوئے ہیں۔ گھر کی جائیداد کی طرف حضرت عمر ؓنے نظر کی تو دیکھا کہ ایک گوشہ میں تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ یہ دیکھ کر ان کے آنسو جاری ہوگئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ اےعمر تو کیوں رویا؟ عرض کی کہ خیال آتا ہے کہ قیصرو کسریٰ جو کافر ہیں ان کے لئے کس قدر تنعم اور آپ کے لئے کچھ بھی نہیں۔ فرمایا۔ میرے لئے دنیا کا اسی قدر حصہ کافی ہے کہ جس سے میں حرکت کرسکوں۔ میری مثال یہ ہے کہ جیسے ایک مسافر سخت گرمی کے دنوں میں اونٹ پر جا رہا ہو اور جب سورج کی تپش سے بہت تنگ آوے تو ایک درخت کو دیکھ کر اس کے نیچے ذرا آرام کر لیوے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہو پھر اٹھ کر چل پڑے۔ تو یہ اسوۂ حسنہ ہے جو کہ اسلام کو دیا گیا ہے۔ دنیا کو اختیار کرنا بھی گناہ ہے اور مومن کی زندگی اضطراب کے ساتھ گذرتی ہے۔
پھر ہماری دو آنکھیں ہیں اور کیا کچھ دیکھ رہی ہیں اور کوئی فولاد وغیرہ کی بنی ہوئی نہیں ہیں۔ ذرا بینائی جاتی رہے تو پھر ہستی کا اندازہ ہو جاتاہے اور جب اندھا ہو تو پھر موت ہی ہے۔ تو دنیا کی زندگی کا بھی یہی حساب ہے۔
مومن اور دنیوی زندگی
مومن کو اس زندگی پر ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے۔ اتنی بلائیں اس زندگی میں ہیں کہ شمار نہیں۔ ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان کے پاخانہ کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور منہ کے راستہ پاخانہ آتا ہے اور اس کا نام ایلاوس ہے اور پھر اسی طرح گردہ اور مثانہ کی بیماریاں ہیں کہ رنگا رنگ کے سرخ، سبز اور سیاہ پتھر بن جاتے ہیں اور ان کا کوئی خاص سبب بھی کیا بیان ہوسکتا ہے بلکہ امراء لوگ جو کہ عمدہ غذا اور نفیس پانی استعمال کرتے ہیں انہی کو ایسی امراض ہوتی ہیں۔ اگر دو شخص ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ ایک ہی قسم کی ان کی خوردونوش ہو۔ پھر ایک ان میں سے ایسے عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ اس لئے طب کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ظنی علم ہے۔ علل مادیہ میں یہ لوگ اسباب کی تحقیق کرتے ہیں مگر اس کا بھی سبب بتلاویں کہ جب الہام ہونے لگتا ہے یا کشف تو اس وقت نیند سی آنے لگتی ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ ان لوگوں کا دستور ہے کہ جب ان کو ایک بات کا سبب معلوم نہ ہو تو اس سے انکار کر بیٹھتے ہیں اور اسی لئے وحی اور الہام کے منکر ہیں۔
یہ علوم بے انتہا ہیں۔ جب تک بے اعتدالیوں کا حصہ دور نہ کریں اس سے واقف نہیں ہوسکتے۔
اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى (النّازعات: 41)
جو خواہش جائز اپنے مقام اعتدال سے بڑھ جائے۔ اس کا نام ھویٰ ہے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 374۔377۔ ایڈیشن 1984ء)