مسیح موعود ہونے کا ثبوت
قرآن پر تدبّر سے نظر کرنے والے کو معلوم ہوگا کہ دوسلسلوں کا مساوی ذکر ہے۔ اوّل وہ سلسلہ جو موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہو کر مسیح علیہ السلام پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے یہ اُس شخص پر ختم ہونا چاہیے جو مثیلِ مسیح ہو۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیلِ موسیٰ ہیں۔
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا(المزّمل: 16)
اور پھر سورہ نور میں وعدہ استخلاف فرمایا کہ جس طرح پر موسوی سلسلہ ہو گذرا ہے اسی طرح پر محمدی سلسلہ بھی ہوگا تاکہ دونو سلسلوں میں بموجب آیات قرآنی باہم مطابقت اور موافقت تامہ ہو۔ چنانچہ جبکہ موسوی سلسلہ آخر عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوا۔ ضروری تھا کہ محمدی سلسلہ کا خاتم بھی عیسیٰ موعود ہوتا۔ ان دونو سلسلوں کا باہم تقابل مرایا متقابلہ کی طرح ہے یعنی جب دوشیشے ایک دوسرے کے بالمقابل رکھے جاتے ہیں تو ایک شیشہ کا دوسرے میں انعکاس ہوتا ہے۔
موسوی مسیح اور محمدی مسیح
اور اس تقابل سلسلہ سے یہ بھی بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ آخری سلسلہ کا آخری موعود کس شان کا ہوگا کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ آخر آنے والا عظیم الشان ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ٹھہرے۔ اگر یہ قاعدہ اور سنت نہ ہوتی۔ تو پھر معاذ اﷲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی عزت اور عظمت باقی انبیاء سابقین پر نہ ہوتی لیکن چونکہ اﷲ تعالیٰ کی مصلحت دنیا میں عظیم الشان اصلاح چاہتی تھی اس لئے مناسب یہی تھا کہ ان سب سے بڑھ کر آپؐ کی عظمت دکھاوے تاکہ آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہو۔ دنیاوی حکام بھی جب ایسی مصلحت رکھ لیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس مصلحت کو مد نظر نہ رکھتا۔ کبھی حکامِ دنیا پسند نہیں کرتے کہ آخر میں کسی نالائق کو بھیج دیں اور کہہ دیں کہ گویہ نالائق ہے مگر اس کی بات مان لو۔ اب ایک شخص جو کُل دنیا کی اصلاح کے لئے آنے والا تھا کب ہوسکتا تھا کہ وہ ایک معمولی انسان ہوتا۔ جس قدر انبیاء علیہم السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے آئے وہ سب ایک خاص خاص قوم کے لئے آئے تھے۔ اس لئے کہ ان کی شریعت مختص القوم اور مختص الزمان تھی۔ مگر ہمارے نبی وہ عظیم الشان نبی ہیں جن کے لئے حکم ہوا کہ
مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیآء: 108)اورقُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعًا(الاعراف:159)۔
اس لئے جس قدر عظمتیں آپ کی بیان ہوئی ہیں۔ مصلحت الٰہی کا بھی یہی تقاضا تھا۔ کیونکہ جس پر ختم نبوت ہونا تھا۔ اگر وہ اپنے کمالات میں کمی رکھتا توپھر وہی کمی آئندہ امت میں رہتی۔ کیونکہ جس قدر کمالات اﷲ تعالیٰ کسی نبی میں پیدا کرتا ہے اسی قدر اس کی امت میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور جس قدر کمزور تعلیم وہ لاتا ہے اتنا ہی ضعف اس کی امت میں نمودار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جس عظمت اور شان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ اسی عظمت کے لحاظ سے ضروری تھاکہ تقابل میں بھی وہی عظمت دکھاتا۔ اور ہم ظاہر طور پر دیکھتے ہیں کہ دونوں تعلیموں میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے جیسے کہ قرآن شریف حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہے توریت اور انجیل بالکل ان سے خالی ہے۔ ان کی کل تعلیم قصص کے رنگ میں ہے اور قرآن شریف علوم کا خزانہ ہے۔ ان دونو سلسلوں کا اقتضاء اس وجہ سے بھی تھا کہ چونکہ اسحاق ؑاور اسمٰعیل ؑدونو بھائی تھے اور دونو میں برکات کی تقسیم مساوی تھیں۔ تصفیہ تقسیم تب ہی ہوتا کہ دونو سلسلوں میں باہم تطابق اور عین موافقت ہوتی۔ اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان نبی مبعوث فرمایا۔ جس کی امت کو
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (اٰل عـمران: 111)
کہا کہ تم تمام امتوں سے بہتر ہو۔ کیونکہ وہ لوگ جن کو شریعت قصہ کے رنگ میں ملی تھی وہ دماغی علوم کی کتاب و شریعت کے ماننے والوں کے کب برابر ہوسکتے ہیں۔ پہلے صرف قصص پر راضی ہو گئے۔ اور اُن کے دماغ اس قابل نہ تھے کہ حقائق و معارف کو سمجھ سکتے۔ مگر اس امت کے دماغ اعلیٰ درجہ کے تھے اسی لئے شریعت اور کتاب علوم کا خزانہ ہے جو علوم قرآن مجید لے کر آیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں پائے نہیں جاتے۔ اور جیسے شریعت کے نزول کے وقت وہ اعلیٰ درجہ کے حقائق و معارف سے لبریز تھی ویسے ہی ضروری تھا کہ ترقی علوم و فنون اسی زمانہ میں ہوتا۔ بلکہ کمال انسانیت بھی اسی میں پورا ہوا۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 378۔ 380۔ ایڈیشن 1984ء)