جماعت کے لئے ضروری نصائح
نماز مغرب کے بعد شیخ نور احمد صاحب پلیڈر ایبٹ آباد اور سید حامد علی شاہ صاحب بدوملہی اور ایک اَور صاحب نے بیعت کی۔ بعد بیعت حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ
ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس پُر آشوب زمانہ میں جبکہ ہر طرف ضلالت، غفلت اور گمراہی کی ہوا چل رہی ہے تقویٰ اختیار کریں۔ دنیا کا یہ حال ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی عظمت نہیں ہے۔ حقوق اور وصایا کی پروا نہیں ہے۔ دنیا اور اس کے کاموں میں حد سے زیادہ انہماک ہے۔ ذرا سا نقصان دنیا کا ہوتا دیکھ کر دین کے حصہ کو ترک کر دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کے حقوق ضائع کر دیتے ہیں۔جیسے کہ یہ سب باتیں مقدمہ بازیوں اور شرکاء کے ساتھ تقسیم حصہ میں دیکھی جاتی ہیں۔ لالچ کی نیت سے ایک دوسرے سے پیش آتے ہیں۔ نفسانی جذبات کے مقابلہ میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں۔ اس وقت تک کہ خد انے ان کو کمزور کر رکھا ہے گناہ کی جرأت نہیں کرتے مگر جب ذرا کمزوری رفع ہوئی اور گناہ کا موقع ملا تو جھٹ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ آج اس زمانہ میں ہر ایک جگہ تلاش کر لو۔تو یہی پتہ ملے گا کہ گویا سچا تقویٰ اٹھ گیا ہوا ہے اور سچا ایمان بالکل نہیں ہے۔ لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور ہے کہ ان کے سچےتقویٰ اور ایمان کا تخم ہرگز ضائع نہ کرے۔ جب دیکھتا ہے کہ اب فصل بالکل تباہ ہونے پر آتی ہے تو اور فصل پید اکر دیتا ہے۔
وہی تازہ بتازہ قرآن موجود ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ(الـحجر: 10)
بہت سا حصہ احادیث کا بھی موجود ہے اور برکات بھی ہیں مگر دلوں میں ایمان اور عملی حالت بالکل نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اسی لئے مبعوث کیا ہے کہ یہ باتیں پھر پیدا ہوں۔ خدا نے جب دیکھا کہ میدان خالی ہے تو اس کی الوہیت کے تقاضا نے ہرگز پسند نہ کیا کہ یہ میدان خالی رہے اور لوگ ایسے ہی دور رہیں اس لئے اب ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے ہماری تبلیغ ہے کہ تقویٰ کی زندگی حاصل ہو جاوے۔
آدمی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے کہ بدی کرکے پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔ بھلا یہ کونسی صفت ہے جس کے اوپر ناز کیا جاوے۔ شر سے اس طرح پرہیز کرنا نیکی میں داخل نہیں ہے۔ اور نہ اس کا نام حقیقی نیکی ہے۔ کیونکہ اس طرح تو جانور بھی سیکھ سکتے ہیں۔ میاں حسین بیگ تاجر ایک شخص تھا اس کے پاس ایک کتا تھا وہ اسے کہہ جاتا کہ روٹی کو دیکھتا رہ تو وہ روٹی کی حفاظت کرتا۔ اسی طرح ایک بلی کو سنا ہے کہ اسے بھی ایسے ہی سکھایا ہوا تھا۔ جب بعض لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے امتحان کرنا چاہا۔ اور ایک کوٹھڑی کے اندر حلوہ، دودھ اور گوشت وغیرہ ایسی چیزیں رکھ کر جس پر بلی کو ضرور لالچ آوے اس بلی کو چھوڑ کر دروازہ کو بند کر دیا کہ دیکھیں اب وہ ان اشیاء میں سے کھاتی ہے کہ نہیں۔ پھر جب ایک دو دن کے بعد کھول کر دیکھا تو ہر ایک شے اسی طرح پڑی تھی اور بلی مری ہوئی تھی اور اس نے کسی شے کو ہلایا تک بھی نہ تھا۔ اس لئے اب شرم کرنی چاہیے کہ انہوں نے حیوان ہو کر انسان کا حکم ایسا مانا اور یہ انسان ہو کر خدا تعالیٰ کے حکم کو نہیں مانتا۔ نفس کو تنبیہ کرنے کے واسطے ایسی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں اور بہت سے وفادار کتے بھی موجود ہیں مگر افسوس اس کے لئے کہ جو کتے جتنا مرتبہ بھی نہیںرکھتا تو بتلادے کہ پھر وہ خدا سے کیا مانگتا ہے؟ انسان کو تو خدا نے وہ قویٰ عطا کئے ہیں کہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کئے۔ شر سے پرہیز کرنے میں تو بہائم بھی اس کے شریک ہیں۔ بعض گھوڑوں کو دیکھا ہے کہ چابک آقا کے ہاتھ سے گر پڑی تو منہ سے اٹھا کر اسے دیتے ہیں اور اس کے کہنے سے لیٹتے ہیں اور بیٹھتے ہیں اور اٹھتے ہیں اور پوری اطاعت کرتے ہیں تو یہ انسان کا فخر نہیں ہوسکتا کہ چند گنے ہوئے گناہ ہاتھ پائوں وغیرہ دیگر اعضاء کے جو ہیں ان سے بچا رہے۔ جو لوگ ایسے گناہ کرتے ہیں وہ تو بہائم سیرت ہیں جیسے کتے بلیوں کا کام ہے کہ ذرا برتن ننگا دیکھا تو منہ ڈال لیا اور کوئی کھانے کی شے ننگی دیکھی تو کھا لی۔ تو ایسے انسان کتے بلی کے سے ہی ہوتے ہیں انجام کار پکڑے جاتے ہیں۔ جیل خانوں میں جاتے ہیں جا کر دیکھو تو ایسے مسلمانوں سے زندان بھرے ہوئے ہیں ؎
حضرت انساں کہ حد مشترک را جامع است
مے تواند شد مسیحا مے تواند شد خرے
تو اب یہ موقع ہے اور خدا تعالیٰ کی لہروں کے دن ہیں یعنی جیسے بعض زمانہ خد اکی رحمت کا ہوتا ہے اور اس میں لوگ قوت پاتے ہیں۔ ایسے ہی یہ وقت ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بالکل دنیا کے کاروبار چھوڑ دیوے بلکہ ہمارا منشا یہ ہے کہ حدّ اعتدال تک کوشش کرے اور دنیا کو اس نیت سے کماوے کہ دین کی خادم ہو مگر یہ ہرگز روا نہیں ہے کہ اس میں ایسا انہماک ہو جاوے کہ دین کا پہلو بھول ہی جاوے نہ روزہ کی خبر ہے نہ نماز کی۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ 394تا 397۔ ایڈیشن 1984ء)