کلام محمود
ساغرِ حُسن تو پُر ہے کوئی مَے خوار بھی ہو
ہے وہ بے پردہ کوئی طالبِ دیدار بھی ہو
وصل کا لُطف تبھی ہے کہ رہیں ہوش بجا
دل بھی قبضہ میں رہے پہلو میں دلدار بھی ہو
رسمِ مخفی بھی رہے اُلفتِ ظاہر بھی رہے
ایک ہی وقت میں اِخفا بھی ہو اظہار بھی ہو
عشق کی راہ میں دیکھے گا وہی روئے فلاح
جو کہ دیوانہ بھی ہو عاقل و ہشیار بھی ہو
اس کا دَر چھوڑ کے کیوں جاؤں کہاں جاؤں مَیں
اور دُنیا میں کوئی اس کی سی سرکار بھی ہو
ہمسری مجھ سے تجھے کِس طرح حاصل ہو عَدُو
حال پر تیرے او ناداں نظرِ یار بھی ہو
بات کیسے ہو مؤثر جو نہ ہو دل میں سوز
روشنی کیسے ہو دل مہبطِ انوار بھی ہو
یُونہی بے فائدہ سر مارتے ہیں وَید و طبیب
اُن کے ہاتھوں سے جو اچھا ہو وہ آزار بھی ہو
دَرد کا میرے تو اے جان فقط تم ہو علاج
چارۂ کار بھی ہو مَحْرمِ اَسرار بھی ہو
دِل میں اک دَرد ہے پر کس سے کہوں مَیں جا کر
کوئی دُنیا میں مِرا مُونس و غمخوار بھی ہو
سالکِ راہ یہی ایک ہے منہاجِ وصُول
عشقِ دِلدار بھی ہو صحبتِ ابرار بھی ہو
(اخبار الفضل جلد 8۔ 06؍جنوری1921ء)