حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

معروف اور غیرمعروف کی تعریف

دسویں شرط بیعت(حصہ سوم)

………………………………………………

معروف اور غیرمعروف کی تعریف(حصہ دوم)

(گذشتہ سے پیوستہ) اس حدیث کی مزید وضاحت حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت سے ملتی ہے۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے علقمہ بن مُجزّز کو ایک غزوہ کے لئے روانہ کیا جب وہ اپنے غزوہ کی مقررہ جگہ کے قریب پہنچے یا ابھی وہ رستہ ہی میں تھے کہ ان سے فوج کے ایک دستہ نے اجازت طلب کی۔ چنانچہ انہوں نے ان کو اجازت دے دی اور ان پر عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمیکو امیر مقرر کردیا۔ میں بھی اس کے ساتھ غزوہ پر جانے والوں میں سے تھا۔ پس جب کہ ابھی وہ رستہ میں ہی تھے تو ان لوگوں نے آگ سینکنے یا کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی تو عبد اللہ نے (جن کی طبیعت مزاحیہ تھی)کہا کیا تم پر میری بات سن کر اس کی اطاعت فرض نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ؟ اس پر عبد اللہ بن حذافہؓ نے کہا: کیا میں تم کو جو بھی حکم دوں گا تم اس کو بجالائو گے؟ انہوں نے کہا۔ہاں ہم بجالائیں گے۔ اس پر عبد اللہ بن حذافہؓ نے کہا میں تمہیں تاکیداً کہتا ہوں کہ تم اس آگ میں کود پڑو۔ اس پرکچھ لوگ کھڑے ہوکر آگ میں کودنے کی تیاری کرنے لگے۔پھر جب عبداللہ بن حذافہ نے دیکھا کہ یہ تو سچ مچ آگ میں کودنے لگے ہیں تو عبد اللہ بن حذافہ ؓ نے کہا اپنے آپ کو (آگ میں ڈالنے سے)روکو۔

پھر جب ہم اس غزوہ سے واپس آگئے تو صحابہؓ نے اس واقعہ کا ذکر نبیﷺ سے کردیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا’’امراء میں سے جو شخص تم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو‘‘۔

(سنن ابن ماجہ،کتاب الجھاد،باب لاطاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ)

تو ایک تو اس حدیث سے یہ واضح ہو گیا کہ نہ ماننے کا فیصلہ بھی فرد واحد کا نہیں تھا۔ کچھ لوگ آگ میں کودنے کو تیار تھے کہ ہر حالت میں امیر کی اطاعت کا حکم ہے، انہوں نے سناہواتھااور یہ سمجھے کہ یہی اسلامی تعلیم ہے کہ ہر صورت میں، ہر حالت میں، ہر شکل میں امیر کی اطاعت کرنی ہے لیکن بعض صحابہ جو ا حکام الٰہی کا زیادہ فہم رکھتے تھے، آنحضرتﷺ کی صحبت سے زیادہ فیضیاب تھے، انہوں نے انکار کیا۔نتیجۃً مشورہ کے بعد کسی نے اس پرعمل نہ کیا کیونکہ یہ خودکشی ہے اورخودکشی واضح طورپر اسلام میں حرام ہے۔ دوسرے عبد اللہ بن حذافہ جو ان کے لیڈر تھے جب انہوں نے بعض لوگوں کی سنجیدگی دیکھی تو ان کو بھی فکر پیدا ہوئی اور انہوں نے بھی روکا کہ یہ تو مذاق تھا۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرتﷺنے وضاحت فرما کر معروف کا اصول واضح فرما دیا کہ کیا معروف ہے اور کیا غیر معروف ہے۔ واضح ہو کہ نبی یا خلیفہ ٔوقت کبھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کرسکتا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی واضح حکم کی خلاف ورزی تم امیر کی طرف سے دیکھو تو پھر اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔ اور اب اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوچکا ہے تو خلیفہ وقت تک پہنچو۔ اس کا فیصلہ ہمیشہ معروف فیصلہ ہی ہوگا،اللہ اور رسول کے احکام کے مطابق ہی ہوگا۔تو جیساکہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ تمہیں خوشخبری ہو کہ اب تم ہمیشہ معروف فیصلوں کے نیچے ہی ہو۔

آج کل بھی اعتراض ہوتے ہیں کہ ایک کارکن اچھا بھلا کام کررہاتھا اس کو ہٹاکر دوسرے کے سپرد کا م کردیا گیاہے۔خلیفہ ٔوقت یا نظام جماعت نے غلط فیصلہ کیا ہے اور گویا یہ غیر معروف فیصلہ ہے۔ وہ او ر تو کچھ نہیں کرسکتے اس لئے سمجھتے ہیںکہ کیونکہ یہ غیر معروف کے زمرے میں آتاہے(خود ہی تعریف بنا لی انہوں نے)اس لئے ہمیںبولنے کا بھی حق ہے،جگہ جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے کا بھی حق ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جگہ جگہ بیٹھ کر کسی کو نظام کے خلاف بولنے کا کوئی حق نہیں۔ اس بارہ میں پہلے بھی مَیں تفصیل سے روشنی ڈال چکاہوں۔تمہارا کام صرف اطاعت کرناہے اور اطاعت کا معیار کیاہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَاَقْسَمُوْابِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ۔ قُلْ لَا تُقْسِمُوْا۔طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ (سورۃ النور:آیت54)

اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھائو۔ دستور کے مطابق اطاعت (کرو) یقیناً اللہ، جو تم کرتے ہو، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

اس آیت سے پہلی آیات میں بھی اطاعت کا مضمون ہی چل رہا ہے۔اور مومن ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا۔ اور اس تقویٰ کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ٹھہرتے ہیں اور بامراد ہوجاتے ہیں۔ تو اس آیت میں بھی یہ بتایا ہے کہ مومنوں کی طرح سنو اور اطاعت کرو کا نمونہ دکھائو،قسمیں نہ کھائو کہ ہم یہ کردیں گے وہ کردیں گے۔حضرت مصلح موعود ؓنے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دعویٰ تو منافق بھی بہت کرتے ہیں۔اصل چیز تو یہ ہے کہ عملاً اطاعت کی جائے۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے فرما رہا ہے کہ جو معروف طریقہ ہے اطاعت کا،جو دستور کے مطابق اطاعت ہے وہ اطاعت کرو۔نبی نے تمہیں کوئی خلاف شریعت اور خلاف عقل حکم تو نہیں دینا۔مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے مان لیا ہے تو پنج وقتہ نماز کے عادی بنو۔ جھوٹ چھوڑ دو۔ کبر چھوڑ دو۔ لوگوں کے حق مارنے چھوڑ دو۔ آپس میں پیار محبت سے رہو۔ تو یہ سب طاعت در معروف کے حکم میں ہی آتا ہے۔تو یہ کام تو کرو نہ اور کہتے پھر و کہ ہم قسم کھاتے ہیں کہ آپ جو ہمیں حکم دیں گے کریں گے۔ اسی طرح خلفاء کی طرف سے بھی مختلف وقتوں میں روحانی ترقی کے لئے مختلف تحریکات ہیں۔جیسے مساجد کو آباد کرنے کے بارے میں، اولاد کی تربیت کے بارے میں، اپنے اندر وسعت حوصلہ پیدا کرنے کے بارے میں، دعوت الی اللہ کے بارے میں یا متفرق مالی تحریکات ہیں۔ تو یہی باتیں ہیں جن کی اطاعت کرنا ضروری ہے یا دوسرے لفظوں میں طاعت درمعروف کے زمرے میں آتی ہیں۔ تو نبی نے یا کسی خلیفہ نے تمہارے سے خلاف احکام الٰہی اور خلاف عقل تو کام نہیں کروانے۔یہ تو نہیں کہنا کہ تم آگ میں کود جائو یا سمندر میں چھلانگ لگا دو۔انہوں نے توتمہیں ہمیشہ شریعت کے مطابق ہی چلانا ہے۔

اطاعت کی اعلیٰ مثال

اطاعت کی اعلیٰ مثال ہمیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں اس طرح ملتی ہے کہ جب ایک جنگ کے دوران حضر ت عمرؓ نے جنگ کی کمان حضرت خالدؓ بن ولید سے لے کر حضرت ابوعبیدہؓ کے سپرد کردی تھی۔ تو حضرت ابوعبیدہ نے اس خیال سے کہ خالدؓ بن ولید بہت عمدگی سے کام کررہے ہیں ان سے چارج نہ لیا۔تو جب حضرت خالدؓ بن ولید کو یہ علم ہوا کہ حضرت عمرؓ کی طرف سے یہ حکم آیاہے تو آپ حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس گئے اور کہا کہ چونکہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے اس لئے آپ فوری طورپر اس کی تعمیل کریں۔ مجھے ذرا بھی پروا نہیں ہوگی کہ مَیں آپ کے ماتحت رہ کر کام کروں۔اور مَیں اسی طرح آپ کے ماتحت کام کرتارہوںگا جیسے میں بطور ایک کمانڈر کام کررہاہوتاتھا۔ تو یہ ہے اطاعت کا معیار۔کوئی سر پھرا کہہ سکتاہے کہ حضرت عمرؓ کا فیصلہ اس وقت غیرمعروف تھا، یہ بھی غلط خیال ہے۔ہمیں حالات کا نہیں پتہ کس وجہ سے حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ فرمایا یہ آپ ہی بہتر جانتے تھے۔بہرحال اس فیصلہ میں ایسی کوئی بات ظاہراًبالکل نہیں تھی جو شریعت کے خلا ف ہو۔چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ حضرت عمرؓ کے اس فیصلہ کی لاج بھی اللہ تعالیٰ نے رکھی اور یہ جنگ جیتی گئی اور باوجو د اس کے جیتی گئی کہ اس جنگ میں بعض دفعہ ایسے حالات آئے کہ ایک ایک مسلمان کے مقابلہ میںسو، سو دشمن کے فوجیوں کی تعداد ہوتی تھی۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اپنے آقا کی غلامی میں، ایسی غلامی جس کی نظیر نہیں ملتی، حَکَم اورعَدَل کا درجہ ملاہے اس لئے اب اس زمانہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت اور محبت سے ہی حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی اطاعت اور محبت کا دعویٰ سچا ہو سکتاہے اورآنحضرتﷺکی ا تباع سے ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ سچ ہو سکتاہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(آل عمران: آیت32)

تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button