الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے جس کے مضامین کا تعارف گزشتہ شمارہ سے جاری ہے۔

مکرم خواجہ عبدالغفار ڈار صاحب (سابق مدیر ’’اصلاح‘‘ سرینگر) بیان کرتے ہیں کہ محترم شاہ صاحب میرے عزیز تھے اور اُن کی ساری زندگی پیدائش سے وفات تک میرے سامنے گزری ہے۔ آپ کی والدہ اننت ناگ میں گرلز سکول کی مدرس تھیں۔آپ دو بھائی تھے۔ چھوٹے بھائی کا نام سیّد عبدالمجید ہے۔ ان بچوں کے ماموں مولوی سیّد عبدالواحد صاحب مربی سلسلہ تھے۔ ایک بار حضرت مصلح موعودؓ نے اُن کے ہاتھ ایک خفیہ خط شیرکشمیر شیخ محمد عبداللہ کے نام بھجوایا۔ بدقسمتی سے مظفرآباد میں پہنچے تو ڈوگرہ حکومت نے گرفتار کرلیا اور اس خط کی پاداش میں چھ ماہ قیدسخت کی سزا دی۔ مظفرآباد کے موسم گرما میں اُن کو چکّی پیسنی پڑتی۔ ظلم سہتے سہتے ان کا دماغ متأثر ہوگیا تھا۔

رتن باغ لاہور میں ایک روز حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے طلب فرماکر ایک کام کے بارے میں دریافت فرمایا۔ عرض کیا کہ راستہ خطرے سے خالی نہیں لیکن مَیں بشرح صدر حاضر ہوں۔ حضورؓ نے فرمایا مگر تم مدّت دراز تک سرینگر میں رہ چکے ہو اور لوگ تم کو جانتے ہیں۔ کوئی اور سادہ سی وضع قطع کا قابل اعتماد نوجوان ہونا چاہیے۔ مَیں نے سیّد عبدالحی شاہ صاحب کا نام لیا تو حضورؓ نے ان کو بھجوادیا۔ چنانچہ آپ نے وہ اہم کام سرانجام دیا۔

محترم شاہ صاحب کو اپنے آبائی وطن سے بہت پیار تھا۔ اننت ناگ کا مطلب ہے بے شمار چشموں کی جگہ۔ اننت کے معنی بےشمار اور ناگ کشمیری زبان میں چشمے کو کہتے ہیں۔ آپ کو کشمیری ضرب الامثال کا غیرمعمولی ملکہ بھی حاصل تھا۔ اس حوالے سے ہم دونوں کا مقابلہ بھی ہوتا۔

آپ بہت بلند اخلاق کے مالک تھے۔ میری ایک کتاب کی اشاعت آپ کروارہے تھے تو مَیں نے آپ کو کچھ رقم دی اور سوچا کہ باقی رقم بعد میں دے دوں گا۔ لیکن آپ کے دیانتدارانہ لین دین پر حیرانی ہوئی جب آپ نے پہلی رقم میں سے بھی کچھ واپس کردی۔

………٭………٭………٭………

مکرم ملک خالد مسعود صاحب ناظراشاعت ربوہ اپنے مضمون میں بیان کرتے ہیں کہ محترم شاہ صاحب کے ساتھ لمبی نشستیں بھی ہوتیں، سیرحاصل بحثیں بھی ہوتیں لیکن ان کی صحبت میں کبھی تھکاوٹ نہ ہوتی بلکہ اختتام پر تشنگی کا احساس باقی رہتا۔ آپ کا مطالعہ وسیع تھا اور علمی گفتگو کو بڑے سلیقے کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھاتے۔ اپنی رائے مسلط نہ کرتے مگر اپنا موقف اس انداز سے پیش فرماتے کہ دلیل غالب رہتی۔آپ تاریخ کا ماخذ اور ذخیرہ تھے۔ اسماءالرجال کی کتاب تھے۔ حافظہ کمال کا پایا تھا۔انداز بیان بڑا دلچسپ تھا۔ طب سے بھی دلچسپی تھی اور یونانی طب کا خاصا مطالعہ تھا۔کچھ عرصہ فضل عمر ہسپتال میں ڈسپنسنگ کا کام بھی کرتے رہے تھے۔ ایلوپیتھی اور ہومیوپیتھی طریق علاج کا بھی کافی علم تھا۔ جدید علوم کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔زبان دانی (فلالوجی) پر ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔فنون لطیفہ سے طبعی مناسبت تھی۔ صدسالہ جوبلی کے مونوگرام کے ڈیزائن پر کاوش کی اور آپ کا ڈیزائن کردہ مونوگرام حضورانور نے منظور فرمایا۔ اشاعتی کاموں میں ظاہری خوبصورتی کی کوشش کرتے۔ الغرض آپ کی صحبت رنگارنگ اور معلومات افزا ہوتی۔ بظاہر خاموش طبع تھے لیکن علم کا گہرا سمندر تھا جو سینے میں موجزن تھا۔

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت

جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

آپ درویش صفت اور صوفی منش بزرگ تھے۔ اپنے حال میں مست اپنے کام سے پیوست، خودنمائی اور خودستائی سے بےنیاز، ہر قسم کی تعریف و توصیف سے لاپروا، اپنی راہ پر استوار ساری زندگی بسر کی، اپنا تشخص ابھارنے کے لیے کسی دوسرے کو کبھی کم نہ کیا، اپنی بڑائی کو ثابت کرنے کے لیے کسی اَور کا درجہ نہ گھٹایا۔

اس لیے اس کو سمجھتا ہوں مَیں برتر خود سے

وہ کہیں بھی مجھے کم تر نہیں ہونے دیتا

حضرت قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری مرحوم کے ساتھ علمی تحقیقی کام میں لمبے عرصے معاونت کی۔ اُن کی ذکاوت، برجستہ گوئی، باریک بینی، تبحرعلمی اور نکتہ سنجی کے مداح تھے۔

………٭………٭………٭………

مکرم ڈاکٹر الیاس احمد خواجہ صاحب آف سرینگر کشمیر لکھتے ہیں کہ محترم عبدالحی شاہ صاحب میرے ہم عمر اور کلاس فیلو تھے۔ بچپن سے ہی کم گو اور سادگی کا نمونہ تھے۔ اونچی آواز میں کبھی بولتے نہیں دیکھا۔ ہمارے والدین کی خواہش تھی کہ بچے قادیان میں تعلیم حاصل کریں لیکن مَیں اپنے والدین کی بیماری کی وجہ سے دو سال بعد قادیان جاسکا۔ جون 1947ء میں ہم تین لڑکے قادیان سے کشمیر آئے تو تقسیم ہند کی وجہ سے پھنس گئے۔ بعدازاں اپنے بزرگوں کی مدد سے بارڈر پر واقع گاؤں کے گائیڈ کے ذریعے کئی روز کا پیدل سفر کرکے مظفرآباد پہنچے۔ اس طویل پیدل سفر میں مَیں نے اس درویش صفت بھائی کی خوبیوں کو پرکھا۔ آپ دوسروں کے آرام کا خیال رکھتے، اُن کے لیے چادر بچھاتے۔دوسروں کی خوشی میں خوش ہوتے۔

………٭………٭………٭………

مکرم محمد یوسف شاہد صاحب (کارکن نظارت اشاعت) بیان کرتے ہیں کہ محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب ایک فانی فی اللہ وجود تھے۔ کئی بار تنہائی میں منہ پر ہاتھ رکھے آپ کو دعا میں مصروف دیکھا۔ یہ سلسلہ آپ کی اہلیہ محترمہ کی وفات کے بعد زیادہ ہوگیا تھا۔

خاکسارنومبر1995ء میں آپ کے پاس آیا۔ جن دنوں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے درس القرآن کے لیے نوٹس تیار کیے جاتے تھے تو آپ اردو، عربی اور انگریزی کے تمام نوٹس کا بغور جائزہ لیتے، اصلاح کی ضرورت ہوتی تو کردیتے اور پھر مصروفیت کے باوجود ان نوٹس کو خوشخط لکھنے میں ہمارے ساتھ ہوجاتے۔ خوشخط ہونے کی وجہ سے آپ کا خط سب سے نمایاں اور نفیس ہوتا۔ نوٹس فیکس کروانے تک آپ دفتر میں اپنی ٹیم کےساتھ موجود رہتے۔ احتیاط یہاں تک کرتے کہ جس حوالے کے بارے میں شرح صدر نہ ہوتا وہ کبھی حضور کی خدمت میں ارسال نہ کرتے۔ کئی دفعہ کہتے کہ فلاں حوالہ حضور کے مزاج کے خلاف ہے یا فلاں حوالہ فلاں موقع پر پیش ہوا تھا لیکن حضور نے پسند نہیں فرمایا تھا۔

محترم شاہ صاحب اپنی ٹیم کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ میری رہائش کرایہ کے مکان میں تھی۔ مجھے کوارٹر دلوانے میں بھی آپ کی خصوصی شفقت ہی کارفرما تھی۔ عیدالاضحی پر اگر قربانی کی توفیق ملی تو اپنے ہاتھ سے پرچیاں لکھ کر اپنے دفتر کے کارکنوں کو گوشت کا تحفہ بھجواتے۔عیدالفطر پر اگر دفتر کے کارکنوں کے بچے ملتے تو ان کو عیدی بھی دیتے۔بچوں کےتعلیمی نتائج کے بارے میں دریافت کرتے اور دعا بھی کرتے۔

آپ اَنتھک محنتی وجود تھے۔ حوالہ جات کو اصل ماخذ سے تلاش کرنے کا کام بہت احتیاط اور محنت سے کرتے اور حوالہ مل جاتا تو بہت خوش ہوتے۔ تحقیق کرنے کے ڈھنگ بھی ہمیں سکھاتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک دفعہ خاکسار نے کسی کام کے سلسلے میں ایک دوسرے ادارے سے مدد لینے کا عرض کیا تو فرمایا کہ کام وہی ہے جو خود کرلیں، دوسروں سے مدد مانگنا تو بیساکھیاں لے کر چلنے کی طرح ہے۔

بارہا آپ کشمیر کی دلکش یادوں میں کھو جاتے، وہاں کے پھولوں کی خوشبو اور سیب کے ذائقے کا ذکر کرتے اور دلچسپ واقعات سناتے۔ آپ بتاتے تھے کہ زعفران کی چنائی کے دنوں میں زعفران کی ڈنڈیاں اگر گائیں کھا لیتیں تو اُن کے دودھ سے بھی زعفران کی خوشبو آنے لگتی بلکہ جو مکھن اور گھی اس دودھ سے تیار ہوتا اس سے بھی زعفران کی خوشبو آتی اور گھی کا رنگ بھی خوب زرد ہوتا۔گلاب کے پھول کی ایک خاص قسم کے بارے میں بتایا کہ کئی فرلانگ سے اُس پھول کی خوشبو محسوس کی جاسکتی تھی۔

آپ بتایا کرتے تھے کہ حضرت امّاں جانؓ بھی حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ کشمیر کے سفروں میں دو بار وہاں گئی تھیں اور محترم شاہ صاحب کے بزرگوں کے ہاں قیام فرمایا تھا۔ آپؓ کو کھمبیوں کی ترکاری بہت پسند تھی خصوصاً کشمیر کی کھمبیاںجو بڑی بڑی ہوتی تھیں۔

کسی دوست کی تحریک پر آپ نے احمدیہ مسجد آسنور کے لیے نہ صرف خود چندہ دیا بلکہ اپنے کئی اقرباء سے اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے بھی چندہ جمع کرکے بھجوایا۔ دفتری امور کا بھرپور احساس تھا۔ وفات سے ایک دن پہلے کئی دفتری کام کرنے اور دکھانے کی ہدایت دی۔ بے شک زندگی کے آخری دن تک دفتری کاموں کا فکر رہا اور ہدایات بھی دیتے رہے۔آخری دن سانس کی شدید تکلیف تھی کہ بات کرنا بھی مشکل تھا۔ بوقت رخصت، الوداع کی طرز پر ہاتھ ہلایا اور کچھ دیر بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔

………٭………٭………٭………

مکرم آغا سیف اللہ صاحب سابق مینیجر و پبلشر الفضل اپنے مضمون میں لکھتے ہیں جب کبھی حضرت قاضی محمد نذیر صاحب سے ملنے جاتا تو اکثر محترم شاہ صاحب کو سامنے بیٹھے مصروف تحریر پاتا۔ آپ نہایت یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ لکھتے چلے جاتے۔ آپ کا طرزعمل اَن تھک محنت، مستقل مزاجی اور احترامِ بزرگان کا عکاس تھا۔کبھی دورانِ کام اُن کی طرف سے اکتاہٹ یا بے چینی کا اظہار نہیں دیکھا۔بڑے ہی جفاکش اور علوہمّت انسان تھے۔

آپ الفضل بورڈ کے صدر تھے۔ بائیس سال سے زائد مجھے آپ کے ماتحت کام کرنے کا موقع ملا۔ بارہا ملنا رہتا اس لیے ایک قریبی تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ مشکل ترین حالات میں بھی اپنے فرائض کی تکمیل کی غرض سے کوئی نہ کوئی تدبیر کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔ الفضل کی اشاعت پر پابندی لگی تو اشتہارات اور کاغذی کوٹہ پہلے ہی بند ہوچکے تھے۔ مقدمات بھی بنائے گئے، ادارے کے مالی حالات بھی اچھے نہ تھے۔ ان حالات میں مختلف رسالوں کے ضمیمہ جات کے ذریعے الفضل کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایک طویل عرصے تک آپ کے ماتحت کام کرنے پر کبھی طعن وتشنیع یا ناجائز سرزنش سے واسطہ نہیں پڑا۔ ادارہ الفضل کو مالی اور انتظامی لحاظ سے مستحکم بنانے میں آپ کا بہت دخل ہے۔صلہ رحمی آپ کا شعار تھا۔ مقدمات کی پیشی کے لیے جانا ہوتا یا جب بھی دیگر کارکنان کے ہمراہ ہوتے تو آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ آپ کے لیے کوئی امتیازی سہولت نہ پیدا کی جائے۔

آپ کی مجھ پر کرم فرمائیوں کی ایک وجہ یہ تھی کہ آپ کو پتہ تھا کہ میرے آبائی خاندان میں کوئی احمدی نہیں ہے۔ چنانچہ میرے بچوں کے رشتے طے کرانے میں معاونت اور خوشی کی تقریبات میں شرکت کرتے رہے۔ لیکن اس ذاتی تعلق کی وجہ سے کبھی آپ نے دفتری امور میں صرفِ نظر سے کام نہیں لیا۔ لوگوں کی رقوم کو ہمیشہ امانت سمجھا اور اُن کے صحیح مصرف کو ہرحال میں فوقیت دی۔ ذاتی تعلق میرے لندن آنے کے بعد بھی قائم رکھا۔ اکثر فون کرتے۔ لندن آتے تو ملاقات کا وقت عنایت کرتے۔ آخری دفعہ آئے تو بڑی تکلیف اٹھاکر میرے گھر پانچویں منزل پر بذریعہ لفٹ تشریف لائے۔

………٭………٭………٭………

مکرم خواجہ منظور صادق صاحب لکھتے ہیں کہ مرکز احمدیت جاکر پڑھنے کا جذبہ مجھے 1959ء میں ربوہ لے گیا۔ وہاں جاکر نویں جماعت میں داخل ہوا۔ گھر سے جدائی اور اُس زمانے کا ربوہ، ہر وقت مغموم رہنے لگا۔ اس غریب الوطنی میں کشمیری ہونے کے ناطے محترم شاہ صاحب سے شناسائی ہوئی۔ آپ نے بہت ڈھارس بندھائی۔ مَیں اکثر آپ کے پاس جانے لگا۔ آپ مجھے بہت تسلیاں دیتے اور اپنے بارے میں بتاتے کہ کس طرح اکیلے آئے اور کوئی عزیز یہاںنہیں ہے۔ اس لیے گھبراؤ نہیں جب چاہو میرے پاس آجایا کرو۔ الغرض آپ کے ساتھ جو تعلق اُس وقت قائم ہوا وہ زندگی کے آخری ایام تک رہا۔1966ء میں آپ نے ایم اے اور خاکسار نے بی اے کیا۔

آپ سے آخری ملاقات آپ کی وفات سے ہفتہ عشرہ قبل آپ کے دفتر میں ہوئی۔ پاؤں متورم تھے، کرسی کے پاس عصا رکھا تھا، چہرے سے کمزوری کے آثار نمایاں تھے۔ باتیں وہ ہمیشہ آہستہ ہی کرتے تھے مگر اب تو کان لگاکر اور نزدیک ہوکر اُن کی بات سننا پڑتی تھی۔ رفیقہ حیات کی وفات کے صدمے نے اندر سے نڈھال کردیا تھا۔ مگر یہ مرد مجاہد اس حال میں بھی اپنے جماعتی فرائض سے عہدہ برآ ہورہا تھا۔

کشمیری زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا تو آپ نے اس نوٹ کے ساتھ ایک نسخہ مجھے دیا کہ اگر کوئی غلطی نظر آئے تو مطلع کریں۔ چنانچہ خاکسار نے بعض اغلاط کی نشاندہی کی تو آپ نے پوری بشاشت اور خوشدلی سے نہ صرف ان غلطیوں کو تسلیم کیا بلکہ میرا حوصلہ بڑھایا اور شاباش دی۔آپ نے اپنے جوابی خط میں لکھا: ’’… مَیں 1949ء میں کشمیر سے آگیا تھا اور اس سے پہلے 1941ء تا 1947ء بھی قادیان میں گزرے تھے اس لیے مجھے صرف بول چال کی سماعی زبان ہی آتی تھی۔ جب غلام نبی صاحب ناظر نے قرآن کریم کا کشمیری ترجمہ کیا اور ان کے ترجمہ کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے مجھے بھجوایا … تو مجھے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے گویا ازسرِنَوکشمیری زبان کو مستحضر کرنا پڑا۔‘‘

خاکسار کو راولپنڈی کی تاریخ احمدیت اور خلافت جوبلی سووینئر کی تدوین کے سلسلے میں کچھ خدمت کرنے کی توفیق ملی ہے۔ خاکسار کو جب بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی آپ نے فوراً مدد کی۔ سووینئر کا مسودہ نظارت اشاعت میں منظوری کے لیے بھجوایا تو آپ نے انتہائی مصروف ہونے کے باوجود اوّلین فرصت میں اس مسودہ کو نہ صرف شروع سے آخر تک پڑھا بلکہ غلطیوں کی نشاندہی بھی کی۔ آپ کے جوابی خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے کس قدر توجہ سے لفظاً لفظاً سووینئر پڑھا تھا۔ آپ نے تحریر فرمایا: ’’سوائے دو مقامات کے باقی مضامین قابل اشاعت ہیں۔ …مناسب ہوتا کہ کوئی ایسے مضامین بھی آتے جن میں خلفائے احمدیت کے راولپنڈی میں ورود اور قیام کی کچھ یادیں شامل ہوتیں۔‘‘

………٭………٭………٭………

مکرم منیر احمد بسمل صاحب ایڈیشنل ناظراشاعت رقمطراز ہیں کہ کئی سال محترم شاہ صاحب کی براہ راست ماتحتی میں کام کرنے کا موقع میسر آیا۔ آپ جب کوئی کام کرتےتو اتنے انہماک، لگن اور ذوق شوق سے کرتے کہ گویا ان کو اس کام کا چسکا ہے۔ ان کے کام کرنے کا طریقہ ایسا ہوتا کہ دوسروں میں بھی کام کرنے کا غیرمعمولی ولولہ پیدا ہوجاتا۔ لطیف حس مزاح سے بھی مالامال تھے۔کام کے دوران ظریفانہ گفتگو سے ماحول کو خوشگوار رکھتے اور اپنے رفقائے کار کا ہر طرح خیال رکھتے۔ بعض اوقات رات ایک دو بجے تک کام جاری رہتا۔ آپ برابر شریک رہتے۔ سخت گوئی سے نفرت تھی۔ گفتگو میں آپ بیتی شاذ ہی آتی۔ تردید کے انداز میں تردید نہ کرتے۔ غلطی کی اصلاح غلط کہہ کر نہ کرتے۔ طبیعت میں شرم و حیا بہت تھی۔ نہ خود پریشان ہوتے نہ دوسروں کو پریشان کرتے۔ کام کتنا ہی اعصاب شکن ہو کبھی ہمت نہ ہارتے۔ مروّت بہت تھی۔ سخت مصروفیت ہوتی تو ایسے میں لوگ آتے اور باتوں میں وقت ضائع کرتے مگر آپ محض دلآزاری کے خیال سے کبھی یہ نہ کہتے کہ مَیںنے کام کرنا ہے، پھر ملیں گے۔ درگزر کا یہ عالم تھا کہ کوئی کیسی ہی بدسلوکی کیوں نہ کرے جواب نہ دیتے۔ عزیزوں کے ساتھ بہت اُلفت تھی۔ جب بھی قادیان جاتے تو کشمیر سے آنے والے عزیزوں کے لیے سوغاتیں لے کر جاتے۔ وفات سے پہلے بیماری کے باعث نہ جاسکے تو ایک دوست کے ذریعے ایک بڑا بکس تحائف اور نقدی کا اپنے عزیزوں کو بھجوایا۔

………٭………٭………٭………

مکرم نذیر احمد سانول صاحب لکھتے ہیں کہ میرے والد محترم حافظ صوفی محمد یار صاحب 1978ء میں اپنے شاگردوں کی ایک جماعت کے ساتھ احمدیت کے نُور سے منور ہوئے۔ آپ اڈہ چوپڑہٹہ ضلع خانیوال کے قریب دینی مدرسہ چلاتے تھے اور پیری مریدی کرتے تھے۔ آپ کا ذاتی دارالمطالعہ بھی تھا ۔ذوق مطالعہ کی بِنا پر محترم شاہ صاحب کے ساتھ آپ کے برادرانہ مراسم تھے۔ آپ جب بھی ربوہ آتے، شاہ صاحب سے پسند کی کتب لے کر جاتے۔ شاہ صاحب نے والد صاحب کو 7؍اکتوبر 1992ء کو یہ تحریر اپنے دستخط کے ساتھ دی تھی کہ: ’’آج بزرگوار محترم جناب حافظ صوفی محمد یار صاحب سے ملاقات ہوئی۔ آپ حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃاللہ علیہ کے مریدوں میں سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے خاص کلام سے حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ سے ملنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ جب بھی نظارت اشاعت میں آئیں تو انہیں ہر کتاب بِلاقیمت دی جایا کرے۔ خاکسار سیّد عبدالحئی۔‘‘

خاکسار جب بھی یہ تحریر محترم شاہ صاحب کو پیش کرتا تو آپ ایک چِٹ بناکر دے دیتے اور مطلوبہ کتاب عطا ہوجاتی۔

خاکسار زیارتِ مرکز کے لیے اکثر چند دوستوں کو بھی ہمراہ لایا کرتا۔ ہم آپ کے ہاں بھی ضرور حاضری دیتے۔ آپ کا دسترخوان کشادہ تھا۔ چنانچہ گرمیوں کے موسم میں ایک بار ربوہ گیا تو ایک کتاب لینے کے لیے پسینے سے شرابور آپ کے دفتر پہنچا۔ محترم شاہ صاحب فرمانے لگے کہ کتاب لے کر مجھے دکھاکر جانا۔ خاکسار نے کتاب لاکر پیش کی تو آپ نے اس میں سو روپے کا نوٹ رکھ کر کتاب بند کرکے مجھے تھمادی اور فرمایا:گرمی کا موسم ہے اور لمبا سفر ہے، راستے میں پانی پی لینا۔

………٭………٭………٭………

مکرم ڈاکٹر نصیر احمد صاحب آف یوکے لکھتے ہیں کہ محترم شاہ صاحب اور میرے والد محترم چودھری غلام احمد صاحب کو ربوہ کے ابتدائی دَور میں اپنی فیملیوں کے ساتھ ایک ہی مکان میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ اس وجہ سے ہم محترم شاہ صاحب کو چچا سمجھتے تھے اور ان کی اہلیہ محترمہ کو خالہ۔ یہ تعلق ہمارے بچپن سے شروع ہوا اور ہمیشہ قائم رہا۔ میری شادی کے وقت میری اہلیہ کے والدین انگلینڈ میں مقیم تھے۔ محترم شاہ صاحب نے نہایت شفقت سے اپنا گھر بمع تمام سہولیات کے ان کو پیش کیا اور نہایت پیار اور اہتمام سے میری اہلیہ کو اپنے گھر سے رخصت کیا اور ہمیشہ میری اہلیہ کو اپنی بیٹی ہی سمجھا۔

آپ ہمیشہ ضرورت مندوں کی اپنی جیب سے مدد کرتے اور صاحب استطاعت لوگوں کو بھی انتہائی رازداری سے اس طرح اشارہ فرماتے کہ لینے والے ہاتھ کو دینے والے ہاتھ کی خبر نہ ہوتی۔ ہر شخص کی ذہنی، علمی سطح اور مزاج کے مطابق بات کرتے۔ کوئی دوست آپ کے علم سے فائدہ اٹھانا چاہتا تو بخوشی اُسے فیض پہنچاتے۔ بچوں کی فرمائش پر تقاریر بھی لکھ دیتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔

………٭………٭………٭………

مکرم کلیم احمد طاہر صاحب بیان کرتے ہیں کہ محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے ساتھ گیارہ سال تک کام کرنے کا موقع ملا لیکن کبھی آپ کو غصے میں نہیں دیکھا۔ ایک بار غصہ آیا بھی تو اتنی جلدی ختم ہوگیا جیسے آیا ہی نہیں تھا۔ بہت شستہ مزاح کرتے تھے جس سے دفتر میں اجنبیت کا ماحول نہیں رہتا تھا۔ اگر کسی سے کوئی وعدہ کرلیتے تو پوری کوشش کرتے۔ ایک بار مَیں نے اپنی بیٹی کی آمین میں آپ کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جو نماز عصر کے بعد ہونا تھی۔ دوپہر کو آپ کی اہلیہ کو برین ہیمرج ہوگیا۔ اس پریشانی کے وقت بھی آپ کو آمین کا پروگرام یاد تھا۔ آپ نے باقاعدہ فون کرکے مجھے ایمرجنسی کی اطلاع دی۔ اگلے دن جب دفتر تشریف لائے تو خود چل کر میرے پاس آئے اور ایک بار پھر معذرت کی۔ آپ کی آواز سے ہی آپ کی پریشانی عیاں ہورہی تھی۔ میرے دل میں آپ کا احترام پہلے سے بھی بڑھ گیا۔

مَیں نے نیا کیمرہ خریدا اور آپ کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئےآپ کی تکلیف اور کمزوری کی وجہ سے عرض کیا کہ آپ کرسی پر ہی بیٹھے رہیں، مَیں ساتھ کھڑا ہوجاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا۔ پھر باوجود کمزوری کے بڑی مشکل سے اُٹھ کر میز کے دوسری طرف پہنچے اور وہاں رکھی ہوئی دو کرسیوں میں سے ایک پر خود بیٹھے اور دوسری کرسی پر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا۔

………٭………٭………٭………

مکرم بشارت احمد ملک صاحب نے محترم سیّدعبدالحی شاہ صاحب کی انکساری کا ایک ایمان افروز واقعہ تحریر کیا ہے ۔ وہ رقمطراز ہیں کہ محترم شاہ صاحب میں نظام جماعت کی اطاعت کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ جامعہ احمدیہ میں حصولِ تعلیم کے دوران میری ڈیوٹی ایک سال مجلس مشاورت کے موقع پر ایوان محمود کے دروازے پر اس ہدایت کے ساتھ لگائی گئی کہ خواہ کوئی ہو، اجازت نامہ دکھائے بغیر ہال میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔جب محترم شاہ صاحب تشریف لائے تو خاکسار کے مطالبے پر آپ نے جیبیں ٹٹولنی شروع کیں اور کارڈ نہ پاکر فرمایا کہ لگتا ہے کہ مَیں گھر بھول آیا ہوں۔ آپ نے کسی جاننے والے کو گھر بھجوایا کہ فوراً جاکر میرا کارڈ لے آؤ اور خود دروازے کے ایک طرف کھڑے ہوکر انتظار کرنے لگے۔ دوسرے احباب آتے تو آپ کو کھڑا پاکر پوچھتے اور آپ جواب دیتے کہ کارڈ کا انتظار کر رہا ہوں۔ اُن میں سے بعض مجھے کہتے کہ یہ ناظر اشاعت ہیں، عمر رسیدہ اور کمزور ہیں، انہیں اندر آنے دیں کارڈ بھی آجائے گا۔ اس پر میرے جواب دینے سے قبل ہی آپ خود اُن صاحب کو فرماتے کہ نہیں نہیں کوئی بات نہیں، آپ اندر جائیں پریشان نہ ہوں، مَیں کارڈ آنے پر ہی اندر جاؤں گا آپ انہیں قانون توڑنے پر مجبور نہ کریں۔

………٭………٭………٭………

زحل (Saturn)

نظام شمسی میں سائز کے لحاظ سے دوسرے بڑے سیارے زحل (Saturn) کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون عزیزم مدثر احمد کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ ستمبر 2012ء کی زینت ہے۔

زحل سیارے کو زمین سے دُوربین کے ذریعے بآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سیارے کے اردگرد برفیلے پتھروں اور گرد کے ذرّات سے مل کر بنے ہوئے ایسے حلقے موجود ہیں جو اگرچہ دو سو میٹر سے بھی کم چوڑے ہیں لیکن ان کا قطر دو لاکھ ستّر ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔

زحل سیارے کے گرد اٹھارہ چاند گردش کرتے ہیں جن میں سب سے بڑا Titan کہلاتا ہے۔ اس کے تین چاند ایک ہی مدار میں گردش کررہے ہیں۔ سورج سے زحل کا فاصلہ 1427؍ملین کلومیٹر ہے۔اسی لیے اس کی سطح کا درجہ حرارت -180 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔اس کی سطح پر بادلوں کی تہیں کہیں کہیں زیادہ موٹی دکھائی دیتی ہیں جبکہ اس کی فضا میں اٹھارہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں بھی چلتی ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button