جلسہ سالانہ کی مناسبت سے سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خصوصی خطاب
2020-2019ء میں جماعتِ احمدیہ پر نازل ہونے والے اللہ تعالیٰ کےبے انتہا فضلوں اور تائید و نصرت کے عظیم الشان نشانات میں سے بعض کا ایمان افروز تذکرہ
گذشتہ ایک سال کے دوران 98 ممالک سے 220 اقوام سے تعلق رکھنے والے 1 لاکھ 12 ہزار 179 افرادکی احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت
دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کے ایمان افروز واقعات
16کتب حضرت مسیح موعودؑ کے ہندی تراجم کی اشاعت، روحانی خزائن جلد 20 کی 6کتب اور تفسیرِ کبیر جلد اوّل کے عربی تراجم کی تکمیل
عربک، رشین، چینی، ٹرکش، انڈونیشین، سپینش و دیگر ڈیسکس کے تحت متعدّد کتب و مضامین کی تیاری و اشاعت، خطباتِ جمعہ اور ایم ٹی اے کے پروگرامز کے تراجم
دنیا بھر میں اسلام کے پُر امن اور حقیقی پیغام کی ترویج و اشاعت کے لیے ایم ٹی اے کے تمام چینلز کی بے مثال خدمات کا تذکرہ
دورانِ سال 2 نئے ریڈیو اسٹیشنزکا اضافہ
ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی 24گھنٹے کی نشریات کے علاوہ 84 ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر 11 ہزار 63 ٹی وی پروگراموں کے ذریعے 6 ہزار 842گھنٹے
جبکہ ریڈیو پر 18 ہزار 489گھنٹے پر مشتمل 22 ہزار 167 پروگرامز نشر ہوئے۔
ایک اندازے کے مطابق ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے 52کروڑ لوگوں تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کی اشاعت
دورانِ سال 80 ممالک میں کل ایک لاکھ 18 ہزار نومبائعین سے رابطہ بحال، 3 ہزار891 جماعتوں میں
16 ہزار 823 نومبائعین کی تربیتی کلاسز کا انعقاد ایک لاکھ سے زائد نومبائعین کی ان کلاسز میں شرکت، 124 اماموں کی ٹریننگ
تحریکِ وقفِ نَو، ریویو آف ریلیجنز، الفضل انٹرنیشنل، ہفت روزہ الحکم، پریس اینڈ میڈیاآفس، شعبہ مخزنِ تصاویر، احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سنٹر ، الاسلام ویب سائٹ، احمدیہ ٹیلیویژن و ریڈیو پروگرامز و دیگر کی مختصر رپورٹ
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس کے ذریعے اب تک 19 ماڈل ولیجز کا قیام اور ہیومینٹی فرسٹ کے خدمتِ انسانیت پر مبنی بے لوث کام
اب تک کل 15 ہزار 315 نادار افراد کی آنکھوں کے مفت آپریشنز کیے گئے
جلسہ سالانہ کی مناسبت سے سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا خصوصی خطاب فرمودہ 9؍اگست2020ء بمطابق 9؍ظہور 1399 ہجری شمسی بمقام ایوانِ مسرور،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
جیسا کہ پرسوں کے خطبے میں مَیں نے بتایا تھا کہ جلسہ سالانہ کی رپورٹ کا باقی حصہ پیش کروں گا ان شاء اللہ یا کہہ لیں کہ دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے جو افضال جماعت پر ہوئے ہیں ان کا کچھ ذکر کروں گا۔ بڑی کوشش کے باوجود جو رپورٹ کا خلاصہ بنایا گیا تھا وہ بھی پیش نہیں کر سکوں گا اسے بھی مختصر کیا ہے۔ بہرحال آج میں جہاں سے شروع کر رہا ہوں وہ یہ ہے۔ پہلے دفاتر کی رپورٹ جو مختلف مرکزی دفاتر ہیں۔
وکالت تعمیل و تنفیذ
لندن میں ہے۔ یہ بھارت نیپال اور بھوٹان سے متعلقہ امور کی نگرانی کرتی ہے اور جو بھی ہدایات ان کو میری طرف سے جاتی ہیں وہ ان کے ذریعے سے پھر وہاں پہنچائی جاتی ہیں۔ اس کے بہت سارے کام ہیں، خلاصہ مَیں بیان کر رہا ہوں۔ اس وقت قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تمام کتب کے ہندی تراجم مکمل کروانے کا کام ہو رہا ہے اور اس کی نگرانی یہاں سے اس وکالت کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوران سال اب تک ناظر صاحب نشر و اشاعت قادیان کی رپورٹ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 16 مزید کتب کے ہندی تراجم پہلی دفعہ شائع ہو چکے ہیں جبکہ اکیس کتب ابھی پرنٹنگ ،کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور ریویو (review)کے مراحل میں ہیں۔ عربی قرآن کریم جو ان کی طرف سے شائع ہوا تھا وہ پہلے میں اس خطبے میں بیان کر چکا ہوں، اس پہ بھی قادیان کی نظارت اشاعت نے بڑا کام کیا۔
اسی طرح تبلیغ کے کام بھی وہاں ہو رہے ہیں جس حد تک ان حالات کے مطابق آن لائن جتنا ہو سکتا ہے۔
عربی ڈیسک
ہے۔ عربی ڈیسک کے تحت گذشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں تیار ہو کر شائع ہوئے ہیں ان کی تعداد 145ہے۔ روحانی خزائن جلد 20جس میں 6کتب شامل ہیں وہ اس سال پرنٹنگ کے لیے بھجوا دی گئی ہے۔ تفسیر کبیر جلد اوّل بھجوا دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی کتب پر ترجمے کا کام ہو رہا ہے۔ اسی طرح خلفاء کے خطابات اور تحریرات کے ترجمے کا کام ہو رہا ہے۔ کچھ مکمل کر کے پریس کو بھجوا بھی دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ وہ بھی جلد آ جائے گا۔ جماعت کی مرکزی ویب سائٹ پر الحمد للہ اب تک چھپنے والی سب عربی کتب اور میرے خطبات جمعہ اور خطابات کا ترجمہ اور بہت سے مضامین اور سینکڑوں سوالوں اور اعتراضوں کے مفصل جوابات دیے گئے ہیں۔ انہیں بھی اَپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ حوار المباشر، لقاء مع العرب، منہاج الطالبین، مجالس ذکر، عرفان الٰہی اور سیر الہدیٰ پر پروگرام کی ویڈیوز بھی اس میں موجود ہیں اور خطبہ تو اس ویب سائٹ پہ 2008ء سے باقاعدگی سے ڈالا جا رہا ہے۔ اسی طرح رسالہ التقویٰ بھی ویب سائٹ پر میسر ہے۔ پھر
فرنچ ڈیسک
ہے اور اس میں بھی ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے خطبات اور مختلف پروگراموں کا فرنچ ترجمہ جماعت کے لٹریچر اور ترجمہ ان کے سپرد کاموں میں ہے۔ پھر اسی طرح فرنچ ملکوں سے خط و کتابت جو ہوتی ہے وہ بھی ان کے کاموں میں شامل ہے۔ سوشل میڈیا اور فرنچ ویب سائٹ اور فرنچ ویب ٹی وی کے ذریعے احمدیت اور حقیقی اسلام کی اشاعت کا کام ان کے سپرد ہے۔ فرنچ ویب سائٹ کا نومبر 2009ء میں اجرا ہوا تھا اور اب تک 1.65 ملین سے زائد زائرین نے ویب سائٹ کا مشاہدہ کیا۔ لوگوں کے سوالات کا جواب ای میل کے ذریعے دیا جاتا رہا ہے اور اسی طرح خطبات جمعہ کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کا باقاعدہ ترجمہ اَپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس میں جماعتی خبریں بھی اَپ لوڈ کی جاتی ہیں اور اس کے علاوہ بہت سارے کام جو جماعتی لٹریچر سے متعلق یہ کر رہے ہیں وہ ان کے ذمے ہیں۔ پھر
ٹرکش ڈیسک
ہے۔ یہاں بھی دوران سال تقریباً اٹھارہ ، انیس کتابوں کے تراجم پر نظر ثانی کر کے ان کو اشاعت کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی آ جائیں گی۔ ایم ٹی اے پر نشر کرنے کے لیے ترکی زبان میں دوران سال 43پروگرام ریکارڈ کروائے گئے ہیں۔ سہ ماہی ترکی رسالہ ’معنویات‘ جرمنی سے باقاعدہ شائع کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں مقیم مربیان سے ہر ہفتہ سوال و جواب یا کسی موضوع پر اظہار خیال پر مشتمل ٹرکش پروگرام ریکارڈ کیا جاتا ہے جو بعد میں انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لیے انٹرنیٹ پرسوال و جواب کا دینی پروگرام پیش کیا جاتا ہے جس میں ترک احمدی بچے اور بچیاں شرکت کرتے ہیں۔ پھر
رشین ڈیسک
ہے اس میں بھی تمام خطبات جمعہ اور دیگر خطابات کا ترجمہ کرنے کا کام ان کے سپرد ہے اور بڑے احسن طریق پہ یہ ترجمہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان ترجمہ کرنے والوں میں ہمارے پاکستانی مربیان جنہوں نے زبان سیکھی ان کے علاوہ وہاں رشین لوگوں میں سے ایمیل صاحب اور دامیر صفی اللہ صاحب شامل ہیں اور ان کے ترجمے کی چیکنگ رستم حماد ولی صاحب کرتے ہیں، ہمارے معلم ہیں۔ خطبہ جمعہ ہفتےمیں دو دن سوموار اور جمعرات کو ایم ٹی اے پر رشین ترجمے کے ساتھ نشر ہوتا ہے اس کے علاوہ یوٹیوب اور آر یو ٹیوب (RUTUBE) پر بھی نشر کیا جاتا ہے۔ دورانِ سال صرف یوٹیوب کے ذریعے سے 57؍ہزار افراد نے خطبہ جمعہ سنا۔
رشین ،ازبک ،قازق، قرغز ،تاجک زبان میں موصول ہونے والے خطوط کے بھی جواب یہ دیتے ہیں۔ رشین ترجمہ قرآن کریم کے چوتھےایڈیشن کی نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کا کام جاری ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات کی دس جلدوں کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے، نظر ثانی اور پروف ریڈنگ کا کام جاری ہے۔ رشین ویب سائٹ ہے۔ 2013ء میں رشین زبان میں جماعتی ویب سائٹ کا اجرا ہوا تھا اور تمام خطبات جمعہ اور دیگر خطابات کا رشین ترجمہ باقاعدگی سے اَپ لوڈ کیا جاتا ہے نیز جو کتب رشین ترجمے میں شائع ہوتی ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ اَپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ دوران سال دس ہزار سے زائد لوگوں نے اس ویب سائٹ کا وزٹ کیا۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر بھی 1.5ملین سے زائد لوگوں نے وزٹ کیا۔ ازبک ویب سائٹ ہے اس میں بھی خطبات اور خطابات اَپ لوڈ کیے گئے اور بعض دوسرے ایڈریسز (addresses)میرے یا اس کے علاوہ جو جماعتی پروگرام تھے۔ قرغز زبان میں جماعتی ویب سائٹ ہے اس ویب سائٹ کے ذریعے قرغیزستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی قرغیز قوم کے لیے اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچایا جا رہا ہے۔ دوران سال دو لاکھ انتیس ہزار سے زائد لوگوں نے ویب سائٹ کو وزٹ کیا۔ بعض مواد جو اس ویب سائٹ پر مہیا کیا گیا اس میں قرآن کریم کے تیس پاروں کی تلاوت مع ویڈیو بھی اَپ لوڈ کی گئی ہے اور اس کے علاوہ اَور بہت سارا لٹریچر ہے۔
بنگلہ ڈیسک
ہے۔ ایم ٹی اے پر چالیس گھنٹے کے بنگلہ لائیو پروگرام پیش کیے گئے۔ ان کے ذریعے سے، ان پروگراموں کے نتیجے میں بنگلہ دیش اور مغربی بنگال میں 69بیعتیں حاصل ہوئیں۔ قرآن کریم کے بنگلہ ترجمےکی نظر ثانی کا کام جاری ہے۔ اس وقت پچیسویں پارے کی نظر ثانی ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ اَور بہت سارا کام ہے جو بنگلہ ڈیسک کر رہا ہے۔
چینی ڈیسک
ہے۔ چینی ڈیسک نے اس سال Life of Muhammad اور Ten Proofs for the Existence of God کتابیں جو ہیں ان کا ترجمہ مکمل کیا ہے اور اس کے علاوہ مختلف کتابیں ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض کتابیں ہیں اور دوسرا لٹریچر بھی شامل ہے وہ بھی تقریباً تیار ہے اور اشاعت کے لیے بھجوا دیا جائے گا۔
انڈونیشین ڈیسک
ہے۔ انڈونیشین زبان میں بھی اب خطبہ جمعہ کا لائیو ترجمہ کیا جاتا ہے جب سے یہاں ڈیسک کھولا ہے۔ اس کے علاوہ دوران سال 220پروگراموں کا ترجمہ ہوا۔ دوران سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور دوسرے لٹریچر کا ترجمہ کیا گیا۔ اتمام الحجہ، سراج منیر، ملفوظات جلد دوم، سچائی کا اظہار اور بہت سارا لٹریچر۔
سواحیلی ڈیسک
ہے۔ اس کا بھی یہاں یوکے میں باقاعدہ قیام عمل میں آ چکا ہے۔ ایم ٹی اے افریقہ پر نشر ہونے والے تمام پروگراموں کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ ایم ٹی اے افریقہ کے لیے قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ ریکارڈ کروایا جا رہا ہے۔ دوران سال پندرہ پاروں کا ترجمہ مکمل ہوا۔ اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ترجمے کا کام بھی ہو رہا ہے۔
سپینش ڈیسک
ہے۔ مرکزی سپینش ڈیسک کا قیام جب سے ہوا ہے یہ سپین میں ہی قائم ہے اور وہیں سے براہ راست مرکز کی نگرانی میں یہ کام کر رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کے ترجمےکا کام انہوں نے مکمل کیا ہے اور ان شاء اللہ جلد اشاعت کے لیے بھجوا دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ اور بہت سارے کام انہوں نے کیے ہیں اور بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ سپینش ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کو ماہانہ بائیس ہزار لوگ آج کل وزٹ کرتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں یہ تعداد بیالیس ہزار تھی۔ اس کے علاوہ فیس بک پر کئی آرٹیکل لکھے گئے جن کے ذریعہ ہزارہا سپینش افراد تک پیغام پہنچا۔ مختلف عناوین پر مختصر ویڈیوز بنا کر بھی ویب سائٹ پر ڈالی گئیں اس کے ذریعے رابطے بھی ہو رہے ہیں۔ برازیل سے ایک دوست نے ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کیا اور بعد میں بیعت کی۔ اسی طرح ارجنٹائن کی ایک جرنلسٹ سے بھی رابطہ ہوا جس نے بعد میں اخبار میں جماعت کے حوالے سے بڑا اچھا آرٹیکل لکھا۔
تحریک وقفِ نو
اس کا دفتر بھی اب کافی آرگنائز ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں واقفینِ نو کی کل تعداد 72؍ہزار 932؍ہے جس میں 43؍ہزار 281؍لڑکے اور 27؍ہزار 994؍لڑکیاں ہیں۔ اس سال نئے واقفین جو شامل ہوئے وہ 3؍ہزار 994؍ہیں۔ پندرہ سال سے زائد عمر کے واقفین نو کی تعداد 32؍ہزار 319؍ ہے جس میں لڑکے 20؍ہزار 920؍ اور لڑکیاں 11؍ ہزار 399۔ اس رپورٹ کے مطابق تجدید وقف نو کرنے والے، جن واقفین نو کے فارم موصول ہوئے ان کی کل تعداد 15؍ہزار سے زائد ہے۔ جو بڑے ممالک ہیں جہاں واقفین نو ہیں ان میں پاکستان ہے جہاں 34؍ہزار سے زائد ہیں، جرمنی ہے یہاں 9؍ہزار سے زائد، یوکے ہے 6؍ہزار سے زائد، انڈیا ہے 4؍ہزار سے زائد، کینیڈا ہے 4؍ہزار سے زائد۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں ہیں۔ یہ بڑی تعداد میں نے دے دی۔
الاسلام ویب سائٹ
اس وقت 310؍کتب انگریزی میں اور ایک ہزار اردو زبان کی کتب ویب سائٹ پر ڈالی جا چکی ہیں۔ دوران سال بارہ نئی انگریزی کتب ایپل (Apple)،گوگل (Google)اور ایمازون (Amazon)پر شائع کی گئیں۔ اس طرح ان پلیٹ فارمز پر موجود کتب کی تعداد 66ہو چکی ہے۔ بہرحال کافی مواد ہے جو ’الاسلام‘ پر ڈالا گیا ہے اور ان کی ٹیم بڑا اچھا کام کر رہی ہے۔ اکثریت تو والنٹیئرز ہی ہیں اور کوئی نہ کوئی نیا پروگرام وقتاً فوقتاً یہ متعارف کرواتے رہتے ہیں۔
ریویو آف ریلیجنز
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس رسالے کا اجرا فرمایا تھا اور پہلا شمارہ جنوری 1902ء میں شائع ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس رسالے کو اب 118؍سال ہو چکے ہیں۔ یہ رسالہ انگریزی، فرنچ ، سپینش اور جرمن زبان میں شائع ہو رہا ہے اور ہر ایک زبان میں ریویو کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا چینلز بھی ہیں۔ انگریزی رسالہ ماہانہ بنیاد پر شائع ہوتا ہے جبکہ باقی زبانوں میں رسالے کی سہ ماہی اشاعت ہوتی ہے اور اس کے علاوہ ہر ہفتہ آن لائن مواد بھی شائع ہو رہا ہے۔ ریویو آف ریلیجنز نے انگریزی زبان بولنے والے طبقے تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح جرمن اور سپینش لوگوں میں بھی اب یہ پیغام پہنچ رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے ریویو آف ریلیجنز بڑا کام کر رہا ہے جس میں ٹوئٹر(Twitter)، فیس بک(Facebook)، انسٹا گرام (Instagram)شامل ہیں۔ گذشتہ سال 5؍ملین سے زائد افراد نے ہمارے مواد سے استفادہ کیا۔ سوشل میڈیا کے بارے میں اس سال نئی سکیم کے تحت ہر روز یا ہر دوسرے روز مضامین شائع ہو رہے ہیں۔ اب یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران، اس بیماری کے لاک ڈاؤن کےدوران لوگوں کا آن لائن مضامین پڑھنے کی طرف پہلے سے زیادہ رجحان پیدا ہوا ہے اور اس عرصے میں 120؍مضامین آن لائن شائع کیے گئے۔
ریویو آف ریلیجنز کا ایک یوٹیوب چینل ہے اس کو ستر ہزار افراد نے سبسکرائب (subscribe)کیا ہے۔ صرف پچھلے سال میں ہی ہماری ویڈیوز کو 1.7 ملین مرتبہ دیکھا گیا۔
الفضل انٹرنیشنل
ہے۔ اس کا اجرا 1994ء میں ہفت روزہ کی شکل میں ہوا تھا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 27؍ مئی 2019ء سے ہفتے میں دو روز جمعہ اور منگل کو شائع ہو رہا ہے اور بڑا اچھا، خوبصورت رنگین شمارے کی صورت میں شائع ہو رہا ہے۔
الحکم
انگریزی کا ہے۔ باقاعدگی سے یہ ہفتہ وار اخبار شائع ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کے زمانے میں الحکم کی ریڈرشپ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اخبارات میں جماعتی خبروں اور مضامین کی اشاعت
کی رپورٹ یہ ہے کہ جو دنیا کے مختلف دوسرے اخبارات ہیں ان میں جماعت کی خبریں اور آرٹیکل شائع ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے قبولیت کی جو خاص ہوا چلائی ہے بڑی کثرت سے میڈیا کی جماعت کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر 2؍ہزار 544؍اخبارات نے 12؍ہزار 453؍جماعتی مضامین، آرٹیکلز اور خبریں وغیرہ شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی مجموعی تعداد 52؍کروڑ سے زائد ہے۔
پریس اور میڈیا آفس
ہے۔ دوران سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے پریس اینڈ میڈیا کی ٹیم کو کئی پراجیکٹس پر کام کرنے کی توفیق ملی جس سے بڑی تعداد تک جماعت کا پیغام پہنچا۔ مختلف موضوعات پر پوسٹس شیئر کی گئیں جن کے ذریعے 31؍لاکھ سے زائد لوگوں تک پیغام پہنچا۔ پریس اینڈ میڈیا آفس نے متعدد جرنلسٹس (journalists)کو مساجد میں آنے کی دعوت دی اور دوران سال بعض مشہور جرنلسٹس سمیت تقریباً 100؍جرنلسٹس نے مساجد کا وزٹ کیا۔
شعبہ پریس اینڈ میڈیا بھارت کی طرف سے کورونا وائرس کے حوالے سے ایک جامع مضمون شائع کروایا گیا اور وسیع پیمانے پر میڈیا کے لوگوں میں اس کی تشہیر کروائی گئی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہاںکے کوشل صاحب ایڈووکیٹ ہیں انہوں نے لکھا کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی یہ کہہ نہیں سکتا کہ نظام الدین میں جو واقعہ ہوا ہے (وہاں جو ایک جگہ پہ تبلیغی جماعت کا واقعہ ہوا تھا اور اس پر انڈیا میں بڑا شور پڑا تھا) اس کا اسلام کے ساتھ یا احمدیہ جماعت کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ یہ اصل میں لوگوں کی لاپرواہی ہے اور سوچ کی غلطی ہے۔ اسلام تو شروع سے ہی وبائی بیماری سے بچنے سے متعلق آگاہ کرتا رہا ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ آپ کا مضمون بہت عمدہ ہے اور عین موقعےکی مناسبت سے آپ نے دیا ہے اور تمنا کی کہ اس کے نیک نتائج ظاہر ہوں۔
شعبہ مخزنِ تصاویر
ہے۔ طاہر ہاؤس میں اس کا دفتر ہے اور ایگزیبیشن (exhibition) ہے۔ جس طرح وزٹ ہونے چاہئیں وہاں میری رپورٹ کے مطابق ویسے ابھی تک وزٹ ہو نہیں رہے۔ زیادہ سے زیادہ دیکھا جانا چاہیے۔ آج کل تو خیر حالات ایسے ہیں لیکن عام حالات میںبھی وزٹ ہونے چاہئیں لوگوں کو جماعت کی تاریخ کا پتہ لگتا ہے۔ دوران سال اب تک تقریباً 25ممالک سے 913 سے زائد افراد نے نمائش کا وزٹ کیا اور یہ تو بہت معمولی تعداد ہے۔ اور ان کی تصویری نمائش کو باقاعدہ اَپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
احمدیہ آرکائیوز اینڈ ریسرچ سینٹر
ہے۔ اس شعبے کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے تبرکات کو محفوظ کرنے کا کام جاری ہے۔ اور مغربی محققین جو جماعت احمدیہ پر ریسرچ کر رہے ہیں ان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور انہیں حقائق پر مبنی معلومات دی جاتی ہیں۔ نیز جماعتی تاریخی ریکارڈ میں سے متعلقہ مواد کی طرف سے ان کی رہ نمائی کی جاتی ہے اور اچھا کام کر رہے ہیں، کافی ریکارڈ انہوں نے اکٹھا کیا ہے۔
ایم ٹی اے افریقہ
اگست 2016ء میں ایم ٹی اے افریقہ کا اجرا ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی وسعت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں کی مقامی زبانوں میں پیغام پہنچ رہا ہے۔ اس وقت ایم ٹی اے افریقہ کے دو چینلز مختلف زبانوں میں ہمہ وقت نشریات پیش کر رہے ہیں۔ دوران سال مختلف سٹوڈیوز میں یوروبا ، ہاؤسا ، چوئی، سواحیلی ، فرنچ اور کریول زبانوں میں چھ سو سے زائد پروگرام تیار کیے گئے۔ گھانا سے، وہاں بھی بڑا اچھا سٹوڈیو بنایا گیا ہے جس کا نام ’وہاب آدم‘ سٹوڈیو ہے، کافی لائیو پروگرام نشر ہوئے اور افریقہ میں پہلی مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت کا مقابلہ بھی وہاب آدم سٹوڈیو سے نشر ہوا۔
گیمبیا میں ٹی وی چینل اور سٹوڈیو کی تکمیل ہوئی۔ دوران سال ایم ٹی اے افریقہ نے گیمبیا میں ایک سٹوڈیو کا کام مکمل کیا ہے جہاں سے ایک چینل کے ذریعے چوبیس گھنٹے نشریات پیش کی جا سکیں گی اور کئی سیاسی اور علمی شخصیات اب گیمبیا میں ایم ٹی اے کو خاص طور پر دیکھتی ہیں۔
مبلغ انچارج کیمرون لکھتے ہیں کہ خدا کے فضل سے کیمرون کے 130 چھوٹے بڑے شہروں میں ایم ٹی اے افریقہ کیبل سسٹم کے ذریعہ دیکھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایم ٹی اے العربیة بھی شمال کے تین ریجنز میں دیکھا جاتا ہے اور ایم ٹی اے کے ذریعے سے کیمرون کے دس ملین سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ کیمرون میں ایم ٹی اے انگریزی اور فرنچ دونوں زبانوں میں دیکھا جاتا ہے۔ نارتھ کے تینوں ریجن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے علماء ایم ٹی اے العربیة بڑے شوق سے سنتے ہیں اور لوگوں میں ایک بیداری پیدا ہو رہی ہے۔
امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ دسمبر 2019ء میں موشی (Moshi)ریجن کے ہمارے دومعلمین تبلیغی مہم کی غرض سے شہر سے تقریباً ستر کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں میں گئے اورمعلمین گھر گھر جا کر تبلیغ کرنے لگے۔ ایک حجام کی دکان پر انہوں نے دیکھا کہ ٹی وی پر ایم ٹی اے افریقہ کی نشریات جاری ہیں۔ انہوں نے دکان کے مالک سے پوچھا کیا آپ احمدی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ میں احمدی تو نہیں ہوں مگر یہ شخص جس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے اس کا خطبہ آتا ہے اور دوسرے پروگرام جو ایم ٹی اے پر آتے ہیں بڑے اچھے روحانی ہوتے ہیں، علمی ہوتے ہیں ان کو مَیں باقاعدگی سے سنتا ہوں اس لیے مجھے یہ اسلامی چینل پسند ہے۔ بہرحال اس کے بعد ان کے گھر جا کرمعلمین نے اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ ان احمدیوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو ایم ٹی اے پر پوری طرح توجہ نہیں دیتے اور شاید ہفتے میں ایک دن ہی ان کے ہاں ایم ٹی اے سنا جاتا ہے کہ اگر وہ سنیں تو ان کی بھی ایم ٹی اے کے ذریعے سے کافی حد تک علمی اور روحانی پیاس بجھ سکتی ہے اور گھروں میںتربیت کا بھی بہتر ماحول پیدا ہو سکتا ہے ۔
آج کل کورونا کی وجہ سے جو مختلف رپورٹیںہیں ان میں تو یہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ ایم ٹی اے سننے کی طرف رجحان پیدا ہوااور ہم اکٹھے بیٹھ کے سنتے ہیں چاہے تھوڑا عرصہ سنیں لیکن جب حالات بہتر ہو جائیں گے تب بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بورکینا فاسو کے ریجن دِدگُو کی ایک جماعت ہے وہاں کے معلم وہاں کی جماعت کے لوگوں کے اخلاص اور وفا کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہماری جماعت میں پہلی بار ایم ٹی اے لگا اور لوگوں نے پہلی بار خلیفۂ وقت کو دیکھا تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور خوشی ان کے چہروں سے عیاں تھیں۔
احمدیہ ریڈیوسٹیشنز
ہیں۔ دوران سال 2؍ نئے ریڈیو سٹیشنز کے اضافے کے ساتھ اس وقت جماعت کے اپنے ریڈیو سٹیشنز کی تعداد 27؍ہو چکی ہے جن میں مالی میں 17؍ریڈیو سٹیشنز ہیں، بورکینافاسو میں ہے ،سیرالیون میں اور تنزانیہ میں اور گیمبیا میں۔ اور یہاں (یوکے میں) ’وائس آف اسلام‘ بھی کام کر رہا ہے، بڑا اچھا کام کر رہا ہے۔
دوران سال دسمبر 2019ء میں کانگو کنشاسا کو ریڈیو اسلامک احمدیہ کے نام سے پہلا احمدیہ ریڈیو سٹیشن قائم کرنے کی توفیق ملی۔ وہاں کے ’متادی‘ ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ریڈیو احمدیہ کونگو کے افتتاح کے موقعے پر علاقے کے لوکل چرچ کے بڑے پادری اسحاق صاحب بھی شامل ہوئے۔ وہاں پر اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات سن کر کہنے لگے کہ میں نے تو اس قصبہ کے مسلمانوں سے گذشتہ کئی دہائیوں سے یہی سیکھا ہے کہ اسلام جادو، تعویذگنڈے اور عملیات وغیرہ کا نام ہے جس وجہ سے کبھی اسلام کی طرف میری توجہ پید انہیں ہوئی مگر یہاں جو بھائی چارے اور ہمدردی اور پیار محبت اور احساس کی اسلامی تعلیم بیان کی جا رہی ہے اس نے میری پچھلی زندگی کے تاثر کو یکسر بدل دیا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اب احمدیہ ریڈیو کے ذریعےہمیں اسلام کے بارے میں مزید جاننے کی توفیق ملے گی۔
بورکینافاسو کے ’بانفورہ‘ ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ شہر کے لوکل ریڈیو پر جماعتی پروگرام کیے جاتے ہیں۔ ان میں لائیو پروگرام بھی شامل ہیں۔ ایک دن ایک شخص نے فون پر بتایا کہ میں بانفورا شہر کا رہائشی ہوں اور میں باقاعدگی سے جماعت کی تبلیغ سنتا ہوں اور یہ بات مجھ پر واضح ہو چکی ہے کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اس لیے مَیں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور احمدیت میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیونکہ اس وقت جماعت کے علاوہ کسی بھی جگہ اسلام کی صحیح تعلیم نظر نہیں آتی اور ہر ایک کے آپس میں اختلافات بہت زیادہ ہیں جن سے ہم کبھی نکل نہیں سکتے اس لیے آج حقیقی امن صرف احمدیت میں ہے۔
پھر کونگو کنشاسا میں ایک جگہ کے معلم ہیں وہ لکھتے ہیں کہ احمدیہ ریڈیو کی سیکیورٹی کے کارکن ایک دن جماعتی کتاب The True Story of Jesus پڑھ رہے تھے۔ اس دورن ریفارم چرچ کے پادری کا وہاں سے گزر ہوا اور ان کی کتاب پر نظر پڑی تو پوچھا کہ یہ کیا پڑھ رہے ہو۔ عیسیٰ صاحب نے کتاب دکھائی۔ اس کا ٹائٹل دیکھ کر ہی پادری کو دلچسپی پیدا ہوئی۔ انہوں نے کتاب پڑھنے کے لیے مانگ لی۔ اگلے دن ریڈیو میں تشریف لائے اور اسلام میں عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر کافی سوالات کیے۔ جب انہیں ان کے سوالات کے تسلی بخش جواب دیے گئے تو بڑے درد کے ساتھ کہنے لگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اصل تو یہی مقام ہے اور یہی اصل واقعات ہیں جو عوام الناس کی نظر سے اوجھل ہیں۔ مَیں جس جگہ پر ہوں وہاں سے چھوڑنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ اب اگر ہمت ہوتی تو فوراً جماعت میں داخل ہو کرتبلیغ کا کام شروع کرتا مگر مجبوریاں ہیں اور پھر کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ مجھے وہ قوتِ ایمانی ودیعت کرے کہ مَیں دنیا سے لڑ کر حقیقی پیغام قبول کرنے والا بن جاؤں۔ پھر
دیگر ٹی وی پروگرام
ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کی 24گھنٹے کی نشریات کے علاوہ 84؍ ممالک میں ٹی وی اور ریڈیو چینلز پر جماعت کو اسلام کا پُرامن پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔ اس سال 11؍ہزار 63؍ٹی وی پروگراموں کے ذریعے 6؍ہزار 842گھنٹے وقت ملا اور ریڈیو سٹیشنز کے علاوہ مختلف ممالک میں ریڈیو سٹیشنز پر 18؍ہزار 479گھنٹے پر مشتمل 22؍ہزار 167؍پروگرام نشر ہوئے اور ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ سے ان کا اندازہ ہے کہ قریباً 52کروڑ لوگوں تک پیغام پہنچا۔
امیر صاحب سینیگال لکھتے ہیں کہ امبور شہر میں لوکل ٹی وی سٹیشن پر جو کہ یو ٹیوب پر بھی نشر ہوتا ہے وہاں میرا خطبہ سنایا جاتا ہے۔ یہاں لندن سے جو ایم ٹی اے پر نشر ہوتا ہے وہ لے کے سناتے ہیں۔ اس کے ذریعے ایک تاجر فیملی احمدیت میں داخل ہو چکی ہے اور اس ٹی وی اسٹیشن کے مالک جلسہ سالانہ جرمنی میں بھی آئے تھے اور مجھے ملے بھی تھے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدیہ آرکیٹکٹس اینڈانجینئرز
یہ بھی مختلف پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ ایک واٹر فار لائف ہے دوسرا سولر سسٹم ہے تیسرا افریقہ کے غریب ممالک میں ماڈل ولیجز ہیں۔ چوتھا تعمیراتی پراجیکٹس ہیں ۔سب کاموں کو انجام دینے کے لیے یوکے، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، گھانا، نائیجیریا، پاکستان اور دیگر ممالک سے انجینئرز اور آرکیٹکٹس، الیکٹریشنز، پلمبرز اور دوسرے مختلف شعبوں کے ماہرین اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دنیا میں بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ اب تک ان کے ذریعہ سے کل 2؍ہزار 8؍سو سے زائد گاؤں میں پانی کے نلکے لگ چکے ہیں اور ان کے ذریعہ سے 2؍لاکھ 50؍ہزار سے زائد افراد مستفید ہو رہے ہیں۔ماڈل ولیجز کا جہاں تک تعلق ہے اب تک 9؍ممالک میں ان ماڈل ولیجز کی کل تعداد 19؍ہو گئی ہے۔
کانگڑہ انڈیا کے معلم صاحب وقف جدید لکھتے ہیں کہ ان کو وہاں پانی کی ضرورت تھی تو بور کرنے والے مشین آپریٹر نے آتے ہی کہا کہ میں چار مسجدوں میں گیا ہوں اور وہاں دو دو بور بھی کر کے دیکھ لیے ہیں لیکن کامیابی نہیں ملی اس لیے آپ دیکھ لیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا پانی نکلے یا نہ نکلے۔ بہرحال ان کو یہ کہا گیا آپ مناسب جگہ دیکھ کے اللہ کا نام لے کے بور شروع کریں۔ جماعت کو کہا دعا بھی کرو۔ صدقہ بھی دیا گیا اور تیس فٹ پر پانی کے آثار نظر آنا شروع ہوئے اور پھر کہتے ہیں کہ سوا تین سو فٹ پر بور چھوڑ دیا گیا اور بڑا اچھا پانی نکل آیا اور مشین کا آپریٹر یہ کہنے لگا کہ آپ لوگوں کے طریقے کو دیکھ کر مان گیا ہوں کہ جس طرح آپ لوگوں نے دعا اور صدقے سے اس جگہ پانی نکالا ہے یہ بور پتھریلی زمین پر ہوا تھا اور کافی مشکل بھی تھا لیکن اللہ کے فضل سے پانی بھی نکل آیا اور میٹھا پانی نکلا اور پورا گاؤں اب اس پانی کو استعمال کر رہا ہے۔
مبلغ انچارج گنی کناکری لکھتے ہیں کہ مَیں (ایک دور دراز گاؤں) گیا تو مجھے ایک عورت نے کہا مَیںایک جگہ دکھانا چاہتی ہوں ۔ وہاں دیکھا تو قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا جو قریب کے پہاڑ سے آ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ سارا گاؤں لمبے عرصے سے یہاں سے اپنی پانی کی ضرورتیں پوری کر رہا ہے اور کہتے ہیں میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ حکومت کافی دفعہ یہاں کوشش کر چکی ہے لیکن پانی نہیں نکلتا تھا۔ بہرحال انہوں نے کہا ہم کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ ایک کنواں کھودنے والی کمپنی سے بات کی۔ انہیں وہاں بھجوا دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو ہفتوں کے بعد وہاں پانی نکل آیا اور جب اسے لیبارٹری ٹیسٹ کروایا گیا تو موجود کنوؤں میں سب سے بہترین پانی وہ تھا۔ اب لوگ اللہ کے فضل سے اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہی اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر قائم کردہ جماعت ہے اور دعاؤں سے اور صدقا ت سے اللہ تعالیٰ ان پر یہ فضل فرماتا ہے۔
ہیومینٹی فرسٹ
گذشتہ 26؍سال سے خدمتِ انسانیت میں مصروف ہے۔ اللہ کے فضل سے 54؍ ممالک میں رجسٹرڈ ہو چکی ہے۔ دوران سال کونگو میں میڈیکل سینٹر لگایا گیا۔ بنگلہ دیش،گوئٹے مالا، انڈونیشیا، مالی، بینن، نائیجر، سینیگال اور بہت سارے ملکوں میں میڈیکل سینٹر لگائے گئے، کیمپ لگائے گئے اور ہسپتال اور کلینک بھی بعض جگہ شروع کروائے۔ اس کے علاوہ نلکے لگانے کا کام اور دوسری ہنگامی مدد کا کام بھی یہ کر رہے ہیں اور بڑا اچھا کر رہے ہیں۔ اس سال فری میڈیکل کیمپ جو انہوں نے لگائے ہیں ان کی تعداد 345؍ہے دنیا کے مختلف ملکوں میں جن میں افریقہ کے ملک شامل ہیں، ایشیا کے بھی اور یورپ کے بھی، ساؤتھ امریکہ کے بھی اور ان میڈیکل کیمپس کے ذریعے سے 2لاکھ 30ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا اور فری ادویات تقسیم کی گئیں۔ ایسی جگہوں پر بھی گئے جہاں کوئی طبی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔
آنکھوں کے فری آپریشن
ہیومینٹی فرسٹ کو مختلف ممالک میں غریب نادار لوگوں کے آنکھوں کے فری آپریشن کی توفیق ملی۔ دوران سال اس پروگرام کے تحت بورکینافاسو، انڈونیشیا اور نائیجر میں پانچ سو بانوے آپریشن کیے گئے۔ اب تک اس پروگرام کے ذریعےکل 15؍ہزار 315؍ افراد کے فری آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ بورکینافاسو میں اب تک 8؍ہزار 595؍آنکھوں کے مفت آپریشن کیے گئے۔ اسی طرح خون کے عطیات بھی دیے گئے۔ کئی ہزار خون کی بوتلیں مختلف ممالک میں دی گئیں اور اس طرح خدمت خلق کے اَور بھی بہت سارے کام ہیں، چیریٹیز کو مدد بھی کی گئی اور ان کی دوسری چیزوں اور ضروریاتِ زندگی کا بھی خیال رکھا گیا خاص طور پر ان دنوں میں جو وائرس کی بیماری کے دن ہیں تو خدمات کو کافی سراہا گیا ہے جو مفت مدد کی جا رہی ہے۔
ایم ٹی اے انٹرنیشنل
کے دفتر کا جہاں تک سوال ہے اس وقت اس کے 16؍ڈیپارٹمنٹ ہیں اس میں 496؍ کارکنان دن رات خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 275؍ والنٹیئرز مرد ہیں اور 142؍ والنٹیئرز عورتیں ہیں جبکہ 79(اناسی) کارکن جو ہیں وہ paidکارکن ہیں۔ 27؍ مئی 2020ء کو اس میں مزید وسعت پیدا کی گئی ہے اور ایم ٹی اے نئے دور میں داخل ہوا ہے۔ اس کے سابقہ پانچ چینلز کی جگہ اب دنیا کے مختلف ریجنز کے اعتبار سے آٹھ چینلز کا آغاز کیا گیا ہے جن پر اب چوبیس گھنٹے مستقل نشریات جاری ہیں۔
ایم ٹی اے 2014ء سے پروگراموں کی subtitling کے ذریعے تراجم نشر کر رہا ہے۔ اس سال ان تراجم کی تعداد بڑھا کر 10؍کر دی گئی ہے۔ ان میں انگریزی، اردو، عربی، فرانسیسی، جرمن، ہسپانوی، فارسی، انڈونیشین، جاپانی اور پولش زبانیں شامل ہیں۔
ایم ٹی اے سوشل میڈیا آن لائن کی سروسز کو بھی وسعت دی گئی ہے۔ ایم ٹی اے آن لائن سروسز پر مئی 2020ء سے ایم ٹی اے کے چھ چینلز کی سٹریمنگ (streaming)کی جا رہی ہے جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد پانچ تھی۔ اس وقت مزید دو چینلز کو سٹریم (stream)کرنے کے سلسلے میں کام ہو رہا ہے اور جلد ہی تمام آٹھ چینلز بذریعہ سٹریم ویب سائٹ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مہیا ہو جائیں گے۔
سینٹرل افریقہ کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص کافی عرصے سے ایم ٹی اے پر میرا خطبہ جمعہ سنا کرتا تھا جو یہاں سے نشر ہوتا تھا اور دوسرے عربی پروگرام اور فرنچ پروگرام بھی سنتا تھا۔ کہتے ہیں ہم نے اپنے معلم محمود احمد صاحب کو اس علاقے میں تبلیغ کے لیے بھجوایا۔ جب انہوں نے وہاں تبلیغ کی اور جماعت کا تعارف کروایا تو وہ شخص اٹھ کر کہنے لگا کہ میں آپ لوگوں کا ٹی وی چینل دیکھتا ہوں جہاں آپ کے خلیفہ کا خطبہ بھی سنتا ہوں۔ میں تو کافی عرصے سے جماعت کو جانتا ہوں۔ آج آپ نے مزید تفصیل سے بتا دیا اس لیے ہماری تسلی ہے اور آپ ہماری بیعت لیں ہم جماعت کے ساتھ ہیں۔
امیر صاحب فرانس لکھتے ہیں کہ ایک خاتون فراحتی (Frahati)صاحبہ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتی ہیں۔کہتی ہیں میرا تعلق کومروس آئی لینڈ (Comoros Island)سے ہے اور میں پیرس میں مقیم ہوں۔ پیدائشی مسلمان ہوں۔ میں نے بچپن سے ہی اسلامی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے۔ میں مختلف علماء سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں سوالات کرتی رہی لیکن مجھے ان کی طرف سے جو جوابات ملتے تھے ان سے میری تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن میری ایک احمدی دوست سے بات ہوئی تو اس دوست نے مجھے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا تعارف کروایا اور ایم ٹی اے فرانس کے چینل سے بھی مجھے متعارف کروایا اور مختلف کتب کا مطالعہ کرنے کو کہا جن میں سے ایک ’’دس شرائط بیعت‘‘ بھی تھی۔ کہتی ہیں اس پر میں نے تحقیق شروع کر دی کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے۔ میں نے یوٹیوب اور ایم ٹی اے چینل پر پروگراموں کو دیکھنا شروع کر دیا اور کئی ماہ تک ان پروگراموں کو دیکھتی رہی۔ ان پروگراموں کو سننے اور کتب کو پڑھنے کے نتیجے میں میرے علم میں بہت اضافہ ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات بہت سادہ اور حکمت کے قریب ہیں اور روحانی طور پر بھی میں نے اچھا محسوس کیا اور اس طرح میرے سوالات کے جوابات بھی مجھے ملتے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نےرابطہ کرنے کے بعد فیصلہ کر لیا ہےکہ اب بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو جاؤں گی۔
نَومبائعین سے رابطہ اور بحالی
کی رپورٹ درج ذیل ہے۔ نائیجیریا نے اس سال 52؍ہزار سے زائد نومبائعین سے رابطہ بحال کیا۔ یہ کچھ عرصے سے رابطہ نہیں تھا۔ بینن نمبر دو پہ ہے 11؍ہزار سے زائد ہیں، آئیوری کوسٹ نمبر تین پہ 9؍ہزار سے زائد، کیمرون 7؍ہزار سے زائد، سینیگال 5؍ہزار سے زائد، بورکینافاسو 4؍ہزار سے زائد، کونگو کنشاسا اور اس طرح ان کے علاوہ بھارت ہے، انڈونیشیا ہے، بنگلہ دیش ہے، امریکہ ہے ،گوئٹے مالا ہے، فجی ہے، ہر جگہ مختلف ممالک ہیں جہاں رابطے ہوئے۔
دوران سال 80؍ممالک میں کل ایک لاکھ 8؍ہزار 18؍نومبائعین سے رابطے بحال ہوئے۔ نومبائعین کے لیے ریفریشر کورسز کا بھی انعقاد کیا گیا۔ 80؍ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دوران سال نومبائعین کے لیے 3؍ہزار 891؍جماعتوںمیں 16؍ہزار 823؍تربیتی کلاسز کا انعقاد ہوا جن میں نومبائعین کی تعداد ایک لاکھ 2؍ہزار 169؍تھی جو شامل ہوئے اور ان کلاسز میں ایک ہزار 124؍اماموں کو بھی ٹریننگ دی گئی۔
اس سال ہونے والی بیعتیں
حالات خراب جو چل رہے تھے، رابطے نہیں ہوسکتے تھے، باہر نکل نہیں سکتے تھے، نہ داعیان الی اللہ، نہ مبلغین،معلمین لیکن پھر بھی میرا تو خیال تھا کہ چند ہزار بیعتیں ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ 12؍ہزار 179؍بیعتیں ہوئی ہیں اور 98؍ممالک سے تقریباً 220؍اقوام احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔ امسال نائیجیریا کی بیعتوں کی مجموعی تعداد 25؍ہزار 176؍ہے۔ کیمرون میںاس سال 13,191؍بیعتیں ہوئیں، سیرالیون 13,723؍، آئیوری کوسٹ 10,538؍، مالی 10,027؍، سینیگال 5,790؍،کونگو کنشاسا میں 4,042؍، تنزانیہ 3,875؍،گنی بساؤ 3؍ہزار سے اوپر، کونگو برازاویل میں بھی 4؍ہزار سے اوپر، لائبیریا تقریباً 2ہزار، گنی کناکری 1,500؍، نائیجر، یہ بھی ایک ہزار 5سو کے قریب، بینن ایک ہزار سے اوپر، گھانا ایک ہزار سے اوپر، ملاوی ایک ہزار سے اوپر، چاڈ میں 936؍، ٹوگو، یوگنڈا، سینٹرل افریقن ریپبلک میں جو بیعتوں کی تعداد ہے وہ آٹھ سو سے ہزار تک، مڈغاسکر میں بھی اچھی تعداد ہوئی ہے۔ جو پہلے یہاں بیعتیں ہونے کی رفتار تھی اس کے لحاظ سے اچھی رفتار ہے۔ کینیا میں، ساؤ تومے میں، برونڈی میں، موریطانیہ میں، زیمبیا میں، صومالیہ میں، روانڈا میں، ایتھوپیا میں بھی بیعتیں ہوئیں۔
اسی طرح ہندوستان میں اس سال بیعتوں کی تعداد ایک ہزار 724؍ہے۔ انڈونیشیا میں بھی ایک ہزار سے اوپر ہیں۔ بنگلہ دیش، ملائیشیا، جرمنی میں اس سال 104؍بیعتیں ہوئی ہیں۔ اس کے بعد یوکے میں 100؍بیعتیں ہیں، پھر امریکہ کی یوکے سے زیادہ 101؍بیعتیں ہیں، کینیڈا کی جو بیعتیں حاصل ہوئیں وہ ان کے لحاظ سے تو 68؍کم ہیںلیکن بہرحال اَور بھی کافی کام انہوں نے کیا ہے لیکن بیعتوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس سال ہنڈورس میں اللہ کے فضل سے 36؍اور ہیٹی میں 32؍اور میکسیکو میں 23؍بیعتیں ہوئیں۔ ٹرینیڈاڈ میں بھی اس سال تقریباً 20؍کے قریب بیعتیں ہوئیں۔ فجی میں، مائیکرو نیشیا، مارشل آئی لینڈ، پیراگوئے، ارجنٹائن، فرنچ گیانا میں10؍سے 20،15 بیعتیں ہوئی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی جگہوں پہ بیعتوں کا کام ہوا ہے۔جہاں جہاں بھی جو بھی موقع ملتا رہا داعیان کو یا مبلغین کورابطے کرتے رہے۔
لوگوں سے رابطے کرنے سے یہ بھی پتہ لگ رہا ہے کہ لوگ ایم ٹی اے کے ذریعے سے یا کسی اَور ذریعے سے جماعت کا تعارف حاصل کرتے رہے لیکن ہمارے لوگوں کے وہاں رابطے نہیںہیں اس لیے بیعتیں نہیں ہو سکیں لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ فضل فرمائے جن کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس سال جماعت میں داخل ہونے کی توفیق دی اللہ تعالیٰ انہیں ثباتِ قدم بھی عطا فرمائے۔ اصل چیز تو یہ ہے کہ ایمان اور ایقان میں ترقی ہو۔
امیر صاحب گھانا لکھتے ہیں کہ ایک وہاں کے الحسن صاحب ہیں انہوں نے بیعت کی، اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔ انہوں نے فیملی سمیت قبولِ احمدیت کی تھی لیکن کچھ عرصے بعد ان کا بڑا بیٹا اسلام سے متنفر ہو گیا اور عیسائی ہو گیا وہ پھر ہمارے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ لوگ عیسائیوں سے بحث کر سکتے ہیں۔ آپ لوگوں کے پاس دلائل ہیں اس لیے میرے بیٹے سے بات کریں اسے سمجھائیں اور اسلام کی طرف واپس لائیں۔ چنانچہ جب ہم ان کے بیٹے سے ملے تو اس نے کچھ سوالات کیے جن کے تسلی بخش جوابات دیے گئے اور وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہو گیا اور یہ پورا خاندان جو آٹھ افراد کا تھا جو پیچھے ہٹ گئے تھے دوبارہ احمدیت میں شامل ہوئے۔
گنی بساؤ کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ تبلیغی پروگرام کے دوران، یہ سارے پروگرام جو ہیں فروری مارچ سے پہلے کے ہیں۔ ایک دور دراز علاقے کے ایک گاؤںسِنچا موادو(Sincha Mawadu) میں اللہ تعالیٰ نے چار بیعتیں عطا فرمائیں اور وہاں کے ایک سرکردہ فرد ہیں عبداللہ صاحب جب انہوں نے دیکھا کہ چار لوگ احمدیت میں داخل ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ میں اس سال حج پہ جا رہا ہوں اور حج سے واپس آکر فیصلہ کروں گا کہ آیا میں احمدی ہونا چاہتا ہوں کہ نہیں تو اس کے چند دن بعد ہی یہ دوست حج پہ چلے گئے۔ حج سے واپس آئے تو انہوں نے ازخود جماعت سے رابطہ کیا اور کہا کہ حج کے دوران ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ احمدیت ایک سچی جماعت ہے اور پورے حج کے دوران اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ اطمینان پیدا کیا کہ احمدیت کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہی نجات ہے اور میں حج کے دوران ہی احمدیت کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتا رہا۔ چنانچہ حج سے واپس آکرانہوں نے احمدیت قبول کی، بیعت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب بہترین داعی الی اللہ بھی ہیں اور اپنے چندہ جات میں بھی بڑے باقاعدہ ہیں۔
فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں ایک فرنچ دوست سرج سٹیل (Serge Stehle)جن کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا ہر ہفتے چرچ میں بھی جاتے تھے اور پادری سے اپنے مذہب پر اور خاص طور پر عیسیٰ علیہ السلام کی ذات پر بہت سے سوال کرتے تھے۔ پادری نے جواب دینے کی بجائے انہیں یہ کہا کہ آپ کو اس طرح کے سوالات نہیں کرنے چاہئیں۔ تب انہوں نے اپنی اہلیہ(جو مسلمان ہے)کی مدد سے اسلام میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ان کو جو معلومات ملیں وہ یہی تھیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر گئے ہیں، اسلام کا لٹریچر جو مسلمانوں کا ہے اس میں بھی یہی ان کو ملا لیکن وہ اس بات پر آمادہ نہیں ہوئے تھے، یہ نہیں ہو سکتا اور قائل بھی نہیں تھے کہ کوئی انسان آسمان پر جا سکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بارے میں دوبارہ تلاش شروع کر دی۔ کہیں سے ان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’مسیح ہندوستان میں‘ مل گئی اور ساتھ ہی جماعت کی ویب سائٹ بھی مل گئی ۔پھر جیسے جیسے انہوں نے مطالعہ کیا وہ کہتے ہیں میرے تمام سوالات کے جوابات مجھے ملنے شروع ہو گئے اور لاک ڈاؤن کے دوران جماعتی پروگرام دیکھتے رہے۔ بالآخر انہوں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے۔
مروان سرور گِل مربی سلسلہ ارجنٹائن لکھتے ہیں کہ ارجنٹائن کی ایک مقامی خاتون گبریلا بریوو (Gabriela Bravo)صاحبہ ہمارے مشن کے سامنے سے گزریں تو کہتی ہیں کہ جب مشن ہاؤس کے باہر کھڑکی میں سے میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اندر دیوار پہ لگی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ یہ جملہ بھی لکھا ہوا تھا کہ مسیح کی آمد ہو چکی ہے تو اس بات کا ان پر گہرا اثر ہوا کیونکہ یہ پریکٹسنگ (practicing)کیتھولک تھیں۔ اس سے قبل ان کو نہ اسلام میں دلچسپی تھی اور نہ کسی مسلمان کو جانتی تھیں۔چنانچہ موصوفہ نے اسلام کے بارے میں مزید علم حاصل کرنا شروع کیا اور پھر وہاں کی جماعت سے،مربی انچارج سے رابطہ کیا اور اسلام کے بارے میں جو کلاسیں وہاں منعقد ہوتی ہیں ان میں آنا شروع ہو گئیں۔ ان کے خاوند کو ان کا یہ عمل پسند نہیںآیا لیکن انہوں نے اپنے خاوند سے چھپ چھپ کے رابطہ بھی رکھا اور مطالعہ بھی کرتی رہیں۔ ایک سال کے بعد انہوں نے 28؍ دسمبر 2019ء کو احمدیت قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران کسی وجہ سے ان میاں بیوی کی علیحدگی بھی ہو گئی۔ اَور وجوہات بھی تھیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی جو ان کی لڑائی کا باعث بن رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب چھ ماہ سے زائد ہو گئے ہیں اور اپنی فیملی کی مخالفت کے باوجود بڑی ثابت قدمی سے اور مکمل شرح صدر کے ساتھ یہ احمدیت پر قائم ہیں۔
خوابوں کے ذریعے سے قبولِ احمدیت
اللہ تعالیٰ اس طرح بھی لوگوں کی رہ نمائی کرتا ہے۔
قرغیزستان کے ایک مقامی نَومبائع قادِرَوْ شوکت(KADIROV SHOKAT) صاحب کہتے ہیں کہ ایک مقامی احمدی عاشر علی کے ذریعے مجھے جماعت کا علم ہوا۔ انہوں نے مجھے دعا کی تلقین کی۔ میں نے اسی دن رات کو گھر آ کر دو رکعت نماز اد اکی اور اللہ تعالیٰ سے حق کو جاننے کے لیے توفیق مانگی۔ سعید تھے، نیک فطرت تھے، بڑی تڑپ کے ساتھ دعا کی۔ کہتے ہیں اسی رات میں نے خواب میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ سمندر کے پانی کے اوپر عبادت کر رہے ہیں۔ خواب نے میرے دل میںایک عجیب سا نور پیدا کر دیا جس کے نتیجے میں مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے حق کا راستہ مل گیا ہے پھر میں نے بیعت کر لی۔
کیمرون سے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ نارتھ ریجن کے دورے کے دوران یہاں کے گاؤں ’پیٹوآؤ‘ (Pitoir) میں ایک عالمِ دین سے ملاقات ہوئی۔ انہیں جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ ان کے سوالوں کے جوابات دیے گئے۔ جماعتی لٹریچر بھی دیا گیا۔ جاتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ میرے علم میں تھا کہ امام مہدی آنے والے ہیں لیکن یہ پہلی دفعہ سنا ہے کہ امام مہدی آ چکے ہیں۔ میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ مجھے سیدھے راستے کی طرف رہ نمائی کرے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے سینٹر واپس آگئے۔ ایک ہفتے کے بعد جماعت کے صدر نے فون پر کہا کہ آپ گاؤں آ جائیں ایک اچھی خبر ہے۔ کہتے ہیں جب میں گاؤں پہنچا تو وہی عالم دین آئے ہوئے تھے۔ مجھ سے معانقہ کر کے رونے لگ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے جماعت احمدیہ کے پمفلٹس کا مطالعہ کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھی ہے،پھر روز دعا کرتا رہا کہ اگر یہ شخص تیری طرف سے ہے تو میری رہ نمائی فرما ، میں تو کب سے امام مہدی کا انتظار کر رہا ہوں۔ پھر چند روز قبل حضرت امام مہدی علیہ السلام میری خواب میں تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ اٹھو نماز پڑھو۔ اس پر میں خواب میں ہی سوچتا ہوں کہ یہ شخص سچا ہے اور خدا کی طرف سے ہے چنانچہ اس خواب کے بعد میں مطمئن ہو گیا۔ اب میں اپنے بچوں سمیت جو پندرہ افراد تھے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوتا ہوں۔
نصیر شاہد صاحب فرانس سے لکھتے ہیں کہ ایک خاتون سُلیما تو بالدے صاحبہ کہتی ہیں اس سال رمضان سے قبل یہ خواب دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی مسجد میں ہوں وہاں بہت سے گروپس ہیں جو قرآن لیے بیٹھے ہیں اور یہ متفرق گروپس تقسیم ہوئے ہوئے ہیں اور میں انہیں نہیں جانتی۔ اس کے برعکس ایک چھوٹا سا گروپ ہے ان میںا یک خاتون ’کارا‘ کو میں جانتی ہوں۔ چنانچہ میں ان تمام گروپس کو چھوڑ کر اس چھوٹے گروپ میں چلی جاتی ہوں جس میں کارابیٹھی تھی۔ مسجد میں موجود ایک آدمی نے مجھے کہا کہ تم کفار کے گروپ میں کیوں جانا چاہتی ہو؟ اس پر میں نے اس آدمی سے کہا کہ تم مجھے اس گروپ میں جانے سے کیوں روک رہے ہو۔ اس گروپ میں ایک خاتون ہے جسے میں جانتی ہوں اور میں اسی گروپ میں جانا چاہتی ہوں۔ کہتی ہیں اس وقت میں نے ایک بڑی طاقتور روشنی دیکھی جس سے میری آنکھیں چندھیا گئیں اور مَیں اپنی آنکھیں کھول نہیں سکی۔ پھر مَیں نے اپنے آپ کو کارا کے گروپ میں دیکھا اور اس نے مجھے اپنے پاس جگہ دی۔ اس کے بعدمیری آنکھ کھل گئی۔ کہتی ہیں کہ میں کاراکو (جو اُن کی سہیلی تھی یا سہیلی نہیں تھی تعارف ہی تھا )کام کے سلسلے میں دو تین دفعہ مل چکی تھی لیکن احمدیت کے حوالے سے کبھی اس سے کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ خواب کے بعد میں نے لفظ ’کفار‘ جسے میں نے خواب میں سنا تھا کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں لیکن کوئی وضاحت نہ مل سکی۔ پھر میں نے کاراسے پوچھا، رابطہ کیا، اپنا خواب سنایا۔ اس پر کارا نے مجھے بتایا کہ ’کفار‘ کا لفظ کافر سے ہے اور دیگر مسلمان احمدیوں کو کافر کہتے ہیں اس پر میں بہت حیران ہوئی، مجھے دھچکا لگا کہ احمدیوں کو کیوں کافر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا کہ بغیر کسی تاخیرکے احمدیت قبول کر لینی چاہیے کیونکہ اب تو اللہ تعالیٰ نے خواب میں ہی میری رہ نمائی کر دی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے پانچ بچوں سمیت مئی میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئی۔
امیر صاحب نائیجر بیان کرتے ہیں کہ وہاں بیعت کرنے والے ایک احمدی گاؤں ’ہادا‘ کے امام عبداللہ صاحب نے جلسہ سالانہ نائیجر کے موقعے پر اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے بتایا۔ ایک احمدی ہیں انہوں نے اپنے خواب کا ذکر کیا کہ جماعت احمدیہ میں داخل ہونے سے قبل انہوں نے دیکھا کہ جیسے وہ اپنے گھر کے آنگن میں لیٹے ہوئے ہیں، رات کا وقت ہے اور چاند نکلا ہوا ہے اور اس چاند پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے۔ اسی اثنا میں خواب میں وہ دیکھتے ہیں کہ اسی طرح کی تحریر اور رنگ میں وہ کلمہ ان کے صحن کی دیوار پر بھی لکھا ہوا ہے اور اس کے بعد ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ کہتے ہیں اس خواب کے کچھ دن کے بعد ہی جماعت کے مبلغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام لے کر آئے۔ میرے دل میں اس پیغام کو قبول کرنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ میںنے اپنے گاؤں کے ساتھ احمدیت میں شمولیت اختیار کرلی۔ لیکن آج جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر میرے دل کو اطمینان حاصل ہوا کیونکہ اس خواب میں کلمہ طیبہ کی طرز تحریر اور جورنگ میں نے خواب میں دیکھا تھا یہی جلسے کے سٹیج پر ہو بہو اسی طرز پر لکھا ہوا تھا اور یہ دیکھ کے مجھے یقین ہو گیا کہ میری خواب اللہ کے فضل سے سچی تھی۔
فرانس میں مقیم مراکش کےایک دوست احمد حجانی (Ahmed Hajjani)صاحب اپنی قبولیت کا واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک شاپنگ سینٹر میں کچھ خریدنے کے لیے گیا لیکن جو چیز مجھے چاہیے تھی وہ کہیں نہیں مل رہی تھی۔ وہاں ایک آدمی سے پوچھا تو اس نے میری رہ نمائی کی اور کہنے لگا کیا آپ عربی جانتے ہیں؟ میرے پاس ایک عربی کی کتاب ہے جو امام مہدی کے بارے میں ہے آپ لینا پسند کریں گے؟ میں نے وہ کتاب لے لی اور اسے گھر جا کر پڑھ لیا۔ میرا دل یہ سب ماننے کو تیار نہ ہوا لیکن کچھ عرصے بعد کہتے ہیں اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے مراکش گیا، مراکش کے رہنے والے تھے۔ وہاں اس کتاب کا ذکر کیا تو دوست کہنے لگے کہ یہ تو جماعت احمدیہ کی کتاب ہے ہم تو پہلے ہی احمدی ہو چکے ہیں۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ جب فرانس واپس جاؤ تو وہاں کی جماعت احمدیہ سے رابطہ کرنا۔ کہتے ہیں بہرحال اس دوران میرے والد کی فرانس میںوفات ہو گئی۔ مجھے فوری طور پر واپس آنا پڑا اور صدمے اور حالات کی وجہ سے بھول گیا۔ میری دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ خلیفة المسیح ایک صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ کہہ رہے ہیں لیکن میں خلیفة المسیح کے سامنے کچھ نہیں بول پایا۔ اسی دوران دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ میرے والد مرحوم کھڑے ہیں، انہیں میں نے اندر آنے کے لیے کہا تو کہنے لگا کہ میں اندر نہیں آ سکتا لیکن سنویہ شخص اندر جو صوفے پر بیٹھا ہے یہ اللہ کا صحیح پیغام دینے والا ہے۔ تمہیں اس کے پیچھے چلنا ہو گا۔ کہتے ہیںکہ میں خواب میں ہی اپنے والد سے کہتا ہوں کہ میں تو ان کو نہیں جانتا۔ اس پر والد صاحب نے جواب دیا کہ ان کی ایک جماعت ہے جو اَب تمام دنیا میں پھیل چکی ہے۔ تم ان کے ساتھ چلو اور ان کی بیعت کرو۔ اس طرح کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے میری رہ نمائی فرمائی اور میں نے بیعت کی۔
امیر صاحب انڈونیشیا ایک احمدی کی قبولیت کا واقعہ لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بیعت کرنے والے نے کہا کہ مجھے یہ بتایا گیا تھاکہ جماعت احمدیہ گمراہی میں مبتلا ہے۔ میں جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی بجائے ایک ایسی جماعت میں شامل ہو گیا جو حکومت کی مخالفت کرنے والی تھی۔ 1992ء میں جب اس جماعت کا امیر پکڑا گیا تو میں نے ان کے جانشین کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے پہلے استخارہ کیا تو خواب میں مَیں نے ایک بزرگ کو دیکھا۔ اس بزرگ نے کہا کہ مَیں امام مہدی ہوں، تم لوگوں کا امام ہوں۔ مَیں مرزا غلام احمد ہوں۔ اس کے ایک ہفتے کے بعد مجھے اس جماعت کے نئے امیر کی بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا اور کہا گیا کہ بیعت کرو ورنہ قتل کر دیے جاؤ گے۔ کہتے ہیں ایک سال کے بعد ایک احمدی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے تبلیغ کی۔ میں نے اسے کہا کہ اگر تمہارا امام ایک نبی ہے تو ضرور ہے کہ اس کی کوئی کتاب وغیرہ بھی ہو گی۔ اس پر احمدی نے کہا کہ وہ مجھے ایک کتاب دے گا۔ اسی رات ایک بار پھر خواب میں مَیں نے ایک مسجد دیکھی جس پر ’احمدیہ‘ لکھا ہوا تھا۔ وہاں ایک انڈین ڈریس پہنے آدمی کھڑا تھا جو مجھ سے کہنے لگا کہ تم اس میں داخل ہو جاؤ۔ تین دن کے بعد احمدی دوست مجھے کتاب’ اسلامی اصول کی فلاسفی ‘دے کر گیا۔ جب میں نے کتاب کھولی تو شروع میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی تصویر تھی۔ ان کا چہرہ دیکھ کر یاد آیا کہ یہ تو بالکل وہی بزرگ ہیں جنہیں پچھلے سال میں نے خواب میں دیکھا تھا پس میں نے اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھا اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔
دِدگو، بورکینافاسو کے ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ جماعت کے ایک دوست جیالوحسینی صاحب جماعت میں داخل ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ شدید مخالفت تھی اور یہ بات کسی طرح لوگوں کو منظور نہ تھی کہ ان کے گاؤں میں احمدیت آئے۔ چنانچہ وہ ہر وقت کوشش میں تھے کہ کسی طرح احمدیت کو گاؤں سے ختم کر دیا جائے۔ کہتے ہیں ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک میدان ہے جس میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایک طرف احمدیوں کا گروہ سفید لباس میں ملبوس ہے اور دوسری طرف ہمارا گروپ جو مختلف رنگوں کے کپڑوں میں ملبوس ہے۔ اتنے میں آواز آتی ہے کہ دونوں گروپس آپس میں مناظرہ کر لیں اور جب مناظرہ شروع ہوتا ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے پاس تو دلائل ہی نہیں ہیں چنانچہ فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوتا ہے۔ تو جیالو حسینی صاحب کہتے ہیں کہ اگلے دن صبح احمدیہ جماعت کے پاس گیا اور کہا کہ مجھ پہ واضح ہو گیا ہے کہ احمدیت سچا اسلام ہے اس لیے میں شامل ہوتا ہوں۔
البانیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ جافیر صاحب نے بیعت کی، 29؍سال ان کی عمر ہے۔ اکنامکس میں انہوں نے ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ جماعت کے بارے میں انہوں نے پہلے سنا تو انٹرنیٹ میں موجود جماعت کے خلاف ہر قسم کا مواد مطالعہ کیا اور شروع سے ہی مسجد آتے تو کئی سوالات کرتے تھے۔ کہتے ہیں ہمارے نائب صدر صاحب، بُیاررامائے (Bujar Ramaj)صاحب نے ان سے تفصیلی گفتگو کی اور دلائل کے ساتھ ان کے سوالوںکے جوابات دیے۔ اس نوجوان سے کہا کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا غور سے مطالعہ کرے۔ چنانچہ انہوںنے کتب کا مطالعہ شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ ان پر حقیقت اور حقیقی اسلام واضح ہونا شروع ہو گیا، ان کے رویے میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی۔ اب جب بھی بات کرتے تو مرزا صاحب کہنے کی بجائے البانیا میں Messiahکا لفظ بولتے۔ بیعت کرنے کا کہا گیا، کہتے ہیں نہیںابھی میں نے مزید تحقیق کرنی ہے۔ آخر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘کا البانین ترجمہ پڑھا۔ انہیںکتاب اس قدر اچھی لگی کہ دو دفعہ اس کا شروع سے آخر تک مطالعہ کیا۔ اسی دوران انہوں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا جس میں حضور علیہ السلام نے انہیں خلافت سے وابستہ ہونے کا پیغام دیا۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد موصوف جماعت کی البانین ویب سائٹ پر نشر ہونے والی ہر پوسٹ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور ہمیشہ قرآن مجید کی آیات کی جماعت کی طرف سے کی جانے والی تفسیر کے البانین ترجمے کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں اور اسی طرح خطبات اور خطابات باقاعدگی سے سنتے ہیں۔
مخالفین کے پراپیگنڈے کے نتیجے میں بیعتیں
تنزانیہ سے روُوما ریجن کی ایک جماعت کے معلم بیان کرتے ہیںکہ ہمارے گاؤں میں وہابی فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی نے گذشتہ سال جماعت کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیز مہم شروع کی اور اپنے خطبات میں جماعت کے خلاف اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات کے حوالے سے غلیظ زبان استعمال کرتا تھا۔ اس کی گفتگو اتنی گندی تھی کہ اس مسجد میں جانے والی بعض غیر از جماعت عورتوں نے مسجد میں جانا ہی بند کر دیا۔ اس مخالفت کی وجہ سے ان عورتوں میں سے ایک نے جماعت کے حوالے سے تحقیق کی اور احمدیت کو حقیقی اور سچا جان کر بیعت کر لی۔ دوسری طرف اس مولوی کی ذلت اور رسوائی اس طرح ہوئی کہ وہ غیر اخلاقی حرکت میں پکڑا گیا اور اس کو گاؤں والوں نے کافی لعن طعن کی کہ تم نے ہمیں بدنام کر دیا ہے۔ اس طرح بعض اور واقعات بھی ہیں۔
فجی کے مربی صاحب لکھتے ہیںکہ ایک جزیرہ رامبی ہے اس کا دورہ کرنے کی توفیق ملی۔ دورے کے دوران جب ہم لٹریچر تقسیم کر رہے تھے تو دو یورپین عیسائی پادری بھی آ گئے۔ ان کے ساتھ ایک لوکل عیسائی فیملی بھی تھی۔ ان کے ساتھ تبلیغی نشست شروع ہوئی۔ کہتے ہیں میں نے بائبل سے توحید اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کی تو ان پادریوں سے کوئی بات نہیںبنی، وہ جواب نہ دے سکے۔ دونوں پادری اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے مصروفیت کا بہانہ کر کے چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد عیسائی فیملی کے ساتھ جو گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ فیملی گو کہ عیسائی تھی لیکن کچھ عرصے سے مختلف فرقوں کے مسائل کی وجہ سے بالکل لامذہب ہو چکی تھی ۔چنانچہ اس فیملی کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا اور جماعتی لٹریچر بھی دیا گیا۔ اس فیملی کے ساتھ سوال و جواب کی طویل نشست ہوئی اور الحمد للہ کہ انہوں نے جماعت کا لٹریچر پڑھنے کے بعد بیعت کر لی۔
نمونہ دیکھ کر بیعت کرنے والے
نمونہ دیکھ کر بیعت کرنے والا واقعہ یہ ہے کہ کونگو کنشاسا کے ایک دوست داؤد اِلونگا صاحب کو مشن میں کچھ کام کرنے کو دیا گیا۔ کام مکمل ہونے پر جب انہیں اجرت دی گئی تو معلم کہتے ہیں کہ انہوں نے اس میں سے کچھ حصہ نکال کر مجھے کمیشن کے طور پر دیا۔ میں نے لینے سے انکار کر دیا اور انہیں سمجھایا کہ نہیں یہ تمہارا حق ہے میں یہ نہیں لے سکتا۔ اس پر داؤد نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کسی کو میں نے اس طرح کمیشن دیا ہو اور اس نے لینے سے انکار کر دیا ہو۔ پھر تین ہفتے کے بعد آیا اور اس نے کہا کہ اس دوران میں نے بہت غور کیا ہے جس طرح آپ لوگ کام کر رہےہیں اور جیسا آپ کا رویّہ ہے آپ غلط نہیں ہو سکتے اس لیے میں بیعت کرتا ہوں اور بیعت کرنے کے بعد داؤد میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور بڑے ایکٹو ممبر ہیں، چندوں میں باقاعدہ ہیں۔
بشکیک قرغیزستان سے مُکاشووا (Mukashova) صاحبہ لکھتی ہیں کہ میری عمر37؍سال ہے۔ میں شادی شدہ ہوں میرے دو بچے ہیں۔ احمدیت کے ساتھ میرا تعارف نو سال قبل ہوا جب میرا خاوند ارسلان بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوا تھا۔ ہم ایک عام سی فیملی تھے۔ مَیں نے اس کی بیعت پہ کوئی مخالفت نہ کی اور نہ ہی کوئی خوشی کا اظہار کیا۔ مَیں جماعت احمدیہ کے بارے میں جانتی بھی نہیں تھی۔ اپنے خاوند کو دیکھتی تھی۔ وہ ہر جمعہ نماز کے لیے ضرور جاتا تھا۔ اس میں یہ تبدیلی دیکھ کر کہتی ہیں مجھے خوف پیدا ہوا کہ شاید وہ اب مجھے پردہ کرنے پر مجبور کرے گا۔ مذہبی انتہا پسند بن جائے گا۔ لیکن مَیں نے محسوس کیا کہ اس کے بجائے اس میں بہتری کی تبدیلی آ رہی ہے۔ وہ پیار کرنے والا اور ہمدرد زیادہ ہو گیا ہے۔ دیکھ بھال کرنے لگ گیا ہے اور اعتماد اور روحانی لحاظ سے مضبوط ہو گیا ہے۔ کہتی ہیں پھر مالی وسائل کی وجہ سے وہ شکاگو امریکہ چلا گیا اور مَیں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر میں رہ گئی۔ مَیں نے بیعت نہیں کی تھی۔ امریکہ کے ویزا کے لیے پانچ دفعہ ڈاکیومنٹ جمع کرائے اور ہر دفعہ انکار ہو جاتا تھا۔ اس کے لیے مَیں نے جاپان کا سفر بھی کیا۔ فرانس بھی گئی۔ میکسیکو بھی گئی لیکن کوئی امید نہیں بنتی تھی۔ کہتی ہیں روزانہ ہماری لڑائیاں بھی شروع ہو گئیں اور پھر مَیں سوچتی تھی کیوں اللہ تعالیٰ ہماری مددنہیں کرتا ، مَیںتو دعا بھی بہت کرتی ہوں لیکن بیعت نہیں کی تھی۔ تو کہتی ہیں ایک دن میرے خاوند نے مجھے کہا کہ جو احمدیت سے متعارف ہوتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہی حقیقی رستہ ہے،صراط مستقیم ہے لیکن پھر بیعت نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو سخت آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ پھر کہتی ہیں اس پر میں نے اپنا جائزہ لیااور اگلے دن میں نے بیعت کر لی اور پانچوں نمازیں باقاعدہ پڑھنی شروع کر دیں اور پہلے شاید کبھی نمازیں نہیں پڑھتی تھیں اپنے طور پر دعا کرتی تھیں۔ قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ نماز تہجد بھی ادا کرنی شروع کر دی۔ بچوں کو بھی نماز پڑھانا شروع کر دی اور کوشش کرتی کہ ہر جمعے پہ بھی حاضر ہو جاؤں اور پھر کہتی ہیں کچھ عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کی اور اب امریکہ جانے کی اجازت مل گئی ہے اور اپنے خاوند کے رویے اور اللہ تعالیٰ کے یہ سلوک دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت سچی ہے۔
ریڈیو کے ذریعے قبولِ احمدیت
اللہ تعالیٰ کس طرح مدد فرماتا ہے، متادی ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ماہرین کے مطابق ہمارے ریڈیو احمدیہ کے سگنل 80؍کلو میٹر تک جانے چاہئیں اس سے زیادہ دور تک سگنل نہیں جا سکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہواؤں کو ایسا مسخر کیا ہے کہ مُوانڈا (MOANDA)شہر جو ہمارے ریڈیو سے 180؍کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے وہاں کے اہل سنت کے امام نے بتایا کہ ریڈیو احمدیہ کے سگنل ان تک بہترین آتے ہیں اور جب سے احمدیہ ریڈیو کا آغاز ہوا ہے اس کو مسلسل سن رہے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں انشراح صدر عطا فرمایااور انہوں نے خود ریڈیو سٹیشن آ کر اپنے بیوی اور بچوں سمیت بیعت کر لی۔
خلیل احمد خان صاحب مبلغ چاڈ
ثبات قدم کا واقعہ
لکھتے ہیں کہ ایک علاقہ بیئر سیت کافی عرصے سے ہمارے زیرِ تبلیغ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سال اس علاقے کے سلطان اور اس کے ماتحت 22؍گاؤں امام اور چیف سمیت جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ تبلیغی جماعت والے جو پاکستان سے وفد کی صورت میں ملک چاڈ آئے تھے اس علاقے میں پہنچ گئے۔ ایک دفعہ ہمارے معلم صاحب کی موجودگی میں یہ لوگ آئے۔ جب تعارف ہوا تو تبلیغی جماعت والوں نے بڑے حیران ہو کر ہمارے معلم سے دریافت کیا کہ جماعت احمدیہ ادھر بھی موجود ہے۔ ہمارے معلم صاحب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’مسیح ہندوستان میں‘ تحفہ کے طور پر دی۔ پھر وہ لوگ اس علاقے سے چلے گئے۔ چند دن کے بعد دوبارہ اس علاقے میں آئے اور علاقے کے سلطان سے کہا کہ جماعت احمدیہ ایک جھوٹی جماعت ہے اور یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہیں اور کافر ہیں۔ پاکستانی گورنمنٹ نے ان لوگوں کو کافر قرار دیا ہے۔ آپ لوگوں نے جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ علاقے کے سلطان نے انہیں جواب دیا کہ جو باتیں آپ لوگ جماعت احمدیہ کے متعلق بتا رہے ہیں وہ تو ہم لوگوں نے ان میں دیکھی نہیں۔ وہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں، انسانیت کی صحیح معنوں میں خدمت کرتے ہیں۔ باقی رہ گیا سوال کہ پاکستانی گورنمنٹ نے کیا کہا ہے ،کافر قرار دیا ہے یا نہیں، اس کا جہاں تک تعلق ہے تو آپ لوگ چاڈ کے دارالحکومت جائیں وہاں جماعت احمدیہ کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے وہاں گورنمنٹ کے بھی دفاتر ہیں یا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں جا کر گورنمنٹ سے پوچھیں کہ اس نے جماعت احمدیہ کو جماعت مسلمہ کے طور پر رجسٹرڈ کیوں کیا ہے۔ اس پر بہرحال وہ خاموش ہو کر وہاں سے چلے گئے۔
احمد مصطفیٰ شیبہ صاحب کہتے ہیں بیعت سے سات سال قبل خواب میں ایک نوجوان کو انڈین لباس میں ملبوس دیکھا اور پوچھا یہ کون ہے؟ جواب ملا کہ یہ ’امام مہدی‘ ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ امام مہدی تو آل بیت میں سے ہونا ہے، یہ انڈین کیسے ہو گیا؟ پھر اچانک میں نے اس شخص کو گلے لگا لیا اور رونے لگا۔ پھر اس کے سات دن کے بعد مجھے ایم ٹی اے العربیہ مل گیا اور میں اور میری اہلیہ چھ سال ایم ٹی اے دیکھتے رہے اور آخر کار بیعت کر کے مومنین کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بیعت کے بعد میںنے اپنی شخصیت میں نمایاں تبدیلی محسوس کی۔ میں اب وہ نہیں رہا جو بیعت سے پہلے تھا۔ قرآن کریم کی تلاوت اور تدبر کے ذریعے میں لوگوں سے بڑے حلم اور بردباری سے اور نرمی سے معاملہ کرتا ہوں جس کی وجہ سے لوگ بھی مجھ سے خوش ہیں لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتے۔ میرے والد نے بھی میرے اندر اخلاقی تبدیلی دیکھ کر مجھے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیشہ اسی جماعت سے چمٹے رہو تاہم ہمیں قائل کرنے کی کوشش نہ کرنا۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ میرے اندر یہ تبدیلی اس امام کی اتباع کی برکت سے ہے جس کو یہ قبول نہیں کرنا چاہتے۔
مراکش سے الحسنی صاحب لکھتے ہیں کہ میں 2002ء سے 2019ء تک مغربی ممالک میں رہا ہوں۔ بس نام کا مسلمان تھا۔ میں نے بہت سے کام خدا کی مرضی کے خلاف کیے ہیں۔ کئی دفعہ مجھے جیل ہوئی۔ 2016ء میں آسٹریا کی ایک جیل میں قید ہوا۔ وہاں زندگی میںپہلی دفعہ ایم ٹی اے دیکھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قصائدسن کر بہت متاثر ہوا اور ایک ایسا احساس ہوا جو پہلے زندگی میں کبھی نہ ہوا تھا۔ دل اطمینان اور سکینت سے بھر گیا۔ میں جیل میںہر روز ایم ٹی اے دیکھنے لگا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے کمرے میں ایک ہی ٹی وی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرمایا کہ مجھے اپنا الگ ٹی وی میسر آگیا نیز موبائل فون بھی مل گیا۔ میں نے مخالف مولویوں کے اس مبارک جماعت کے خلاف افترا کا بھی جائزہ لیا۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قصائد سن کر دل میں کہا کہ ان میں جو باتیں ہیں ناممکن ہے کہ کسی عام مولوی کی ہوں۔ یہ کلام تو دل میں اترنے والا ہے۔ چنانچہ میں ایمان لے آیا اور فیصلہ کیا کہ یورپ سے اپنے ملک واپس جا کر نئے سرے سے زندگی شروع کروں گا۔ جماعت سے تعارف سے قبل مجھے صرف دنیا کی تلاش تھی اور کسی چیز کی پروا نہ تھی لیکن اب میری زندگی یکسر بدل گئی ہے۔ میںاب ایک برے آدمی سے سچا انسان بن گیا ہوں اور اب اطمینان اور سکون کا احساس ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
پھر مصر کے اسامہ صاحب کہتے ہیں 2015ء میں ایک دن چینل بدلتے ہوئے اتفاقاً ایم ٹی اے العربیة نظر آیا جس پر لقاء مع العرب پروگرام لگا ہوا تھا۔ اس کے ذریعے سے میرا جماعت احمدیہ سے تعارف ہوا۔ پھر میں ایک دن میں سات سات گھنٹے ایم ٹی اے دیکھتا۔ یہ سلسلہ 2015ء سے 2019ء تک چلتا رہا اور سب خطبات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت وغیرہ کے پروگرام سنے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کا قائل ہو گیا لیکن ابھی تک میں نے بیعت نہیں کی تھی۔ اس عرصے میں خواب میں دیکھا کہ کسی نامعلوم صحرائی مقام پر جلسہ منعقد ہو رہا ہے، خیمے لگے ہوئے ہیں اور رات کا وقت ہے۔ ایسے میں وہاں انہوں نے مجھے دیکھا (اس سے تو یہی لگتا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا بہرحال واضح نہیں ہے) تو وہاں آئے ہیں اور میں حضور کے پیچھے پیچھے چل رہا ہوں۔ وضو کے بعد وہ بڑے خیمے کی طرف گئے اور مَیں آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ یہاں میری آنکھ کھل گئی اور خواب ختم ہو گیا ۔میں اس خواب پر بہت خوش تھا اور پھر کہتے ہیں کہ آپ سے زیادہ محبت کرنے لگا۔ دن رات، سوتے جاگتے آپ کی محبت کو محسوس کرتا ہوں۔ آپ کے سب خطبات سنتا ہوں اور عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ غالباً انہوں نے مجھے ہی دیکھا تھا اس بات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔
مبلغ انچارج گنی کناکری کہتے ہیں کہ یہاں پابندیوں کی وجہ سے، باقاعدہ جلسہ سالانہ کے انعقاد پر پابندی ہے اس لیے لوگ سارا سال پیسے جمع کر کے سیرالیون کے جلسے پر جاتے ہیں۔ اس سال بھی ایک بڑی تعداد اپنے خرچ پر سیرالیون جلسے پر گئی۔ ایک نوجوان معلم عبداللہ صاحب جو کہ انتہائی غریب ہیں اور جماعت کے معمولی الاؤنس پر ان کا گزارا ہے ایک سال سے ہر ماہ کچھ رقم اپنے جلسے میں شامل ہونے کے لیے جمع کر رہے تھے۔ جب جلسے کے دن قریب آئے تو انہوں نے اپنے علاقے کے ایک امام کو جو اُن کے زیر تبلیغ تھا اس جلسے میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا اور اپنی ساری رقم جو اپنے سفر کے لیے جمع کی ہوئی تھی اس کو ادا کر دی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے تو خود جلسے پر جانا تھا پھر کیوں نہیں گئے؟ کہنے لگے کہ میں تو پہلے ہی پکا احمدی ہوں لیکن اس امام کا جانا ضروری تھا تا کہ یہ احمدیت کی سچائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا اور اس کے دل میں احمدیت داخل ہو جاتی اس لیے میں نے اپنے مال اور اپنے جذبات کی قربانی اس غرض سے کی ہے تا کہ یہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو خود مشاہدہ کر کے اس الٰہی سلسلے میں داخل ہو جائے۔
تو یہ انقلاب ہے جو اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے۔ دلوںمیں ایک خاص جوش اور جذبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مدد کرنے والوں کے لیے پیدا کر رہا ہے۔ ہزاروں میل دُور بیٹھا ہوا ایک شخص ہے جس نے کبھی خلیفۂ وقت کو بھی شاید نہیں دیکھا لیکن ایک تڑپ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچے اور لوگ اس میں شامل ہوں۔
بلغاریہ سے مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر ’مانیکاتُف‘ (MANIKATOF) جماعت کے بہت مخلص دوست ہیں۔ عیسائی ہیں۔ تین دفعہ جلسہ جرمنی میں شامل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے میرے سے ملاقات بھی کی ہے اور میرے ساتھ تصویریں کھنچوا چکے ہیں۔ بلغاریہ آنے کے بعد انہوں نے یہ تصاویر اپنے کلینکس جو مختلف شہروں میں موجود ہیں ان میں لگائی ہوئی ہیں اور مریضوں کو احمدیہ جماعت کا تعارف، خلافت کا تعارف بڑے اچھے الفاظ میں کرواتے ہیں۔ اس طرح ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں تک جماعت کا پیغام پہنچ رہا ہے اور تبلیغ کے نئے راستے کھل رہے ہیں۔
جلسے پر آنے والے لوگ بھی بعض وجوہات کی وجہ سے چاہے خود قبول کریں نہ کریں لیکن تبلیغ کا ذریعہ بن رہے ہیں اور ان کے ذریعے سے پھر بیعتیں بھی ہو جاتی ہیں۔
امیر صاحب انڈونیشیا اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ بوگور کے علاقے کے ایک گاؤں میں ایک مولوی نے اپنی تقریر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر اعتراضات شروع کر دیے اور جو لوگ بیعت کر کے احمدیہ جماعت میں شامل ہوئے تھے ان کی بھی مخالفت کرنے لگ گئے لیکن ہمارے نومبائعین ثابت قدم رہے۔ مولوی کی مخالفانہ کوششیں کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں۔ دوسری طرف مخالف مولوی عید والے دن سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کے بعد ابوہاشم نامی ایک اَور مولوی جو کہ مجلس علماء کا صدر ہے اس نے مخالفت شروع کی۔ ہمارے نومبائعین کے بارے میں کہتا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں، جماعت احمدیہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنا ہواکہ کچھ عرصے کے بعد اس کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ پھرایک Dediنامی مولوی نے جماعت کی سخت مخالفت شروع کر دی۔ نومبائعین کو کھلے عام ڈراتا اور کہتا تھا کہ احمدیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مچھلیوں کے آگے پھینک دیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ اس کو فالج ہو گیا اور کئی ماہ تک مفلوج رہنے کے بعد فوت ہو گیا اور اپنی فیملی کے علاوہ کوئی شخص اس کی فوتگی پر بھی نہیں گیا۔
تو بہرحال ہم نے تو ہر جگہ صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور یہی ہمارا کام ہے اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ یا تو ان لوگوں کو ہدایت دے یا پھر ان سے ہماری جان چھڑائے اور ان کو ان کے انجام تک پہنچائے۔
آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’کبھی کوئی جھوٹ اس قدر چل نہیں سکتا۔ آخر دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بدی کرنے والے جھوٹے اور فریبی اپنے جھوٹ میں تھک کر رہ جاتے ہیں۔ پھر کیا کوئی ایسا مفتری ہو سکتا ہے جو برابر پچیس برس سے خدا تعالیٰ پر افترا کر رہا ہو‘‘ اس زمانے میں جب آپؑ نے یہ فرمایا تھا پچیس برس ہو چکے تھے’’اور تھکا نہ ہو اور خد اکو بھی اس کے لیے غیرت نہ آوے بلکہ اس کی تائید میں نشانات ظاہر کرتا رہے۔ یہ عجیب بات ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ صادقوں ہی کی نصرت اور تائید کرتا ہے۔‘‘ آج ایک سو تیس سال کے بعد بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وہ تائیدات ہمارے شامل حال ہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ ’’اس وقت جب کوئی نہ جانتا تھا اور نہ یہاں آتا تھا۔یہ کہا‘‘یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ
’’ یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ
اور
یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔
کیا یہ مفتری کر سکتا ہے کہ ایسا کہے اور پھر خدا بھی ایسے مفتری کی پرواہ نہ کرے بلکہ اس کی پیشگوئی پوری کرنے کو دور دراز سے لوگ بھی اس کے پاس آتے ہیں اور ہر قسم کے تحائف اور نقد بھی آنے لگیں۔ اگر یہ بات ہو کہ مفتری کے ساتھ بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں پھر نبوت سے ہی امان اٹھ جاوے۔‘‘ فرمایا کہ ’’یہی نشان ہیں جو ہماری جماعت کی محبت اور اخلاص میں ترقی کا باعث ہو رہے ہیں۔ مفتری اور صادق کو تو اس کے منہ ہی سے دیکھ کر پہچان سکتے ہیں۔‘‘
فرمایا: ’’سچائی کا یہ بھی ایک نشان ہے کہ صادق کی محبت سعیدالفطرت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ احمق کو یہ راہ نہیں ملتی کہ نور کا حصہ لے وہ ہر بات میں بدگمانی ہی سے کام لیتا ہے۔‘‘ فرمایا : ’’ہم کو تکلف اور تصنع کی حاجت نہیں…ہمارا اپنا کوئی کام نہیں ہے خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے اور وہ خود کر رہا ہے۔‘‘
آپؑ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہم کو محجوب ہونے کی حالت میں نہ چھوڑے گا۔‘‘ بڑے تحدی سے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ ہم کو محجوب ہونے کی حالت میں نہ چھوڑے گا۔ وہ سب پر اتمام حجت کر دے گا۔ یاد رکھو سماوی اور ارضی آدمیوں میں فرق ہوتا ہے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں وہ خود ان کی عزت کو ظاہر کرتا اور ان کی سچائی کو روشن کر کے دکھاتا ہے اور جو اس کی طرف سے نہیں آتے اور مفتری ہوتے ہیں وہ آخر ذلیل ہو کر تباہ ہو جاتے ہیں۔‘‘
پھر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ ہماری جماعت کا ایمان کمزور رہے۔ مہمان اگر نہ بھی چاہے تو بھی میزبان کا فرض ہے کہ اس کے آگے کھانا رکھ دے۔ اسی طرح پر اگر چہ نشانوں کی ضرورت کوئی بھی نہ سمجھے تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ایمان کو بڑھانے کے لیے نشانات ظاہر کر رہا ہے۔ یہ بھی سچی بات ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان کو نشانوں کے ساتھ مشروط کرتے ہیں وہ سخت غلطی کرتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ کے شاگردوں نے مائدہ کا نشان مانگا تو یہی جواب ملا کہ اگر اس کے بعد کسی نے انکار کیا تو ایسا عذاب ملے گا جس کی نظیر نہ ہو گی۔‘‘
پھر فرمایا:’’ پس طالب کا ادب یہی ہے کہ وہ زیادہ سوال نہ کرے اور نشان طلب کرنے پر زور نہ دے۔ جو اس آداب کے طریق کو ملحوظ رکھتے ہیں خدا ان کو کبھی بے نشان نہیں چھوڑتا اور ان کو یقین سے بھر دیتا ہے۔ صحابہؓ کی حالت کو دیکھو کہ انہوں نے نشان نہیں مانگے مگر کیا خد انے ان کو بے نشان چھوڑا؟ ہرگز نہیں۔ تکالیف پر تکالیف اٹھائیں، جانیں دیں ، اعداء نے عورتوں تک کو خطرناک تکلیفوں سے ہلاک کیا مگر نصرت ہنوز نمودار نہ ہوئی۔ آخر خدا کے وعدہ کی گھڑی آ گئی اور ان کو کامیاب کر دیا اور دشمنوں کو ہلاک کیا۔ یہ سچی بات ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ‘‘
فرمایا کہ ’’اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ ان ساری ترقیوں کی جڑ ایمان ہی ہے۔ اسی کے ذریعہ سے انسان بڑی بڑی منزلیں طے کرتا اور سیر کرتا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 354تا356ایڈیشن 1984ء)
پھر مخالفین کو مخاطب کر کے آپ نے فرمایا کہ
’’اب اے مخالف مولویو !اور سجادہ نشینو !یہ نزاع ہم میں اور تم میں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اور اگرچہ یہ جماعت بہ نسبت تمہاری جماعتوں کے تھوڑی سی اور فِئَہ قلیلہ ہے اور شاید اس وقت تک‘‘ جب آپؑ نے بیان فرمایا تھا چار پانچ ہزار تھی۔ ابھی بھی بہت تھوڑی ہے۔ بہرحال آپؑ فرماتے ہیں ’’تاہم یقیناًسمجھو کہ یہ خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودہ ہے۔ خدا اس کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ وہ راضی نہیں ہو گا جب تک کہ اس کو کمال تک نہ پہنچا وے اور وہ اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کے گرد احاطہ بنائے گا اور تعجب انگیز ترقیات دے گا۔ کیا تم نے کچھ کم زور لگایا۔ پس اگر یہ انسان کا کام ہوتا تو کبھی کا یہ درخت کاٹا جاتا اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 281، 282۔ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 64)
اللہ تعالیٰ ہمیں جماعت کی ترقیات پہلے سے بڑھ کر دکھائے۔ مخالفین کے شر اور مکر سے بچائے۔ سعید فطرت لوگوں کی مدد فرمائے کہ وہ ان وسوسے پیدا کرنے والوں اور فتنہ پردازی کرنے والوں کے چنگل سے نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں تاکہ غلبۂ اسلام کے لیے اس جری اللہ کے مدد گار بن سکیں۔ دنیا سے فتنہ و فساد بھی ختم ہو اور دنیا خدائے واحد کی عبادت کرنے والی بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فرائض انجام دینے کی توفیق دے اور اللہ تعالیٰ کرے کہ اب ان لوگوں کو بھی عقل آ جائے۔ اب دعا کر لیں۔
٭٭٭دعا٭٭٭