نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے
کہتے ہیں کہ اس کی (طاعون کی۔ناقل)میعاد ستّر برس ہوا کرتی ہے اور اس کے آگے کوئی حیلہ پیش نہیں جاتا ۔سب (حیلے) فضول ہوا کرتے ہیں اور اسی لئے آتی ہے کہ خد اکے وجود کو منوا دیوے۔ سو اس کا وجود برحق ہے۔ اور خد اکی بلا سے سوائے خدا کے کوئی بچا نہیں سکتا۔ سچاتقویٰ اختیار کرو کہ خدا تعالیٰ تم سے راضی ہو۔ جب شریر گھوڑے کی طرح انسان ہوتا ہے تو ماریں کھاتا ہے۔ اور جو خاص لوگ ہیں وہ اشارات سے چلتے ہیں جیسے سدھا ہوا گھوڑا اشارے سے چلتا ہے اور ان کو وحی اور الہام ہوتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ وحی کے معنے اشارہ کے بھی لکھے ہیں۔ مگر جب مار کھانے کا زمانہ گذرجاتا ہے تو پھر وحی کا زمانہ آتا ہے اور یہ بات ضروری ہے کہ یہ مرحلہ سہولت سے طے نہیں پاتا۔ کیونکہ تقویٰ ایسی شے نہیں جو کہ صرف منہ سے انسان کو حاصل ہو جاوے بلکہ یہ شیطانی گناہ کا کوئی حصہ دار ہے۔ اس کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسے ذرا سی شیرینی رکھ دیں تو بے شمار چیونٹیاں اس پر آجاتی ہیں۔ یہی حال شیطانی گناہوں کا ہے اور اسی سے انسانی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے۔ اگر خدا چاہتا تو ایسی کمزوری نہ رکھتا۔ مگرخدا تعالیٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا علم ہو کہ ہر ایک طاقت کا سرچشمہ خد اہی کی ذات ہے۔ کسی نبی یا رسول کو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاس سے طاقت دے سکے اور یہی طاقت جب خدا کی طرف سے انسان کو ملتی ہے تو اس میں تبدیلی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ دعا سے کام لیا جاوے اور نماز ہی ایک ایسی نیکی ہے جس کے بجا لانے سے شیطانی کمزوری دور ہوتی ہے اور اسی کا نام دعا ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ انسان اس میں کمزور رہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جس قدر اصلاح اپنی کرے گا۔ وہ اسی ذریعہ سے کرے گا۔ پس اس کے واسطے پاک صاف ہونا شرط ہے۔ جب تک گندگی انسان میں ہوتی ہے اس وقت تک شیطان اس سے محبت کرتا ہے۔
خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مد نظر رکھتے ہیں۔ اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ(الفاتحہ:2)
یعنی سب تعریف خد اکو ہی ہے جو رب ہے سارے جہان کا۔
الرَّحْمٰنِ (الفاتحہ:3)
یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والااور
الرَّحِيْمِ (الفاتحہ:3)
یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔
مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (الفاتحہ:4)
جزا سزا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے رکھے چاہے مارے۔ اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خد اہے جو کہ رب ہے۔ رحمٰن ہے۔ رحیم ہے۔ اسے غائب مانتا چلا آرہا ہے اور پھر اسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۔ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ (الفاتحہ:6،5)
یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے۔ اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کرکرکے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے
صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ:7)
یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تونے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھر
غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ
نہ ان لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا۔ اور
وَ لَا الضَّآلِّيْنَ (الفاتحہ:7)
اور نہ ان کی جو دُور جا پڑے ہیں۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ
سے کل دنیا اور دین کے کاموں کی راہ مراد ہے۔ مثلاً ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتا ہے۔ تو جب تک اسے ایک صراط مستقیم ہاتھ نہ آوے۔ علاج نہیں کرسکتا۔ اسی طرح تمام وکیلوں اور ہر پیشہ اور علم کی ایک صراط مستقیم ہے کہ جب وہ ہاتھ آجاتی ہے تو پھر کام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
اس مقام پر ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ انبیاء کو اس دعا کی کیوں ضرورت تھی وہ تو پیشتر ہی سے صراط مستقیم پر ہوتے ہیں۔
تلمیذ الرحمٰن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ
وہ یہ دعا ترقی مراتب اور درجات کے لئے کرتے ہیں بلکہ یہ
اِهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ(الفاتحہ:2)
تو آخرت میں مومن بھی مانگیں گے کیونکہ جیسے اﷲ تعالیٰ کی کوئی حد نہیں ہے اسی طرح اس کے درجات اور مراتب کی ترقی کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔[ الحکم میں یہ عبارت یوں ہے:چونکہ اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے اس کے فیضان و فضل بھی غیر منقطع ہیں۔ اس لئے وہ ان غیر محدود فضلوں کے حاصل کرنے کے لئے اس دعا کو مانگتے تھے۔ (الحکم جلد ۷ نمبر ۳ مورخہ ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲ )]
(ملفوظات جلد 4صفحہ 397۔400۔ ایڈیشن 1984ء)