کیا پھر نبی اکرمﷺ بھی آسمان پر اٹھائے گئے؟
آیت کریمہ
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (المائدة118)
کے حوالے سے ر سول کریمﷺ کے بیان کردہ معانی اورمفہوم ماننےسےنام نہاد مسلمانوں کا کھلا کھلا انکار
رسول کریمﷺ کسی آیت کا معانی اور مفہوم بیان کریں تو کیا کسی امتی میں جرأت ہے کہ اس کے خلاف آیت کا مطلب لے لے۔ رسول کریمﷺ سے بڑھ کر قرآن کریم کا علم کسی کو نہیں اور نہ آپﷺ قرآن کریم کی کسی آیت سے ایسے معانی لیں گے جو خلاف واقعہ ہوں۔ ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے۔
قرآن کریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ علیہ السلام کے بعدآپ کے ماننے والوں نے غلط عقائد بنا لیے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نےان کے غلط عقائد سے اعلان برات جن الفاظ میں کیا ان کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ
وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (المائدة 118)
’’اور جب تک میں ان کے درمیان موجودرہا میں ان کے حالات سے واقف رہا پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگران تھے اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں‘‘۔
(توضیح القرآن آسان ترجمہ القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی صفحہ نمبر 276، مکتبہ معار ف القرآن کراچی )
بعینہٖ یہی الفاظ رسول کریمﷺ نے استعمال فرمائے جب روز قیامت آپﷺ کے بعض اصحاب کو ’بائیں جانب‘ لے جایا جائے گا اور بتایا جائے گا کہ انہوں نے آپﷺ سے جدا ہوتے ہی ارتداد اختیار کر لیا تھا تو رسول کریمﷺ فرماتے ہیں کہ
فَأَقُوْلُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ(118)۔ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ (119)(سورة المائدة آيت 118-119، )
(صحیح بخاری حدیث نمبر 3447، کتاب:کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں باب:سورۃ مریم میں اللہ تعا لیٰ نے فرمایا ( اس ) کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر۔ )
’’میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام نے کہا تھا کہ ’’جب تک میں ان کے اندر موجود رہا ان کی نگرانی کرتا رہا لیکن جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان کا نگہبانی کرنے والا تھا اور تو ہر چیز پر نگہبان ہے۔ اگر تو انہیں سزا دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف فرما دے تو بلاشبہ تو ہی سب پر غالب اور کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘
(مترجم صحیح بخاری جلد سوم، از حافظ عبد الستار الحماد، مکتبہ دارالسلام صفحہ نمبر 599، 600)
رسول کریمﷺ نے آیت کریمہ
فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (المائدة 118)
کو خود استعمال فرما کر اس کے مفہوم اور معانی کی تعیین کر دی تو اس کے بعد کسی اور کی تشریح کسی صورت قابل قبول نہیں۔
غور طلب بات: (1)اٹھائے جانے کے بعد رسول کریمﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کو اپنے ماننے والوں کے حالات کا علم نہیں۔ اس کا مطلب اٹھائے جانے کے بعد دوبارہ اپنے ماننے والوں میں واپسی نہیں ہوئی۔ لیکن بعض مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسم سمیت زندہ آسمان پر موجود ہیں وہ واپس آئیں گے۔
(2)رسول کریمﷺ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اٹھایا جانا ایک طرح کا ہی تھا ورنہ رسول کریمﷺ اپنے لیے ان الفاظ کا استعمال نہ فرماتے کیونکہ بعض مسلمانوں کے نزدیک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے سے مراد زندہ جسم سمیت اٹھایا جانا ہے اور اب تک ان کا زندہ ہونا ہے۔ اگر رسول کریمﷺ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے سے زندہ جسم سمیت اٹھایا جانا سمجھتے تو کبھی اپنے لیے ان الفاظ کو استعمال نہ فرماتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی لفظ ’’اٹھایا جانا‘‘ سے ایک ہی حالات میں ایک نفس کے لیے زندہ جسم سمیت اٹھایا جانا مراد لی جائے اور دوسرے کے لیے موت کے بعد صرف روح کا اٹھایا جانا۔
(مرسلہ: عبدالکبیر قمرؔ)