تقویٰ کی حقیقت
متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریا، عُجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کرکے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ لوگوں سے مروّت، خوش خلقی، ہمدردی سے پیش آوے ۔خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔ وہی اصل متقی ہوتے ہیں (یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہوںتو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے
لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(البقرۃ: 63)
ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے۔
وَ هُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ(الاعراف: 197)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے۔ جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پائوں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اَور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے۔
نماز کی اہمیت
خدا کی رحمت کے سر چشمہ سے فائدہ اٹھانے کا اصل قاعدہ یہی ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ جیسے اس (انسان) کا قدم بڑھتا ہے ویسے ہی پھر خد اکا قدم بڑھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی خاص رحمتیں ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتیں ۔اور اسی لئے جن پر یہ ہوتی ہیں ان کے لئے وہ نشان بولی جاتی ہیں۔ (اس کی نظیر دیکھ لو) کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے کیا کیا کوششیں آپ کی ناکامیابی کے واسطے کیں مگر ایک پیش نہ گئی حتی کہ قتل کے منصوبے کئے مگر آخر ناکامیاب ہی ہوئے۔ خدا تعالیٰ یہ تجویز پیش کرتا ہے (اس خاص رحمت کے حصول کے واسطے جو اخلاق وغیرہ حاصل کئے جاویں ) ان امروں کو چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جاوے نہ کہ ہمارے سامنے۔ اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عظمت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس کے لئے نماز سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہے۔ کیونکہ روزے تو ایک سال کے بعد آتے ہیں۔ اور زکوٰۃ صاحبِ مال کو دینی پڑتی ہے ۔مگر نماز ہے کہ ہر ایک حیثیت کے آدمی کو پانچوں وقت ادا کرنی پڑتی ہے اسے ہرگز ضائع نہ کریں۔ اسے بار بار پڑھو اور اس خیال سے پڑھو کہ میں ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑا ہوں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے۔ اسی حالت میں بلکہ اسی ساعت میں بلکہ اسی سیکنڈمیں۔ کیونکہ دوسرے دنیوی حاکم تو خزانوں کے محتاج ہیں۔ اور ان کو فکر ہوتی ہے کہ خزانہ خالی نہ ہو جاوے اور ناداری کا ان کو فکر لگا رہتا ہے ۔مگر خدا تعالیٰ کا خزانہ ہر وقت بھرا بھرایا ہے۔ جب اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو صرف یقین کی حاجت ہوتی ہے ۔ اسے اس امر پر یقین ہو کہ میں ایک سمیع، علیم اور خبیر اور قادر ہستی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں اگر اسے مہر آجاوے تو ابھی دے دیوے۔ بڑی تضرع سے دعا کرے۔ ناامید اور بدظن ہرگز نہ ہووے اور اگر اسی طرح کرے تو (اس راحت کو) جلدی دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ کے اور اور فضل بھی شامل حال ہوں گے اور خود خدا بھی ملے گا تو یہ طریق ہے جس پر کاربند ہونا چاہیے ۔مگر ظالم فاسق کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے لاپروا ہے ۔ ایک بیٹا اگر باپ کی پروا نہ کرے اور ناخلف ہو تو باپ کو اس کی پروا نہیں ہوتی تو خد اکو کیوں ہو۔
دعا اور ابتلاء
ایک صاحب نے عرض کی کہ بلعم باعور کی دعا کیوں قبول ہوئی تھی؟ فرمایا:
یہ ابتلا تھا دعا نہ تھی آخر وہ مارا ہی گیا۔ دعا وہ ہوتی ہے جو خدا کے پیارے کرتے ہیں ورنہ یوں تو خدا تعالیٰ ہندوئوں کی بھی سنتا ہے اور بعض ان کی مرادیں پوری ہو جاتی ہیں ۔مگر ان کا نام ابتلا ہے دعا نہیں۔ مثلاً اگر خدا سے کوئی روٹی مانگے تو کیا نہ دے گا؟ اس کا وعدہ ہے مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا(ھود: 7)کتے بلی بھی تو اکثر پیٹ پالتے ہیں ۔کیڑوں مکوڑوں کو بھی رزق ملتا ہے مگر اصْطَفَيْنَا(فاطر:33)کا لفظ خاص موقعوں کے لئے ہے۔
(ملفوظات جلد 4صفحہ400۔402۔ ایڈیشن 1984ء)