ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں (قسط دوم۔ آخری)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
مجھے یاد ہے مَیں چھوٹا بچہ تھا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے پڑ کر اپنے لئے ہوائی بندوق منگوائی۔ مجھے شکار کا شوق تھا ایک دن ہم اَور بچوں کو اپنے ساتھ لے کر عیدگاہ کی طرف جو را ستہ جاتا ہے اُس طرف شکار کے لئے گئے اور ناتھ پور کے قریب جا پہنچے وہ سکھوں کا گاؤں ہے ہم اِردگرد شکار کے لئے کوئی فاختہ تلاش کر رہے تھے کہ ایک سکھ نوجوان دَوڑا دَوڑا آیا اور اس نے کہا یہاں کیا ہے چلو میں شکار بتاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ہمیں اپنے گھر لے گیا وہاں کیکر یا بیری کا ایک درخت تھا جس پر آٹھ دس فاختائیں بیٹھی تھیں۔ مَیں ابھی نشانہ ہی باندھ رہا تھا کہ ایک بڑھیا عورت اندر سے نکلی اور اس نے بڑے جوش سے کہا ہمارے گاؤں میں جیوہتیا ہونے لگی ہے یہ کہتے ہوئے اس نے شور ڈال دیا اور ہمیں گالیاں دینی شروع کر دیں۔ ہم نے اس کے شور پر کسی فاختہ کو نہ مارا اور ہمیں کوئی تعجب بھی نہ ہوا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ غیر مسلم ہیں انہیں شکار ضرور بُرا معلوم ہوتا ہے۔ مگر ہمیں زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا اس کی آنکھیں بھی سرخ ہوگئیں اور وہ بڑے غصہ سے کہنے لگا چلے جاؤ یہاں سے تم یہاں کہاں شکار کے لئے آئے ہو۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ یہ تو خود ہمیں شکار کے لئے لایا تھا اب یہی کہہ رہا ہے کہ چلے جاؤ یہاں آئے کیوں تھے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ غیرت متعدی چیز ہوتی ہے۔ ہم جب شکار کر رہے تھے تو اُس پر بھی اثر پڑا اور اُس نے کہا کہ شکار بہت اچھا ہوتا ہے۔ پھر جب عورت نے شور مچایا کہ جیوہتیا ہونے لگی ہے تو وہ بھی کہنے لگا کہ جیوہتیا ہم برداشت نہیں کر سکتے تو جس قسم کا اثر ڈالا جائے اسی قسم کا اثر دوسرے پر پڑ جاتا ہے۔یہی چیز ہے جو کامیابی کا باعث بنتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں آج پراپیگنڈہ کا زمانہ ہے حالانکہ جب سے آدمؑ پیدا ہوا پراپیگنڈہ ہوتا چلا آتا ہے۔ شیطان نے بھی یہی کیا تھا کہ آدمؑ سے اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسی لئے شجرہ سے منع کیا ہے کہ تم اس طرح دائمی زندگی حاصل کر لو گے۔ اس نے کوئی دلیل نہیں دی صرف ایک بات تھی جو اس نے بار بار کہی کیونکہ بار بار کہنے سے اثر ہو جاتا ہے۔
ایک شخص نے اسی حقیقت کو لطیفہ کے رنگ میں بیان کیا ہے وہ لکھتا ہے کہ ایک پادری تھا اس پر کچھ مالی تنگی کے دن آئے تووہ اپنی بکری بیچنے کے لئے اُسے بازار لے گیا۔ رستہ میں چند بدمعاشوں نے اسے دیکھا تو ان کا جی للچایا اور انہوں نے چاہا کہ کسی طرح بکری اس سے چھین لی جائے۔ ایک نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ آخر یہ پادری ہے ہم اسے مار تو سکتے نہیں پھر بکری اس سے کس طرح چھینی جائے؟ دوسرے نے کہا ترکیب مَیں بتاتا ہوں تم عمل کرنے والے بنو۔ وہ چار پانچ آدمی تھے۔ اس نے سب کو سَوسَو دو دو سَو گز کے فاصلہ پر کھڑا کر دیا اور ہر ایک کو سکھایا کہ جب پادری تمہارے پاس سے گزرے تو تم اسے کہنا کہ پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے چلے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پادری صاحب جارہے تھے کہ پہلا آدمی اُنہیں ملا۔ اُس نے کہا کیوں پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے جا رہے ہیں۔ آپ کی شایان شان تو نہیں کہ ہاتھ میں کتا پکڑے پھریں۔ پادری نے کہا کچھ ہوش کی دوا کرو یہ تو بکری ہے بیچنے کے لئے بازار لے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا ہوگی مگر مجھے تو کتا ہی نظر آتا ہے۔ خیر پادری بڑبڑاتے بڑبڑاتے آگے چلا گیا۔ سَو گز دور گیا ہوگا کہ دوسرا آدمی ملا کہنے لگا پادری صاحب! یہ کتا کہاں لے چلے ہیں وہ کہنے لگے کتا؟ یہ کتا ہے یا بکری؟ اس نے کہا آپ کی بات ماننی تو مشکل ہے مگر خیر آپ جو کہتے ہیں تو مان لیتا ہوں ورنہ ہے بالکل کتا۔ پادری صاحب پر کچھ اثر ہو گیا۔ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے اس بکری کی شکل کتے سے بہت ملتی ہے اس لئے لوگوں کو دھوکا لگ رہا ہے۔ تھوڑی دور آگے گئے تو تیسرا آدمی ملا اور کہنے لگا پادری صاحب! یہ کیا حرکت ہے کہ کتا ہاتھ میں پکڑے جارہے ہیں۔ پادری صاحب کہنے لگے کیا کروں ہے تو بکری مگر اس کی شکل کتے سے بہت ملتی ہے مَیں بھی جب دیکھتا ہوں تو کتا ہی نظر آتا ہے۔ گویا پہلے تو صرف اتنا ہی خیال تھا کہ دوسرے لوگ اسے کتا سمجھتے ہیں مگر اب فرمانے لگے کہ مجھے بھی یہ کتا ہی نظر آتا ہے وہ کہنے لگا پادری صاحب سچی بات یہ ہے کہ یہ ہے ہی کتا کسی نے آپ کی سادہ لوحی دیکھ کر دھوکا دے دیا ہے۔ کہنے لگا شاید کتا ہی ہو۔ تھوڑی دور اور آگے گئے تھے کہ چوتھا آدمی ملا اور اس نے کہا پادری صاحب! یہ کیا کتا پکڑا ہوا ہے کہنے لگا کچھ شبہ والی بات ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ یہ بکری ہے اور کبھی خیال آتا ہے کہ یہ کتاہے۔ وہ کہنے لگا آپ اِس شُبہ کو جانے دیں یہ واقعہ میں کتا ہے۔ آپ جب منڈی جائیں گے تو لوگ ہنسیں گے کہ عجیب آدمی ہے کتا بیچنے کیلئے آ گیا ہے۔ پادری صاحب گھبرا گئے انہوں نے بکری چھوڑ دی اور استغفار کرتے ہوئے گھر آگئے اور افسوس کرتے رہے کہ میری نظر اب اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ میں یہ شناخت بھی نہیں کر سکتا کہ میرے ہاتھ میں بکری ہے یا کتا۔ جب پادری صاحب واپس لوٹے تو انہوں نے بکری لے لی اور اس کو ذبح کر کے خوب کباب وغیرہ کھائے۔ یہ مثال اس بات کی ہے کہ پروپیگنڈہ سے کچھ کی کچھ شکل بدل جاتی ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر حقائق کی طرف نہیں جاتی بلکہ دُہرائی تہرائی کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر دس بیس کسی چیز کو اچھا کہہ دیں تو وہ بھی اچھا کہنے لگ جاتے ہیں اور اگر وہ بُرا کہہ دیں تو وہ بھی بُرا کہنے لگ جاتے ہیں۔ مثلاً اِس وقت اسلام کو روپیہ کی ضرورت ہے اگر شیطان کسی کو دھوکا دینا چاہے تو اس رنگ میں بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ چندہ دے دینا ہی کافی ہے اِس کی کیا ضرورت ہے کہ ہمارے بچے قرآن حفظ کریں وہ نہیں جانتے کہ چندہ مانگا جاتا ہے انسانوں پر خرچ کرنے کے لئے، جب آدمی ہی نہیں ہوں گے تو خرچ کس پر ہوگا۔ روپیہ یا سکولوں پر خرچ ہوگا یا سلسلہ کے دوسرے کاموں پر۔ گورنمنٹ والی تنخواہیں تو نہیں دی جاسکتیں مگر بہرحال کچھ نہ کچھ تنخواہیں تو دینی پڑتی ہیں جن سے وہ گزارہ کر سکیں۔ اگر سکول میں لڑکے نہ ہوں گے تو چندہ کہاں خرچ ہوگا یا اگر مبلغین نہ ہوں گے تو چندہ کہاں خرچ ہوگا یہ شیطانی وسوسہ ہے جو انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے۔ دو چار دن ہوئے میں نے اس کی مثال بھی سنائی تھی کہ ایک شخص جب نماز کی نیت کرتا تو کہتا ’’چار رکعت نماز فرض پیچھے اِس امام کے‘‘۔ پھر وسوسہ اس کے دل میں بڑھنا شروع ہوا یہاں تک کہ وہ امام کو دھکے دیتا اور کہتا کہ پیچھے اِس امام کے۔ اگر اسی طرح وساوس بڑھتے چلے جائیں تو ان کی حد بندی ہی نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ وسوسہ پیدا ہونا شروع ہو جائے گا کہ ہم مختلف مواقع پر پندرہ پندرہ، بیس بیس دن قادیان جا کر رہتے ہیں اس کی بجائے کیوں نہ تجارت کرتے رہیں اور چندہ قادیان بھیج دیں۔ ہم اگر گئے تو مفت روٹی کھا کر آ جائیں گے۔ پھر یہ وسوسہ پیدا ہوگا کہ ہم جلسہ سالانہ پر کیوں جاتے ہیں یوپی، سی پی، بنگال، بہار اور حیدر آباد وغیرہ سے لوگ آتے ہیں اور فی کس پچاس ساٹھ بلکہ سَو روپیہ آمد و رفت پر خرچ ہو جاتا ہے اور وہ بھی تھرڈ کلاس میں۔ انٹر یا سیکنڈ کلاس میں دو تین سَوروپیہ فی کس خرچ آتا ہے۔ وقت الگ صرف ہوتا ہے اگر اس کی بجائے ہم روپیہ بھیج دیں تو وقت بھی بچ جائے گا اور تکلیف بھی نہیں ہوگی اور پھر پانچ چھ سَو آدمی یوپی، بہار اور بنگال وغیرہ کا جو جلسہ پر روٹی کھاتا ہے اس کا بوجھ بھی سلسلہ پر نہیں پڑے گا۔غرض اسی طرح وساوس بڑھتے چلے جائیں گے اور نتیجہ یہ ہوگا کہ آہستہ آہستہ دین سیکھنے کی کوشش مر جائے گی اور ہمارے جلسہ کا بھی وہی حال ہوگا جو عرسوں کا ہوتا ہے جہاں تماشہ دیکھنے والے عیاش طبع لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور باقی لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔
غرض یہ بات یاد رکھو کہ وساوس انسان کو کہیں ورے نہیں رہنے دیتے بلکہ انتہائی حالت تک پہنچا دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے اشعار میں لکھا ہے کہ
بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ
پر کے اک ریشہ سے ہو جاتی ہے کوّوں کی قطار
جب بھی انسان کا قدم اصول سے ہٹتا ہے اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے۔ بعض لوگ ہمیشہ پوچھتے رہتے ہیں کہ عید کے موقع پر قربانی کرنے کی بجائے اگر وہی رقم ہی چندہ میں دے دیں تو کیا حرج ہے؟ میں اُن کو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ جس دن تم نے یہ قدم اُٹھایاتم سمجھ لو کہ تمہارا ایمان گیا۔ جو دین کا حاکم ہے اُس کا کام ہے کہ وہ حکم کی شکل بتائے تمہارا کام نہیں کہ خود بخود اپنے لئے ایک نئی شاہراہ پیدا کر لو۔ اگر ہر شخص خود بخود اپنے لئے کام تجویز کر لے تو دین کچھ کا کچھ بن جائے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے کہ وہ بتائے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھنی ہے، روزہ کس طرح رکھنا ہے، حج کس طرح کرنا ہے، زکوٰۃ کس طرح دینی ہے، پھر جو کچھ وہ بتائے گا اسی میں برکت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم قیاس سے کام لینے لگیں گے تو دین کی شکل کچھ کی کچھ بن جائے گی۔
ہمارے گھر میں چونکہ اکثر مستورات ملنے کے لئے آتی رہتی ہیں میں نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ان کی وجہ سے بعض دفعہ عجیب عجیب باتیں ظہور میں آتی ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک دن کھانے میں بے انتہا نمک تھا۔ میں سمجھتا ہوں جس قدر مقدار ہونی چاہئے تھی اُس سے دس بیس گنا زیادہ تھا۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نمک اس طرح زیادہ ہوا ہے کہ ایک عورت آئی اور اُس نے ہنڈیا پکتی دیکھی تو نمک ڈال دیا، پھر دوسری آئی تو اس نے تھوڑا سا نمک ڈال دیا، اِسی طرح اور عورتیں آئیں اور نمک ڈالتی گئیں یہاں تک کہ نمک اِس قدر زیادہ ہو گیا کہ سالن کھانے کے ہی ناقابل ہو گیا۔
پس یہ طریق بڑا ہی غلط ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی رائے اور اجتہاد سے کام لینے لگ جائے۔ جب انسان ایک قدم جادۂ صداقت سے پیچھے ہٹاتا ہے تو پھر وہ پیچھے ہی جا پڑتا ہے۔ آخر سوال یہ ہے کہ کیا سب سے مقدم کام وہ نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا؟ جب سب سے مقدم کام وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ صرف چندہ دینا ہی اصل چیز ہے وہ بدبخت دوسرے الفاظ میں یہ کہتا ہے کہ مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھا ہوں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چندہ نہیں دیا زکوٰۃ آپ نے ساری عمر نہیں دی۔ اگر چندہ دینا ہی سب سے بہتر ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ نہایت ہی ادنیٰ درجہ کی جنت میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔ کروڑ پتی تاجر جو برلا قسم کے ہوں وہ تو عرش پر اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہوں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوْذُبِاللّٰہِ نیچے بیٹھے ہونگے۔ میں تو حیران ہوں کہ ایک مسلمان، مسلمان کہلاتے ہوئے اس قدر اندھا کس طرح بن جاتا ہے کہ وہ ایسی بات کہتا ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کی ہتک ہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں بعض لوگوں سے یہ سنتا ہوں کہ سلسلہ کو روپیہ کما کر دینا زیادہ اچھا ہے بجائے اس کے کہ سلسلہ کیلئے اپنی یا اپنے کسی لڑکے کی زندگی وقف کی جائے حالانکہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اکثر نادہند ہوتے ہیں کیونکہ انبیاء کی ہتک کرنے والے کو نیکی کی توفیق کبھی نہیں ملتی۔ جو لوگ دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرتے ہیں عارضی طور پر یا مستقل طور پر، وہی لوگ ہیں جن کو چندہ دینے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ پس ان شیطانی وساوس سے بچنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ اس قسم کے وساوس کے بعد انسان کی جگہ جنت میں نہیں رہ سکتی۔ جب وہ پھسلا تو بہرحال نیچے ہی گرے گا۔ جو لوگ سیڑھیوں سے گرتے ہیں گرنے کے بعد ان کے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ رُک سکیں، اتفاقی طور پر کوئی روک آ جائے تو اور بات ہے اسی طرح جب بھی کوئی شخص صراطِ مستقیم سے گرتا ہے وہ بہت نیچے چلا جاتا ہے یہ ایسی چیز نہیں جسے انسان سرسری نظر سے دیکھنے لگے۔ یہ معمولی بات نہیں بلکہ انسان کو تَحْتَ الثَّرٰی میں گرا دینے والی بات ہے۔
صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھاویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔ انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں۔ پہلے دو چار آدمی رکھ لئے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے۔ حفاظ نہ ہونے کا یہ بھی نقصان ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو تراویح پڑھانے والے نہیں ملتے اور باہر سے بُلانے پڑتے ہیں۔ اگر یہ لوگ قاری ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے کیونکہ غیر قاری سے قرآن حفظ کرانے میں نقص رہ جاتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن ہوئے ایک بچہ میرے پاس آیا جو بہت ذہین معلوم ہوتا ہے۔ اُس کی بہن نے بتایا کہ میرے اس بھائی نے خود بخود آدھا سیپارہ گھر میں حفظ کر لیا ہے۔ میں نے کہا گھر میں اپنے طور پر حفظ نہ کرانا ورنہ تلفظ کی غلطیاں پختہ ہو جائیں گی اور پھر اُن کا دور کرنا مشکل ہوگا۔ جس نے قرآن کریم حفظ کرنا ہو اُس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی اچھے حافظ یا قاری کی نگرانی میں حفظ کرے تا کہ وہ صحیح طور پر حفظ کر سکے۔
(الفضل 7؍ اپریل 1965ء)