ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 47)
اعجازالتنزیل
فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کاکلام جو اس کے برگزیدوں ،رسولوں پر نازل ہوتا ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ عظیم الشان اعجاز اپنے اندر رکھتا ہے ۔اور کوئی شخص تنہا یا دوسروں کی مدد سے اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہوتا ۔بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی صرفِ ہمت کر دیتا ہے ۔اور اس طرح پر اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔وہ بار بار مخالفوں کو اس کی مثال لانے کی دعوت اور تحدی کرتا ہے۔ لیکن کوئی اس کے مقابلہ کے لئے نہیں اٹھ سکتا ۔ قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کامل معجزہ ہے۔ دوسری کتابوں کی نسبت ہم نہیں دیکھتے کہ ایسی تحدّی کی گئی ہو جیسی قرآن شریف نے کی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے تجربہ اور قرآن شریف کے معجزہ کی بناء پر یہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا کا کلام ہر حال میں معجزہ ہوتا ہے۔ لیکن قرآن شریف کا اعجاز جس کاملیت اور جامعیت کے ساتھ معجزہ ہے۔ دوسرے کو ہم اس جگہ پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ بہت سی وجوہ اور صورتیں اس کے معجزہ ہونے کی ہیں ۔اور کوئی شخص اس کی مثال بنانے پر قادر نہیں ۔جو لوگ کہتے ہیں کہ کلام ایسا معجزہ نہیں ہو سکتا ۔وہ بڑے ہی گستاخ اور دلیر ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے اور دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق بے مثل اور لانظیر ہے ۔پھر اس کے کلام کی نظیر کیسے ہو سکتی ہے ؟ ساری دنیا کے مدبّر اور صنّاع مل کر اگر ایک تنکا بنانا چاہیں تو بنا نہیں سکتے۔ پھر خدا کے کلام کا مقابلہ وہ کیسے کر سکتے ۔
محض کلام کے اشتراک یا الفاظ کے اشتراک سے یہ کہہ دینا کہ کوئی معجزہ نہیں، نری حماقت اور اپنی موٹی عقل کا ثبوت دینا ہے ۔کیونکہ ان اعلی مدارج اور کمالات پر ہر شخص اطلاع نہیں پا سکتا جو باریک بین نگاہ دیکھ سکتی ہے۔ میرا یہ مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص کلام لعل کی طرح چمکتی ہے۔ لیکن بایں ہمہ قرآن شریف آپ کی خالص کلام سے بالکل الگ اور ممتاز نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ۔
ہر چیز کے مراتب ہوتے ہیں ۔مثلاً کپڑا ہے ۔تو کھدر، ململ اورخاصہ لٹّھا محض کپڑا ہونے کی حیثیت سے تو کپڑا ہی ہیں۔ اور اس لحاظ سے کہ وہ سفید ہیں۔ بظاہر ایک مساوات رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ریشم بھی سفید ہوتا ہے۔ لیکن کیا ہر آدمی نہیں جانتا کہ ان سب میں جُدا جُدا مراتب ہیں اور ان میں فرق پایا جاتا ہے ۔
؎ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
پس جس طرح پر ہم سب اشیاء میں ایک امتیاز اور فرق دیکھتے ہیں ۔اسی طرح کلام میں بھی مدارج اور مراتب ہوتے ہیںجبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام جو دوسرے انسانوں کے کلام سے بالا تر اور عظمت اپنے اندر رکھتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اعجازی حدود تک پہنچتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے کلام کے برابر وہ بھی نہیں ۔تو پھر اور کوئی کلام کیونکر اس سے مقابلہ کر سکتا ہے ۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 35-36)
اس گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال فرمایا ہے ۔
گَرْحِفْظِ مَرَاتِبْ نَہْ کُنِی زَنْدِیقِیْ
ترجمہ:۔ اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو، توبے دین ہے۔
عبدالرحمان جامی جن کا پورا نام مولانا نورالدین عبد الرحما ن جامی ہے اور ایک معروف صوفی شاعر ہیں۔ یہ ان کی رباعی کا ایک مصرع ہے۔پو ر ی رباعی کچھ یوں ہے۔
اے برُدہ گمان کہ صاحب تحقیقی
وندر صفت صدق ویقین صدیقی
اے وہ جو اپنے آپ کو دانشمند و عالم سمجھتے ہواور درستی اور یقین کی صفت میں سچا
ھر مرتبہ از وجود حکمی دارد
گر حفظ مراتب نکنی زندیقی
ہر مرتبہ کا احترام بجا لانے کا حکم ہے۔اگر تو لوگوں کے مرتبہ کا خیال نہیں رکھتا تو ،توبے دین ہے ۔
٭…٭…٭