متفرق مضامین

حکومتِ وقت کی اطاعت اور خیر خواہی (قسط اوّل)

(ابو حمدانؔ)

گلوبلائزیشن کے دور میں حضرت مسیح موعودؑ کا پیش فرمودہ زریں اصول

قارئین ! برصغیر پاک وہند کی تاریخ ہمہ قسم کے نشیب و فراز سے گزری ہے۔ اس خطہ ارضی پر نگاہ ڈالیں تویہاں کبھی منگول اور افغان حکمران نظر آئیں گے اور کہیں عربوں ، ترکوں کی دلچسپی کی کہانیاں ملیں گی۔ یہاں تک کہ یونانی فاتح سکندراعظم سرزمین ہندوستان کو فتح کرنے کی خواہش میں مبتلا نظر آتا ہے۔

جب برصغیر پر مسلمانوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی اور سلاطین دہلی کی طاقت کمزور ہوئی توسکھوں نے 1780ءسے1839ء تک اس علاقے میں بالخصوص پنجابمیں اپنا راج قائم کیا۔ اس دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نامی سکھ حکمران خصوصی شہرت کے حامل رہے ہیں۔ سکھوں کے اس عہد کے علاوہ ہندوستان کے بیشتر علاقوں پر برطانوی راج1947ء تک قائم رہا۔ برطانوی تاجر سترھویں صدی میں تجارت کے بہانے برصغیر میں داخل ہوئے اور پھر اس علاقہ میں ان کا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا۔ ملکہ برطانیہ نے انگریز تاجروں کو شرق الہند میں تجارت کا خصوصی اجازت نامہ دیا۔ یہ نجی تاجروں کی ایک غیر اہم سی تنظیم تھی۔ تقریباً بارہ سال تک اسی حیثیت میں کام کرنے کے بعد یہ جوائنٹ اسٹاک کمپنی میں بدل گئی۔ اور اس کا نام ایسٹ انڈیا کمپنی رکھا گیا۔

(انسائکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 12صفحہ 143مطبوعہ1979ء لندن)

برطانوی عہد حکومت میں رعایا کے حالات کا جائزہ لینے سے پیشتر، سکھوں کے عہدِ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس عہد میں مسلمانوں کے حالات کی ایک جھلک مولوی جعفر تھانیسری نے حضرت سید احمد بریلوی شہیدؒ کی سیرت پر مشتمل کتاب ’’سوانح احمدی‘‘میں یوں بیان کی ہے:

’’جن ایّام میں سیدؒ صاحب رونق افروز تھے کئی ولائتی افغان رامپور میں آئے۔ اور انہوں نے ایک بڑا درد انگیز قصہ سید صاحب کے روبرو اس طرح بیان کیا کہ ہم اپنے اثناء راہ ملک پنجاب میں ایک کنویں پر پانی پینے کو گئے تھے ہم نے دیکھا کہ چند سکھنیاں یعنی سکھوں کی عورتیں اس کنویں پر پانی بھر رہی ہیں۔ ہم لوگ دیسی زبان نہیں جانتے تھے ہم نے اپنے مونہوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو اشاروں سے بتلایا کہ ہم پیاسے ہیں ہم کو پانی پلاؤ۔ تب ان عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر پشتو زبان میں ہم سے کہا کہ ہم مسلمان افغان زادیاں فلانے ملک اور بستی کے رہنے والی ہیں۔ یہ سکھ لوگ ہم کو زبردستی پکڑلائے اور سکھنیاں بنا کر اپنی جورویں کر لیا ہے۔ یہ سُن کر ہم کو بہت رنج ہوا کہ مسلمان عورتیں جبراً اس طرح سے کافر بنائی جاویں۔ اے سید صاحب آپ ولی اللہ ہو کچھ ایسا فکر کرو کہ ان کو ان کے اس کفر سے نجات ملے۔ تب سید صاحب نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں عنقریب سکھوں سے جہاد کروں گا۔‘‘

(سوانح احمدی از محمد جعفر تھانیسری صفحہ24)

بہرحال تقریبا ًنصف صدی تک قائم رہنے والی سکھوں کی ظالمانہ حکومت پنجاب کے مسلمانوں کے لیے خاص طور پر انتہائی کٹھن اور ظالم ثابت ہوئی۔ جس نے ہر لحاظ سے انہیں تباہ و برباد کردیا۔ نتیجةً مسلمان سیاسی، سماجی، اقتصادی اورتعلیمی غرض ہر لحاظ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ سکھوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب پنجاب پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو اس علاقے کے مسلمانوں کو امن و سکون کا سانس لینا نصیب ہوا اور انہیں سکھوں کے ہولناک اور انسانیت سوز مظالم سے نجات ملی۔

(تاریخ نظریہ پاکستا ن از پیام شاہجہان پوری)

چنانچہ برطانوی راج کی آمد مسلمانوں کےلیے ایک نوید ثابت ہوئی اور ہر قسم کی آزادی اور امن کی راہیں ہموار ہونا شروع ہوگئیں۔ اسی آزادی اور امن کی فراہمی کی بابت ہندوستان بھر کے علماء اور مشائخ نے انگریز حکومت کا بے حد شکر ادا کیا اور ان سے وفاداری اور اطاعت کا بھرپور اظہار بھی کیا۔ اور حکومت ہند کے عدل وانصاف پر بے شمار حاشیے چڑھائے گئے۔ ان میں سرسید احمد خان، ابولکلام آزاد، محمد حسین بٹالوی، علامہ شبلی نعمانی، نذیر حسین دہلوی، علامہ اقبال، ابوالاعلیٰ مودودی وغیرہ کے علاوہ بیسیوں اور نام بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے حکومت انگلیشیہ کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کا بارہا اظہار کیا اور اپنے مقلدین کو اس کی تلقین بھی کی۔

اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کے درجنوں نامی گرامی اخبارات ورسائل بھی حکومت برطانیہ کے خیر خواہ اور طرف داری کرتے نظر آئے۔ کہیں ماتمی جلوسوں کا احوال ملتا ہے تو کہیں کوئی تعزیت نامہ۔ کہیں ملکہ ہند کی وفات پر بڑے بڑے شعری مجموعات و مرثیےنظر آتے ہیں تو کہیں لمبے لمبے ایڈیٹوریلز۔ ان اخبارات میں ندوة العلماء کا رسالہ ’الندوہ ‘، راولپنڈی کا اخبار ’چودہویں صدی‘، جہلم سے نکلنے والا’سراج الاخبار‘، لاہور کا اخبار وطن کے علاوہ اور بہتیرے شامل ہیں۔ ان سب کا ذکر آگے چل کر بیان کیا جائے گا۔

سردست ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی جانب سے حکومت ہند اور ملکہ برطانیہ کی شان میں لکھی گئی تحریرات وغیرہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کی نوعیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ کے حکومت برطانیہ کےلیے خیر خواہی اور اطاعت کے جذبات

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنین کو

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ(النساء:60)

کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول کی اطاعت کے بعد حکومت کی اطاعت کی تلقین کرتا ہے۔ اسی مفہوم کی بابت نبی کریمﷺ نے بھی فرمایا کہ حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ یعنی وطن سے محبت کرنا ایمان کا جزو ہے۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے بھی انہیں تعلیمات کی بنا پر حکومت برطانیہ کی خیر خواہانہ اور پر امن طریق کی تعریف کی اور سنت نبویﷺ کی روشنی میں مَن لم یشکر الناس لم یشکر اللّٰہکے تحت شکرگزاری کے جذبات کا اظہار کیا۔ البتہ یہ اظہار، یہ جذبۂ حب الوطنی اوریہ تعریف آپؑ کے اپنے مقصد (یعنی کسر صلیب) میں نہ تو حارج ہوسکی اور نہ ہی آپ نے اس کی ذرا بھر بھی پرواکی۔ چنانچہ آپؑ کی پوری زندگی اس بات کا واشگاف ثبوت ہے کہ ہندوستان بھر میں کوئی اَور عالم اس طرح جرأت اور بہادری کے ساتھ اسلام کے دفاع میں عیسائیت کی بنیادیں نہیں ہلا سکا جس طرح اس جری اللہ نے خداتعالیٰ کی تائیدات اور نصرتوں کے سائے تلے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔

الغرض آپ علیہ الصلوٰة والسلام نے اگر حکومت کی تعریف کی، حکومت کی اطاعت کی یقین دہانی دلائی اور حکومت سے وفا کا اشارہ کیا تو وہ محض ان امور کے باعث تھا کہ

٭…حکومت برطانیہ کے دَور میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوئی تھی۔

٭…حکومت برطانیہ اپنی رعایا کے تمام بنیادی حقوق مہیا کر رہی تھی۔

٭…حکومت برطانیہ اپنی رعایا کو بلا تمیز عدل وانصاف فراہم کررہی تھی۔

٭…حکومت برطانیہ نے ہر مکتبہ فکر و مذہب کے پیروؤں کو اپنے مذاہب کے پرچار کی اجازت دے رکھی تھی۔

چنانچہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ کی ایسی تمام تحریرات جن میں حکومت برطانیہ سے وفاداری اور اطاعت کا اظہار ہے، ان میں دراصل ایک انتہائی مخلص باوفا محب وطن مسلمان کی جھلک دکھائی دیتی ہے جس کا مقصد اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں حقیقی اسلام کا دفاع اور تشہیر کرنا تھا۔ اور جس کی ساری زندگی اس بات پر شاہد ہے۔ آئیے حضور علیہ السلام کی ایسی چند تحریرات کی جھلک دیکھتے ہیں۔

حکومت برطانیہ کے دَور میں امن اور مذہبی آزادی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت برطانیہ کے مذہبی آزادی دینے کے اقدام کو سراہتے ہوئے اور اسلامی شعار کے استعمال کی آزادی ملنے پر ایک مومن کی دلی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’سکھوں کے زمانہ کو دیکھو کہ کوئی اذان بھی دیتا تھا تو وہ قتل کر دیتے تھے۔ مگر اس سلطنت میں تو خدا کے فضل سے ہر طرح سے مذہبی آزادی ہے اور اس کا ہونا ہمارے لیے بڑی بڑی برکتوں کا موجب ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ392، ایڈیشن1988ء)

’’اس گورنمنٹ انگریزی کے ماتحت کس قدر مسلمانوں کو آرام ہے کیا کوئی اس کو گِن سکتا ہے۔ ابھی بہتیرے ایسے لوگ زندہ ہوں گے جنہوں نے کسی قدر سکھوں کا زمانہ دیکھا ہوگا۔ اب وہی بتائیں کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں اور اسلام کا کیا حال تھا۔ ایک ضروری شعار اسلام کا جو بانگ نماز ہے وہی ایک جرم کی صورت میں سمجھا گیا تھا۔ کیا مجال تھی کہ کوئی اونچی آواز سے بانگ کہتا اور پھر سکھوں کے برچھوں اور نیزوں سے بچ رہتا۔ تو اب کیا خدا نے یہ بُرا کام کیا جو سکھوں کی بے جا دست اندازیوں سے مسلمانوں کو چھڑایا اور گورنمنٹ انگریزی کی امن بخش حکومت میں داخل کیا اور اس گورنمنٹ کے آتے ہی گویا نئے سرے پنجاب کے مسلمان مشرف باسلام ہوئے۔ ‘‘

مزید فرمایا:’’اس گورنمنٹ نے پنجاب میں داخل ہوتے ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب میں پوری آزادی دی۔ اب وہ زمانہ نہیں ہے جو دھیمی آواز سے بھی بانگ نماز دے کر مارکھاویں بلکہ اب بلند میناروں پر چڑھ کر بانگیں دو اور اپنی مسجدوں میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھو کوئی مانع نہیں۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 24)

اسی طرح امن اور پرسکون ماحول کی فراہمی پر آپؑ نے ایک موقع پر فرمایا کہ

’’گورنمنٹ انگریزی کا زمانہ آیا۔ یہ زمانہ نہایت پُرامن ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم خالصہ قوم کی عملداری کے دنوں کو امن عامہ اور آسائش کے لحاظ سے انگریزی عملداری کی راتوں سے بھی برابر قرار دیں تو یہ بھی ایک ظلم اور خلاف واقعہ ہوگا۔ ‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 24)

پھر ایک اور موقع پر فرمایا کہ

’’گورنمنٹ انگلشیہ سے ملک میں امن ہوا ‘‘

(روئداد جلسہ دعا، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 616)

مذہبی آزادی سے متعلق آپ علیہ السلام نے فرمایاکہ

’’ایک اور قابل ذکر امر اگر میں اس کا بیان نہ کروں تو ناشکری ہوگی۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایسی سلطنت اور حکومت میں پیداکیا ہے جوہر طر ح سے امن دیتی ہے اور جس نے ہم کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے پوری آزادی دی ہے۔ ‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 544، ایڈیشن1988ء)

الغرض حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے حکومت برطانیہ کی تعریف کی تو محض اس بنا پر کہ مسلمانوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا، اپنی عبادات کی بجاآوری میں حائل روکیں ختم ہوگئیں اور مکمل آزادی کے ساتھ شعائر اسلام کی ادائیگی ممکن ہوسکی۔

حکومت برطانیہ رعایا کو بلا تمیز عدل وانصاف فراہم کررہی تھی

اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت برطانیہ کے منصف مزاج ہونے اور بلا تفریق عدل و انصاف کی فراہمی کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ اس امر کا آپؑ نے مختلف تحریرات میں یوں اظہار فرمایا:

’’یہ محسن گورنمنٹ ہرایک طبقہ اوردرجہ کے انسانوں کی بلکہ غریب سے غریب اور عاجز سے عاجز خدا کے بندوں کی ہمدردی کر رہی ہے یہاں تک کہ اس ملک کے پرندوں اورچرندوں اور بے زبان مویشیوں کے بچاؤکے لئے بھی اس کے عدل گستر قوانین موجود ہیں اور ہر ایک قوم اور فرقہ کو مساوی آنکھ سے دیکھ کر اُن کی حق رسی میں مشغول ہے۔ ‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 487 ضمیمہ نمبر 3)

ایک اور موقع پر فرمایا:

’’پنجاب کے مسلمان برابر ساٹھ سال سے اس بات کا تجربہ کر رہے ہیں کہ اس گورنمنٹ عالیہ کے اصول نہایت درجہ کے انصاف پر اور عدل گستری پر مبنی ہیں۔ ‘‘

(البلاغ۔ فریاد درد، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 431)

حکومت برطانیہ اپنی رعایا کے تمام بنیادی حقوق مہیا کر رہی تھی

حکومت برطانیہ نے اپنی تمام رعایا کو جو مراعات اور سہولیات فراہم کی ہوئی تھیں ، ان کی بابت تذکرہ کرتے ہوئے نیز حکومت کی حسن انتظامی کے ذکر میں آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’اِس ملک کے عموماً تمام رہنے والوں کو بوجہ اُن آراموں کے جو حضور قیصرہ ہند کے عدل عام اور رعایا پروری اور دادگستری سے حاصل ہو رہے ہیں اور بوجہ اُن تدابیر امن عامہ اور تجاویز آسائش جمیع طبقات رعایا کے جو کروڑہا روپیہ کے خرچ اور بے انتہا فیاضی سے ظہور میں آئی ہیں۔ ‘‘

(ستارہ قیصرہ، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 111)

ایک اور موقع پر بنیادی ضروریات کی فراہمی پر فرمایا:

’’گورنمنٹ کے طفیل سے ہم کو صحت جسمانی کے بحال رکھنے کے لئے کس قدر سامان ملے ہیں ہر بڑے شہر اور قصبہ میں کوئی نہ کوئی ہسپتال ضرور ہے جہاں مریضوں کا علاج نہایت دلسوزی اور ہمدردی سے کیا جاتا ہے اور دوا اور غذا وغیرہ مُفت دی جاتی ہیں بعض بیماروں کو ہسپتال میں رکھ کر ایسے طور پر اُن کی نگہداشت اور غور و پرداخت کی جاتی ہے کہ کوئی اپنے گھر میں بھی ایسی آسانی اور سہولت اور آرام کے ساتھ علاج نہیں کراسکتا۔ حفظان صحت کا ایک الگ محکمہ بنا رکھا ہے جس پر کروڑہا روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے قصبات اور شہروں کی صفائی کے بڑے بڑے سامان بہم پہنچائے ہیں گندے پانی اور مواد ردّیہ مُضرصحت کے دفع کرنے کے لئے الگ انتظام ہیں۔ پھر ہر قسم کی سریع الاثر ادویہ طیار کرکے بہت کم قیمت پر مہیا کی جاتی ہیں یہاں تک کہ ہر ایک آدمی چند دوائیں اپنے گھر میں رکھ کر بوقت ضرورت علاج کرسکتا ہے۔ بڑے بڑے میڈیکل کالج جاری کرکے طبّی تعلیم کو کثرت سے پھیلایا گیا ہے یہاں تک کہ دیہات میں بھی ڈاکٹر ملتے ہیں۔ بعض خطرناک امراض مثلاً چیچک۔ ہیضہ۔ طاعون وغیرہ کے دفعیہ کے لئے حال ہی میں طاعون کے متعلق جس قدر کارروائی گورنمنٹ کی طرف سے عمل میں آئی ہے۔ وہ بہت ہی کچھ شکرگذاری کے قابل ہے۔ ‘‘

(روئداد جلسہ دعا، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 613-614)

الغرض حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک باوفا مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انگریز حکومت کی فراہم کردہ آسانیوں اور مذہبی آزادی پر اظہار تشکر کیا اور برملا اظہار کیا،کسی خوف سے حق گوئی سے ہرگز چپ نہ رہے۔ اور ایسا ہوتا بھی کیوں نہ۔ آپؑ تو قرآنی حکم هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ پر سب سے بڑھ کر عمل کرنے والے تھے۔ چنانچہ آپؑ اپنی تحریرات میں حکومت برطانیہ کے احسانات اور پُرامن اقدامات کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں :

’’ہم نے اس گورنمنٹ کے وہ احسانات دیکھے جن کا شکرکرنا کوئی سہل بات نہیں اس لئے ہم اپنی معزّز گورنمنٹ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اِس گورنمنٹ کے اسی طرح مخلص اورخیر خواہ ہیں جس طرح کہ ہمارے بزرگ تھے۔ ہمارے ہاتھ میں بجُز دعا کے اور کیا ہے۔ سو ہم دُعا کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ اِس گورنمنٹ کو ہر یک شر سے محفوظ رکھے اور اس کے دشمن کو ذلت کے ساتھ پسپا کرے۔ ‘‘

(شہادة القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 380)

پھر فرمایا:’’ہم نہایت ہی ناسپاس اور منکر نعمت ٹھہریں گے اگر ہم سچے دل سے اس محسن گورنمنٹ کا شکر نہ کریں جس کے بابرکت وجود سے ہمیں دعوت اور تبلیغ اسلام کا وہ موقعہ ملا جو ہم سے پہلے کسی بادشاہ کو بھی نہ مل سکا۔ ‘‘

(معیار المذاہب، روحانی خزائن جلد 9صفحہ460)

اسی طرح ایک اور جگہ آپؑ نے فرمایا:

’’میں اس کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک ایسی گورنمنٹ کے سایۂ رحمت کے نیچے جگہ دی جس کے زیر سایہ میں بڑی آزادی سے اپنا کام نصیحت اور وعظ کا ادا کر رہا ہوں۔ اگرچہ اس محسن گورنمنٹ کا ہر ایک پر رعایا میں سے شکر واجب ہے مگر میں خیال کرتا ہوں کہ مجھ پر سب سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہ میرے اعلیٰ مقاصد جو جناب قیصرہ ہند کی حکومت کے سایہ کے نیچے انجام پذیر ہو رہے ہیں ہرگز ممکن نہ تھا کہ وہ کسی اور گورنمنٹ کے زیر سایہ انجام پذیر ہو سکتے۔ اگرچہ وہ کوئی اسلامی گورنمنٹ ہی ہوتی۔ ‘‘

( تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 283تا284)

حکومت برطانیہ نے اول روز سے ہی اپنی رعایا اور ماتحت اقوام کی بہبود اور مذہبی آزادی کے لیے کوشش شروع کردی تھی۔ چنانچہ برطانوی راج کے قیام کے فوراً بعد ہی یکم نومبر 1858ء کو وائسرائے ہندنے الٰہ آباد میں دربار لگایا اور ملکہ برطانیہ کی طرف سے اعلان کیا جس میں برطانوی حکومت کی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا گیا کہ

’’کوئی شخص اپنی ذات، نسل، مذہب یا رنگ کی وجہ سے سرکاری عہدوں سے محروم نہ کیا جائے گا بشرطیکہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت اور دیانت کے لحاظ سے اس کی اہلیت رکھتا ہو۔ حکومت کسی کے عقائد میں بھی دخل اندازی نہ کرے گی۔ ‘‘

(http://urdu.marghdeen.com/aazadi02/)

ملکہ وکٹوریہ کی وفات اورپھر ہونے والی رسم تاجپوشی کے موقع پر ہز میجسٹی نے بھی حقوق و ذمہ داریوں کا ذکر کیا۔

(اخبار غمخوار ہند 3؍جنوری 1903ء)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button